محمد فہد
محفلین
باتیں کرنا پھر اُنکو خوبصورت بنانا اگر مقصد ستائش ہے تو پھر اُنکا مقصد ثانوی حثیت اختیار کرلیتا ہے کیونکہ جب آپ کے قول و فعل میں فرق ہو تو پھر انسان کی شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔۔۔
نوشاب بھائی، آپ اوپر فرمارہیے ہیں کے آپ میں سے کسی نے "طالوت نامی" ناول پڑھا ہے۔۔؟ یہ دو حصوں میں تھا مصنف کا نام مجھے معلوم یاد نہیں ہے۔۔۔
آپ کی لکھی گی تحریر نے اپنا آپ کھول کر رکھ دیا ہے کہ آپ کے اصل مقاصد کیا ہیں کہی گئی تین باتوں میں شاہد دو کو اپنے آپ سے مغالطے میں بھی منسوب کرتے ہیں۔۔۔اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کے آپ اس کے لیئے اتنی "محنت" بھی کرتے ہیں اور اسکے حصول کے لیئے شاہد اوروں میں بھی "چھپ" کر بے"مثال" کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔ایک عام اور آسان سی بات کو ااپدیٹ کرکے جسکا جسکا مطلب حاصل وصول کچھ بھی نہیں اور پھر اسکا اختیار بھی اپنے پاس رکھنا پھر اس بات کو گھمانا، اُلجھانا، پھر گھوم پھر کر وہیں پہنچانا، اور اگر اسی دوران اس پر کسی کی بہتر رائے بھی آجائے تو نہ ماننا، بحث کرنا، اور آخر میں وہی ہونا "ہوگا وہی جو میری چاہت ہے" اور اسی دوران جو ٹائیم اسپینڈ کرنا دراصل ان ساری باتوں کی وصولی ہے اور سادہ لفظون میں یوں کہیے کہ
Enterntanment...Etertainment ...Entertainment
سوچنے اور سمجھنے کی نیک عادت ڈالیں کہ دوسرے جو کچھ کہ رہیے ہیں وہ بھی سچ ہوسکتا ہے۔۔ایسا کیوں ہے آپ کسی بھی رائے اور کسی بھی خیال کے بارے میں اپنے سوا کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔۔۔؟ایسا کیوں ہے سچ اور سچائی کو اپنے بس اپنی ہی دستاویز کا ایک گوشوارہ سمجھ رکھا ہے۔۔۔؟اگر اعتماد باقی نہ رکھا گیا اور اسکے بارے میں بے اعتمادی کو کام نہیں لایا گیا تو بولو اور بتاؤ کہ پھر اس بات کا فیصلہ روئے زمین پر آخر کرے گا کون۔۔۔جو اپکا خیال ہے وہ تو خیال ہے اور جو دوسرے کا خیال تو وہ اسکی نیک نیت کی خرابی اور خلل ہے۔۔۔ایک دوسرے کے بارے میں اعتماد کو کام میں لاؤ اور پھر اپنے دعوے اور اپنی دلیلوں کی بساط بچھاؤ بحث ہونی چاہیے اور جاری رہنی چاہیے شکوہ کس بات کا۔۔؟
شکوہ ہے ہی اسی بات کا کے یہاں بحث بڑائے بحث اور علمی نہیں ہوتی ہم لوگ ابھی تک بحث کے خوگر نہیں ہوئے ہیں۔۔۔ہم تو بدگوئی اور بدبختی کی عادت میں مبتلا ہیں۔۔بحث ذہن کی دانشمندانہ اور دانش جویا نہ حالت سے محروم ہیں۔۔ہم جب تک ذہن کی اس حالت سے محروم رہے گئے اس وقت تک ہمارے اور سچائی کے درمیان کوئی رشتہ قائم نہیں ہوسکتا آؤ ایک دوسرے پر اعتماد کرکے اپنے اور سچائی کی خواہش کے درمیان رشتہ قائم کریں جو شائستگی کی پہچان ہے اور بحچ شروع کریں وہ جو سچائی تک پہنچتی ہے۔۔۔؟
اور اس ناول کی یہی بات مجھے آج تک پسند ہے۔۔۔۔؟
مجھے یاد ہے کب میں نے ناول شروع کیا تو گرد و پیش سے بے نیاز ہوکر جب تک ناول ختم نہ کرلیا تب تک سکوں نہ لیا۔۔۔؟
ہم کہانیاں پڑھتے ہیں داستانیں لکھتے ہیں۔۔ دوسروں کے لکھے اور پڑھے کو مستند سمجھتے ہیں دوسروں کے تجربات سے فائدہ ضرور اُٹھانا چاہیے مگر میری ذاتی رائے میں سب سے پہلے خود بھی پڑھنا چاہیے بدلتے حالات وقعات کے ساتھ آپ کیسے بدل رہے ہیں بہتر یا بد تو ہو رہے ہیں کیا وجوہات ہیں کے ہماری ترجیحات وہی ہیں کہ بدل گئیں بدلی ہیں تو مثبت ہیں کہ منفی ہیں۔۔۔اگر ااپنا محاسبہ آپ کرنا شروع کریں توشاہد ہم خود کو بہتر بناسکیں ۔۔۔
لکھنا اور بھی تھا لیکن یہاں نماز عشاء کا ٹائیم ہوگیا
