میر طریقِ عشق میں ہے رہنما دل ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
طریقِ عشق میں ہے رہنما دل
پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل

قیامت تھا مروت آشنا دل
موئے پر بھی مرا اس میں رہا دل

رکا اتنا خفا اتنا ہوا تھا
کہ آخر خون ہو ہوکر بہا دل

جسے مارا اسے پھر کر نہ دیکھا
ہمارا طرفہ ظالم سے لگا دل

نہ تھی سہل استقامت اس کی لیکن
خرامِ نازِ دلبر لے گیا دل

بدن میں اس کے ہے ہرجاے دلکش
بجا بے جا ہوا ہے جا بجا دل

گئے وحشت سے باغ و راغ میں بھی
کہیں ٹھہرا نہ دنیا سے اٹھا دل

اسیری میں تو کچھ واشد کبھو تھی
رہا غمگیں ہوا جب سے رہا دل

ہمہ تن میں الم تھا سو نہ جانا
گرہ یہ درد ہے پہلو میں یا دل

خموشی مجھ کو حیرت سے ہے ورنہ
بھرے ہیں لب سے لے کر شکوے تا دل

نہ پوچھا اُن نے جس بن خوں ہوا سب
نہ سمجھا اس کے کینے کی ادا دل

ہوا پژمردۂ و بے صبر و بے تاب
کرے گا اس طرح کب تک وفا دل

ہوئی پروا نہ واں دلبر کو یاں میرؔ
اٹھا کر ہوچکا جور و جفا دل

(میر تقی میرؔ)
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
قیامت تھا مُروّت آشنا دِل !
مُوئے پر بھی، مِرا اِس میں رہا دِل


جسے مارا ، اُسے پھر کر نہ دیکھا !
ہمارا، طُرفہ ظالم سے لگا دِل

بدن میں اُس کے ہے ہرجائے دلکش
بجا، بیجا ہُوا ہے جا بجا دِل

گئے وحشت سے باغ و راغ میں بھی !
کہیں ٹھہرا نہ دُنیا سے اُٹھا دِل


نہ پُوچھا اُن نے، جس بِن خُوں ہُوا سب
نہ سمجھا، اُس کے کینے کی اَدا دِل


ہُوئے پروا نہ واں دِلبر کو، یاں میرؔ!
اُٹھا کر ہوچکا جَور و جفا دِل

:) :)

 

طارق شاہ

محفلین
مِیؔر ہُوئے پروانہ واں دِلبر کو، یاں اُٹھا کر ہوچُکا جور و جفا دِل

(واں اور یاں موازنہ ہے)
کلیاتِ میر( دِیوانِ ششم )میں بھی' ہُوئے ' ہے


:)
 
آخری تدوین:
Top