محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
طفلِ شیر خوار کا جواب
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
تو نے موبائیل جو چھینا ہے تو چلاتا ہوں میں
یوں تجھے اپنے تئیں نامہرباں سمجھا ہوں میں
کیوں رُلاتا ہے مجھے تو بار بار اے نوجواں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
آہ ! کیوں مجھ کو رُلانے سے تجھے یوں پیار ہے
کھیلنا کیا تیرے موبائیل سے اِک آزار ہے؟
گیند ہے میری کہاں، چینی کی بلی ہے کدھر؟
وہ ذرا سا جانور، ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر
ہاں! کھلونوں میں یونہی مصروف میرا دِل رہے
اور ہمیشہ ہاتھ میں تیرے یہ موبائیل رہے
کھیلتا رہتا ہے موبائیل سے اپنے ہر گھڑی
اور ایسے کھیل میں اب تجھ کو میری کیا پڑی
آج تک ہر شے کو میرے واسطے لاتا رہا
میری خاطر اپنے دِل کو یونہی بہلاتا رہا
آج تجھ کو ایک موبائیل میسر آگیا
آرزوؤں پر تری اِک خواب بن کر چھاگیا
چھاگیا ہر خواب پر مثلِ غبارِ آرزو
آنکھ کھلتے ہی چمک اٹھا شرارِ آرزو
ہاتھ کی جنبش میں ، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے
دیکھنے والا ہر اک اس حسن کا گرویدہ ہے
ہاتھ میں لے لوں، بگڑ کر مجھ سے چلاتا ہے تو
چھینتا ہے مجھ سے فوراً، اور من جاتا ہے تو
آہ اس عادت میں ہم آہنگ ہے تو بھی مرا
میں تلوّن آشنا، تو بھی تلوّن آشنا
تیری آنکھوں کو لبھا لیتا ہے حسنِ ظاہری
کم نہیں کچھ میری نادانی سے نادانی تری
میری صورت گاہ خنداں، گاہ گریاں تو بھی ہے
دیکھنے کو نوجواں ہے، طفلِ ناداں تو بھی ہے
محمد خلیل الرحمٰن
طفلِ شِیر خوار
از علامہ اقبال
مَیں نے چاقو تجھ سے چھِینا ہے تو چِلّاتا ہے تُو
مہرباں ہوں مَیں، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تُو
پھر پڑا روئے گا اے نوواردِ اقلیمِ غم
چُبھ نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوکِ قلم
آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے
کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے، یہ بے آزار ہے
گیند ہے تیری کہاں، چینی کی بِلّی ہے کد ھر؟
وہ ذرا سا جانور ٹُوٹا ہُوا ہے جس کا سر
تیرا آئینہ تھا آزادِ غبارِ آرزو
آنکھ کھُلتے ہی چمک اُٹھّا شرارِ آرزو
ہاتھ کی جُنبش میں، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے
تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے
زندگانی ہے تری آزادِ قیدِ امتیاز
تیری آنکھوں پر ہوَیدا ہے مگر قُدرت کا راز
جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے، چِلّاتا ہے تُو
کیا تماشا ہے رَدی کاغذ سے من جاتا ہے تُو
آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں مَیں بھی ترا
تُو تلوّن آشنا، مَیں بھی تلوّن آشنا
عارضی لذّت کا شیدائی ہوں، چِلّاتا ہوں مَیں
جلد آ جاتا ہے غصّہ، جلد من جاتا ہوں مَیں
میری آنکھوں کو لُبھا لیتا ہے حُسنِ ظاہری
کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری
تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں مَیں بھی ہوں
دیکھنے کو نوجواں ہوں، طفلِ ناداں مَیں بھی ہوں
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
تو نے موبائیل جو چھینا ہے تو چلاتا ہوں میں
یوں تجھے اپنے تئیں نامہرباں سمجھا ہوں میں
کیوں رُلاتا ہے مجھے تو بار بار اے نوجواں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
آہ ! کیوں مجھ کو رُلانے سے تجھے یوں پیار ہے
کھیلنا کیا تیرے موبائیل سے اِک آزار ہے؟
گیند ہے میری کہاں، چینی کی بلی ہے کدھر؟
وہ ذرا سا جانور، ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر
ہاں! کھلونوں میں یونہی مصروف میرا دِل رہے
اور ہمیشہ ہاتھ میں تیرے یہ موبائیل رہے
کھیلتا رہتا ہے موبائیل سے اپنے ہر گھڑی
اور ایسے کھیل میں اب تجھ کو میری کیا پڑی
آج تک ہر شے کو میرے واسطے لاتا رہا
میری خاطر اپنے دِل کو یونہی بہلاتا رہا
آج تجھ کو ایک موبائیل میسر آگیا
آرزوؤں پر تری اِک خواب بن کر چھاگیا
چھاگیا ہر خواب پر مثلِ غبارِ آرزو
آنکھ کھلتے ہی چمک اٹھا شرارِ آرزو
ہاتھ کی جنبش میں ، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے
دیکھنے والا ہر اک اس حسن کا گرویدہ ہے
ہاتھ میں لے لوں، بگڑ کر مجھ سے چلاتا ہے تو
چھینتا ہے مجھ سے فوراً، اور من جاتا ہے تو
آہ اس عادت میں ہم آہنگ ہے تو بھی مرا
میں تلوّن آشنا، تو بھی تلوّن آشنا
تیری آنکھوں کو لبھا لیتا ہے حسنِ ظاہری
کم نہیں کچھ میری نادانی سے نادانی تری
میری صورت گاہ خنداں، گاہ گریاں تو بھی ہے
دیکھنے کو نوجواں ہے، طفلِ ناداں تو بھی ہے
محمد خلیل الرحمٰن
طفلِ شِیر خوار
از علامہ اقبال
مَیں نے چاقو تجھ سے چھِینا ہے تو چِلّاتا ہے تُو
مہرباں ہوں مَیں، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تُو
پھر پڑا روئے گا اے نوواردِ اقلیمِ غم
چُبھ نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوکِ قلم
آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے
کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے، یہ بے آزار ہے
گیند ہے تیری کہاں، چینی کی بِلّی ہے کد ھر؟
وہ ذرا سا جانور ٹُوٹا ہُوا ہے جس کا سر
تیرا آئینہ تھا آزادِ غبارِ آرزو
آنکھ کھُلتے ہی چمک اُٹھّا شرارِ آرزو
ہاتھ کی جُنبش میں، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے
تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے
زندگانی ہے تری آزادِ قیدِ امتیاز
تیری آنکھوں پر ہوَیدا ہے مگر قُدرت کا راز
جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے، چِلّاتا ہے تُو
کیا تماشا ہے رَدی کاغذ سے من جاتا ہے تُو
آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں مَیں بھی ترا
تُو تلوّن آشنا، مَیں بھی تلوّن آشنا
عارضی لذّت کا شیدائی ہوں، چِلّاتا ہوں مَیں
جلد آ جاتا ہے غصّہ، جلد من جاتا ہوں مَیں
میری آنکھوں کو لُبھا لیتا ہے حُسنِ ظاہری
کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری
تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں مَیں بھی ہوں
دیکھنے کو نوجواں ہوں، طفلِ ناداں مَیں بھی ہوں
آخری تدوین: