طلاق اور عدت کا ذکر قرآن مجید میں
٭ جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں (بقرۃ:۲۲۸)
٭ اللہ نے مطلقہ عورتوں کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپانا جائز نہیں ہے (البقرۃ:۲۲۸)
٭ جو کچھ تم اپنی بیوی کو دے چکے تھے، طلاق کے بعد اُسے واپس لینا جائز نہیں (البقرۃ:۲۲۹)
٭ عورتوں کو طلاق دے چکو تو بعد از
عدت اُن کے نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالو (البقرۃ:۲۳۲)
٭
عدت پوری ہونے تک عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ نہ کرو (البقرۃ:۲۳۵)
٭ بعد از نکاح عورت کو ہاتھ لگانے سے قبل طلاق دینے میں کوئی گناہ نہیں (البقرۃ:۲۳۶)
٭ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں نصف مہر دینا ہو گا (البقرۃ:۲۳۷)
٭ جنہیں طلاق دی جائے انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے (البقرۃ:۲۴۱)
٭ اے مومنو!اگر تم مومن عورتوں سے نکاح کے بعد انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے (الاحزاب:۴۹)
٭ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی
عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور
عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو (الطلاق :۱)
٭ عدت کے دوران نہ تم اُنہیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں (سورۃ الطلاق:۱)
٭
عدت کی مدت کے خاتمہ پر یا انہیں بھلے طریقے سے اپنے نکاح میں روک رکھو، یا بھلے طریقے سے اُن سے جدا ہو جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحبِ عدل ہوں (الطلاق:۲)
٭ عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اُن کی
عدت تین مہینے ہے۔ اور یہی حکم اُن کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو (الطلاق:۴)
٭ اور حاملہ عورتوں کی
عدت کی حد یہ ہے کہ اُن کا وضع حمل ہو جائے (الطلاق :۴)
٭
مطلقہ عورتوں کو عدت میں اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسر ہو (الطلاق :۶)
٭ اور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ (طلاق :۶)
٭ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے (الطلاق:۶)
٭ پھر اگر وہ تمہارے بچے کو دُودھ پلائیں تو ان کی اُجرت انہیں دو (الطلاق :۶)۔
٭ شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھے۔ (البقرۃ:۲۳۴)
٭
بیوہ عورتوں کو ایک سال تک شوہر کے گھر سے نہ نکالا جائے (البقرۃ:۲۴۰)
طلاق اور عدت کا ذکر احادیث میں
٭ حلال اور جائز چیزوں میں اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے (ابی داؤد)
٭ سخت تکلیف کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنے والی پر جنت کی خوشبو حرام ہے (مسند احمد،ترمذی)
٭ عورتوں کو طلاق نہ دو ا لّا یہ کہ چال چلن مشتبہ ہو۔ ذائقہ چکھنے کے شوقین مردو زن نا پسندیدہ ہیں (طبرانی)
٭ کوئی عورت اپنی سوتن مسلمان بہن کو طلاق نہ دلوائے کہ اس کے حصہ کو بھی خود حاصل کر لے (بیوع، بخاری)
٭ نکاح،طلاق اور رجعت (ایک یا دو طلاق کے بعد رجوع کرنا)تین ایسی چیزیں ہیں جن کا ہنسی مذاق کے طور پر کہنا بھی حقیقت ہی کے حکم میں ہے (جامع ترمذی،سنن ابی داؤد)
٭ زبردستی کی طلاق اور زبردستی کے ’’عتاق‘‘ (غلام آزاد کرنا) کا اعتبار نہیں۔ (ابی داؤد ابن ماجہ)
٭ طلاق دورانِ حیض نہیں بلکہ ایامِ طہر میں مباشرت کئے بغیر دینا چاہئے
٭ طلاق بائنہ (غیر رجعی) کے بعد حلالہ کیے بغیر عورت پہلے شوہر کے پاس لوٹ نہیں جا سکتی (طلاق، بخاری)
٭ بیوہ کے لئے سرمہ لگانا جائز نہیں جب تک چار ماہ دس دن کی
عدت نہ گزر جائے (طلاق، بخاری)
٭ دورانِ
عدت بیوہ رنگین کپڑے، زیورات نہ پہنے نہ خضاب، مہندی یا سرمہ لگائے (ابی داؤد، نسائی)
٭ تین دن سے زیادہ سوگ منع ہے۔ شوہر کے انتقال پر چار مہینے دس دن سوگ کا حکم ہے (مسلم)
مندرجہ بالا قرآنی آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:
- عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، وہ اپنی عدت شوہر کے اُسی گھر میں گذارے گی، جہاں وہ قبل ازیں رہتی رہی ہے۔ بعد از طلاق دورانِ عدت نہ تو شوہر اُسے گھر سے نکال سکتا ہے نہ ہی بیوی گھر چھوڑ کر جاسکتی ہے۔ البتہ اگر بیوی کے کردار میں کوئی نقص ہو یا وہ فساد پر آمادہ ہو تب شوہر اُسے گھر سے نکال سکتا ہے۔ اسی طرح اگر مطلقہ کو بعد از طلاق سابقہ شوہر کے گھر میں رہ کر عدت گذارنے کی صورت میں شوہر یا سسرال کی طرف سے کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو تب وہ میکہ یا کہیں اور عدت گذارسکتی ہے۔
- طلاق رجعی (یعنی ایک یا دو طلاق) کے بعد شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی یا نامحرم نہیں ہوتے۔ بلکہ دوران عدت بیوی شوہر کے سامنے بن سنور کر آ جا سکتی ہے، بات چیت کر سکتی ہے۔ تاکہ شوہر کو ”رجوع“ کرنے کا ”موقع“ مل سکے۔ اگرمطلقہ بطور نامحرم الگ تھلگ رہ کر عدت گزارے گی تو شوہر ”رجوع“ کیسے کرے گا؟
- دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ سابق شوہر کے ذمہ ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب