طاہر القادری کی واپسی ۔۔۔ جواب کم سوال زیادہ۔۔ عبادالحق

متلاشی

محفلین
تحریک مہناج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میں مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے لوگوں کو اضطراب کا شکار کردیا ہے اور یہی اضطراب کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ نظام انتخاب کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور ’صالح‘ قیادت کی خاطر ملک میں انتخابات کرانے کے لیے نوے دن کی مہلت سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو یہ اقدام غیر آئینی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو پانچ برس کینیڈا میں گزرنے کے بعد اچانک کیا سوجھی کہ انہوں نے پاکستان آ کر ایک جلسے میں نہ صرف انتخابی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کردیا بلکہ نگران حکومت میں عدلیہ اور فوج کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کردی؟
پاکستان میں انتخابات سے پہلے اصلاحات یا احتساب کے نعرے یا مطالبات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سابق فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگایا گیا۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ جب سیاسی جماعتیں نئے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اس وقت ریاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ کیوں لگایا گیا ہے ۔کہاں سے اور کس نے ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ ذمہ داری سوپنی یا یہ ان کی اپنی کوئی خواہش ہے۔ یہ راز ابھی راز ہی ہے۔
پاکستان ٹوڈے کے چیف ایڈیٹر عارف نظامی کا کہنا ہے کہ اتنے عرصہ ملک سے باہر رہنا اور انتخابات سے پہلے منظم طریقہ سے پاکستان آنا اور اخراجات کرنا بغیر کسی مخصوص ایجنڈے کے نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک ہے لیکن ان کا جلسہ تحریکِ مہناجِ القرآن کے زیر انتظام کیا گیا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لاہور میں کامیاب جلسے کی بنیادی وجہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تنظیم مہناج القرآن ہے جو ایک منظم تنظیم ہے اور منظم طریقہ سے اس کا انتظام کیا گیا ۔
سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق مذہب کے نام لوگوں کو اکٹھا کرنا آسان کام ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے کے اخراجات کے بارے میں مسلم لیگ ن نے انگلی اٹھائی ہے کہ جلسے کی تشہیر اور اس کے انتظامات کے لیے کثیر رقم کہاں سے آئی ہے؟
ایک طرف تو ڈاکٹر طاہراالقادری انتخابی اصلاحات یا صالح قیادت کے لیے نگران حکومت کو نوے دنوں یعنی تین ماہ سے زیادہ مہلت دینے کی بات کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب انہوں نے حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لیے صرف تین ہفتوں یعنی چودہ جنوری کا وقت دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار نے تین ہفتوں کی مہلت کو غیر سنجیدہ رویہ قرار دیاہے ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد میں دوبارہ ایک اجتماع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا تحریک مہناج القرآن کے سربراہ دوبارہ بڑا اجتماع کرنے میں کامیاب ہوں گے اس بارے میں سیاسی تجزیہ نگار کوئی زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کہ وہ اسلام آباد کی طرف سے مارچ کریں اور ان کے ہمراہ لوگوں کی بڑی تعداد ہو۔
گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے عقیدت مندوں کو کسی بڑے امتحان میں نہ ڈالیں۔
تجزیہ نگار(عبادی الحق۔۔۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)
 

arifkarim

معطل
طاہرالقادری کی حالیہ مہم عمران خان کی تحریک انصاف کو الیکشن سے قبل نظر انداز کرنے کیلئے کی گئی ہے۔ جسمیں ظاہر ہے دیگر حریف سیاسی جماعتوں جیسے ن لیگ اور متحدہ شامل ہے۔ دیکھتے ہیں یہ تماشہ کبتگ چلتا ہے۔ الطاف حسین سے کٹھ جوڑ پر مبنی بعض حقائق تو پہلے ہی منظر عام پر آگئے ہیں۔
 

پپو

محفلین
بات درست کہی گئی مگر کس نے کہی اور کیا عوامل کارفرما ہیں یہ الگ بات ہے
ہونا تو یہی چاہیے کہ آئین کی شق 62 اور 63 کے معیار پر لوگ آئیں ورنہ تو یہی کچھ ہوگا جو ہوتا چلا آیا ہے
 

