طرز ِ کلام، تلخیء گفتار ہے عجب

La Alma

لائبریرین
طرز ِ کلام، تلخیء گفتار ہے عجب
مانا کہ تجھ کو ہے گلہ، اظہار ہے عجب

‎حیران ہوں کہ تُو بھی صف ِ دشمناں میں ہے
‎اے دوست! تیری صحبت ِ اغیار ہے عجب

‎دل خانہء خدا ہے نہیں کوئی بت کدہ
مسند پہ اس کی اور کوئی اوتار ہے عجب

رہیے گا آپ شعبدہ بازوں سے ہوشیار
بکتے ہیں یاں سراب، یہ بازار ہے عجب

‎ نکلی ہے آہ سرد, دل ِ زار کے سبب
آتشکدہء زیست کا انگار ہے عجب

اب ہو دوائے مرگ کہ آب ِ حیات ہو
پیمانہ بھر کے دیجے کہ میخوار ہے عجب

المٰیؔ لکھا تھا لفظ جو لوح ِ خیال پر
کیسے ہوا نوشتہء دیوار!! ہے عجب
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! خوب اشعار ہیں ! اچھے مضامین آئے ہیں اس میں ۔
بطور نقد و نظر اتنا کہوں گا کہ کچھ اشعار اس بلند معیار تک نہیں پہنچے کہ جو عموماً آپ کی غزل کا ہوتا ہے ۔ شاید اس غزل کو آپ کی طرف سےزیادہ وقت نہیں مل سکا ۔ :)
لہجۂ گفتار کی ترکیب حشوِ قبیح میں شمار ہوگی ۔ لہجہ تو گفتار سے متعلق ہی ہوتا ہے ۔
مقطع سے پہلے والے شعر میں گر کے بجائے "وہ" کا محل ہے ۔ لیکن "کہ" استعمال کرنے کے بعد کسی اور لفظ کی ضرورت نہیں رہتی ۔ "ہو دوائے مرگ کہ آب ِ حیات ہو" کہنا کافی ہے۔
مقطع میں نوشتۂ دیوار بھی ٹھیک استعمال نہیں ہوا ۔ نوشتۂ دیوار کا مطلب دیوار پر لکھا ہوا نہیں ہوتا ۔
 
بہت خوب لا المیٰ بہن
حیران ہوں کہ تُو بھی صف ِ دشمناں میں ہے
‎اے دوست! تیری صحبت ِ اغیار ہے عجب

دل خانہء خدا ہے نہیں کوئی بت کدہ
مسند پہ اس کی اور کوئی اوتار ہے عجب

رہیے گا آپ شعبدہ بازوں سے ہوشیار
بکتے ہیں یاں سراب، یہ بازار ہے عجب
 

La Alma

لائبریرین
واہ! خوب اشعار ہیں ! اچھے مضامین آئے ہیں اس میں ۔
ہمت افزائی کا شکریہ!!
شاید اس غزل کو آپ کی طرف سےزیادہ وقت نہیں مل سکا ۔
جبکہ میرے خیال سے تو کافی وقت مل گیا۔ اب تو ایکسپائری قریب تھی سو یہاں پیش کر دی۔ :)
QUOTE="ظہیراحمدظہیر, post: 2344822, member: 12618"]لہجۂ گفتار کی ترکیب حشوِ قبیح میں شمار ہوگی ۔ لہجہ تو گفتار سے متعلق ہی ہوتا ہے[/QUOTE]
ء ٹائپو ہے، لہجہ و گفتار تھا۔ لیکن اسے تلخیء گفتار سے تبدیل کر دیا ہے۔
مقطع سے پہلے والے شعر میں گر کے بجائے "وہ" کا محل ہے ۔ لیکن "کہ" استعمال کرنے کے بعد کسی اور لفظ کی ضرورت نہیں رہتی ۔ "ہو دوائے مرگ کہ آب ِ حیات ہو" کہنا کافی ہے۔
درست۔
"گر” کو “اب “سے بدل دیا ہے۔
مقطع میں نوشتۂ دیوار بھی ٹھیک استعمال نہیں ہوا ۔ نوشتۂ دیوار کا مطلب دیوار پر لکھا ہوا نہیں ہوتا ۔
یہاں لفظی مطلب مراد نہیں ہے۔ لوح خیال اور لوح تقدیر کے تناظر میں کہا ہے۔ یعنی جو محض اک خیال تھا اب وہ انجام کی صورت صاف نظر آ رہا ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
غضب ہوا کلامِ یار کا مصرع ہمارے حصے ہی آیا شکوہ و شکایت لے کے:)

(ہم دشمن تو ہرگز نہیں علیجاہ)
اب نہ بھولے ہے یہ شعر کبھی بھی ۔
ارے نہیں۔۔۔:):)
“ اگر بخشے زہے قسمت، نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے “
 
طرز ِ کلام، تلخیء گفتار ہے عجب
مانا کہ تجھ کو ہے گلہ، اظہار ہے عجب

‎حیران ہوں کہ تُو بھی صف ِ دشمناں میں ہے
‎اے دوست! تیری صحبت ِ اغیار ہے عجب

‎دل خانہء خدا ہے نہیں کوئی بت کدہ
مسند پہ اس کی اور کوئی اوتار ہے عجب

رہیے گا آپ شعبدہ بازوں سے ہوشیار
بکتے ہیں یاں سراب، یہ بازار ہے عجب

‎ نکلی ہے آہ سرد, دل ِ زار کے سبب
آتشکدہء زیست کا انگار ہے عجب

اب ہو دوائے مرگ کہ آب ِ حیات ہو
پیمانہ بھر کے دیجے کہ میخوار ہے عجب

المٰیؔ لکھا تھا لفظ جو لوح ِ خیال پر
کیسے ہوا نوشتہء دیوار!! ہے عجب
المیٰ صاحبہ، سلام عرض ہے!
عمدہ غزل ہے . داد قبول فرمائیے .
نیازمند،
عرفان عؔابد
 

امین شارق

محفلین
طرز ِ کلام، تلخیء گفتار ہے عجب
مانا کہ تجھ کو ہے گلہ، اظہار ہے عجب

‎حیران ہوں کہ تُو بھی صف ِ دشمناں میں ہے
‎اے دوست! تیری صحبت ِ اغیار ہے عجب

‎دل خانہء خدا ہے نہیں کوئی بت کدہ
مسند پہ اس کی اور کوئی اوتار ہے عجب

رہیے گا آپ شعبدہ بازوں سے ہوشیار
بکتے ہیں یاں سراب، یہ بازار ہے عجب

‎ نکلی ہے آہ سرد, دل ِ زار کے سبب
آتشکدہء زیست کا انگار ہے عجب

اب ہو دوائے مرگ کہ آب ِ حیات ہو
پیمانہ بھر کے دیجے کہ میخوار ہے عجب

المٰیؔ لکھا تھا لفظ جو لوح ِ خیال پر
کیسے ہوا نوشتہء دیوار!! ہے عجب
واہ خوب۔
اچھی غزل کہی ہے دل سے مبارکباد
ہر مصرعے میں ہر شعر پہ نکھار ہے عجب
 
Top