اکمل زیدی
محفلین
یوں لگ رہا ہے سفر طویل ابھی کرنا ہےنعمہ سا گونج اٹھا جو محفلوں میں ہمدم
کس کی ہوئی یہ آمد کہ میلا سا لگ گیا ہے
مگر اطمینان یہ کہ ہم زباں ہیں ہمسفر
یوں لگ رہا ہے سفر طویل ابھی کرنا ہےنعمہ سا گونج اٹھا جو محفلوں میں ہمدم
کس کی ہوئی یہ آمد کہ میلا سا لگ گیا ہے
مرکز پہ اگر ہے تو رہے گا وہ یکسورہے فکر فردا میں گم اتنے ہم
کہ ہوتا رہاحال ماضی میں ضم
اب جا کے کھلا ہے انکا گریز اکملیہ عشق بھی ہے خود سے، خود ہی کو خود میں پایا
ہر سو ہے نرگسیت، تب یہ سمجھ میں آیا
نے تمنا کوئی، نے کوئی آرزواب جا کے کھلا ہے انکا گریز اکمل
ملتا ہوں ہر کسی سے مسکرا کے میں
واقف ہی نہیں عجز کے اسرار سے ورنہنے تمنا کوئی، نے کوئی آرزو
میرے اندر بھی تو، تو مرے چار سو
نہ رہا امکاں اب اس کے لوٹ آنے کاواقف ہی نہیں عجز کے اسرار سے ورنہ
دنیا میں ہی جنت کا مزا پائے یہ انساں
اس سے تو غالب کا ایک شعر یاد آ گیا۔نہ رہا امکاں اب اس کے لوٹ آنے کا
طاق امید پر دیا پھر بھی جلا رکھا ہے
۔۔مطلب کیا میں یہ سمجھوں کے طائر خیال کی پرواز بلندی پر ہے ۔۔۔۔اگر مرزا صاحب کے خیال کے قریب سے خیال گذرا ہے تو۔۔۔اس سے تو غالب کا ایک شعر یاد آ گیا۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
۔۔مطلب کیا میں یہ سمجھوں کے طائر خیال کی پرواز بلندی پر ہے ۔۔۔۔اگر مرزا صاحب کے خیال کے قریب سے خیال گذرا ہے تو۔۔۔
یارب تو بخش دینا میرے گناہ سارے
تھوڑا بہک گیا ہوں میں تیری انجمن میں
نئے عشاق کی یہ سہل پسندی! کہ سدانینوں سے جب پلارہے ہوں وہ
رند و زاہد سبھی بہکتے ہیں
نگاہوں سے ہم کو پلاتے ہیں جونینوں سے جب پلارہے ہوں وہ
رند و زاہد سبھی بہکتے ہیں
یوسُف بھائی آپ نے "ی" پر شعر دینا تھانئے عشاق کی یہ سہل پسندی! کہ سدا
گوگلی نقشے سے لیلی کے مکاں تک پہنچے
یوسُف بھائی آپ نے "ی" پر شعر دینا تھانئے عشاق کی یہ سہل پسندی! کہ سدا
گوگلی نقشے سے لیلی کے مکاں تک پہنچے
اسکو جب دیکھنا نہیں ممکن
پھر تماشہ لگا کیوں رکھا ہے
اسکے جلوے جلا کے رکھ دیں گےیہ تماشا تو اک بہانہ ہے
اس کے جلوؤں کو دیکھ پانے کا