متلاشی

محفلین
یار فونٹ تو درست کریں پھر کھیل کھیلیں گے۔ :rolleyes:
لیجئے عثمان صاحب ۔۔۔آپ کی خواہش کی تکمیل کی جاتی ہے ۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔!
تحریک مہناج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میں مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے لوگوں کو اضطراب کا شکار کردیا ہے اور یہی اضطراب کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ نظام انتخاب کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور ’صالح‘ قیادت کی خاطر ملک میں انتخابات کرانے کے لیے نوے دن کی مہلت سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو یہ اقدام غیر آئینی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو پانچ برس کینیڈا میں گزرنے کے بعد اچانک کیا سوجھی کہ انہوں نے پاکستان آ کر ایک جلسے میں نہ صرف انتخابی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کردیا بلکہ نگران حکومت میں عدلیہ اور فوج کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کردی؟
پاکستان میں انتخابات سے پہلے اصلاحات یا احتساب کے نعرے یا مطالبات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سابق فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگایا گیا۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ جب سیاسی جماعتیں نئے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اس وقت ریاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ کیوں لگایا گیا ہے ۔کہاں سے اور کس نے ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ ذمہ داری سوپنی یا یہ ان کی اپنی کوئی خواہش ہے۔ یہ راز ابھی راز ہی ہے۔
پاکستان ٹوڈے کے چیف ایڈیٹر عارف نظامی کا کہنا ہے کہ اتنے عرصہ ملک سے باہر رہنا اور انتخابات سے پہلے منظم طریقہ سے پاکستان آنا اور اخراجات کرنا بغیر کسی مخصوص ایجنڈے کے نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک ہے لیکن ان کا جلسہ تحریکِ مہناجِ القرآن کے زیر انتظام کیا گیا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لاہور میں کامیاب جلسے کی بنیادی وجہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تنظیم مہناج القرآن ہے جو ایک منظم تنظیم ہے اور منظم طریقہ سے اس کا انتظام کیا گیا ۔
سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق مذہب کے نام لوگوں کو اکٹھا کرنا آسان کام ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے کے اخراجات کے بارے میں مسلم لیگ ن نے انگلی اٹھائی ہے کہ جلسے کی تشہیر اور اس کے انتظامات کے لیے کثیر رقم کہاں سے آئی ہے؟
ایک طرف تو ڈاکٹر طاہراالقادری انتخابی اصلاحات یا صالح قیادت کے لیے نگران حکومت کو نوے دنوں یعنی تین ماہ سے زیادہ مہلت دینے کی بات کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب انہوں نے حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لیے صرف تین ہفتوں یعنی چودہ جنوری کا وقت دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار نے تین ہفتوں کی مہلت کو غیر سنجیدہ رویہ قرار دیاہے ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد میں دوبارہ ایک اجتماع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا تحریک مہناج القرآن کے سربراہ دوبارہ بڑا اجتماع کرنے میں کامیاب ہوں گے اس بارے میں سیاسی تجزیہ نگار کوئی زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کہ وہ اسلام آباد کی طرف سے مارچ کریں اور ان کے ہمراہ لوگوں کی بڑی تعداد ہو۔
گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے عقیدت مندوں کو کسی بڑے امتحان میں نہ ڈالیں۔
تجزیہ نگار(عباد الحق۔۔۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)
 

ظفری

لائبریرین
مجھے طاہر القادری سے کوئی پُرخاش نہیں ہے۔ اورمیں گذشتہ بیس سال سے امریکہ میں مقیم ہوں۔ مگر مجھے یاد پڑتا ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں طاہرالقادری نے 1981 میں اپنے ادارے منہاجِ القرآن کی بنیاد خالص صوفیانہ عقائد کی بنیاد پر رکھی تھی ۔ اور پھراس کی شہرت دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی ۔ جب میں 1989 میں فرسٹ ائیر میں پہنچا تو ان کی شہرت کا ایک عالم تھا ۔ ان دنوں کالج میں کسی سے ان کے بارے میں کسی بحث کا کھاتہ کُھلتا تھا تو سب ان کی صوفیانہ صلاحیتوں کی تعریف کیا کرتے تھے ۔ میں یہی کہتا تھا کہ دیکھنا " عنقریب طاہر القادری صاحب اپنی سیاسی جماعت کا افتتاح کرنے والے ہیں " اور پھر 25 مئی 1989 کو انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی " پاکستانی عوامی تحریک " کی بیل داغ دی ۔ میرا ان سے بس یہیں اختلاف تھا ۔ باقی آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔
 
