301
صاحب : ول، رپٹ تھانہ میں کیا؟
نجبنیا : جی حضور کون کرتا، گھر میں کوئی مرد ذات تھا نہیں۔
صاحب : ول، تمہارا گھر کا آدمی کہاں ہے؟
نجبنیا: جی حضور کوئی بھی نہیں۔
صاحب: ول تو تم رنڈی ہے رنڈی؟
نجبنیا: جی ہاں، جو حضور سمجھیں۔
صاحب : ول اچھا، تم کو پھر عدالت بولائے گا، تم کو آنا ہو گا۔
نجبنیا: جی حضور، سر آنکھوں سے، جب آپ یاد کیجیے۔ آدھی رات کو یاد کیجیے گا، حاضر ہے۔ عدالت کا حکم عدول ہو سکتا ہے؟
302
اٹھارھواں باب
شیخ صاحب : (صاحب خانہ سے رُکھائی کے ساتھ) خداوند نعمت! آپ کا حکم پہنچا تھا، میں نے کہا تعمیل کرنا چاہیے۔ اگرچہ اُس وقت تپ اور درد سر میں زیادہ مبتلا تھا۔ لالہ صاحب کے یہاں ابھی تازہ ملازمت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا برسوں کے کاغذ پڑے ہیں، ٹھیک کر دو۔ کیا عرض کروں، محض اس خیال سے گوارا کر لیا کہ ایک تو اس سرکار کی بدولت لالہ صاحب سے برسوں سے ہر طرح کی ملاقات ہے۔ بخدا اگر دوسری جگہ جاؤں اور سو روپے تنخواہ ہوں تو گوارا نہیں۔ پھر اس بات کو سوچتا ہوں کہ اسی سرکار کے معاملات لالہ صاحب کے ساتھ ہیں اور بہت سے میرے اپنے ہاتھوں کے، تمام امور طرفین کے، جیسے حساب کتاب کے، جائداد، وغیرہ کچہری کے کاغذات جو اس غلام کے سمجھے ہیں، کوئی دوسرا اس سے واقف نہیں ہو سکتا۔ گو کہ کاغذ میں سب موجود ہے، مگر ایک کاغذوں سے دیکھا ہوا حال اور دوسرا اپنے ہاتھ سے کیے ہوئے معاملے میں بڑا فرق ہے۔ نہیں تو حضور کے اقبال سے باہر دوست احباب کے اکثر خط آتے ہیں اور بیش قرار تنخواہ مقرر کرتے ہیں۔ حضور کی مرضی بھی تھی، کسی بات کا چھپانا قدیمانہ نمک خواری کے خلاف ہے۔ خلاصہ یہ کہ روبکاری کے دن فدوی حاضر تھا۔ کریم بخش اور مسماۃ کے اظہار سب سنے۔ اگرچہ کچہری کا
303
عملہ کہتا تھا، تم کو اس مقدمے کیا واسطہ؟ یہاں سے چلے جانا مناسب ہے۔ مگر میں نے کہا، کام اپنا نکال لینا چاہیے۔ کچہری کے کتے تو آپ جانتے ہیں، کچھ ان کو جب دے دلا کے راضی کیا، تو انہوں نے ٹھہرنے دیا۔ کریم بخش کے اظہار سے معلوم ہوا، وہ بھی اس چوری میں شامل تھا۔ اچھا ہوا، مشتبہ آدمی بر طرف کیا گیا۔ بڑی نمک حرامی کی بات ہے۔ میرے نزدیک اب ضرورت عامل کے پاس جانے آنے کی نہیں۔ اگرچہ اُنہوں نے پتے سب ٹھیک دیے اور کہا تھا، کسی وقت تم آؤ، میں جفر کے زور سے اس کا نام بھی نکال دوں؛ تو اب معلوم ہو گیا، خود اُس کی جورو نے اظہار دیا۔
صاحب خانہ : یہاں تک نوبت پہنچی؟
شیخ صاحب : جی حضور، نوبت کیا معنی، اس نے نالش کی اور خود ہی اُس کے یہاں چوری کی۔
صاحب خانہ : نہیں معلوم آپ کیا کہتے ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتا۔
شیخ صاحب : حضور اس مقدمے میں ایک رنڈی پیشہ ور مدعا علیہا ہے۔ کہتی ہے، میں علانیہ پیش کرتی ہوں۔ اور حضور کیا عرض کروں، ادب مانع ہے، یہ منے صاحب ہیں نہیں، ان سے کچھ واسطہ بتاتی ہے۔ اس کا بیان ہے، میں ان کے یہاں رہتی تھی، بیگم صاحب نے اُس کو نکال دیا۔ کریم بخش درمیانی تھا، نام بھلا سا بتاتی ہے اور سارا حلیہ کہتی ہے۔ خدا جانے، اُس کا دین ایمان۔ مگر تا نباشد چیز کے مردم نگوید چیزھا۔ آج کل صحبت بھی اچھی نہیں۔ زمانے کا یہی رنگ ہے، اب اس میں کیا ضرور قدغن ۔
304
صاحب خانہ : بھئی میرے تو حواس گئے۔
