طاہر القادری کا سحر؟ - ظہیر اختر بیدری

الف نظامی

لائبریرین
ملک کو درپیش انتہائی گمبھیرمسائل سے نکالنے کے لیے ملک کی ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں انتخابات پر متفق ہیں، یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ لیکن مولانا طاہر القادری نے اس جمہوری یکجہتی کے سمندر میں 14 جنوری کو اسلام آباد تک 10 ملین مارچ کے اعلان سے ایسی کھنڈت ڈال دی ہے کہ سارا ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوگیا ہے۔دہری شہریت کے حامل مولانا ایک طویل عرصے تک کینیڈا میں قیام کے بعد پاکستان آئے ہیں۔
قادری صاحب کی آمد پر مینار پاکستان کے سائے تلے جو جلسہ ہوا‘ تمام سیاسی حلقے اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک عوام کا اس سے بڑا اجتماع نہیں دیکھا گیا۔ سیاسی حلقوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے کہ قادری صاحب نے جو مطالبے کیے ہیں اور یہ مطالبے پورے نہ ہونے کی صورت میں جس لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے اگر قادری صاحب اس لانگ مارچ کو اسلام آباد لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اور کچھ ہو نہ ہو ان کی اشرافیائی جمہوریت کا تیا پانچا ضرور ہوجائے گا۔
مذہبی جماعتیں اس لیے خوفزدہ ہیں کہ قادری صاحب کی مقبولیت سے ا ن کی دکانداریاں خطرے میں پڑ جائیں گی اور یہ خطرہ کسی لبرل یا ترقی پسند قیادت کی طرف سے نہیں کہ اس پر کفر کے فتووں کی یلغار کرکے اس کا بیڑہ غرق کیا جائے بلکہ یہ خطرہ ایک ایسے ہم فکر مولوی سے ہے جو نمازی بھی ہے، پرہیزگار بھی اور مذہب کا ان سے زیادہ علم بردار بھی، اب لوہا لوہے کے سامنے ہے، بچاؤ کس طرح کیا جائے؟
بعض وقت اجتماع ضدین کی یہ مجبوری ہوجاتی ہے کہ انھیں اپنے ’’عظیم مقاصد‘‘ کے حصول میں شیروشکر بن جانا پڑتا ہے۔ سو یہ اجتماع ضدین ’’جمہوریت اور انتخابات‘‘ کے مشترکہ مفاداتی مسئلے پر شیروشکر ہوگیا ہے اور انتخابات اور جمہوریت کا سر اونچا رکھنے کے لیے قادری صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگا رہا ہے۔
الزامات کی اس بوچھاڑ کے ساتھ قادری صاحب کے ممکنہ لانگ مارچ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میڈیا میں سیاسی اور دوشالے اوڑھے مذہبی مدبرین اور ٹاک شوز کے ماہرین پاکستانی سیاست میں قادری صاحب کی انٹری کو مصطفی قریشی اور سلطان راہی کی انٹری سے تعبیر کرتے ہوئے اسے ’’ملک و ملت، انتخابات اور جمہوریت‘‘ کے لیے انتہائی ابھ شگون یعنی نامبارک کہہ رہے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی کلچر میں اس قسم کی آمدورفت اور الزامات کوئی نئی بات ہے نہ حیران کن۔ نہ ہی ہمیں قادری صاحب کی آمد اور ان کے دھماکہ خیز اعلانات وغیرہ کے پوسٹ مارٹم سے کوئی دلچسپی ہے کیونکہ جو دھماکہ انھوں نے مینار پاکستان پر کیا ہے اس سے بڑے دھماکے ہم اور ہمارے ہم خیال لکھاری برسوں سے اپنے کالموں میں کر رہے ہیں اور اس ملک کی اور اس ملک کے عوام کی تقدیر بدلنے کی جدوجہد کرنے والے سیاسی لوگ عشروں سے اس قسم کے دھماکے کرتے آرہے ہیں لیکن یہ دھماکے ہمیشہ اس لیے بے آواز رہے ہیں کہ میڈیا ہمیشہ ان طاقتوں سے لاتعلق رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست کے نقار خانے میں یہ دھماکے طوطی کی آواز بنے رہے۔ ہمارا میڈیا اگر کسی کو ملالہ کا رتبہ دیتا ہے، کسی کو گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے تو ہم سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘۔
طاہر القادری کا کوئی انقلابی ماضی نہیں ہے۔ لیکن وہ عوام میں نعرہ باز مولویوں کی طرح بدنام بھی نہیں ہیں وہ عقائد کو آسمان سے نیچے لاکر عوام کی زندگی میں تبدیلی کا وسیلہ بناتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں۔ غالباً ان کی اسی اپروچ نے طبقاتی نظام سے تنگ آئے ہوئے لاکھوں عوام کو مینار پاکستان کی طرف آنے کی ترغیب فراہم کی۔
