طالب کی پیاس اور طلب ہے کہ ۔۔۔ کیا کہوں۔۔ توجہ فرمائے

حقیقت کوفسانہ کر گیا ہے
مجھے وہ یوں دوانہ کر گیا ہے

مِرے ہی کام کا وہ حصہ بن کر
سخن میں اب ٹھکانہ کر گیا ہے

یہ دل تو تھا مرا ویرانہ لیکن
اِسے وہ آشیانہ کر گیا ہے

کسی کے راستے میں ہی نہیں تھا
وہی در آستانہ کر گیا ہے

تکبُّر سے بھرا تھا ذہن اظہر
اُسے وہ عاجزانہ کر گیا ہے

اُستاد جی،
شاید اب دوسرا شعر کچھ بہتر ہو گیا ہو؟ملاحظہ کیجیے تو
اظہر
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسرا شعر کافی بہتر ہو گیا ہے، اگر اب آپ اپنی غزل سے مطمئن ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ غور و فکر کرتے رہیئے گا۔ :)
 

مغزل

محفلین
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ ، کے مصداق کوشش جاری رکھیے آپ کا مطمعن نہ ہونا بھی اطمینان کی طرف سفر کا آئینہ دار ہے ، اللہ برکتیں عطا فرمائے ،آمین
 
Top