محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
ہے دل کشی نمایاں نہ لہجے میں کاٹ ہےیہ ٹوٹنا بکھرنا، یہ پھر بکھر سمٹنا
یہ عشق کی ادائیں، کیسی ہیں قاتلانہ
جیسے ہو وہ غزل کسی نا پختہ کار کی
آخری تدوین:
ہے دل کشی نمایاں نہ لہجے میں کاٹ ہےیہ ٹوٹنا بکھرنا، یہ پھر بکھر سمٹنا
یہ عشق کی ادائیں، کیسی ہیں قاتلانہ
لو بھلا حیرت ہوئی اس خیال پرنظر تیری آمد کی ہے منتظر
بھلا ہجر میں کیسے ہوگی غزل
انا کی جنگ جیت لیلب پہ نغمۂ عشق ہے ،سرور ہے وصال کا
نیند بھی ہے خوب ہی اور خواب بھی کمال کا
راتوں کی نیند دن کا سکوں تک اجڑ گیاانا کی جنگ جیت لی
ہاں مگر اس کو ہار کر
واہ۔ لاجواب۔راتوں کی نیند دن کا سکوں تک اجڑ گیا
اس سے بچھڑ کے عمر کا آزار لے لیا
راتوں کی نیند دن کا سکوں تک اجڑ گیا
اس سے بچھڑ کے عمر کا آزار لے لیا
روکے ہوئے تھے آنسوں کتنے جتن سے ہماب ایسا بھی نہیں ہے کہ اُس بے وفا کا ذکر
ہم سُن سکیں گے آنکھوں کے آنسو پیے بغیر
روکے ہوئے تھے آنسوں کتنے جتن سے ہم
آئی جو تیری یاد تو ناگاہ بہہ گئے
نصاب زندگی میرا انتخاب رہایارو ہم اُن کا ذکر زباں پر نہ لائیں گے
آنکھیں ہمارا ساتھ نہ دیں گر تو کیا کریں
بور ہوگئے یا عمر کا تقاضہ ہے، کیوں دلاس ماہ رو نے چہرہ نکالا دریچے سے
ہر موج بحر میں ہوئی جاتی ہے مضطرب
وعید یہ نہیں کہ ارمان سو گئےبور ہوگئے یا عمر کا تقاضہ ہے، کیوں دل
اب نہیں مچلتا ہے دیکھ کر حسینوں کو
زیدی صاحب،بھیا شعر "و' سے کہنا تھاوعید یہ نہیں کہ ارمان سو گئے
ثابت ہوا کہ آپ بھی بزرگ ہو گئے
دیکھیے۔۔۔زیدی صاحب،بھیا شعر "و' سے کہنا تھا