طریق ِ فکر وعمل مستقل خلاف ملا - خیال امروہوی

کاشفی

محفلین
غزل
(خیال امروہوی)

طریق ِ فکر وعمل مستقل خلاف ملا
غلیظ جسم پہ کمخواب کا لباس ملا

مخالفوں کے وطیرے تو مختلف تھے مگر
جو ہم خیال تھا وہ بھی مرے خلاف ملا

گماں یہی تھا کہ ہوگا خفیف سارخنہ
کیا جو غور تو ہر قلب میں شگاف ملا

بشر بہ فیض ِ خرد مشتری پہ جا پہنچا
مگر خطیبِ حرم محو ِ اعتکاف ملا

جو اہل عقل ہیں قائم ہیں ایک محور پر
ہمیں ازل سے فقظ جذبہ ِ طواف ملا

شعورِ دین سے ہوتا نہ منحرف لیکن
قدم قدم پہ اسے حزبِ اختلاف ملا

افق پہ ابر نہ تھا گرد بادِ صحرا تھا
ہوا چلی تو افق کا مزاج صاف ملا
 
Top