طالبان کی جنگ اور مذہبی قائدین کا کردار --- سلیم صافی

الف نظامی

لائبریرین

اس دور کے اخبارات بھی گواہ ہیں اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1997ء کے انتخابات میں حسب خواہش کامیابی نہ ملنے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان میں بھی طالبان طرز کی حکومت نافذ کریں گے ۔ بل کلنٹن کے دور میں طالبان کے خلاف کروز میزائل حملے کے بعد احتجاجی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان اعلان کیا کرتے تھے ‘ کہ اگر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ اور ان کے ساتھی امریکی بحری بیڑے کو بحیرہ عرب میں ڈبودیں گے ۔ اب جبکہ نہ صرف وہ بیڑہ سالوں سے بحیرہ عرب میں موجود ہے بلکہ پورے افغانستان پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ پاکستان میں بھی من مانیاں کررہا ہے تو میں نے جاننے کی کوشش کی کہ مولانا کس طرح امریکہ کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ وہ چونکہ قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے پاکستان کی امریکہ نواز خارجہ پالیسی کے نوک پلک سنوارنے میں مصروف ہیں ‘ اس لئے میں نے سوچا کہ شاید امریکی بحری بیڑے کو ڈبونے اور فغانستان کو امریکہ کا قبرستان بنانے کے مسلح جہاد میں انہوں نے اپنے جگرگوشوں کو لگایا ہوگا لیکن تحقیق کے نتیجے میں مجھے یہ جان کر شدید مایوسی ہوئی کہ ان کے صاحبزادوں سے کوئی ایک بھی افغانستان یا وزیرستان کے پہاڑوں میں مورچہ زن نہیں ۔
الحمد للہ مولانا فضل الرحمان تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے باپ ہیں ۔ ان کے ایک بیٹے اسد محمود خیرالمدارس ملتان میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے ۔ دوسرے بیٹے انس محمود ڈی آئی خان میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ تیسرے بیٹے اسجد محمود حفظ قرآن میں مگن ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی فدائی بنا ہے ‘ نہ افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف مصروف عمل ہے ‘ نہ کشمیر کی آزادی کے لئے سرگرم ہے اور نہ جنوبی یا شمالی وزیرستان میں مورچہ زن ہے۔
اسی طرح نوے کے عشرے کے آخرمیں جب امریکہ نے افغانستان پر کروز میزائلوں کا حملہ کیا تو مولانا سمیع الحق نے ”دفاع افغانستان کونسل“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کردی ۔ اس تنظیم کا مقصد افغانستان میں طالبان حکومت کا دفاع کرنا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی آکر بیٹھ گیا ہے اور ملامحمدعمر مجاہد جنہیں مولانا اپنے شاگرد قرار دیتے تھے ‘ اپنے ساتھیوں سمیت اس کے خلاف مصروف عمل ہیں ۔ مولانا تو شاید اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ خود بندوق یا توپ نہیں چلاسکتے ‘ اس لئے میرا خیال تھا کہ ان کے تمام بیٹے یا ان میں سے بعض افغانستان میں مورچہ زن ہوں گے لیکن تحقیق سے مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ طالبان کے استاد کے صاحبزادوں میں سے کوئی بھی دفاع افغانستان یا دفاع پاکستان کی جنگ میں مگن نہیں ۔ الحمد للہ مولانا سمیع الحق نے دو شادیاں کی ہیں ۔ایک بیوی الحمداللہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں ہے ۔ مولانا حامد الحق حقانی نے جامعہ حقانیہ سے تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے ۔ گزشتہ اسمبلی میں وہ ایم ایم اے کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور اس وقت اپنے والد کے متوقع جانشین کی حیثیت سے سیاست کررہے ہیں ۔دوسرے بیٹے ارشاد الحق حقانی عالم دین اور حافظ قرآن ہیں ۔ وہ ماہنامہ ”الحق“ کے مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دارلعلوم میں درس و تدریس کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہیں ۔دوسری بیوی سے بھی اللہ نے مولانا سمیع الحق کو دو بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کی ہیں لیکن وہ سب ابھی کمسن ہیں البتہ مولانا ان میں سے کسی ایک کو بھی فدائی بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔
جہاد اور امریکہ دشمنی کے ایک اور علم بردار صاحبزادہ فضل کریم کوجب میں نے ملکی سیاست میں مصروف عمل پایا تو سوچا کہ شاید انہوں نے اس مقدس فریضے کی ادائیگی پر اپنے صاحبزادوں کو لگارکھا ہوگا لیکن تحقیق سے وہ بھی کسی اور میدان کے شہسوار نکلے ۔ ان کے ایک بیٹے حامد رضا نے ایم اے اسلامیات‘ ایم بی اے اور لندن کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے اور ان دنوں بزنس کی پلاننگ کررہے ہیں ۔ دوسرے بیٹے محمد حسن رضا لاہور کے ایک کالج میں زیرتعلیم ہیں ۔ تیسرے بیٹے محمد حسین رضا دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جی سی یونیورسٹی سے دنیوی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ چوتھے بیٹے محمد محسن رضا بھی الحمداللہ کالج کے طالب علم ہیں ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس خطے میں جہادی سوچ کی بنیاد جماعت اسلامی نے رکھی ۔ وہ نہ صرف افغان جہاد میں ہزاروں نوجوانوں کو لڑواچکی بلکہ کشمیر کے جہاد میں بھی اس تنظیم کی زیرسرپرستی سینکڑوں نوجوانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء اور پاکستان سے اس کے اثرورسوخ کے لئے سب سے زیادہ بے چین یہی جماعت نظرآتی ہے۔اس جماعت کے امیر سید منورحسن نہ صرف افغان طالبان بلکہ گاہے بگاہے پاکستانی طالبان کی بھی ستائش کرلیتے ہیں ۔ سوچا کہ وہ چونکہ پاکستان میں جہاد کے لئے رائے عامہ بنارہے ہیں ‘ اس لئے شاید اپنی اولاد میں سے کسی کو محاذ پر بھیجا ہوگا لیکن یہاں بھی تحقیق کے نتیجے میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ ایک بیٹی اورایک بیٹے کے والد ہیں ۔ دونوں ماشاء اللہ کراچی میں معمول کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ان کے بیٹے طلحہ نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری لی ہے اور اس وقت پراپرٹی اور آئی ٹی کے کاروبار میں مگن ہیں ۔
جماعت اسلامی کی صفوں میں موازنہ کیا جائے تو جہادی سوچ کو ابھارنے والوں میں محترم قاضی حسین احمد سرفہرست ہیں۔ اپنی ان خدمات کا ان دنوں وہ اپنے مضامین میں بھی بڑے فخر سے تذکرہ کرتے رہتے ہیں ۔ الحمدللہ عمر کے اس حصے میں بھی ان کا جذبہ جوان ہے اور اب بھی خوب امریکہ کے خلاف جذبات کوبھڑکارہے ہیں ۔ خیال تھا کہ وہ چونکہ سید منورحسن کے ساتھ ان کا بوجھ کم کرنے میں لگے ہوئے ہیں اس لئے شاید اپنے بیٹوں کو جہاد کے لئے وقف کیا ہوگا لیکن ان کے بڑے صاحبزادے اور ہمارے محترم دوست آصف لقمان قاضی امریکہ سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لینے کے بعد سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار میں مصروف ہیں جبکہ دوسری بیٹے ڈاکٹر انس قاضی پرائیویٹ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد پرائیویٹ پریکٹس کے ساتھ ساتھ پشاور میں صحت کے شعبے میں کاروبار کررہے ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں کہ جہاد و قتال کے ایک اور داعی پروفیسر ساجد میر ان دنوں میاں نواز شریف کی سیاست کے لئے شرعی جواز تلاش کرنے میں مگن ہیں ‘ اس لئے خیال یہ تھا کہ جہاد و قتال کے میدان میں انہوں نے اپنے صاحبزادوں کو لگارکھا ہوگا لیکن یہاں بھی تحقیق کے نتیجے میں مایوسی ہوئی ۔ ان کے بیٹے احمد میر نے نائیجیریا سے میٹرک کرنے کے بعد سرحد یونیورسٹی پشاور سے ڈگری لی اور اس وقت سیالکوٹ میں گڈز فارورڈنگ کا کاروبار کررہے ہیں ۔ دوسرے بیٹے عاقب میر نے بھی نائیجیریا سے میٹرک کرنے کے بعد الخیریونیورسٹی لاہور سے ایم سی ایس کیا اور اس وقت کینیڈا کی ایک کمپنی سے وابستہ ہیں ۔