شیخ صاحب : اجی حضرت تردد کی کون بات، بلکہ کہیے مقدمے سے سرقے کا سراغ لگتا ہے۔ اب سب مال مل جائے گا۔ اچھا ہوا عامل صاحب کو مال دینا نہ پڑا۔ مگر ایک بات ہے، یہ سب مقدمہ سمجھا ہوا ایک بارسٹر صاحب کا ہے۔ چنانچہ میں نے اُنہیں کے ذریعے سے پانچ سو کے محنتانے پر سوال دے دیا، اپنے یہاں کے مال کا دعویٰ کیا۔ مگر بات ایسی آ پڑی کہ خاموشی مناسب معلوم ہوئی۔
صاحب خانہ : ہاں واللہ یہ تو اچھی بات تھی۔
شیخ صاحب : حضت بات یہ ہے کہ اس دن کی کارروائی بالکل مضر تھی۔ پولیس نے اُس مقدمۂ سرقہ میں لکھ دیا تھا، سب مال گھر ہی میں مل گیا، ہم کو کسی پر شبہ نہیں۔ وہی رپورٹ تھانے والوں نے کی۔ اب اگر دعویٰ مال مسروقہ کا کیا جاتا ہے تو اُلٹا مقدمہ قائم ہوتا ہے۔ اخفائے واردات تو بڑا جرم ہے۔ وہ تو کہیے بارسٹر صاحب نے بڑی کوشش کی، مگر عدالت نے اس بنا پر ہمارا دعویٰ خارج کر دیا کہ کوئی ثبوت نہیں، اور اس خطا پر کہ عدالت کو بے فائدہ تکلیف دی گئی، ایک ہزار روپیہ جرمانہ کیے۔ وہ تو کہیے اُسی وقت غلام جیل خانے جاتا مگر بارسٹر صاحب بڑے اشراف آدمی ہیں، انہوں نے اپنی ضمانت پر چھڑا کے مجھ سے کہا، آپ تو لمبے ہو جائیے اور چار بجتے بجتے زر جرمانہ داخل کیجیے۔ میں یہاں کا حال جانتا تھا۔ لالہ صاحب بے رقعہ کے اب دیں گے نہیں۔ انہوں نے کہا تھا کوئی جائیداد پاک نہیں، سب ہمارے مطالبے میں مکفول ہے۔ بلکہ اس پر دو تین دفعہ کو تلى دستاویزیں ہو گئیں، اب رتی بھر کسر نہیں۔ سمجھ بوجھ کے
305
روپیہ دیا جاوے گا۔ پس گھر آیا، جو کچھ اسباب زیور اثاثہ تھا، سب رہن رکھ دیا۔ واللہ پانی پینے کو کٹورا باقی نہیں۔ میں نے کہا، اپنی پرانی سرکار میں کہہ آؤں، وہ تو دینا ہی ہے۔
صاحب خانہ : اچھا بھئی دیکھو کچھ فکر کرتا ہوں۔ واللہ میں تو اس مقدمے میں بہت ہی زیر بار ہوا۔ افسوس ہے آپ ایسے کار گزار اہل کار مجھ جدا ہو گئے۔ مرزا صاحب گھر میں بیمار پڑے ہیں۔ جو جو آدمی میرے آرام کے تھے، ایک ایک کر کے سب برطرف ہو گئے۔
صاحب خانہ اور بیگم صاحب
صاحب خانہ : بیگم ایک بات کہنا ہے۔ اس وقت ایک بڑی ضرورت ہے۔ شیخ صاحب آئے ہیں اور کسی طرح فکر نہ ہو سکی۔ یہاں کچھ نہیں۔ مہاجن نے بھی جواب دے دیا۔ واللہ لالہ صاحب سے مجھے امید نہ تھی۔ ہمارے اُن کے معاملہ برسوں سے چلا آتا تھا، رتی بھر کا بل نہیں پڑا۔ سود جو انہوں نے مانگا ہم نے آنہ پائی سے مجرا دیا۔ کہتے تھے لاکھ روپیہ تک دینے کو حاضر ہوں۔ چوک کی دکانیں رھن ہو گئیں، قبضہ ہو گیا۔ گھر کا اسباب تھا، ضرورت کے وقت انہیں کے یہاں رھن ہوا۔ دیکھو تمہارے پاس کوئی شے ہو، اس وقت نکالو، آگے کہیں سے بندوبست کر دیا جاوے گا۔ سر دست کام تو نکلے۔
بیگم : تو اب اتنا بھی نہیں جو اس وقت اڑی پر کام آئے۔ میرے پاس بھی کچھ نہیں، نہیں کون بڑی بات تھی۔ ایک ایک کر کے جب ضرورت پڑی، گروی سے کام نکالا۔ اُس دن میں نے
306
ایک ضرورت سے دیکھا, زیور کا صندوق غائب۔ میں نے کہا کہیں اسباب میں دب گیا ہو گا، کسی وقت تلاش کروں گی۔ تب سے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے ہیں۔ اسی بات پر مغلانی سے حجت ہوئی، برطرف کیا۔ اور جو زیور اسباب تھا، جوڑے تھے، علم تھے، پٹکے تھے سب چوروں کے کٹے لگا۔ جو بچا کھچا، اُسی دن سے غایب ہے جس دن سے نجبنیا گئی۔ اب جو پوچھتی ہوں سب اُسی کا نام لیتے ہیں۔
