طالبان کا کیا قصور ؟

نگار ف

محفلین
طالبان کا کیا قصور ؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 9 ستمبر 2012 , 00:12 GMT 05:12 PST
لگ بھگ تین ہفتے قبل بی بی سی اردو نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشتگردی سے متاثر تعلیمی اداروں کے بارے میں خصوصی رپورٹ شائع کی تھی۔اس کے مطابق گذشتہ پانچ برس کے دوران تقریباً پانچ سو سکول تباہ ہوئے اور دہشتگردی و شدت پسندی کی لہر کے سبب پانچ لاکھ قبائلی بچے سکول جانے سے قاصر ہیں۔
یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد میں نے پاکستان کے تعلیمی شعبے کے بارے میں بہت سا مواد چھانا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ طالبان اگلے سو برس میں بھی تعلیم اور تعلیمی اداروں کو اس طرح تباہ نہیں کرسکتے جیسی تباہی نام نہاد تعلیم سازوں اور نوازوں نے مل کے اب تک مچائی ہے۔
یہ تباہی دیکھنے کے لئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔اپنے ہی گھر میں موجود کسی بھی بچے کا سرکاری نصاب اٹھا لیں ۔آپ خود سے پوچھیں گے کہ یہ نصاب ایک بیدار مغز پاکستانی شہری پیدا کرنے کے لئے ہے یا ایک ہی ملک میں مسلمان اور غیر مسلم شہری بنانے کا منافرتی کارخانہ ہے ؟ یہ نصاب علمیت بڑھاتا ہے یا احساسِ کمتری و برتری پروان چڑھاتا ہے ؟منطقی سوالات و مباحث اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا رٹو طوطے پیدا کرتا ہے ؟
جو اجرتی ماہرین سرکاری نصاب لکھنے اور مرتب کرنے پے مامور ہیں۔ ان میں سے کتنے ماہرین کوئی معروف یا جیئد نام ہیں ؟ کیا ان کی اپنی کوئی کتاب، مضمون یا تجزیہ کبھی آپ کی نگاہ سے گذرا ؟ مگر یہ بے چہرہ سائے ہر سال لاکھوں بچوں کی علمی ، تجزیاتی و نفسیاتی شکلیں مسخ کرتے ہیں اور گلا کاٹ مقابلے کی منڈی میں مسترد شدہ مال کی شکل میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہی تو وہ ماہرین ہیں جو ہر حکومت کی آنکھ کا تارہ ہیں کیونکہ یہ اپنے کام کے ماہر ہیں۔
پھر بھی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی اکا دکا طالبِ علم اس خوفزدہ کٹھ پتلی نظامِ تعلیم کو جل دے کر کامیاب و سرخرو نہ نکل آئے۔چنانچہ اس کے تدارک کے لئے ’ جیسی صورت ، ویسی فیس ، ویسی سہولت ‘ فارمولے کے تحت طبقاتی برہمنوں، کتھریوں ، ویشوں اور شودروں کے لئے الگ الگ نظامِ تعلیم و اداروں کا سرکاری و نجی شعبے میں دوامی بندوبست کیا گیا ہے۔ یوں حکومتوں نے پانچ تا سولہ برس کے ہر بچے کے لئے لازمی ، معیاری اور مفت تعلیم کی آئینی ذمہ داری سے بہت خوبصورتی سے جان چھڑا لی ہے۔
اب یہ کوئی خبر نہیں کہ پاکستانی قسمت کے فیصلہ سازوں میں کس کی ڈگری جعلی یا اصلی ہے ؟ کون سے امتحانی مراکز میں کھل کے نقل ہو رہی ہے ؟ زید کے رول نمبر پر بکر کیوں امتحان میں بیٹھا ہے ؟ کونسا امتحانی پرچہ امتحان سے ایک دن پہلے کتنے ہزار روپے میں بک رہا ہے ؟ کس معزز کے بچے یا بچی کی مارکس شیٹ میں ناکامی کامیابی سے بدل دی گئی ہے۔ کس نے جوتیاں چٹخا کے تحقیقی مقالہ لکھا اور کس نے کٹ پیسٹ کا ڈاکہ ڈال کے پی ایچ ڈی اڑا لی۔
پھر بھی مگرمچھ روتے ہیں کہ بیورو کریسی کے لئے مقابلے کے امتحان میں ہر تیسرا امیدوار یہ لکھتے ہوئے کیوں کنفیوز ہوجاتا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے نام کیا ہیں ؟ نظریہِ اضافت آئن سٹائن نے پیش کیا کہ نیوٹن نے ؟ محمد علی جناح اور قائدِ اعظم کون تھے ؟
بچوں کے حالات سے متعلق ایک سرکردہ ادارے سپارک کے مطابق اس وقت پاکستان ناخواندہ بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یعنی ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے سکول سے باہر ہیں۔ اور تیس ہزار ایسے سکول ہیں جن کا وجود صرف فائلوں میں ہے لیکن ان سکولوں کے عملے کو تنخواہ برابر پہنچ رہی ہے۔
اور جو سکول زمین پر قائم ہیں اور ان میں سے بھی جو اوطاق ، بیٹھک ، مہمان خانہ ، جانوروں کا باڑہ یا جوئے اور نشے بازوں کا مرکز بننے سے بال بال بچے ہوئے ہیں۔ان دور دراز سکولوں میں بھی بہت سے اساتذہ ایسے ہیں جو شہر چھوڑنا پسند نہیں کرتے ۔چانچہ انہوں نے حجت تمام کرنے کے لئے چند پیسوں پر اسسٹنٹ رکھ لئے ہیں جو غائب اساتذہ کی حاضری بھی لگاتے ہیں اور بچوں کو پڑھانے کی اداکاری بھی کرتے ہیں۔ جو سیاسی و سماجی کارکن کسی وڈیرے ، رکنِ اسمبلی یا کونسلر کے سر پر محض ایک بوجھ ہے اسے ہلکا کرنے اور احسان تلے رکھنے کے لئے ماسٹر بھرتی کروا دیا جاتا ہے۔ بہت سے سرکاری ملازم شہر میں کلرک وغیرہ ہیں مگر کسی مضافاتی سکول کے ریکارڈ میں ٹیچر کی تنخواہ بھی لے رہے ہیں۔یہ اس ملک کا حال ہے جہاں تعلیم کا سرکاری بجٹ ویسے بھی کل قومی آمدنی کے ڈھائی فیصد سے بھی کم ہی رہتا ہے۔
ایسے میں طالبان نے پانچ برس میں پانچ سات سو سکول اڑا دیئے تو کونسی قیامت آگئی۔ آخر وہ بھی تو اسی تعلیمی شجر کا ثمر ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
560275_376803855725631_348401581_n.jpg
 