مجھے طاہر القادری سے کوئی پُرخاش نہیں ہے۔ اورمیں گذشتہ بیس سال سے امریکہ میں مقیم ہوں۔ مگر مجھے یاد پڑتا ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں طاہرالقادری نے 1981 میں اپنے ادارے منہاجِ القرآن کی بنیاد خالص صوفیانہ عقائد کی بنیاد پر رکھی تھی ۔ اور پھراس کی شہرت دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی ۔ جب میں 1989 میں فرسٹ ائیر میں پہنچا تو ان کی شہرت کا ایک عالم تھا ۔ ان دنوں کالج میں کسی سے ان کے بارے میں کسی بحث کا کھاتہ کُھلتا تھا تو سب ان کی صوفیانہ صلاحیتوں کی تعریف کیا کرتے تھے ۔ میں یہی کہتا تھا کہ دیکھنا " عنقریب طاہر القادری صاحب اپنی سیاسی جماعت کا افتتاح کرنے والے ہیں " اور پھر 25 مئی 1989 کو انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی " پاکستانی عوامی تحریک " کی بیل داغ دی ۔ میرا ان سے بس یہیں اختلاف تھا ۔ باقی آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔
یار ظفری بات ایسی ہے کہ طاہر القادری سے لاکھ اختلاف سہی وہ چاہے فراڈی سہی لیکن وہ منہاج القرآن کے نام سے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھ گیا ہے جس نے عنقریب ایک بڑی ہی تعمیری سوچ اور کام کرنا ہے یا پھر ایک عظیم تباہی پھیلانی ہے۔
ایک دوست کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں جاوید ہاشمی اور طاہر القادری زمانہ طالب علمی میں اکھٹے ہوئے تو یہ دونوں انجمن طلبائے اسلام یعنی شاہ احمد نورانی گروپ میں تھے تو طاہر القادری نے کسی بات پر جاوید ہاشمی کو کہا کہ میں تم کو مولانا مودودی سے بڑا عالم اور سیاستدان بن کر دکھاؤنگا ۔۔۔۔۔۔ واللہ وہ بات پوری ہوئی ۔۔۔۔۔۔ اب دیکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام ایک عظیم لیڈر کے طور پر کب سامنے آتے ہیں کیونکہ شروعات تو ہوچکی ہیں ۔۔۔ قارئین کو واضح کرتا چلوں کہ مجھے یہ شخص بہت ناپسند ہے کیوں ناپسند ہے یہ بتانا ذاتیات میں آتا ہے اس وجہ سے بتا نہیں سکتا ہوںکیونکہ اس سے یوسف نمبر دو اور خزانے کے متلاشی ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیں گے اور فی الحال اردو محفل اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یوسف نمبر2 اور ًخزانے کے متلاشی نے پہلے ہی ساجد بھائی کی زمہ داریوں کو بڑھاد یا ہے۔
 

متلاشی

محفلین
یار ظفری بات ایسی ہے کہ طاہر القادری سے لاکھ اختلاف سہی وہ چاہے فراڈی سہی لیکن وہ منہاج القرآن کے نام سے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھ گیا ہے جس نے عنقریب ایک بڑی ہی تعمیری سوچ اور کام کرنا ہے یا پھر ایک عظیم تباہی پھیلانی ہے۔
ایک دوست کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں جاوید ہاشمی اور طاہر القادری زمانہ طالب علمی میں اکھٹے ہوئے تو یہ دونوں انجمن طلبائے اسلام یعنی شاہ احمد نورانی گروپ میں تھے تو طاہر القادری نے کسی بات پر جاوید ہاشمی کو کہا کہ میں تم کو مولانا مودودی سے بڑا عالم اور سیاستدان بن کر دکھاؤنگا ۔۔۔ ۔۔۔ واللہ وہ بات پوری ہوئی ۔۔۔ ۔۔۔ اب دیکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام ایک عظیم لیڈر کے طور پر کب سامنے آتے ہیں کیونکہ شروعات تو ہوچکی ہیں ۔۔۔ قارئین کو واضح کرتا چلوں کہ مجھے یہ شخص بہت ناپسند ہے کیوں ناپسند ہے یہ بتانا ذاتیات میں آتا ہے اس وجہ سے بتا نہیں سکتا ہوںکیونکہ اس سے یوسف نمبر دو اور خزانے کے متلاشی ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیں گے اور فی الحال اردو محفل اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یوسف نمبر2 اور ًخزانے کے متلاشی نے پہلے ہی ساجد بھائی کی زمہ داریوں کو بڑھاد یا ہے۔
روحانی بابا صاحب۔۔۔!
شروعات تو وہ کب کی کر چکے ۔۔۔۔ بلکہ عوامی تحریک کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی بھی بنائی تھی ۔۔۔۔ مگر امتدادِ زمانہ کی نظر ہو گئی ۔۔۔! یہ دوسری باری ہے ۔۔۔۔!
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔۔۔!
اور دوسرا مجھے آپ کا ‘‘خزانے کا متلاشی‘‘ کا خطاب پسند نہیں آیا ۔۔۔! میں نے کبھی بھی آپ کے نام کی تضحیک نہیں کی ۔۔۔۔!اس لئے بہتر ہے آپ بھی اس سے گریز کریں ۔۔۔!
 