صاحب خانہ : (غصے میں) آپ کو معلوم بھی ہے؟ وہ کمرہ لے کے آپ کے صاحب زادے کی بدولت رنڑی ہو گئی، کماتی ہے۔ اُسی سے تو سب معلوم ہوا۔
بیگم : لے بس سب کچھ منے صاحب کا صبر نہ سمیٹو۔ ابھی کل کا بچہ منہ سے دودھ کی بو تک گئی نہیں۔
صاحب خانہ : اجی بچہ ہے کہ درجنوں بچے جنا کر رکھ دے گا۔ وہ شہدا ہو گیا ہے۔ اُس کی صحبت میں لوگ تمام دنیا کے چھٹے ہوئے بھرے رہتے ہیں۔
بیگم : تمہیں نے خراب کیا۔ میں تو گھر کی بیٹھنے والی، میں ان باتوں کو کیا جانوں۔ اُوئی یہ بھی اُس پر طوفان۔
صاحب خانہ : بس کیوں بکتی ہو واہیات میرے سامنے۔ تمہاری نالائقی نے لاکھ کا گھر خاک کیا۔ مجھے بھی بھیک مانگنے کے لائق کر دیا۔ میں تو واللہ بعض وقت چاہتا ہوں کسی طرف منہ کالا کروں۔
بیگم : یہ ہم نے کیا یا تم نے؟ لو صاحب اپنی بلا ہمارے سر۔ اچھا میں نے گھر خاک کر دیا تو کوئی سلیقہ وند لائے ہوتے۔ یہاں تو جان خاک میں ملا دی اور کچھ بھاویں
307
نہیں۔ یہ اپنے تم جانو، تمہارا کام جانے۔ کیا خرچ کرتی ہوں؟ صاحب دعوتیں ہیں، جلسے ہیں، یہ کون کرتا ہے؟ مجھے کیا، دو پھلکے کھانے والی۔
صاحب خانہ : اچھا پھر دو ہی پیسے میں بسر کرو۔ یہ جھگڑا آئے دن کا اُٹھ نہیں سکتا۔ اب سنبھل کر چلو۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ تمہاری سمجھ میں کوئی بات آتی نہیں۔
بیگم : خوب سمجھتے ہیں۔ اب کیا ایسے احمق ٹھہرے۔ تمہاری چتون آج بہت دن بدل ہوئی ہے؟ ہنس دلی سے بات ہی نہیں کرتے۔ میاں جو کچھ منظور ہو صاف صاف کہہ دو۔
صاحب خانہ : اچھا تو اس خود رائی سے صاحب میرے ساتھ پسر نہ ہو سکتی، آپ جائیے اپنے میکے۔ تم کو بڑا غرور اپنے چھبیس روپے کے وثیقے پر، بس۔
بیگم : کیا تمہارا دیا ہوا ہے؟ جو آج چھبیس روپے ہوتے، گھر میں فاقہ تھا، حساب تو کرو، آج کے مہینے ہوئے ہیں، تم نے کوئی کوڑی دی ہے؟ نہ معلوم قرض دام سے کیوں کر بسر کرتی ہوں۔ جناب امیر کی قسم بال بال قرضے میں بندہی ہوئی ہوں۔ بزار میں آدمی کا نکالنا دشوار ہے۔ اور الٹے آئے ہیں ہم سے مانگنے۔ آج اگر ہزار ہوتا تو میں بازار ہی کا دیتی۔
صاحب خانہ : ہاں تو یہ کہے۔ یہ اور دھونس ہے۔ آپ نے بازار کا قرضہ بھی کر رکھا!
بیگم : لو صاحب زندہ جان، اُس کا خرچ ہی نہیں۔ ساڑھے چار سو تو بزاز کے ہو گئے۔ آج دو مہینے سے پلنگ کی چادریں نہیں ہیں، بزاز مارکین نہیں دیتا۔ ڈیڑھ سو روپیہ بنیے کا ہو گیا، پچھتر گھی والے کے، پچاس گوشت والے کے۔ چاول، زعفران
308
وغیرہ، پھٹکل کے لالہ جگ موہن مار واڑی کے کوئی پونے دو سو کا حساب ہو گا۔ کس کو کس کو کہوں۔ کبڑن کے پھلیوں، آموں، خربوزوں کے دام کوئی تین بیسی بتاتی ہے۔ لے کچھ نہیں تو ہزار روپیہ ہو تو چٹر پٹر ادا ہو۔
صاحب خانہ : معاذ اللہ، تم نے مجھ کو بالکل ڈبو دیا۔ منگواؤ ڈولی سوار ہو جاؤ ابھی۔ صورت سے نفرت ہو گئی۔
بیگم : اور یہاں کس کو رغبت ہے۔ جب دیکھو گھر میں رونی صورت بنائے آتے ہیں۔ صاحب ان کو ہزار روپیہ دے دو۔ نہیں سمجھتے ہیں، خود کوڑی کوڑی کو حیران دوں۔
صاحب خانہ : بس بس زیادہ نہ بولیے۔ اپنے کیے کی خوب سزا پائی۔ مگر تم بھی ایسی سزا پاؤ گی یاد کرو گی۔ آپ جائیے، اسی وقت جائیے، دونوں لڑکے چھوڑ جائیے۔
بیگم : تو تم دونوں لڑکوں کے لینے والے کون؟
صاحب خانہ : (بگڑ کے) ارے ہم کوئی ہیں ہی نہیں؟
بیگم : اچھا صاحب تم جانو تمہاری اولاد۔
صاحب خانہ : میں تو سمجھا تھا، کس کی بکری کون ڈالے گھاس۔ اگر تم نہیں مانتی ہو سہی۔
بیگم : میرے اور میرے بچوں کے واسطے خدا کا دیا ہوا سب کچھ۔ (روتی جاتی ہیں) وہ تو کہو میرے گھر کا وثیقہ تھا۔ اگر آج نہ ہوتا تو تمہاری بدولت فاقوں کی نوبت آتی۔ آج میرا دل پاش پاش ہو گیا۔ جہاں زبان سے اتنی بات نکلی، سر سے اونچا پانی ہو گیا۔ نہیں معلوم خدا کو کیا منظور ہے۔ خیر! ہم تو جاتے ہیں مگر یہ سمجھ لو، میں نے تمہارے گھر کو اپنا گھر ہمیشہ سمجھا۔ اپنے حسابوں نوابی تھی تو یہ تھی، بادشاہی تھی تو یہ تھی،
309
غریبی تھی تو یہ تھی۔ خیر اچھا جانتے ہیں، کچھ زبردستی نہیں۔ یہ تو خوشی کا سودا تھا۔ ماں اگر خیال ہے تو تمہارے آرام آسائش کا۔ یوں تو خدا رزاق ہے۔ اُس نے روٹی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ خدا جانے تمہاری سمجھ نہیں کیا آیا۔
صاحب خانہ : بس زیادہ نہ بکو، بہتر ہے اپنا چلتا دھندا کرو۔ کچھ آپ میری خدا نہیں۔ رانی روٹھیں گی، اپنا راج لیں گی، کسی کا سہاگ نہ لیں گی۔
بیگم : (زار و قطار روتی جاتی ہیں) دیکھو پھر میں کہتی ہوں، تمہارے دل میں کیا سمائی ہے؟ میں تو خیر جو حکم دو موجود ہوں؛ مگر دل دکھانا کس مذہب میں روا ہے؟
صاحب خانہ : (اور غصے ہو کے) دل دکھانا کیا معنی؟ موذی کے ضرر سے محفوظ رشتے کا خدا بھی حکم دیتا ہے۔ تم میری دشمن اور جانی دشمن اور اب چلی ہو باتیں بنانے۔ نا صاحب اب میں صورت نہ دیکھوں گا ؏
ارے یہ دل ہے پہلو میں کہ دشمن اس کو کہتے ہیں
میں انسانیت سے سب باتیں تمہاری سہتا جاتا تھا۔ جانتا تھا آج نہیں کل سنبھلو گی، وہ تو اور بگڑتی ہی چلی جاتی ہو۔ غضب خدا کا روپیہ پیسہ بھی سب خاک میں ملا دیا۔ جائداد جو تھی، خاک میں ملائی؛ بال بال قرض دار ہو گیا کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں۔ جائداد جو تھی مہاجن کے گھر پہنچی۔
بیگم : یہ نہ کہو، خدا نہ کرے۔ ہمارے دشمن مدعی، گھڑی بھر کا برا جیتنے والے۔ ابھی چوک کی دکانیں ہیں۔ حساب کرو، پندرہ روپے مہینہ آمدنی ہے، پھر یہ مکان ہے، بھلا کچھ نہ ہو گا۔ دس ہزار کا تو ہو گا۔
310
صاحب خانہ : کون کہتا ہے۔ وہ دکانیں بھی کم بخت گرو ہو گئیں۔ سود پر باہر کرا دیا، لالہ کا اُنہیں پر قبضہ ہے۔ مکان پر بھی سارے قرضے کا بار ہے۔
بیگم : یہ تو تم جانو۔ آخر اس میں میری کیا خطا ہے؟ میں نے تو یہ نہیں رکھا۔ آج وقت پر یہ بات بھی کھلی۔
صاحب خانہ : اچھا فضول بکواس سے کیا حاصل؟ اب کوئی تدبیر نہیں۔ تم ہنسی خوشی میکے جاؤ۔ غضب خدا کا، یہ میرے ساتھ حد کی دشمنی ہے۔ تم نے تو واللہ بھیک منگوا دی بھیک۔ جس وقت خیال آتا ہے، آنکھوں میں لہو اترتا ہے۔ اور صاحب سو بات کی ایک بات یہ ہے، ہماری تمہاری ایک رائے نہیں۔ جو کام اتفاق سے چاہیے، وہ اس نفاق میں کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ بس میں نے عہد کر لیا، اب اس گھر میں تمہارا رہنا مناسب نہیں۔
بیگم : میں اصرار نہیں کرتی مگر آدمی جو کام کرے سوچ سمجھ کے کرے۔ جس دن تمہارے گھر میں آئی، تم نے میکے جانے نہیں دیا۔ اب ایکا ایکی جانے کا کون طریقہ ہے۔ اور پھر ننگی بچی۔ کیا بھری پری جاتی ہوں۔ لوگ دیکھیں گے، دشمن خوش ہوں گے، آؤ بھگت کریں گے، تمہاری کیا نیک نامی ہو گی، اور میری کون سی ذلت باقی رہے گی؟
نواب صاحب : تو کیا میں نے لے لیا۔ گھر میں بیٹھ کے سب تم نے لٹا دیا۔
بیگم : اچھا جو ہوا تمہارے ہی گھر میں ہوا۔ ابھی میں کہتی ہوں، جتنا اپنے گھر سے لائی تھی، برسوں کھاتی نہ چکتا۔ کیا میں غریب مفلس ماں باپ کے ہاں سے آئی تھی؛ سب ہی کچھ دام دھیز تھا۔
311
صاحب خانہ : اچھا ان فضول باتوں سے کیا مطلب؟ بس اب مناسب تو یہ ہے سوار ہو جاؤ۔
بیگم : کہتی تو ہوں یہ کون قرینہ ہے۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔
نواب صاحب : اچھا تو بسم اللہ کیجیے۔
بیگم : اچھا وہاں جا کے کیا کہوں گی، ایکا ایکی جو اُتر پڑوں گی۔ اور یہ سب جھگڑیں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟
صاحب خانہ : یہ اپنے تم جانو وہ جانیں، ہماری بلا جانے۔
بیگم : یا اللہ یہ کیسی سمجھ ہو گئی۔ نہ اُلٹی مانتے ہیں نہ سیدہی۔ تم نہ پانی کے نیچے ہو نہ پانی کے اوپر۔ یہ آج سمائی کیا ہے۔
صاحب خانہ : جو سمائی ہے ہم خوب جانتے ہیں۔ بس اب تم جس طرح بنے جاؤ اور اسی وقت جاؤ۔ جب تک تم نہ جاؤ گی، واللہ داھنے ہاتھ کا کھانا حرام ہے۔ بس اب جو ٹھن گئی ٹھن گئی۔ میں نے عہد کر لیا ہے، کوئی کام تمہاری رائے کے مطابق نہ کروں گا۔ اگر خدا بھی آج آ کے مجھ سے کہے تو ماننے والے کو کچھ کہتا ہوں۔
بیگم : لے بس خدا خدا کرو، حد ہو گئی، کلمۂ کفر زبان سے نہ نکالو۔ ہم تو جاتے ہیں، اتنا کہے جاتے ہیں، یہ آدمی کے حواس کی باتیں نہیں۔ خدا کو نہ معلوم کیا منظور ہے۔ آج تک تو ایسی باتوں کا سامنا ہوتا تو اتنی عمر کاہے کو کٹتی۔
صاحب خانہ : لے اب ڈولی منگواتا ہوں، چلتی پھرتی نظر آئیے۔
سکینہ : (آب دیدہ ہو کے) تو کیا سچ مچ جائیں؟ پھر ہم کہاں رہیں گے؟
312
صاحب خانہ : تم اپنی ماں کے ساتھ جانا اور کہاں رہو گی۔
سکینہ : اچھا تو آپ کہاں رہیں گے؟
نواب صاحب : ہم بھی آ جائیں گے کسی دن۔
سکینہ : (ماں کو دیکھ کے اور اشارہ پا کے کچھ کہنے کو تھی مگر چپ رہتی ہے) اچھا۔
)صاحب خانہ باہر آئے)
صاحب خانہ : شیخ صاحب، مجھے خیال نہیں رہا۔ میں گھر میں ایسی مکروہات میں پھنس گیا تھا۔ اچھا اس وقت تو آپ جائیے، کچھ فکر کر دی جائے گی۔
شیخ صاحب : بہت اچھا، میں گھر جاتا ہوں۔ جب ضرورت ہو کسی اطلاع دیجیے گا۔ آج کل طبیعت بھی بہت نا درست ہے، زیادہ بیٹھ نہیں سکتا۔ میرا ہرج اوقات ہوتا ہے۔
صاحب خانہ : یہ جھگڑا ختم ہو لے تو میں نے جو انتظام سوچا ہے، وہ کیا جائے گا۔
شیخ صاحب : بس جھگڑا ختم ہی سمجھیے۔ اگر منظور ہے، کچھ کارروائی کر دی جائے گی ورنہ مجبوری ہے۔ لے رخصت۔
خفیہ رپورٹ
سعادت : (کورٹ انسپکٹر سے) یہ لیجیے۔ بعد تحقیقات کے میں نے یہ رپورٹ کی ہے۔ اس میں بہت سی مجھے کاروائیاں کرنا پڑیں۔ ایک صاحب بھی اس میں شامل معلوم ہوتے ہیں۔ بہت کچھ ان کی نسبت سنا گیا اور عجب پیچیدہ معاملہ ہے، بلکہ ایک آدھ دفعہ راستے گلی میں اُس سے صاحب سلام بھی ہوئی ہے۔ صورت آشنا بھی ہوں۔
انسپکٹر صاحب : اچھا مجھے دیجیے، میں دیکھوں۔ ضرورت کے وقت شاید مجھے پڑھنا ہو) معاملہ بھی سمجھ لوں۔
313
)پڑھتے ہیں)
”جناب عالی!
گزارش یہ ہے، مطابق حکم تابعدار نے تحقیقات اس مقدمے میں خفیہ جو کی ہے وہ ذیل میں عرض ہے۔ واضح ہو کہ یہ مقدمہ دائر کیا ہوا مسمی کریم بخش کا ہے جو محلہ۔۔۔ دوکان نمبر۔۔۔۔ میں لکڑی کا ٹال رکھتا ہے۔ تحقیقات کرنے سے معلوم ہوا کہ ابھی تھوڑے دن سے دوکان اس نے رکھی ہے۔ جب سے نواب صاحب کے یہاں چوری ہوئی، یہ چوروں سے ساز رکھتا تھا۔ افواہ ہے اُسی سرمائے سے یہ دوکان رکھی ہے۔ اور مسماہ نجبنیا نواب صاحب مذکور کے یہاں بطور ماما کے روٹی کپڑے پر خوراک پوشاک پر صغیر سنی سے تھی۔ گھر میں اس کا اختیار بہت تھا۔ معلوم ہوتا ہے اس مسماہ اور نواب صاحب کے بیٹے منے مرزا صاحب سے ناجائز تعلق تھا۔ چنانچہ بیگم صاحب اسی وجہ سے نہایت بد سلوکی کے ساتھ مسماہ پیش مذکور سے پیش آتی تھیں۔ منے صاحب مذکور نے اُس کو بھگا کے دوسرے مکان میں رکھا۔ اور اس کام میں درمیانی کریم بخش مذکور تھا۔ یہ بھی ان کا نوکر تھا۔ بعد اُس کے مسماہ مذکور محلہ۔۔۔۔ مکان۔۔۔۔ میں جا کے مقیم ہوئی اور نام نجم النسا تبدیل کیا۔ مسمی ننھے مرزا زردوزی کے کارخانے میں کام کرنے والا ایک کاریگر تھا۔ تحقیقات سے اس قدر معلوم ہوا ہے کہ اس کارخانے کے مالک سردار مرزا نے اس کو پالا اور پڑھایا تھا۔ بڑی تلاش و تفتیش سے معلوم ہوا کہ اس کی ماں ایک مختار کے ہاں کام کرتی ہے۔ مسماۃ مذکور اور اس سے واسطہ ہو گیا
314
اور لے کے نکل آیا۔ چنانچہ سردار مرزا صاحب نے اس کی خیانت اور بد دیانتی کی رپورٹ تھانے میں بھی کی۔ وہاں سے ہدایت نالش کی کی گئی۔ اس کے بعد مسماہ مذکور پیشہ طوائفی کا کرنے لگی۔ اور اس کے یہاں مسٹر۔۔۔ بارسٹر بھی آمد و رفت رکھتے تھے؛ بلکہ مشہور تھا، پچاس روپے ماہوار پر نوکر رکھا تھا۔ منے صاحب بھی اس کے یہاں آتے جاتے تھے۔ اس پر ناراض ہو کے بارسٹر صاحب نے صلاح نالش کی مسمی کریم بخش ہیزم فروش کو دی۔ چنانچہ اُس نے محض از راہ عداوت یہ مقدمہ دائر کیا۔ مسمی کریم بخش کی ایک زوجہ پہلے کی اور دو اولادیں ہیں اور مسماہ نجم النسا سے نکاح نہیں ہوا۔ مسمی کریم بخش چوری کے مقدمے میں اور بھی شریک بتاتا ہے۔ وہ آج کل شہر میں نہیں ہیں۔ عقلاً کہا جاتا ہے، وہ لوگ باہر کے دیہات کے ہیں۔ ارتکاب جرم کے واسطے خفیہ شہر میں آیا کرتے ہوں گے۔ مسماہ نجبنیا کو بھی بہت کچھ حصہ مال مسروقہ سے ملا تھا۔ چنانچہ اس کے یہاں جو موجود ہے اور جس کو وہ اپنا زر خرید کہتی ہے، اکثر از قسم زیور و ظروف، سب نواب صاحب کے یہاں کا ہے۔ اور مسمی کریم بخش نے جو دکان رکھی وہ بھی نواب صاحب کے مال مسروقہ سے رکھی ہو گی۔ مسمی مذکور پہلے کوئی روپیہ والا نہ تھا، بلکہ اسی شبہے پر مشہور تو ہے کہ نواب صاحب نے اس کو برطرف کر دیا ہے۔“
(بعد رپورٹ پڑھنے کے)
انسپکٹر : تو میرے نزدیک اس کا مفصل حال آپ خود چل کے صاحب کو سجھا دیں۔ یہ آپ کو اپنے ہاتھ سے دینا چاہیے۔
315
میں اس وقت بنگلہ پر جاتا ہوں۔ بہتر ہے آپ بھی چلیے۔
سعادت : (صاحب صاحب سے مل کے( حضور جو مقدمہ سپرد ہوا تھا، اُس کی خفیہ تحقیقات کر کے رپورٹ حاضر ہے۔
مجسٹریٹ : ول، اچھا پڑھیے۔
سعادت : (پڑھ کر) حضور اس میں ایک بات تحقیقات مزید چاہتی ہے۔ ابھی تک ان لوگوں کا ٹھیک پتا نہیں لگا جو نواب صاحب کی چوری میں شریک تھے۔ قیاس ہو سکتا ہے، وہ لوگ باہر کے ہوں گے۔ انشاء اللہ اگر ضرورت ہو گی تو حضور کے اقبال سے ان کی بھی تلاش کی جاوے گی۔
مجسٹریٹ : ول اچھا۔ کریم کے مقدمے میں منے صاحب، ننھے مرزا، مسماہ، کریم کو پھر عدالت طلب کرتی ہے۔
انسپکٹر : بہت خوب۔
بیگم صاحب روتی ہوئی میکے میں اترتی ہیں
بیگم صاحب کی ماں : خیر تو ہے بیٹی۔ آج یوں بے سامان کیسے آنا ہوا؟ شان نہ گمان، سب اچھے تو ہیں؟
