ماہی احمد
لائبریرین
طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں
سودا بھی ایک وہم ہے اور سَر بھی کچھ نہیں
میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا، یعنی میں
لے دیکھ لے میاں! مِرے اندر بھی کچھ نہیں
بس اِک غبارِ وہم ہے یک کوچہ گرد کا
دیوارِ بُود کچھ نہیں اور دَر بھی کچھ نہیں
یہ شہر دار و محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِ مغان و رِند و قلندر بھی کچھ نہیں
شیخ! حرام لقمہ کی پرواہ ہے کیوں تمہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں، منبر بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اِس دیار میں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدّر بھی کچھ نہیں
جانی! میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں
فدا یہ اور بات ہے تِرا پیکر بھی کچھ نہیں
یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن مِری کہن
صبحِ شتابِ کوش کا دفتر بھی کچھ نہیں
بس اِک غبارِ طور گماں کا ہے تہ بہ تہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ نہیں
ہے اب تو ایک حالِ سکونِ ہمیشگی
پرواز کا تو ذکر ہی کیا، پَر بھی کچھ نہیں
کتنا ڈراؤنا ہے یہ شہرِ نبُود و بُود
ایسا ڈراؤنا کہ یہاں ڈر بھی کچھ نہیں
پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص
یعنی، وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں
نسبت میں ان کی جو ہے اذیّت وہ ہے مگر
شہ رگ بھی کوئی شے نہیں اور سَر بھی کچھ نہیں
یارو! تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لئے
مجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جونؔ! شہر میں رِشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے، زباں پر بھی کچھ نہیں
جونؔ ایلیا
سودا بھی ایک وہم ہے اور سَر بھی کچھ نہیں
میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا، یعنی میں
لے دیکھ لے میاں! مِرے اندر بھی کچھ نہیں
بس اِک غبارِ وہم ہے یک کوچہ گرد کا
دیوارِ بُود کچھ نہیں اور دَر بھی کچھ نہیں
یہ شہر دار و محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِ مغان و رِند و قلندر بھی کچھ نہیں
شیخ! حرام لقمہ کی پرواہ ہے کیوں تمہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں، منبر بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اِس دیار میں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدّر بھی کچھ نہیں
جانی! میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں
فدا یہ اور بات ہے تِرا پیکر بھی کچھ نہیں
یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن مِری کہن
صبحِ شتابِ کوش کا دفتر بھی کچھ نہیں
بس اِک غبارِ طور گماں کا ہے تہ بہ تہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ نہیں
ہے اب تو ایک حالِ سکونِ ہمیشگی
پرواز کا تو ذکر ہی کیا، پَر بھی کچھ نہیں
کتنا ڈراؤنا ہے یہ شہرِ نبُود و بُود
ایسا ڈراؤنا کہ یہاں ڈر بھی کچھ نہیں
پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص
یعنی، وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں
نسبت میں ان کی جو ہے اذیّت وہ ہے مگر
شہ رگ بھی کوئی شے نہیں اور سَر بھی کچھ نہیں
یارو! تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لئے
مجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جونؔ! شہر میں رِشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے، زباں پر بھی کچھ نہیں
جونؔ ایلیا