قران عیار
یہ خبر طائران سحر نے لشکر مہ رخ میں پہنچائی ہر ایک نے سنتے ہی اس خبر وحشت اثر کے پچھاڑ کھائی۔ گریبان چاک کیا۔ دامن ہر ایک کا جوش گریہ سے دامن سحاب بنا۔
مہ رخ نے کہا: اس میں کوئی مہترانی نے عیاری کی ہے۔ کیونکہ وہ لڑنے کو منع کر گئے تھے۔ اب جزع فزع نہ کرو اور نظر بفضل کریم کارساز رکھو، تم اب شیر کی کھال پہنو اور بہ شکل ببر وہاں بن کر تیار ہو۔"
برق حسب الارشاد و عمل میں لایا۔ یعنی شیر کی کھال پہن کر گھنڈیاں اس کی سینے تک لگا کر درست ہوا۔ اس کا بیان پہلی قسطوں میں ہم کرچکے ہیں کہ برق کے پاس سب جانوروں کے مثل گربہ و سگ و شیر وغیرہ کے رہتے ہیں اور اس کا جونر کی صورت بنتے ہیں بڑا ملکہ ہے چناچہ ایک بار کتا بن کر عمرو کو یہ پکڑ کر لے گیا تھا اور عمرو اس کو پہچان نہ سکا تھا۔
غرضیکہ جب شیر بن کر تیار ہوا۔ قران نے صورت اپنی ایک ساحر کی ایسی بنائی اور مہیب صورت سیاہ فام کہ تین سر ایک شیر کا دوسرا اژدھے کا اور تیسرا خرس(ریچھ) کا بنایا۔ ہر سر میں سانپ لپٹے کہ وہ زبان نکالتے تھے، کئی ہاتھ بنائے کہ کسی میں منقل آتشیں لیے تھا، کسی میں ترسول اور کسی میں تھال برنجی تھا، جھولا بادلا نگار محلے میں ڈالے، دھوتی تمپبری باندھے تھا۔
غرض یہ کہ اس شکل میں جب بن کر تیار ہوچکا، برق پر، جو بہ شکل شیر تھا سوار ہوا اور ایک نامہ شاہ طلسم کی جانب سے مہری لکھ کر اپنے پاس رکھا۔
برق اس کو لیے ہوئے مورگاہ حیرت پر لایا۔ اس کو خبر ہوئی کہ ایک ساحر سوار شیر شہنشاہ کے پاس سے آیا ہے اس نے استقبال کرکے سامنے بلایا۔ قران نے سامنے آکر تسلیم کی وار نذر دی پھر نامہ پیش کیا۔ ملکہ حیرت نے پڑھا، لکھا تھا: "اے ملکہ!برق عیار مارا نہیں گیا، بلکہ ہم نے اس ساحر کے حوالے برق کو گرفتار کرکے دیا ہے۔ اب عذرا سے کہنا جو یہ ساحر کے اس کے بمو جب کام کرے۔"
مکلکہ حیرت مضمون نامہ سے جب مطلع ہوئی۔ عذار سے کہا تم نے بھی دھوکا کھایا، شہنشاہ لکھتے ہیں کہ وہ برق نہ تھا جو مارا گیا۔"
عذار نے کہا: "میں شہنشاہ کو تو جھوٹا نہیں کہہ سکتا لیکن میں بارگاہ میں حریف سے جاکر پکڑ لایا ہوں، کیونکہ کہوں میں دھوکا کھایا۔"
یہ کلام سن کر نامہ دار نے کہا: تم دیکھو گے برق کو میں بلاؤں مجھ کو شہاہ نے اسے دے دیا ہے۔"
یہ کہہ کر باہر آیا اور شیر کی کھال برق پر سے اتروا کر اپنے ساتھ اندر بارگاہ کے لایا۔
ملکہ حیرت نے کہا: بھلا شہنشاہ کی بات کہیں جھوٹی ہوسکتی ہے۔
غرض اب سب کو یقین ہوا کہ بیشک یہ نامہ دار فرستادہ شاہ جاوداں ہے۔ بس عذار نے کہا: "اور شہنشاہ نے لکھا ہے۔
اس نے کہا: "وہ بات علیحدہ کہنے کی ہے۔ عذار اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خیمے میں لے چلا۔ قضائے کار اثنائے راہ میں عیار صبا رفتار ملی اور اس نے قران کو پہچانا۔ صاف تو نہ سکی، مگر بطور کنایہ کے پکاری: "میاں صاحب ہمارا سلام ہے۔
قران نے کہا: "کیوں دھگڑے(یار) کو یدکھا جی تو اچھا ہے۔
ان کلمات کو سن کر عذار سمجھا کہ یہ عورت سمجھ کر اس عیارہ سے ہنس رہا ہے۔ یہ سمجھ کر اس کو لیے پانی اپنی بارگاہ میں گیا۔
ادھر صبا رفتار نے جب دیکھا کہ میرا کنایہ عذار نہیں سمجھا۔ بس جدل چلی کہ جاکر ملکہ حیرت کو خبر کروں اور جاکر سامنے ملکہ کے عرض کیا: "حضور، نامہ دار نہیں ہے وہ قران عیار ہے، جو عذار کو لے گیا ہے جلد خبر لیجیے نہیں تو عذار مارا جائے گا۔
حیرت نے کہا: "تو دیوانی ہے وہ شیر پر چڑھ کر آیا ہے اور نامہ مہری شہنشاہ کا لایا ہے کہیں عیار بھی شیر بن سکتے ہیں یا اپنے تین سر بناسکتے ہیں۔
صبا رفتار نے کہا: "اس وقت اس شبہ میں نہ پڑھتے اور عیاری کے فن کی تفریح نہ فرمائیے جلد وہاں کی خبر منگوائیں ملکہ حیرت نے اس کے کہنے سے ایک ساحر جو حکم دیا: " حبا اور عذار کی خبر لا۔
وہ تو ادھر چلا مگر جب تک یہ آئے۔ وہاں پہنچتے ہی قران نے کہا: "اے عذار میں تجھے قتل کرنے آیا ہوں۔
اس نے کہا: "کیوں۔
جواب دیا: " حکم حاکم دیکھو نا وہ کیا مارنے چلے آتے ہیں: "اس نے گھبراکر اس کے کہنے سے پھر کر دیکھا۔ قران نے چمک کر بغدہ مارا کہ سر پھٹ گیا اور تڑپ کر ہلاک ہوگیا۔ غل و شور اور تاریکی ہوگئی۔ قران و برق بھاگ کر لشکر سے نکل گئے اور ساحر فرستادہ حیرت جو آیا اس نے بھی ہنگامہ دیکھا پلٹ کر ملکہ کے پاس گیا اور کہا: "وہاں خاتمہ ہوگیا۔
ملکہ حیرت کو بڑا رنج ہوا۔ لاش عذار کی اٹھوائی وار یہ زبردستی جو عیاروں کو دیکھی۔ طولان کا فرط خوب سے دم نکل گیا کہ واقعی ان عیاروں کے ہاتھ سے جان پچنا مشکل ہے۔
ملکہ حیرت نامہ اس سب حال کا افراسیاب کو لکھا اور قران نے جاکر سب ماجرا مہ رخ سے بیان کیا اور برق کی گرفتاری سے ہر ایک رنجیدہ ہورہا تھا۔ اب اس کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔
الحاصل یہ سب تو اس کیفیت میں ہیں اور عمرو اور مخمور دریائے مروارید سے گزر کر سمت کو کب رواں ہیں۔ ان سب کو اسی حال میں رکھیے اور شمہ داستاں زلا زل قاف ثانی سلیمان امیر حمزہ صاحبقراں کے لشکر نصرت اثر کی سنیے۔
سابقہ اقساط میں ذکر کیا گیا تھا پیکان کا کہ وہ لشکر لقا میں گیا تھا اور قتل ہوا تھا۔ اب اس کا بھائی اس کا یعنی سوفار جادو فرستادہ شاہ جاوداں نہ کرو فر تمام خدمت بقائے بد انجام میں پہنچا۔ اس کا استقبال شیطان درگاہ بختیارک نے کیا جب یہ اس مردود کے سمانے گیا سجدہ کیا اور دنگل پر بیٹھ کر رونے لگا اپنے بھائی کو یاد کرکے جان کھونے لگا۔ بختیارک بھی اس کے ساتھ گریہ کناں ہوا۔ یہاں تک یہ تو چپ بھی ہورہا مگر بختیارک چپ نہ ہوا۔
اس نے خود کہا: "ملک جی آپ صبر کیجئے فضل خداوند سے اپنے بھائی کا بدلہ ان مبھی جیتا نہ چ ایک کو بھی جیتا نہ چھوڑوں گا۔
بختیارک نے کہا: "میں جو تم سے زیاہد رویا تو سبب یہ ہے کہ دو آدمیوں کو رویا۔ ایک تو تمہارے بھائی کو اور دوسرا تمہیں، کیونکہ میں تم کو بھی مردہ جانتا ہوں۔ خدا نے ان بندوں کو قدرت ہی ایسی دی ہے کہ جو ان سے لڑتا ہے قتل ہی ہوتا ہے۔
سوفار نے کہا: "میں بھی ملک جی وہ ساحر ہوں کہ دم بھر یں ادھر کی دنیا ادھر کردوں گا۔
لقانے اس کا لاف گزاف سن کر کہا: " اے بندے مجھ کو غرور کسی کا پسند نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جو آتا ہے مارا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس کو غرور ہوجاتا ہے کہ میں ایسا صاحب شوکت و زور ہوں۔ پس کہ مجھ کو ناپسند ہوتا ہے میں اس کو قتل کر ڈالتا ہوں۔