تاہم میرے الفاظ آپ یا کسی پڑھنے والے پر ناگوار گزریں تو معافی کا خواستگار ہوں کہ میرا کسی کا دل دکھانے کا ارادہ نہ تھا۔۔
نوشاب بھائی، آپ اوپر فرمارہیے ہیں کے آپ میں سے کسی نے "طالوت نامی" ناول پڑھا ہے۔۔؟ یہ دو حصوں میں تھا مصنف کا نام مجھے معلوم یاد نہیں ہے۔۔۔
آپ کی لکھی گی تحریر نے اپنا آپ کھول کر رکھ دیا ہے کہ آپ کے اصل مقاصد کیا ہیں کہی گئی تین باتوں میں شاہد دو کو اپنے آپ سے مغالطے میں بھی منسوب کرتے ہیں۔۔۔اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کے آپ اس کے لیئے اتنی "محنت" بھی کرتے ہیں اور اسکے حصول کے لیئے شاہد اوروں میں بھی "چھپ" کر بے"مثال" کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔ایک عام اور آسان سی بات کو ااپدیٹ کرکے جسکا جسکا مطلب حاصل وصول کچھ بھی نہیں اور پھر اسکا اختیار بھی اپنے پاس رکھنا پھر اس بات کو گھمانا، اُلجھانا، پھر گھوم پھر کر وہیں پہنچانا، اور اگر اسی دوران اس پر کسی کی بہتر رائے بھی آجائے تو نہ ماننا، بحث کرنا، اور آخر میں وہی ہونا "ہوگا وہی جو میری چاہت ہے" اور اسی دوران جو ٹائیم اسپینڈ کرنا دراصل ان ساری باتوں کی وصولی ہے اور سادہ لفظون میں یوں کہیے کہ
Enterntanment...Etertainment ...Entertainment
سوچنے اور سمجھنے کی نیک عادت ڈالیں کہ دوسرے جو کچھ کہ رہیے ہیں وہ بھی سچ ہوسکتا ہے۔۔ایسا کیوں ہے آپ کسی بھی رائے اور کسی بھی خیال کے بارے میں اپنے سوا کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔۔۔؟ایسا کیوں ہے سچ اور سچائی کو اپنے بس اپنی ہی دستاویز کا ایک گوشوارہ سمجھ رکھا ہے۔۔۔؟اگر اعتماد باقی نہ رکھا گیا اور اسکے بارے میں بے اعتمادی کو کام نہیں لایا گیا تو بولو اور بتاؤ کہ پھر اس بات کا فیصلہ روئے زمین پر آخر کرے گا کون۔۔۔جو اپکا خیال ہے وہ تو خیال ہے اور جو دوسرے کا خیال تو وہ اسکی نیک نیت کی خرابی اور خلل ہے۔۔۔ایک دوسرے کے بارے میں اعتماد کو کام میں لاؤ اور پھر اپنے دعوے اور اپنی دلیلوں کی بساط بچھاؤ بحث ہونی چاہیے اور جاری رہنی چاہیے شکوہ کس بات کا۔۔؟
شکوہ ہے ہی اسی بات کا کے یہاں بحث بڑائے بحث اور علمی نہیں ہوتی ہم لوگ ابھی تک بحث کے خوگر نہیں ہوئے ہیں۔۔۔ہم تو بدگوئی اور بدبختی کی عادت میں مبتلا ہیں۔۔بحث ذہن کی دانشمندانہ اور دانش جویا نہ حالت سے محروم ہیں۔۔ہم جب تک ذہن کی اس حالت سے محروم رہے گئے اس وقت تک ہمارے اور سچائی کے درمیان کوئی رشتہ قائم نہیں ہوسکتا آؤ ایک دوسرے پر اعتماد کرکے اپنے اور سچائی کی خواہش کے درمیان رشتہ قائم کریں جو شائستگی کی پہچان ہے اور بحچ شروع کریں وہ جو سچائی تک پہنچتی ہے۔۔۔؟
اور اس ناول کی یہی بات مجھے آج تک پسند ہے۔۔۔۔؟
مجھے یاد ہے کب میں نے ناول شروع کیا تو گرد و پیش سے بے نیاز ہوکر جب تک ناول ختم نہ کرلیا تب تک سکوں نہ لیا۔۔۔؟
ہم کہانیاں پڑھتے ہیں داستانیں لکھتے ہیں۔۔ دوسروں کے لکھے اور پڑھے کو مستند سمجھتے ہیں دوسروں کے تجربات سے فائدہ ضرور اُٹھانا چاہیے مگر میری ذاتی رائے میں سب سے پہلے خود بھی پڑھنا چاہیے بدلتے حالات وقعات کے ساتھ آپ کیسے بدل رہے ہیں بہتر یا بد تو ہو رہے ہیں کیا وجوہات ہیں کے ہماری ترجیحات وہی ہیں کہ بدل گئیں بدلی ہیں تو مثبت ہیں کہ منفی ہیں۔۔۔اگر ااپنا محاسبہ آپ کرنا شروع کریں توشاہد ہم خود کو بہتر بناسکیں ۔۔۔
لکھنا اور بھی تھا لیکن یہاں نماز عشاء کا ٹائیم ہوگیا
تاہم میرے الفاظ آپ یا کسی پڑھنے والے پر ناگوار گزریں تو معافی کا خواستگار ہوں کہ میرا کسی کا دل دکھانے کا ارادہ نہ تھا۔۔