طالبان کے کالے دھندوں کے خلاف امريکہ کی کاری ضرب

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


DPKs_CBk_W4_AIDt_Rt.jpg


"گزشتہ رات ہم نے شمالی ہلمند ميں طالبان کے منشيات کے مراکز پر حملہ کيا جو ان کے ليے بڑا دھچکا تھا کيونکہ يہی ان کے معاشی وسا‏ئل کا بڑا ذريعہ ہے"۔ امريکی جرنل نکلسن – يو ايس ايف او آر – اے۔


کيا آپ جانتے ہيں کہ خود کو آزادی کے مقدس جنگجو قرار دينے والے طالبان درح‍قيقت دنيا بھر ميں منشيات کے 85 فيصد کاروبار کے ليے ذمہ دار ہيں؟ يہ ايک غير قانونی کاروبار ہے جس کی مجموعی آمدن کا تخمينہ قريب 60 بلين ڈالرز لگايا گيا ہے اور اس معيشت ميں سے قريب 200 ملين ڈالرز طالبان کے ہاتھوں ميں جا رہے تھے۔

اقوام متحدہ کی ايک حاليہ رپورٹ کے مطابق افغانستان ميں اوپيم کی مجموعی پيداوار کا 50 فيصد کام صرف ايک صوبے ہلمند میں ہو رہا ہے۔ افغانستان کے اس جنوبی صوبے کی مجموعی آبادی 2.5 ملين ہے اور يہ صوبہ اس وقت دنيا ميں غير قانونی منشيات کی پيداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس صوبے ميں منشيات کی مجموعی پيداوار کولمبيا، مراکو اور برما سے بھی تجاوز کر چکی ہے حالانکہ ان ممالک کی آبادی ہلمند سے 20 گنا زيادہ ہے۔

تاہم يہ صورت حال اب تبديل ہونے جا رہی ہے کيونکہ امريکی اور افغان فوجيں اب باہم اشتراک سے طالبان کے ان معاشی وسائل کے خلاف کاروائيوں ميں شدت لا رہے ہيں جو ان کی خونی کاروائيوں کے ضمن ميں معاونت کا سبب بنتے رہے ہيں۔

NATO Resolute Support | Afghan, U.S. forces launch new campaign to destroy Taliban funding networks

AFCENT Version

گزشتہ چند دنوں کے دوران امريکی اور افغان فوجيوں نے شمالی ہلمند ميں طالبان کے سات اہم منشيات کے اڈوں اور مرکزی دفتر پر حملے کيے ہيں۔ ان ميں سے تين حملے ضلع کجکی، چار موسی کلا اور ايک سنگين ضلع ميں کيے گئے۔

يہ حملے طالبان کی جانب سے عام افغان شہريوں کے خلاف کی جانے والی دہشت گردی کاروائيوں کے ضمن ميں مالی معاونت کے خاتمے اور اے اين ڈی ايس ايف کی جاری کاوشوں کی کاميابی کی راہ ہموار کرنے ميں اہم ثابت ہوں گے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

زین

لائبریرین
سوال یہ ہے کہ امریکا اور اتحادیوں نے پندرہ سال تک کیوں اس معاملے پر آنکھیں بند رکھیں؟
 

ابن عادل

محفلین
برادرم آپ نے سادہ دلی سے صرف ایک سوال پوچھا ۔ حالانکہ ترجمان امریکہ سے کئی سوال بنتے ہیں ۔ لیکن پچھلے طویل عرصے سے ترجمان کے مشینی رویے کی بنا پر میرا خیال ہے لوگ اب اس پروپیگنڈے پر کان نہیں دھرتے ۔ اس خبر کا انداز کچھ ایسا ہے کہ جیسے ایک سربراہ مملکت ایک کلرک کی گرفت کرے اور اپنا کارنامہ گنوائے ۔ پچھلے 15 سالوں میں آپ کی رٹ قائم نہیں ہوسکی ۔ خبر ہے کہ طالبان کو اندھیرے میں دیکھنے والے عینک مل گئے اور امریکہ پریشان ہے ۔ امریکہ کیوں آیا تھا خود اس کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اور ہر ذی عقل اور صاحب شعور کو نظر آرہا ہے '' افغان باقی کہسار باقی ، الحکم للہ الملک للہ '' کانعرہ امریکہ کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن گیا ہے ۔ آج وہ سوچ رہا ہے کہ میں نے یہاں کوئی داعش کیوں نہ بنا دی ۔ جس کے لیے وہ اب بھی کوشاں ہے ۔
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ '' تم جو کچھ ہو اس کا شور میرے کانوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا ''
 

Fawad -

محفلین
کیا یہ سوال بھی جائز نہیں ہے کہ ان طالبان کا روحانی اور معاشی باپ امریکہ بہادر ہی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کو حقائق درست کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ امريکہ پر طالبان کی تحريک کی پشت پنائ اور معاشی سپورٹ کا الزام لگا رہے ہيں، باوجود اس کے کہ طالبان افغانستان کے منظر نامے پر سال 1994 ميں نمودار ہوئے تھے۔ اور اس وقت تک سويت يونين کو خطے سے نکلے ہوئے قريب 5 سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ عالمی امداد اور تعاون جو پاکستانی حکام کے ذريعے افغانستان کے لوگوں تک پہنچائ جا رہی تھی، اس کا سلسلہ بھی اسی وقت ختم ہو چکا تھا۔ اس تناظر ميں کيا یہ کہنا درست ہے کہ امریکہ طالبان کی تخليق کے ليے کسی بھی طور ذمہ دار ہے؟

علاوہ ازيں اگر آپ کی دليل درست تسليم کر لی جائے تو آپ اس بات کی کيا توجيہہ پيش کريں گے کہ امريکی حکومت طالبان کو اپنے طرز حکومت ميں کسی بھی قسم کی تبديلی کے ليے رضامند نہيں کر سکی، اور اس ميں اسامہ بن لادن کی حوالگی کا معاملہ بھی شامل تھا جس نے امريکہ کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا تھا۔

کسی بھی گروہ کی معاشی پشت پنائ کا يہی مقصد ہوتا ہے کہ اس پر اثررسوخ کے ساتھ ساتھ دباؤ کا استعمال کيا جا سکے۔ يقينی طور پر طالبان کے معاملے ميں تو يہ منطق درست ثابت نہيں ہوتی کيونکہ ان کی حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن کو امريکہ کے حوالے کرنے کے ضمن ميں متعدد مطالبوں کے باوجود صاف انکار کيا چکا تھا، باوجود اس کے کہ اسامہ بن لادن اور اس کی دہشت گرد تنظيم کی جانب سے کينيا اور تنزانيہ ميں امريکی سفارت خانوں پر خونی حملوں کے ليے علاوہ دہشت گردی کی کئ عالمی کاروائياں کی جا رہی تھيں جن سے براہراست امريکی املاک اور مفادات کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

امريکہ اور طالبان کی حکومت کے مابين تعلقات کی نوعيت اور طالبان پر مبينہ امريکی اثر ورسوخ کا اندازہ تو اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ جب طالبان کی حکومت نے اسامہ بن لادن اور القائدہ کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائ کرنے سے صاف انکار کر ديا تو امريکہ نے افغانستان ميں میزائل حملے بھی کيے تھے۔

CNN - U.S. missiles pound targets in Afghanistan, Sudan - August 20, 1998

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
Top