طاہرالقادری کی حالیہ مہم عمران خان کی تحریک انصاف کو الیکشن سے قبل نظر انداز کرنے کیلئے کی گئی ہے۔ جسمیں ظاہر ہے دیگر حریف سیاسی جماعتوں جیسے ن لیگ اور متحدہ شامل ہے۔ دیکھتے ہیں یہ تماشہ کبتگ چلتا ہے۔ الطاف حسین سے کٹھ جوڑ پر مبنی بعض حقائق تو پہلے ہی منظر عام پر آگئے ہیں۔
صاحب کس دنیا میں رہتے ہیں؟ یہ سود مند تحریک انصاف کے لیے ہی ہے۔ اور اس تحریک کا سب سے بڑا نقصان ن لیگ کو ہوگا۔
 
روحانی بابا صاحب۔۔۔ !
شروعات تو وہ کب کی کر چکے ۔۔۔ ۔ بلکہ عوامی تحریک کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی بھی بنائی تھی ۔۔۔ ۔ مگر امتدادِ زمانہ کی نظر ہو گئی ۔۔۔ ! یہ دوسری باری ہے ۔۔۔ ۔!
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔۔۔ !
اور دوسرا مجھے آپ کا ‘‘خزانے کا متلاشی‘‘ کا خطاب پسند نہیں آیا ۔۔۔ ! میں نے کبھی بھی آپ کے نام کی تضحیک نہیں کی ۔۔۔ ۔!اس لئے بہتر ہے آپ بھی اس سے گریز کریں ۔۔۔ !
ارے ارے ارے متلاشی بھیا آپ تو ناراض ہوگئے ہیں ۔۔۔۔ اجی چنداں فکرا نہ کریں روحانی بابا ہیں نا حضور۔
جناب من دراصل آپ نے ڈاکٹر صاحب کے پیچھے تن من دھن کی بازی لگادی ہے دراصل دیکھیں خزانے پوشیدہ ہوتے ہیں ان کو کھوجنا نکالنا ایک فن ہے اور انتہائی مشکل ترین اعمال میں سے ہے۔
برسبیل تذکرہ ذکر کرتا چلوں کہ خزانے کے موکل جنات انتہائی طاقتور ترین قسم کے جنات ہوتے ہیں اور جن کی طاقت ور ترین قسم عفریت سے بڑھ کر ان کا درجہ ہے ان کو ارساد کہتے ہیں۔ اور یہ واحد شکل ہے جو کہ اتنی طاقتور ہے کہ انسان کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ اس مستعار زندگی میں ان سے بھی پالا پڑا ہے بہرحال اس قسم کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ میرے خیال سے اچھے اچھے کام کرکے اللہ تبارک تعالیٰ کے چھپائے ہوئے خزانوں کے متلاشی ہیں ۔جیسے کہ آپ نے بھی سنا ہوگا کہ علم کے خزانے کو سفر اور بھوک میں پوشیدہ کردیا گیا ہے لیکن اس خزانے کے متلاشی لوگ گھر میں بیٹھے اور تونگری کی حالت میں کھوجنے نکام کوشش میں مصروف ہیں ۔ دیکھیں خزانے کی اتنی اہمیت ہے اس کے متلاشیوں کو اس حدیث قدسی کی بابت علم ہونا چاہیئے کہ اللہ تبارک تعالیٰ بھی فرماتے ہیں کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں۔
تو متلاشی صاحب میرے خیال میں میرے حسن ظن کے مطابق آپ بھی حسنات کرکے اور اپنے تئیں شیخ الاسلام کو خزانے سے نکالنا چاہتے ہیں کیونکہ بقول آپ کے فی زمانہ یہ صنم یہ بُت خزانوں پر بھاری ہے کیونکہ مغربی منڈی میں اس کی بہت مانگ اور طلب ہے۔ لگے رہو منا بھائی سانوں کی تے ساڈا کی۔
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہیں حکم اذاں لاالہ الااللہ
 

