مہوش علی
لائبریرین
آج طالبان کے ایک حامی کو پوسٹ پڑھنے کو ملی کہ جس کے بعد مجھے رؤف کلاسرہ کا وہ آرٹیکل یاد آیا جس کا عنوان تھا 'میرے لیے بولنے والا کوئی نہ بچا تھا
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
آج ایک خبر آئی ہے کہ سوات کے طالبان اب امن معاہدے کے بعد پھر سے تازہ دم ہو کر اتنے منظم ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اب آس پاس کے علاقوںپر حملہ آور ہو کر مزید علاقے فتح کرنا چاہتے ہیں۔
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
پاک ڈیفنس کے ایک ممبر ہیں جنہوںنے ہمیشہ طالبان کے معاملے میں میری کھل کر مخالفت کی۔۔ میں جب پاڑہ چنار میں ہونے والے مظالم بیان کرتی تھی تو یہ مجھ پر کیسے کیسے الزامات لگاتے تھے اور کیسے ہزارہ اور ایران کو بیچ میں لا کر مجھ پر برسا کرتے تھے اور کیسے طالبان کو صحیح ثابت کیا کرتے تھے۔
آج میںنے اوپر والی خبر آنے کے بعد ان کی اس پر ایک پوسٹ پڑھی جس میں یہی صاحب اس بونیز والی خبر کے بعد پریشان ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان فوج کو اب طالبان کو نکیل ڈال دینی چاہیے کیونکہ بونیز کے سر ہونے کے بعد اگلا علاقہ ان ہی کا ہے۔
ان کی پوسٹکا لنک
مجھے سمجھ نہیںآ رہی ہے کہ ان پر غصہ ہوں، اور کیا انہیں یاد دلاؤں کہ پاڑہ چنار میں ہونے والے مظالم پر یہ کیسے طالبان کا دفاع کر رہے تھے اور انہیںدکھاؤںکہ جو گڑھا یہ دوسروں کے لیے کھود رہے تھے آج یہ خود اس میں گرنے والے ہیں۔
یاپھر ان پر ترس کھاؤںاور انہیں مسلمان بھائی سمجھتے ہوئے اس مشکل وقت میںانکو معاف کروں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کروں۔
مجھے نہیںلگتا کہ میں اتنی سنگدل ہوں کہ کسی ہمدردی کے مستحق پر غصہ کروں اور میرا اللہ انصآف کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس وقت میرے کانوں میں رؤف کلاسرہ کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں
"In the end, we will remember not the words of our enemies, but the silence of our friends".
- Dr Martin Luther King, Jr.
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
آج ایک خبر آئی ہے کہ سوات کے طالبان اب امن معاہدے کے بعد پھر سے تازہ دم ہو کر اتنے منظم ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اب آس پاس کے علاقوںپر حملہ آور ہو کر مزید علاقے فتح کرنا چاہتے ہیں۔
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
پاک ڈیفنس کے ایک ممبر ہیں جنہوںنے ہمیشہ طالبان کے معاملے میں میری کھل کر مخالفت کی۔۔ میں جب پاڑہ چنار میں ہونے والے مظالم بیان کرتی تھی تو یہ مجھ پر کیسے کیسے الزامات لگاتے تھے اور کیسے ہزارہ اور ایران کو بیچ میں لا کر مجھ پر برسا کرتے تھے اور کیسے طالبان کو صحیح ثابت کیا کرتے تھے۔
آج میںنے اوپر والی خبر آنے کے بعد ان کی اس پر ایک پوسٹ پڑھی جس میں یہی صاحب اس بونیز والی خبر کے بعد پریشان ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان فوج کو اب طالبان کو نکیل ڈال دینی چاہیے کیونکہ بونیز کے سر ہونے کے بعد اگلا علاقہ ان ہی کا ہے۔
ان کی پوسٹکا لنک
Its high time that the Pakistan Govt starts to collaborate with tribals in Dir and Buner to stop the TTP advance. Dir is strategically important for the TTP as its a link between Swat and FATA. Buner is also strategically important as its a gateway southwards towards Islamabad. Fortunately tribals in both Dir and Buner have been resisting the TTP for quite some time now.
If TTP take over Buner, then my hometown is next.
مجھے سمجھ نہیںآ رہی ہے کہ ان پر غصہ ہوں، اور کیا انہیں یاد دلاؤں کہ پاڑہ چنار میں ہونے والے مظالم پر یہ کیسے طالبان کا دفاع کر رہے تھے اور انہیںدکھاؤںکہ جو گڑھا یہ دوسروں کے لیے کھود رہے تھے آج یہ خود اس میں گرنے والے ہیں۔
یاپھر ان پر ترس کھاؤںاور انہیں مسلمان بھائی سمجھتے ہوئے اس مشکل وقت میںانکو معاف کروں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کروں۔
مجھے نہیںلگتا کہ میں اتنی سنگدل ہوں کہ کسی ہمدردی کے مستحق پر غصہ کروں اور میرا اللہ انصآف کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس وقت میرے کانوں میں رؤف کلاسرہ کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں
ٹی وی چینلز پر چلنے والی ویڈیو میں سوات کے ایک گاؤں میں بھرے مجمع کے سامنے اپنی پشت پر کوڑے کھاتی اسلام کے چار بہادر محافظوں کے شکنجے میں جکڑی زخمی کبوتر کی طرح پھڑپھڑاتی اس لڑکی کی چیخیں سن کر مجھے اس شخص کی ایک بڑی مشہور نظم یاد آ رہی تھی جو اس نے جنگ عظیم دوم میں لکھی تھی کہ کیسے ایک دن نازی فوجی آئے اور میرے ساتھ والے ہمسائے کو اٹھا کر لے گئے۔ میں چپ رہا۔ کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ میری باری کبھی نہیں آئے گی۔ اگلے دن وہ ایک اور ہمسائے کو اٹھا کر لے گئے تو بھی میں چپ رہا۔ ایک دن وہ سارے یہودیوں کو اٹھا کر لے گئے تو بھی میں چپ رہا۔ ایک صبح وہ مجھے اٹھانے آئے تو میں نے خوف کے مارے ادھر ادھر دیکھا تو میرے لیے بولنے والا کوئی نہیں بچا تھا!
"In the end, we will remember not the words of our enemies, but the silence of our friends".
- Dr Martin Luther King, Jr.