بیگم : (رو کے) ہاں خیریت ہے۔ حواس درست ہو لیں تو حال بیان کروں۔ تابعدار کو کیا عذر۔ کہیں اور ٹھکانہ بھی نہیں۔ مصلحت اسی میں سمجھی چلی آئی۔ اسی گھر میں اتنی سے اتنی بڑی ہوئی۔ آپ لوگوں نے تو جو حق تھا ادا کیا۔ قسمت کی بات، یہی لکھا تھا۔
بڑی بیگم : چلو اچھا ہوا، بہتر ہوا۔ مگر کچھ حال تو معلوم ہو، کون سی بات ہوئی۔ افسر دولہ اس مزاج کا تھا نہیں۔ کوئی بات ہی ایسی ہو گی۔ دیکھو تو اگر ان کی رائے ہو گی تو میں بلواتی ہوں۔ واہ یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟ ہاں بیٹی جس کمرے میں تمھارا جی چاہے، اپنا اسباب رکھواؤ۔ آرام
316
آسائش کا سامان کرو۔ دیکھو بہت سے کمرے صحنچیاں خالی پڑی ہیں۔ جو بہت دن ٹھہرنے کا سامان ہو تو ویسا بندوبست کرو، اور جو دو ہی ایک دن کی بات ہو تو خیر، زیادہ دقت اُٹھانا ضرور نہیں۔ دیکھو باہر سے اسباب لے جانے کی پکار مچی ہے۔ اے بیٹی کیا سب گھر کا اسباب اُٹھاتی لائی ہو؟ (کچھ سوچ کے) ہاں کیا ہوا؟ سکینہ اور منے صاحب بھی آتے ہوں گے؟
بیگم : جی ہاں، وہ بھی سب آتے ہیں اور سکینہ تو میرے ساتھ ہی آئی ہے۔
بڑی بیگم : تو منے صاحب کے واسطے بھی مردانے میں جگہ خالی کر دی جائے۔
(شام کو امیرن بہشتن آ کے پیام دیتی ہے)
امیرن : وافسر الدولہ نے بہت بہت بندگی عرض کی ہے اور کہا ہے، میں خود زبانی آ کے مصلحت عرض کروں گا۔ ابھی مجھ کو مہلت نہیں، میں بیگم کو خود بگھی پر سوار کر کے پہچا آتا۔ میں سمجھتا ہوں ابھی تھوڑے دن اُن کو آپ اجازت دیں گی۔ مستقل طور سے آپ کے یہاں قیام کریں۔ اس کے بعد دوسرا بندوبست ہو جائے گا۔ اُن کا یہ بھی گھر وہ بھی گھر، اور کسی امر کا بار اُٹھانا نہ پڑے گا۔ آگے جو آپ اپنی بیٹی کے ساتھ کریں گی میں مانع نہیں۔ کچھ ایسی پی بات ہے جو میں نے یہ تکلیف آپ کو دی ہے۔ میں خود بھی ہو سکے گا تو کبھی کبھی اُس محلے میں آ جایا کروں گا۔ آج کل مجھے کچھ کچہری کے کام ہیں، اس میں پریشان ہوں۔
317
حاکم کا فاصلہ
حاکم : اس مقدمے میں مسمی کریم بخش مدعی اور ننھے مرزا مدعا علیہ ہیں۔ گو ثبوت مدعی کے اس بیان کا نہیں ہے کہ مسماہ نجبین مدعی کی منکوحہ ہے۔ بلکہ بیانات سے ظاہر ہے کہ وہ داشتہ کسی اور شخص منے صاحب کی تھی، لہٰذا دعویٰ خارج۔ اس مقدمے میں ضمناً ایک چوری کا پتا چلتا ہے جو سابق میں بمکان نواب صاحب ہوئی تھی اور جس کی رپورٹ کی گئی تھی، اور ان تحقیقات پولیس میں درخواست گزری کہ گم شدہ چیزوں کا پتا چلا کہ گھر ہی ہیں مل گیا، کسی پر شبہ نہیں ہے، کاغذات داخل دفتر ہو گئے۔ پس عدالت کو مناسب معلوم ہوتا ہے مسماہ نجبین اور منے صاحب، ننھے مرزا بطور گواہ عدالت طلب کرے، اور مسمی کریم بخش مدعی اسی وقت سے حوالات پولیس ہو۔ اور مسماہ نجبین اور ننھے مرزا کو حکم دیا جاوے کہ تاریخ پیشی کو حاضر عدالت رہیں، اور منے صاحب کے نام سمن بھیجا جاوے، تاریخ پیشی پر حاضر عدالت ہوں۔ اور تاریخ مقدمہ در پیش ہو۔
عدالت سے باہر
کریم بخش : (نجینیا سے) اچھا سلوک کیا تم نے۔ پھانسی پر کیوں نہ چڑھا دیا۔
ننھے مرزا : جھگڑا تو بے ڈھب پڑ گیا۔
نجینیا : کیا اپنی جان پھنسواتی۔ (کریم بخش کی طرف اشارہ کر کے) ان کی سزا یہی ہے۔ ہم تو جو سچی سچی بات ہے یہاں سے لے کے خدا کے سامنے تک کہہ دیں گے، چھپائیں گے نہیں۔ بھلا حاکم سے کوئی بات چھپانا چاہیے۔
318
کریم بخش : اری نیک بخت، خدا خدا کر۔ کیوں جوتیوں سمیت آنکھوں میں پیٹھی جاتی ہو۔ خدا معلوم، کس کے بھروسے پر اس طرح تم بات چیت کرتی ہو (بارسٹر کی طرف دیکھ کے جو پھٹکے ہوئے کھڑے تھے) تو سہی، اس کا مزا کوئی دن تم نہ چکھو۔
بارسٹر: کچھ اندیشے کی بات نہیں۔ میاں کریم ڈرو نہیں۔ ہم اس کی اپیل کرتا ہے۔
کریم : حضور! اوپر خدا ہے، نیچے آپ۔ آپ ہی کے سنبھالے یہ ناؤ سنبھلے گی۔ اس کچہری میں تو اب ہمارے واسطے خیریت نہیں۔