اس لاکھوں عوام کے ہجوم کو کسی خاص قوت کی سازش کہنا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ 65 سال سے منظم متحد کارکنوں اور وسائل کی بھرمار کے ساتھ سیاست کرنے والے مذہبی رہنما لاکھوں عوام کو اپنی طرف کھینچنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟ طاہر القادری میں کیا کشش ہے کہ لاکھوں عوام ان کی طرف کھنچے چلے آئے؟ یہ کشش عوام کے مسائل سے سیاستدانوں کی مجرمانہ لاتعلقی ہے۔ قادری صاحب کے پاس نہ کوئی جادو کی چھڑی ہے نہ وہ قلوپطرہ ہیں کہ عوام انھیں دیکھنے چلے ۔آئیں۔
سیاسی ارتقاء کی تاریخ میں جمہوریت کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ لیکن اس فلسفے کو متعارف کرانے والوں نے جمہوریت کی ایک واضح تعریف بھی کردی ہے ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ کیا ہماری رائج الوقت جمہوریت، اس تعریف پر پوری اترتی ہے؟ جمہوریت کو ہر مرض کا واحد علاج سمجھنے اور کہنے والے محترم لوگ بدقسمتی سے ہماری جدید بادشاہت اور جمہوریت میں فرق کو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے، لیکن ہمارے عقل و دانش سے محروم ناخواندہ عوام اس فرق کو ہم سے زیادہ سمجھنے لگے ہیں۔
کیونکہ ان کی زندگیاں براہ راست اس جمہوریت کی زد میں ہیں، وہ مڈل کلاس کی سہولتوں سے بھی محروم بھوک، غربت، جہل، تعلیم، علاج کی سہولتوں سے محروم ایسی زندگی گزار رہے ہیں کہ انھیں اپنے انسان ہونے پر بھی شک ہوجاتا ہے۔ ایسی اذیت ناک زندگی گزارنے والوں کو اس فیوڈل طبقاتی جمہوریت کے کھلونے سے بہلانا اور اسے عوام کے مسائل کا واحد حل بتانا بذات خود ایک دانشورانہ جرم ہے۔
اس حوالے سے اس خوف کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر جمہوریت کی گاڑی ڈی ریل ہوجائے گی تو ملک فوجی آمریت یا انارکی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش یا زحمت ہی نہیں کی جاتی کہ جمہوریت کو سرے سے مسترد کرنے اور جمہوریت کو اس کی تعریف کے مطابق ڈھالنے میں فرق ہے۔دنیا کے آفاقی اصولوں کے مطابق ہر چیز وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے یہی ارتقاء کا اصول ہے۔ آج دنیا میں جو جمہوریت رائج ہے وہ صدیوں میں بھی انسانی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
آج کرہ ارض پر بسنے والے 7 ارب انسانوں میں سے 99 فیصد غربت اور جہل کا شکار ہیں تو اس کی ذمے دار یہی جمہوریت کی دیوی ہے جو قومی دولت کے اسّی فیصد حصے کو دو فیصد لیڈروں کے ہاتھوں میں جمع کردیتی ہے۔ وہ خود اپنے فلسفیوں کے اس فلسفے پر پوری نہیں اترتی کہ جمہوریت ’’عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے‘‘ کا نام ہے۔
سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے پردے میں عوام کو بیوقوف بنانے والی اس جمہوریت سے بے زار پاکستانی عوام طاہر القادری کے جلسے میں لاکھوں کی تعداد میں اس لیے آئے کہ یہ امید کر رہے ہیں کہ شاید یہ مسیحا انھیں خاندانی جمہوریت کے عذاب سے نجات دلائے۔ جب قادری خاندانی جمہوریت اور خاندانی لیڈروں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آواز ہے ۔
مسئلہ نہ طاہرالقادری کا ہے، نہ ان کی جماعت منہاج القرآن کا، نہ کسی نادیدہ قوت کی سازش کا، نہ کسی خفیہ ایجنڈے کا، مسئلہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ بھوکے عوام کا ہے جو 65 سال سے اس امید پر جمہوریت کا پٹارہ اپنے سروں پر اٹھائے پھر رہے ہیں کہ شاید یہ جمہوریت انھیں غربت، افلاس، جہل اور ناداری کے جہنم سے نجات دلائے گی لیکن جب وہ اس پٹاری میں پھن اٹھائے سانپوں کو دیکھتے ہیں تو پھر وہ قادری کی طرف مینار پاکستان کے اطراف لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری نے جس حکمت عملی کو عوام کے مسائل کے حل کے لیے منتخب کیا ہے وہ تشنہ اور ادھوری ہے کوئی فرد واحد مسیحا نہیں بن سکتا۔ اگر قوم کو خاندانی جمہوریت کے عذاب سے نجات دلانا ہے تو اس جمہوریت کے تمام مخالفین کو ایک مرکز پر لانا ہوگا اور ایک واضح مربوط اور منصوبہ بند حکمت عملی کے ساتھ اس اشرافیائی جمہوریت کے ڈرائیوروں کو تبدیل کرکے اسے عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے کے معیار پر لانا ہوگا۔ محض اسلام آباد مارچ سے کچھ نہیں ہوگا، انتہا پسند طاقتیں انارکی چاہتی ہیں، انارکی سے بچتے ہوئے اشرافیائی جمہوریت سے نجات کا راستہ اپنانا ہوگا۔
 

