باقی رہی ایک کی غلطی پہ سب مولویوں اور مفتیوں کو برا بھلا کہہ کر اپنا چورن بیچنے کی بات تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ یہیں محفل میں کبھی میں نے ایک واقعہ نقل کر کے ایک قطعہ پیش کیا تھا جس پر جلیل القدر انتظامیہ کے ایک رکن خلیل الرحمان صاحب نے کچھ اس قبیل کا اعتراض کیا تھا کہ منٹو کی طرح یہ نا شائستہ زبان مناسب نہیں۔لہذا مجھے وہ تحریر حذف کرنا پڑی ۔وقت آیا ہے کہ وہ واقعہ اور قطعہ دوبارہ پیش کیا جائے۔
ایک بزرگ، مدرسے کے مہتمم کے پاس یہ شکایت لائی گئی کہ فلاں طالب علم نے چوری کی ہے تو انھوں نے فرمایا یہ مت کہو کہ طالب علم نے چوری کی ہے بلکہ یوں کہو کہ چور نے طلب_ علم کی ہے۔ طالب علم کو کیوں بد نام کر رہے ہو البتہ یہ کہو کہ چور کو کچھ نیک توفیق ہو گئی ۔ اس پر قطعہ یوں تھا:
پڑھ کے گو درس_نظامی نکلا
جو حرامی تھا حرامی نکلا
فیض_ خاصان _خدا جس نے لیا
بن کے وہ رومی و جامی نکلا