یہ کائنات دو علوم پر مبنی اصول و قواعد پر تخلیق کی گئی ہے، دونوں علوم میں مشاہدہ اس علم کی حقیقت سے آگاہی کا ذریعہ ہے، جب کائنات کا لفط بولا جاتا ہے تو اس میں مخفی حقیقتوں کا ادراک ہوتا ہے ۔۔۔
کائنات
کائنات میں وجود اشیا
وجود اشیا کی خاصیت و ماہیت
وجود اشیا کو تخلیق کرنے والی ہستی
وجود کا منفی رخ
وجود کا مثبت رخ
وجود کا عدم سے ظاہر ہونا
وجود کا عدم میں غائب ہوجانا
تاریخ عالم میں جتنے بھی علوم رائج ہوئے ہیں یا جتنے بھی نئے نئے علوم کا انکشاف ہوا ہے وہ بھی مثبت اور منفی رخوں پر قائم ہے
مثبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی "ہے"
منفی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی "نہیں"
لیکن جو شے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہیں کیسے ہے ؟
اور جو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ہونا کیسے ممکن ہے؟
علما کے دو گروہ ہیں ایک گروہ نے محض "وجود ہے" کے اوپر اپنی عمارت کھڑی کی ہوئی ہے
دوسرے گروہ نے "کیوں ہے کہاں سے ہے"؟ کے اوپر اپنے گروہ کا تعارف کرایا ہے
علما کا پہلا گروہ شے اور شے کی صفات سے بحث کرتا ہے اور علما کا دوسرا گروہ شے کی ماہیئت اور حقیقت پر سے پردہ اٹھاتا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ ہم بہت قیمتی یا کم قیمت موٹر کار میں سڑک پر چلتے ہیں، چلتے چلتے ہمیں سرخ سگنل نظر آتا ہے، جس کو دیکھ کر ہم رک جاتے ہیں اور گرین سگنل کا انتظار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سرخ رنگ خظرے کی علامت ہے، جب ہم سرخ رنگ کا سگنل دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں سرخ رنگ کا بلب یا سرخ رنگ کا شیشہ نہیں آتا کہ جس کے دیکھنے میں ہم مصروف ہو جائیں سگنل کا سرخ رنگ دیکھ کر ہمیں خطرے کی اطلاعات فراہم ہوتی ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ ہم نے اگر اس خطرے کو نظر انداز کر دیا اور اکسیلیٹر سے پیر نہیں ہٹایا تو ہم ہلاک بھی ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بر عکس جب ہم گرین سگنل دیکھتے ہیں تو ہم گاڑی اسٹارٹ کر دیتے ہیں اس کے پیچھے بھی یہی تو جیہ ہے کہ اب گاڑی چلانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے، جب ہم سرخ رنگ کا تذکرہ کرتے ہیں جب رنگ کی افادیت یا نقصان کے ساتھ ساتھ محل و قوع بھی زیر بحت اتا ہے۔۔۔۔۔
اگر لیٹر بکس سرخ رنگ کا ہے تو ہم اس رنگ کو دیکھ کر کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے بلکہ آپس میں بھائی چارہ اور تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اپنے پیاروں اور اپنے محبوب اور اپنے بزرگوں سے تعلق خاطر ہونے کا واسطہ جانتے ہیں
جب ہم سرخ سگنل دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر خطرات، حادثات اور ہلاکت سے بچنے کا جو علم ہے وہ متحرک ہوجاتا ہے یعنی سرخ رنگ کے متعیں محل وقوع نے ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے ہم خطرات سے محفوظ ہیں یہ وہ طرز فکر ہے جس طرز فکر میں ماہیئت اور حقیقت تلاش اور جنستجو ہے
اسی طرح جب کوئی انسان (جس کی فطرت ہی حقیقت و ماہیئت کو تلاش کرنا ہے) اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو وہ اپنی آنکھوں اپنے دماغ اور اپنے اعضا میں گم نہیں ہوجاتا ہر انسان جب خود گہرائی میں مطالعہ کرتا ہے تو جسمانی وجود کے بجائے باطنی وجود میں اس کا ذہن منتقل ہوجاتا ہے
نظام تخلیق ظاہر کرتا ہے کہ کائنات مسلسل تغیر پذیر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں تغیر نہیں ہے،
علمائے ربانی فرماتے ہیں "وجود شے میں تغیر ہے، حقیقت شے میں تغیر نہیں ہے"
جب تک تغیر پذیری میں انسان گم رہتا ہے اس اوپر مصائب، پریشانی اور ادبار کا تسلط قائم رہتا ہے اور جب انسان حقیقت واردہ سے متعارف ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر سے وسوسوں، بے ہودہ خیالات اور غم و آلام کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے
جو لوگ سظحی سوچ سے ماورا گہری سوچ کے حامل ہیں، ان لوگوں کا ظاہر باطن کے تابع ہوتا ہے جو ہر درجے میں محبوب حقیقی کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے نظارے کے لئے ہمہ وقت متوجہ اور منتظر رہتے ہیں
وہ ظاہر کو باطن کی پہچان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور باطن کو ظاہر کی روح سمجھتے ہیں ظاہری وجود دراصل ان کے لئے باطن تک رسائی کا ذریعہ ہے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ اپنی ایک دعا میں فرماتے ہیں
"اے اللہ میرے ظاہر کو اپنی اطاعت سے، میرے باطن کو اپنی محبت سے، میرے قلب کو اپنی معرفت سے، میری روح کو اپنے جمال کے مشاہدے سے اور میرے دل کی گہرائی کو اپنی حضوری سے مئور فرما دے"
کائنات
کائنات میں وجود اشیا
وجود اشیا کی خاصیت و ماہیت
وجود اشیا کو تخلیق کرنے والی ہستی
وجود کا منفی رخ
وجود کا مثبت رخ
وجود کا عدم سے ظاہر ہونا
وجود کا عدم میں غائب ہوجانا
تاریخ عالم میں جتنے بھی علوم رائج ہوئے ہیں یا جتنے بھی نئے نئے علوم کا انکشاف ہوا ہے وہ بھی مثبت اور منفی رخوں پر قائم ہے
مثبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی "ہے"
منفی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی "نہیں"
لیکن جو شے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہیں کیسے ہے ؟
اور جو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ہونا کیسے ممکن ہے؟
علما کے دو گروہ ہیں ایک گروہ نے محض "وجود ہے" کے اوپر اپنی عمارت کھڑی کی ہوئی ہے
دوسرے گروہ نے "کیوں ہے کہاں سے ہے"؟ کے اوپر اپنے گروہ کا تعارف کرایا ہے
علما کا پہلا گروہ شے اور شے کی صفات سے بحث کرتا ہے اور علما کا دوسرا گروہ شے کی ماہیئت اور حقیقت پر سے پردہ اٹھاتا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ ہم بہت قیمتی یا کم قیمت موٹر کار میں سڑک پر چلتے ہیں، چلتے چلتے ہمیں سرخ سگنل نظر آتا ہے، جس کو دیکھ کر ہم رک جاتے ہیں اور گرین سگنل کا انتظار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سرخ رنگ خظرے کی علامت ہے، جب ہم سرخ رنگ کا سگنل دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں سرخ رنگ کا بلب یا سرخ رنگ کا شیشہ نہیں آتا کہ جس کے دیکھنے میں ہم مصروف ہو جائیں سگنل کا سرخ رنگ دیکھ کر ہمیں خطرے کی اطلاعات فراہم ہوتی ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ ہم نے اگر اس خطرے کو نظر انداز کر دیا اور اکسیلیٹر سے پیر نہیں ہٹایا تو ہم ہلاک بھی ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بر عکس جب ہم گرین سگنل دیکھتے ہیں تو ہم گاڑی اسٹارٹ کر دیتے ہیں اس کے پیچھے بھی یہی تو جیہ ہے کہ اب گاڑی چلانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے، جب ہم سرخ رنگ کا تذکرہ کرتے ہیں جب رنگ کی افادیت یا نقصان کے ساتھ ساتھ محل و قوع بھی زیر بحت اتا ہے۔۔۔۔۔
اگر لیٹر بکس سرخ رنگ کا ہے تو ہم اس رنگ کو دیکھ کر کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے بلکہ آپس میں بھائی چارہ اور تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اپنے پیاروں اور اپنے محبوب اور اپنے بزرگوں سے تعلق خاطر ہونے کا واسطہ جانتے ہیں
جب ہم سرخ سگنل دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر خطرات، حادثات اور ہلاکت سے بچنے کا جو علم ہے وہ متحرک ہوجاتا ہے یعنی سرخ رنگ کے متعیں محل وقوع نے ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے ہم خطرات سے محفوظ ہیں یہ وہ طرز فکر ہے جس طرز فکر میں ماہیئت اور حقیقت تلاش اور جنستجو ہے
اسی طرح جب کوئی انسان (جس کی فطرت ہی حقیقت و ماہیئت کو تلاش کرنا ہے) اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو وہ اپنی آنکھوں اپنے دماغ اور اپنے اعضا میں گم نہیں ہوجاتا ہر انسان جب خود گہرائی میں مطالعہ کرتا ہے تو جسمانی وجود کے بجائے باطنی وجود میں اس کا ذہن منتقل ہوجاتا ہے
نظام تخلیق ظاہر کرتا ہے کہ کائنات مسلسل تغیر پذیر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں تغیر نہیں ہے،
علمائے ربانی فرماتے ہیں "وجود شے میں تغیر ہے، حقیقت شے میں تغیر نہیں ہے"
جب تک تغیر پذیری میں انسان گم رہتا ہے اس اوپر مصائب، پریشانی اور ادبار کا تسلط قائم رہتا ہے اور جب انسان حقیقت واردہ سے متعارف ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر سے وسوسوں، بے ہودہ خیالات اور غم و آلام کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے
جو لوگ سظحی سوچ سے ماورا گہری سوچ کے حامل ہیں، ان لوگوں کا ظاہر باطن کے تابع ہوتا ہے جو ہر درجے میں محبوب حقیقی کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے نظارے کے لئے ہمہ وقت متوجہ اور منتظر رہتے ہیں
وہ ظاہر کو باطن کی پہچان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور باطن کو ظاہر کی روح سمجھتے ہیں ظاہری وجود دراصل ان کے لئے باطن تک رسائی کا ذریعہ ہے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ اپنی ایک دعا میں فرماتے ہیں
"اے اللہ میرے ظاہر کو اپنی اطاعت سے، میرے باطن کو اپنی محبت سے، میرے قلب کو اپنی معرفت سے، میری روح کو اپنے جمال کے مشاہدے سے اور میرے دل کی گہرائی کو اپنی حضوری سے مئور فرما دے"