نجنبیا : ہاں اب روتے ہو، تب نہ سوجھی؟
ننھے مرزا : جی اس سے کیا واسطہ۔ نہیں معلوم ہم کو صاحب نے کیوں بلایا ہے۔ بھئی ہم تو اس معاملے میں کوئی شریک نہیں۔ یہ مفت ہم کو لے مرے۔ خیر دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوا، دشمنوں کے منہ میں سیاہی لگی۔ انگریزی زمانہ ہے، سبحان اللہ کیا انصاف ہے۔ جیسے حاکم وہیں کھڑا تھا۔ ارے بھئی تب تو انگریز ایسے غدار شہر پر حکومت کرتے ہیں۔
کریم بخش : ہان بھئی۔ اب کیوں نہ کہو گے۔ جس کے منہ چاول ہوتے ہیں، ایسی ہی چبا چبا کے باتیں کرتا ہے۔ خیر کچھ ڈر نہیں۔ خدا نہ بگڑے، مقدمہ چاہے بگڑ جائے۔
کانسٹیبل : لے اب جاؤ اپنی اپنی طرف، بکواس نہ مچاؤ۔ آواز جائے گی، سب ابھی جیل خانے بھیج دیے جاؤ گے۔
بارسٹر : میاں کریم تم گھبرانا نہیں۔ ہمارا محرر تمہارے پاس آئے گا۔ پیشی کی تاریخ دریافت کر لے جائے گا۔ اُس دن ہم ضرور آئیں گے۔
319
شیخ صاحب اور منے صاحب
دین صاحب : اجی شیخ صاحب! مجھے آپ سے ایک بڑا ضروری کام ہے۔ آپ ہی سب کام کرتے تھے۔ جو آپ کو معلوم ہو گا وہ کسی کو نہیں۔ (سب حال کچہری کا بیان کر کے پوچھتے ہیں) مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟
شیخ صاحب : (رکھائی سے) حضت اصل بات یہ ہے، اُدھر کے حالات مجھے کچھ نہیں معلوم۔ آں دفتر را آؤ خورد۔ جو لڑکا آپ کے یہاں کا برائے چندے رکھنے کو ملا تھا، وہ بھی نہیں معلوم کدھر چلا گیا۔ کئی دن ہوئے نواب صاحب نے وعدہ کیا تھا، پھر خبر بھی نہ ہوئی۔ مجھے حاضر باشی کی نوبت نہ آئی۔ میں تو اب دوسری جگہ نوکر ہوں نا۔ آپ کی سرکار سے علاقہ نہیں۔
منے صاحب : اجی یہ بتائیے کچہری میں کیا کیا جائے؟
شیخ صاحب : کیجیے گا کیا، چلے جائیے تاریخ کو۔ جو عدالت کہے اُسے تعمیل کیجیے۔ آپ تو ماشاء اللہ ہوشیار ہیں۔ دو چار احباب سے رائے لے لیجیے۔ وکیل وغیرہ کا کام ہوتا تو میں ابھی لے چلتا۔
منے صاحب : شیخ صاحب! بھلا ایسا کون وکیل تھے جو بے لیے دیے صلاح دے، اور آج کل روپے کا کہیں نام نہیں۔ میں نے بہت فکر کی اور بہت کچھ کہا، بیگم صاحب کہتی ہیں تنخواہ آ لے تو روپے کی صورت ہو۔ وہ تو ایک دوست یار غار تھے، ان سے کہا، کہیں سے فکر نہ ہو سکی۔ اور کھلی بات یہ ہے کہ ان بے چاروں کی کوئی حیثیت پہلے ہی سے نہ تھی۔ جب ان کو ضرورت ہوئی، ہمیں آڑے آئے۔ پھر اب وہ کہاں سے لا سکتے ہیں۔
320
شیخ صاحب : تو چپ ھو رھیے۔ حوالے بخدا کیجیے، آگے دیکھا جائے گا۔ مگر سمن جو آپ کے نام آیا ہے، وہ کس حیثیت سے آیا ہے؟ بحیثیت مدعا علیہ ہے؟ مدعی آپ ہو نہیں سکتے، آپ نے کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ یا بطور گواہ طلبی ہے؟ کوئی کاغذ ثبوت بھی ہمراہ لانے کو لکھا ہے یا نہیں؟
منے صاحب : جی کچھ بھی نہیں۔ کاغذ واغذ تو کچھ نہیں۔ یہ لکھا ہے کہ فلاں تاریخ دس بجے حاضر عدالت ہو۔ پولیس کا سپاہی ڈھونڈتا ڈھونڈتا یہاں پہنچا، مجھ کو سمن دیا، میں حق حیران۔ آپ جانیے ایک تو کچہری عدالت کا معاملہ، میں ایسی باتوں سے اصلا واقف نہیں، پھر سنتا ہوں فوج داری میں قید ہوتی ہے، بیت پڑتے ہیں۔ (آب دیدہ ہو کے) شیخ صاحب! جناب امیر کی قسم، میں ایسی باتوں سے تمام عمر الگ تھلگ رہا۔ مجھے ان سے کیا واسطہ۔
شیخ صاحب : ہاں حضرت! معاملہ تو نازک ہے مگر کیا ہو سکتا ہے۔ تاریخ تو آنے دیجیے، دیکھا جائے گا۔ میں نمک خوار ہوں، ہر قوت حاضر ہوں۔ انشاء اللہ کسی امر کی تکلیف نہ ہو گی۔
منے صاحب : ہاں میرے شیخ صاحب، واللہ جیسے آپ نے بندۂ بے درم بنا لیا۔ اب آپ سمجھیے ایسے وقت میں ہم لوگوں کی دشمن گلی کی ٹھیکری تک ہے، اور بڑی بات آج کل روپے کا نہ ہونا۔
شیخ صاحب : اجی ٹھیکری کو نہ کہیے۔ چاہے راستے گلی کی ہو، چاہے گوشت پوست کی ہو؛ آپ لوگوں کی عمر میں