رہے وہ ریٹائرڈ جرنیل صاحبان جو اس خطے میں جہادی کلچر کے فروغ کے دعویدار اور ذمہ دار ہیں اور جو اب بھی میڈیا میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے ہمہ وقت طالبان کی حمایت میں رطب السان رہتے ہیں ‘ تو طالبان کے جہاد میں ان کے اور ان کے بچوں کی شرکت سے تو ایک دنیا واقف ہے ۔ کوئی اربوں میں کھیل رہا ہے ‘ کوئی کروڑوں سے دل بہلا رہا ہے ۔ کوئی پیسے کے زور سے سیاست میں اپنی سلطنت قائم کرچکا ہے تو کوئی کاروبار میں اپنی سلطنت کے قیام میں مگن ہے ۔ جس راستے پر دوسروں کے بچوں کولگارکھا ہے ‘ اس پر شرمندہ بھی نہیں لیکن خود یا اپنے بچوں کو اس راستے پرلگانے سے بھی گریزاں ہیں۔بڑے مزے سے اسلام آباد اور لاہور کے بنگلوں میں بیٹھ کر فائیوسٹارہوٹلوں میں منعقدہ سیمنیاروں سے خطاب کرتے ہوئے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب امریکہ کی شکست کے تمغے بھی اپنے سینوں پر سجانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی طالبان کے ایک رہنما سے کسی نے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو دوسروں کے سپرد کردہ لاش کو کاندھا دیئے ہوئے ہیں ۔ تفصیل انہوں نے یوں بیان کی کہ کسی گاؤں میں چار اجنبی ‘ ایک اجنبی کی لاش اٹھائے قبرستان کی طرف جارہے تھے ۔ گاؤں کے لوگوں نے انہیں دیکھا تو اجنبیوں نے ان سے کہا کہ وہ ایک عظیم دینی بزرگ کی لاش کو دفنانے جارہے ہیں۔ چنانچہ گاؤ ں کے سادہ لوگ بھی میت کے ساتھ قبرستان کی طرف چل دئے اور آگے بڑھ کرثواب کی خاطر لاش کو کاندھا دینے لگے۔ پہلا بندہ آگے بڑھا تو ایک اجنبی اپنے کاندھے کو فارغ پاکر خاموشی سے کھسک گیا۔ پھر جب گاؤں کا دوسرا بندہ ‘ دوسرے اجنبی کی جگہ لینے کیلئے آگے بڑھا تو وہ بھی غائب ہوگیا۔ یہی عمل تیسرے اور پھر چوتھے اجنبی نے دھرایا۔لاش قبرستان پہنچی تو اس کے چاروں وارث غائب تھے اور دینی جذبہ کے تحت اس کو کاندھا دینے والے گاؤں کے لوگ حیران تھے کہ اب اس لاش کو کیا کریں۔ اس کو کہاں دفنائیں اور کیا نام دے کر دفنائیں؟
یہ قصہ سنا کر پاکستانی طالبان کے لیڈر نے کہا کہ ہم نے تو اس گاؤں کے مکینوں کی طرح اسلامی جذبہ کے تحت اس لاش کو کاندھا دیا ۔ یہ لاش تو قاضی حسین احمد ‘ مولانا فضل الرحمان ‘ مولانا سمیع الحق ‘ پروفیسر ساجد میر ‘ جنرل اخترعبدالرحمان ‘ جنرل حمید گل اور اسی نوع کے دیگر لوگوں نے اٹھارکھی تھی۔ ہم نے ان کی پکار پر دینی جذبے کے تحت لبیک کہتے ہوئے اس کو کاندھا دیا لیکن پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سب غائب تھے اور لاش ہمارے گلے پڑ گئی ۔
معزز قارئین: اب کیا یہ مذکورہ شخصیات اور ان کے جانشینوں کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اپنی اس مبارک لاش کو کاندھا دیں یا پھر میدان میں آکر لاش اٹھانے والوں سے واضح الفاظ میں کہہ دیں کہ اس لاش کو کاندھا دینے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے ‘ اس لئے گاؤں کے لوگ بھی اسے اسی طرح چھوڑ دیں جس طرح کہ وہ چھوڑ چکے ہیں؟تماشہ یہ ہے کہ وہ اب بھی آواز یہی لگارہے ہیں کہ یہ ایک عظیم مذہبی ہستی کی لاش ہے اور اسے کاندھا دینا دنیا و آخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے ‘ لیکن خود لاش کو کاندھا دینے جارہے ہیں ‘ نہ اپنے بچوں سے یہ نیک کام کروانا چاہتے ہیں اور نہ ان کو منع کرنا یا سمجھانا چاہتے ہیں جنہوں نے ان کی تلقین پر یہ لاش اپنے گلے باندھ لی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہی حال ملک کے دوسرے سیاسی لیڈران کا ہے۔ کہ جلسے جلوس میں مرنے کے لیے عام عوام اور کُرسی سنبھالنے کے لیے مونس، بلاول وغیرہ وغیرہ
 