حماد

محفلین
محترم الف نظامی صاحب! کیاایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ طاہر القادری کے نام سے ایک دھاگہ کھول لیں اور ان سے متعلقہ تمام تر مواد وہیں شیئر کرتے رہیں۔ طاہرالقادری کےنام سے شروع کئے گئے دھاگوں کی بھرمار کی وجہ سے اب صورتحال یہ ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے اردو محفل طاہر القادری نامہ بن کر رہ گئ ہے۔
منتظمین توجہ فرمائیں!
ساجد
شمشاد
نبیل
 

عین عین

لائبریرین
اردو محفل پر طاہر القادری چوک بنا دیا جائے جسں میں پھول پہنانے اور نچھاور کرنے والے اور پتلے نذر آتش کرنے والے دونوں اپنا کام انجام دیں۔
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم
گستاخی معاف
الطاف بھائی میں تو قادری صاحب کی بیعت کے بعد کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی؟
 

الف نظامی

لائبریرین
اردو محفل پر طاہر القادری چوک بنا دیا جائے جسں میں پھول پہنانے اور نچھاور کرنے والے اور پتلے نذر آتش کرنے والے دونوں اپنا کام انجام دیں۔
السلام علیکم
گستاخی معاف
الطاف بھائی میں تو قادری صاحب کی بیعت کے بعد کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی؟
برائے مطالعہ:-
 
Top