arifkarim

معطل
طالبان کا قصور صرف اتنا سا ہے کہ وہ مادی طور پر اسکول اڑاتے ہیں جبکہ ہمارا سیاسی نظام ذہنی طور پر ۔
 

یوسف-2

محفلین
طالبان کے نام پر اس قسم کے سارے ” فریضے“ امریکن سی آئی اے، بھارتی راء اور ”دیگر ممالک“ کے ایجنٹس سر انجام دے رہے ہیں تاکہ نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کی آگ سرد نہ پڑے۔ ”لطیفہ“ یہ ہے کہ پاکستانی علاقے کی حدود میں اس قسم کی کاروائی ہوتی ہے اور اس کی خبر سب سے پہلے ”غیر ملکی نیوز ایجنسیز“ جاری کرتی ہیں، جسے پاکستانی میڈیا محض فارورڈ کرکے نشر کردیتا ہے۔ ”طالبان کا اعتراف جرم“ بھی انہی غیر ملکی (اسلام اور پاکستان دشمن) نیوز ایجنسیز سے جاری ہوتا ہے۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے ”القاعدہ اور طالبان کے ٹاپ لیڈرز“ کی ہلاکت کی خبر“ بھی سات سمندر پار کی ایجنسیز سے آتی ہے۔ کیا پاکستانی میڈیا اتنا ہی لنگڑا لولا ہے کہ یہ اپنے ہی ملک کے ”وقوعے“ کی رپورٹنگ کے لئے بیرونی سہاروں کا محتاج ہے اور وہ بھی آئی ٹی کے اس دور جدید میں؟؟؟ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے :eek:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
عمدہ تجزیہ کیا ہے یوسف بھائی نے۔ ہمارا میڈیا تو زلزلے میں متاثرہ بچی کی تصویر کو رمشا مسیح کی تصویر بتاتا ہے۔ خود انکے ہاں تو تحقیق اسی چیز کا نام ہے کہ مٹی کے ڈھیر تلے دبی کوئی چیز اٹھاؤ اور پیش کر دو کہ لوگ تو بھول ہی گئے ہونگے۔ مگر کچھ کم بختوں کا حافظہ لے ڈوبتا ہے انہیں۔:D
باقی تعلیمی معیار پر انگلی اٹھانا تو حق عین ہے۔ جب ہم جیسے ناپختہ اذہان نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ تو ہر چیز اردو میں۔ میٹرک کے بعد ہر چیز انگلش میں۔ تو رہ گئے ہم ہر میدان میں پیچھے۔ اب حال یہ ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ جائیں تو جائیں کدھر۔ کوئی ذرا سی روزمرہ سے ہٹ کر اردو بولے تو لگتا ہے کہ فارسی بول رہا ہے اور کوئی انگلش بولے تو تب بھی یہی لگتا ہے۔
اب جو لوگ اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مہنگے سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ وہ گنتی میں چند ہیں پر وہاں زبان عام کا قحط ہے۔ اور جہاں اردو کی فراوانی ہے وہاں سوچ اور مواقع قحط کا شکار ہیں۔ لہذا اب آپ مجھے خود بتائیں کہ جو لوگ اس معاشرے سے کل کو اقدار کی مسندوں پر براجمان ہونگے وہ تعلیم کی ترویج کے لیئے بھلا کیا کام کر پائیں گے۔ وہ تو سنواریں گے بس اپنے آنے والی ان اولادوں کا مستقبل جن کے بارے میں انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کب آئیں گی اور کسطرح پرورش پائیں گی۔ انفرادیت سستی ہے اور اجتماعیت کی سوچ کہیں کوڑے کے ڈھیر پر پڑی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
 