آفت

محفلین
سلیم صافی جن کے لیے کالم لکھتے ہیں وہ بھی سب جانتے ہیں موصوف آج کل ایم کیو ایم کی کوریج میں پیش پیش ہیں اور انہیں فرشتہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں ِ
رہی بات جہادیوں کی تو ان میں سے اکثریت صرف پیسہ بنانے اور لوگوں میں خوف و حراس پھیلانے میں لگی ہوئی ہے یہی لوگ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو درپردہ مغرب کی غلامی بھی کر رہے ہیں ۔
معذرت کے ساتھ کیا ایسے لوگوں کی وجہ سے ہم اپنے حقوق اور اسلام سے دستبردار ہو جائیں؟؟؟؟؟
بہت بڑا شرابی جواری یا قاتل اگر کہے کہ شراب پینا جوا کھیلنا اور قتل کرنا گناہ ہے تو کیا ہم اس سے اس وجہ سے انکار کر دیں کہ یہ بات ایک شرابی جواری اور قاتل کہہ رہا ہے ؟؟؟
جتنی مذہبی پارٹیوں کے راہمناؤں کے متعلق سلیم صافی نے لکھا ہے وہ سب ایسے ہی ہونگے لیکن جو باتیں وہ سرعام آ کر کہتے ہیں کیا وہ ساری غلط ہیں؟؟؟؟
کیا مذہبی جماعتیں ہی ایسا کر رہی ہیں ؟؟؟
باقی سیاسی جماعتیں سب کی سب راہ راست کی مسافر ہیں ِِ
ہم کب غلامانہ زہنیت سے چھٹکارا حاصل کریں گے ؟؟؟
قول و فعل میں تضاد ہونا یقیناً اچھی بات نہیں لیکن کسی کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے اپنا گریبان بھی دیکھ لینا چاہیے ِ یہ باتیں جو سلیم صافی نے لکھی ہیں کیا انہوں نے مکمل غیر جانبداری سے لکھی ہیں اور کیا اس کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں ہو سکتا؟؟؟
سلیم صافی دوسرے درجے کے صحافی ہیں لیکن ملک میں اور بھی تو صحافی ہیں کیا اس سے پہلے کبھی کسی نے تحقیق کی ؟؟؟ اس ملک میں بدنام کرنا بہت آسان ہے اسی کا فائدہ اٹھا کر گناہگار دوسروں پر انگلی اٹھا کر خود غلط راہ پر چلتے ہیں ِ
بس ذرا دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
 
یہی حال ملک کے دوسرے سیاسی لیڈران کا ہے۔ کہ جلسے جلوس میں مرنے کے لیے عام عوام اور کُرسی سنبھالنے کے لیے مونس، بلاول وغیرہ وغیرہ
بالکل درست کہا آپ نے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حق میں پرزور آوازیں بلند کرنے والے سیاستدانوں اور جرنیلوں میں سے‌بھی کسی کا صاحبزادہ بنفس نفیس میدا کارزار میں تشریف نہیں لے گیا۔ :confused:
 
Top