پپو

محفلین
لیجئے عثمان صاحب ۔۔۔ آپ کی خواہش کی تکمیل کی جاتی ہے ۔۔۔ ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔ !
تحریک مہناج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میں مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے لوگوں کو اضطراب کا شکار کردیا ہے اور یہی اضطراب کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ نظام انتخاب کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور ’صالح‘ قیادت کی خاطر ملک میں انتخابات کرانے کے لیے نوے دن کی مہلت سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو یہ اقدام غیر آئینی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو پانچ برس کینیڈا میں گزرنے کے بعد اچانک کیا سوجھی کہ انہوں نے پاکستان آ کر ایک جلسے میں نہ صرف انتخابی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کردیا بلکہ نگران حکومت میں عدلیہ اور فوج کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کردی؟
پاکستان میں انتخابات سے پہلے اصلاحات یا احتساب کے نعرے یا مطالبات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سابق فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگایا گیا۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ جب سیاسی جماعتیں نئے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اس وقت ریاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ کیوں لگایا گیا ہے ۔کہاں سے اور کس نے ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ ذمہ داری سوپنی یا یہ ان کی اپنی کوئی خواہش ہے۔ یہ راز ابھی راز ہی ہے۔
پاکستان ٹوڈے کے چیف ایڈیٹر عارف نظامی کا کہنا ہے کہ اتنے عرصہ ملک سے باہر رہنا اور انتخابات سے پہلے منظم طریقہ سے پاکستان آنا اور اخراجات کرنا بغیر کسی مخصوص ایجنڈے کے نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک ہے لیکن ان کا جلسہ تحریکِ مہناجِ القرآن کے زیر انتظام کیا گیا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لاہور میں کامیاب جلسے کی بنیادی وجہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تنظیم مہناج القرآن ہے جو ایک منظم تنظیم ہے اور منظم طریقہ سے اس کا انتظام کیا گیا ۔
سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق مذہب کے نام لوگوں کو اکٹھا کرنا آسان کام ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے کے اخراجات کے بارے میں مسلم لیگ ن نے انگلی اٹھائی ہے کہ جلسے کی تشہیر اور اس کے انتظامات کے لیے کثیر رقم کہاں سے آئی ہے؟
ایک طرف تو ڈاکٹر طاہراالقادری انتخابی اصلاحات یا صالح قیادت کے لیے نگران حکومت کو نوے دنوں یعنی تین ماہ سے زیادہ مہلت دینے کی بات کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب انہوں نے حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لیے صرف تین ہفتوں یعنی چودہ جنوری کا وقت دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار نے تین ہفتوں کی مہلت کو غیر سنجیدہ رویہ قرار دیاہے ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد میں دوبارہ ایک اجتماع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا تحریک مہناج القرآن کے سربراہ دوبارہ بڑا اجتماع کرنے میں کامیاب ہوں گے اس بارے میں سیاسی تجزیہ نگار کوئی زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کہ وہ اسلام آباد کی طرف سے مارچ کریں اور ان کے ہمراہ لوگوں کی بڑی تعداد ہو۔
گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے عقیدت مندوں کو کسی بڑے امتحان میں نہ ڈالیں۔
تجزیہ نگار(عباد الحق۔۔۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)

بھائی جان انتخابی اصلاحات کا یہ وقت نہیں دیا بلکہ ایک نگران صالح حکومت تشکیل دینے کے لئے وقت دیا ہے انتخابی اصلاحات وہ آنے والی حکومت کرے گی چاہے نوے دن لگیں یا اس سے زیادہ وقت ظاہر ہے چور چوروں کا کیا احتساب کرے گا وہ آنے والی حکومت اگر بن گئی تو اس کو یہ کرنا ہے کہ کہ الیکشن میں حصہ لینے والے افراد آئین کی آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے اتراتے ہوں ورنہ پھر نمبردار کا بیٹا تو نمبردار بن ہی رہا ہے
 

یوسف-2

محفلین
[quote="عسکری, post: 1150451, member: 2340"]سمجھ نہیں آ رہا ہو کیا رہا ہے پر اس کے پیچھے معاملہ ہے کچھ :sad:[/quote]

1846.gif

اب سمجھ آگیا کہ نہیں :D بھائی سیدھی سی بات ہے کہ مجھے نگراں وزیر اعظم بنا دیں۔ میں ”انتخابی نظام“ کو اس کی موجودہ خامیوں سے مکمل طور پر” پاک صاف “ کرنے کے بعد (اور اس عمل میں جتنا بھی عرصہ لگتا ہے، لگے گا) عام انتخابات کروا دوں گا۔ اور اگر ایسا نہیں ہوا تو نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈاں دیانگے :eek:
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
لانگ مارچ کی تیاریاں نظر نہیں آ رہیں ۔۔۔ لگتا ہے کچھ "گڑبڑ" ہو گئی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب تو ایم کیو ایم کے "سحر" سے ہی نہیں نکل پائے ابھی تک ۔۔۔ ایم کیو ایم طاہرالقادری صاحب کی حمایت کیوں کر رہی ہے؟ یہ ایک سوال ہے۔ کون جواب دے گا اس کا؟
 
Top