x boy

محفلین
سب قصور زبان کا ہے ورنہ اسٹوڈنٹ، طالبعلم،طلاب وغیرہ بھی تو ہیں:D
 

Fawad -

محفلین
طالبان کے نام پر اس قسم کے سارے ” فریضے“ امریکن سی آئی اے، بھارتی راء اور ”دیگر ممالک“ کے ایجنٹس سر انجام دے رہے ہیں تاکہ نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کی آگ سرد نہ پڑے۔ ”لطیفہ“ یہ ہے کہ پاکستانی علاقے کی حدود میں اس قسم کی کاروائی ہوتی ہے اور اس کی خبر سب سے پہلے ”غیر ملکی نیوز ایجنسیز“ جاری کرتی ہیں، جسے پاکستانی میڈیا محض فارورڈ کرکے نشر کردیتا ہے۔ ”طالبان کا اعتراف جرم“ بھی انہی غیر ملکی (اسلام اور پاکستان دشمن) نیوز ایجنسیز سے جاری ہوتا ہے۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے ”القاعدہ اور طالبان کے ٹاپ لیڈرز“ کی ہلاکت کی خبر“ بھی سات سمندر پار کی ایجنسیز سے آتی ہے۔ کیا پاکستانی میڈیا اتنا ہی لنگڑا لولا ہے کہ یہ اپنے ہی ملک کے ”وقوعے“ کی رپورٹنگ کے لئے بیرونی سہاروں کا محتاج ہے اور وہ بھی آئی ٹی کے اس دور جدید میں؟؟؟ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے :eek:


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

مشہور کہاوت ہے "مدعی سست – گواہ چست"

جب معاملہ، تعليم، سکولوں اور خاص طور پر خواتين ميں شرح تعليم ميں اضافے کی ضرورت کا ہو تو طالبان کی سوچ کے تحت متحرک مختلف دہشت گرد گروہوں کی سوچ کوئ خفيہ امر نہيں ہے۔

طالبان نے اپنے الفاظ اور عملی اقدامات سے متعدد بار يہ باور کروايا ہے کہ وہ نا صرف يہ کہ حصول تعليم کے خلاف ہيں بلکہ اپنی دقيانوسی سوچ اور طرز زندگی کے ليے اسے براہراست خطرہ سمجھتے ہيں۔

افغانستان ميں اپنے چھ سالہ دور حکومت ميں طالبان نے عملی طور پر خواتين کی تعليم پر قدغن لگا دی تھی۔ سال 1998 ميں آٹھ سال سے زائد عمر کی لڑکيوں پرسکول جانے پر پابندی تھی۔ اسی سال طالبان نے ايک غير ملکی امدادی کارکن کو نا صرف قيد کيا بلکہ اسے ملک بدر بھی کر ديا۔ اس کا قصور صرف يہ تھا کہ اس نے گھر کی چارديواری کے اندر لڑکيوں کے ليے تعلیم اور خواتين کے ليے روزگار کے مواقعوں کی ضرورت پر زور ديا تھا۔ اور يہ بھی ريکارڈ کا حصہ ہے کہ طالبان کی حکومت نے کابل يونيورسٹی ميں خواتين کی تعليم پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔

سال 2009 سے 2012 کے درميان پاکستان ميں سکولوں پر دہشت گردوں کی جانب سے قريب 919 واقعات ريکارڈ کيے گئے۔ صرف سال 2009 ميں ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان کے مطابق 505 سکولوں کو نشانہ بنايا گيا۔

اگر دہشت گرد تنظيميں ان سکولوں کی تبائ کی ذمہ دار نہيں ہيں اور غير ملکی ايجنٹس محض دہشت گردی کا "ہوا" کھڑا رکھنے کے ليے ان تعليمی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہيں، تو پھر کيا وجہ ہے کہ ان گروہوں کے ترجمان نا صرف يہ کہ عوامی سطح پر ان جرائم کا اعتراف کرتے ہيں بلکہ اپنی ويب سائٹس، سوشل ميڈيا اور تشہيری مواد ميں اپنی ان "کاميابيوں" کو فخر سے بيان بھی کرتے ہيں؟

