غزل
غضب کی دھوپ ہے میں جس میں روز جلتا ہوں
"نظر ہے ابرِ کرم پر درختِ صحرا ہوں"
ادھر سے ابر اٹھے باغ و راغ پر برسے
میں مر رہا ہوں، اک اک بوند کو ترستا ہوں
نہ میری سوچ ہے اپنی، نہ چال ہے اپنی
تو سچ ہی کہتی ہے دنیا کہ بے سر و پا ہوں
بغیر تجربہ کیسے سمجھ سکے گا کوئی
لباس صاف ہے لیکن میں دل کا میلا ہوں
میں مکر و حرص و ہوا میں ہوں مثلِ آہن و سنگ
مگر صداقت و حسنِ عمل میں کچا ہوں
بس اپنی ذات ہی مجھ کو دکھائی دیتی ہے
نہیں ہے سوجھتا کچھ اور ایسا اندھا ہوں
اگر ہے آبِ فراواں تو کیوں کسی کو ملے
جو اپنا کھیت ہی سینچے میں ایسا دریا ہوں
خبر نہیں کہ کدھر گم ہے منزلِ مقصود
میں بار بار انہی راستوں سے گزرا ہوں
(خواجہ محمد زکریا)
وہ نم نمو، میں زمینِ کرختِ صحرا ہوں
کہوں تو کیا کہ ہم آہنگِ بختِ صحرا ہوں
امڈ پڑے ہیں بیاباں، اجاڑ آنکھوں میں
میں اپنی ذات میں اب ایک لختِ صحرا ہوں
وہ ساتھ چھوڑ تو دے میری ہم نصیبی کا
یہ مسئلہ ہے کہ میں ساز و رختِ صحرا ہوں
اجڑ گیا مرا صحرا غبار کر کے مجھے
سنور رہا ہوں کہ تحریرِ بختِ صحرا ہوں
نگل لیا ہوسِ قیس پیشگی نے مجھے
قتیلِ تہلکہء تاج و تختِ صحرا ہوں
کہو کہ ریگِ رواں بھی گلال لگتی ہے
کہو کہ لالہء صحرا ہوں، بختِ صحرا ہوں
کھڑا ہوں سوکھی ہوئی ٹہنیاں اٹھائے ہوئے
"نظر ہے ابرِ کرم پر ، درختِ صحرا ہوں"
ہوا بٹا نہ سکی میرا بارِ غم خالد
وہ جانتی تھی کہ میں ریگِ سختِ صحرا ہوں
(خالد احمد)
غزل
مجھے خبر ہے کہ میں کون اور کیسا ہوں
مگر میں اپنی طرف ڈرتے ڈرتے چلتا ہوں ----------- (تکرار بری لگ رہی ہے )
اگر وہ چاہے تو میں پھول پھل بھی سکتا ہوں
"نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہوں"------------- ( اچھی گرہ ہے )
اسی کی ٹوہ میں پھرتا ہوں گھر کے اندر ہی
غزل نہ جانے ----- رکھ کے بھول بیٹھا ہوں-------------( یہاں شاید ’’ کہاں ‘‘ ہے )) ؟؟
زمانہ مجھ سے شناسا دکھائی دیتا ہے
میں اپنی ذات کے جنگل میں جب سے کھویا ہوں-------------- ( معانی بہ بطنِ شاعر / غیر مربوط مصرعے)
کسی منڈیر پہ جلتے ہوئے دئے کی طرح -------- (دیے ۔۔املا کی غلطی)
مجھے جو دیکھے اسے راستا دکھاتا ہوں------------ ( دیے کی طرح دیکھنا محلِنظر ہے )
کسی بھی لمحے مجھے ہر طرف بکھرنا ہے ------------- ( اچھا مصرع ہے )
ستم کے دشت میں ٹھہرا ہوا بگولا ہوں--------------( بگولہ ٹھہرنے سے اس کی موت ہے ۔ جب موت ہے تو وجود نہ رہا )
فلک سے روز بلائیں اترتی رہتی ہیں
زمیں کی گود میں سمٹا ہوا بھی ڈرتا ہوں---------------------- ( غزل کا پیٹ بھرنے کو کہا گیا شعر)
محمدِ عربی کا غلام ہوں رزمی
انہی کے نقشِ کفِ پا کا ایک ذرہ ہوں
(بشیر رزمی)
غزل
مثالِ ذرہء بے مایہ لختِ صحرا ہوں
اسی سبب سے شہِ تاج و تختِ صحرا ہوں ---------- (شہِ تاج و تختِ کی ترکیب مصرع کو گہنا رہی ہے ۔ )
میں بازگشت ہوں شاید کسی بگولے کی-------------------- ( اچھا مصرع ہے وا ہ واہ ۔۔ مزید حاشیے میں)
بھٹک رہا ہوں کہ صوتِ کرختِ صحرا ہوں ---------------------- ( صوتَ کرختِ صحرا ۔۔۔۔ غیر حقیقی بات اور بھونڈا قافیہ )
صدا جرس کی، کبھی نقشِ پائے ناقہ ہے --------------------------------- ( اچھا مصرع ہے وا ہ واہ ۔۔ مزید حاشیے میں)
تلاش میں ہوں کسی کی، میں بختِ صحرا ہوں
مری دعا میں طلب ہے کسی سمندر کی
"نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہوں" ----------------------- (گرہ اچھی ہے ۔ بہت خوب)
مری نظر میں ہے اے سعد شامِ کرب و بلا------------------------ ( اچھا مصرع ہے )
میں آشنائے شبِ راہِ سختِ صحرا ہوں ------------------ ( کثرتِ اضافت اور قلتِ معانی کا آئنہ دار مصرع)
(سعداللہ شاہ)
ابھی اور بھی غزلیں ہیں۔ ٹائپ نہیں کر پا رہا۔لا جواب، بہت شکریہ نوید صاحب، سبھی غزلیں بہت اچھی ہیں!
کبھی دوسروں کو بتائے بغیر بھی سیکھ لیا کرو۔ اعلان کرنا ضروری ہے کیا؟؟کیسا رہے گا اگر محفل پر بھی اس کا اہتمام کیا جائے ؟؟؟؟؟؟؟ سب اس میں حصہ لیے اس طرح ہمیں سیکھنے کا موقع ملے گا
اساتذہ حضرات کیا کہتے ہیں
دبستانِ بیاض کے مشاعرے میں قافیہ پابند نہیں کیا جاتا۔ایک بات پوچھنا تھی نوید بھائی کیا قوافی کا اعلان نہیں کیا گیا تھا کہ اس مصر ع میں قافیہ کیا ہے ؟
آپ اور خالد صاحب اور دیگر دو احباب نے ’’ بخت لخت ‘‘ اور دیگر دو صاحبا ن نے صحرا اور ڈرتا کے قوافی استعال کیے ۔۔
بہت خوب نوید بھائی ۔ رسید حاضر ہے مقدور بھر گزارشات پیش کرتا ہوں ۔ عنوان میں 2009 لکھا ہے اسے 2008 کردیں ۔
ابھی اور بھی غزلیں ہیں۔ ٹائپ نہیں کر پا رہا۔
آہستہ آہستہ کروں گا، کچھ طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔
خالد صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ سے وہ مجھے ان کی سافٹ کاپی دے دیا کریں گے۔اس میں میرے لئے آسانی رہے گی۔