کيا ان کے ليے يہ بہتر نہيں ہے کہ ان مبينہ پراسرار غير ملکی ايجنٹوں کی سازش کو ناکام بنائيں اور عوامی سطح پر ان حملوں کے حوالے سے اپنا موقف واضح کريں؟

اور جو رائے دہندگان اس سوچ پر يقين رکھتے ہيں کہ امريکی حکومت پاکستانی بچوں کو تعليم سے دور رکھنے کی خواہ ہے اور ان سکولوں کی تبائ کے ليے کسی بھی طور ذمہ دار ہے، انھيں چاہيے کہ امريکی حکومت اور بے شمار نجی امريکی تنظيموں کی جانب سے فراہم کی جانے والی امداد کے ضمن ميں اعداد وشمار پر ايک سرسری نظر ڈاليں۔ يہ امداد اور کاوشيں دونوں ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اور تعاون کو واضح کرتی ہیں۔ يہ اعداد وشمار محض گزشتہ چند سالوں کے حوالے سے ہيں جنھيں عمومی طور پر سازشی نظريات کے دلدادہ اور ميڈيا کے حلقے نظرانداز کر ديتے ہيں۔ افواہوں کی بجائے ان حقائق پر توجہ مرکوز کريں۔

سال 2002 سے سال 2008 کے درمیانی عرصے ميں امريکہ نے پاکستان کو قريب 15 بلين ڈالرز کی امداد فراہم کی جس ميں 5۔4 بلين ڈالرز غير عسکری پروگرامز کی مد ميں تھے اور قريب سات سو ملين ڈالرز پاکستان کے تعليمی نظام کے ليے مختص کيے گئے تھے۔

يو ايس ايڈ کے پاکستان ميں زلزلے سے بحالی سے متعلق پروگرام کے تحت کے پی کے صوبے ميں کشمير اور مانسہرہ ميں ہزاروں بچوں اور بچيوں کے ليے قريب 74 پرائمری، مڈل اور ہائ سکولوں کی تعمير اور مرمت کا کام مکمل کيا گيا۔

ديگر کئ پروگراموں کے علاوہ اس وقت امريکی حکومت بہتر تعليمی اور صحت کی فراہمی کے ضمن ميں ايک عشاريہ پانچ بلين ڈالرز کی امداد فراہم کر رہی ہے جو کہ دنيا بھر ميں تعلیمی حوالے سے يو ايس ايڈ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ يہ امداد کيری لوگر بل کے تحت فراہم کی جا رہی ہے جسے سال 2009 ميں پاس کيا گيا تھا اور جس کے تحت پانچ سالوں ميں مجموعی طور پر سات عشاريہ پانچ بلين ڈالرز کی سول امداد کی منظوری دی گئ تھی۔

اس وقت کے پی کے صوبے ميں يو ايس ايڈ سو سے زائد ايسے سکولوں کی مرمت کے کام ميں امداد فراہم کر رہی ہے جو پاکستانی کی فورسز کی جانب سے مالاکنڈ ڈسٹرکٹ سے طالبان کے جنگجوؤں کو پسپا کرنے کے دوران تباہ ہو گئے تھے۔

آپ دہشت گردوں کے متشدد راستوں اور ہمارے طرز عمل ميں فرق کو ديکھيں، وہ افراتفری اور بدامنی کے متمنی ہيں کيونکہ ان کا يہ ماننا ہے کہ اگر ان معصوم بچوں تک تعليم کی رسائ ممکن ہو گئ تو بربريت پر مبنی ان کی سوچ کی ترويج ممکن نہيں رہے گی۔ امريکہ عملی طور پر سکولوں کی تعمير کے ليے وسائل فراہم کر رہا ہے جبکہ دہشت گرد ان کو تباہ کر رہے ہيں۔

جو بھی يہ سوچ رکھے کہ عالمی دہشت گردی کا محض فرضی ہوا کھڑا کيا گيا ہے اور حقيقت ميں اس حوالے سے کوئ خطرہ سرے سے موجود ہی نہيں ہے، اسے چاہيے کہ گزشتہ ايک دہائ کے دوران دنيا بھر ميں ظلم اور بربريت پر مبنی شہ سرخيوں پر ايک نظر ڈالے جو دہشت گردی کے اس عفريت اور ايک لامتنائ خونی مہم کو اجاگر کرتی ہيں جس کے نتيجے ميں ہزاروں کی تعداد ميں بے گناہ شہری مارے گئے ہيں، جن ميں زيادہ تر مسلمان ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top