سومار اپنے دل میں ڈرا اور کہا: "یا خداوند! مجھ سے خطا ہوئی معاف فرمائیے۔
الحاصل اس نے تبہ کی اور ایک دن کسل راہ سے آسودہ ہوا۔
دوسرے دن شام کے وقت سو ففا نے طبل بجنے کی درخواست کی۔ لقا نے حبس خواہش اس کے حکم دیا کوش جمشدی پر چوپ پر ہر کارے بارگاہ سلیمانی میں خبر لے کر گئے اور شہنشاہ گردوں سریہ چراغ لشکر اسلام سعد بن قباد کی خدمت میں پہنچ کر مراسم آداب شاہی بجا لائے اور عرض پیرا ہوئے: "آج لشکر لقا میں سوفار جادو طلسم سے آیا ہے اس نے طلب جنگ بجوایا ہے۔
ہر کارے یہ عرض کرکے کنارے ہوئے اور شہنشاہ نے امیر کو حکم دیا ہے: "لشکر میں بھی فضل پروردگار سے کوس رزم چوپ پڑے۔
امیر نے حسب الارشاد چالاک سے فرمایا: "جاؤ اور طبل جنگ بچاؤ۔
چالاک نے نقارہ خوانی سکندری میں آکر طبل سکندر پر دوال دیا۔
جہاں فانی میں غوغائے اقتلوا بھر گیا۔ شیر پیشہ گان جراب و نہنگام قلزم شجاعت ہجر آہن میں بہر شکار عدو غوطہ لگانے لگے۔ اسلحہ خانہ کھل گیا۔ ہتھیار پسند کیے جانے لگے۔ سخن ہائے مردانگی برلب شاد و بشاش سب کے جوہر تیغ نجم پہر کو آنکھیں دکھاتا تھا۔ محراب کمان میں بہر حفاظت ہر بہادر چلہ چڑھا تھا شمشیر جانستان کو دیکھ کر ترک فلک نے دانت نکلائے تھے نہ تو ثوابت تھے نہ سیارے تھے صبح ہوتے سب بھاگنے والے تھے۔ دشت کین کو خون سے رنگین و پر بہار کرنے کی تیاری تھی۔ اسی سے آب آہن کی آبیاری تھی۔ صدائے نقبائے خوش الحان زمزمہ ہزار بنی تھی۔ بلبلان گلستان شجاعت گلہائے زخم کی محبت نے قرار کئے۔ تھی کہاں تک لکھوں۔ رات بھر یہی ہنگامہ رہا۔
صبح دم امیر کو رگیر مسجد کے پاس سے بعد فراغت طاعت آلہ و دولت آسمان پناہ ظل اللہ پہر آئے اور مع سرداروں کے بادشاہ کو قلب لشکر لے کر دار دشت مصارت ہوئے۔ اس طرف سے لقا فوج بیکراں مع سوفار بے ایمان داخل میدان ہوئے۔ صفیں جمعیں سقون چھڑکاؤ کرکے گرد کو بٹھایا۔ نقیبوں نے بہاروں کو مرنا یاد دلایا۔ دنیائے فانی کو باپائدار بتایا۔ لازم ہے کہ سرائے فانی کو ہچ و دبوج جان کر مرنے کو زندگی جاوید سمجھو اس کے معرکے کو مار لو نام کر لو۔ بڑی خوشی سے گردن پر تیغ کر دھار لو۔
دلاور ان کلمات سے جوش شجاعت میں جھومنے لگے نقیب صفوف لشکر پر سناٹا چھایا ہوا دیکھ کر ہٹ گئے سوفار اژور سحر کو وسعلچچ میدان میں آکر للکارا: "ہے کوئی مرد میدان نبرد جو مجھ سے آکر مقابل ہو یا میں اس کو ہلاک کروں یا وہ میرا قاتل ہوا ادھر سے شہنشاہ عراق بادشاہ سے اجازت لے کر سامنے اس نابکار کے گیا اور پکارا: " لا ضربت میدان۔
اس نے سحر پڑھ کر دستک دی۔ بروئے ہوا سناٹا ہوا اور سب نے دیکھا کہ ایک عقاب تیز چنگال ہمسر نسر طائر فلک اڑتا ہوا آیا اور شہنشاہ عراق کی کمر میں پنچہ ڈال کرلے اڑا ہر چند اس بہادر لنگر ارا مگر پشت مرکب پر قائم نہ رہا لٹکتا ہوا چلا گیا۔ بعد اس کے جانے کے پھر اس نے مبادر طلبی کی۔
مندویل اصفہانی بادشاہ لشکر اسلام سے اجازت لے کر روبرو اس کے گیا اور طالب ضرب ہوا۔ اس نے پڑھ کر تالی بجائی وہی عقاب آیا اور اس کو بھی اٹھا لے گیا۔ اس طرح بیس پچیس سردار پنچہ عقاب میں گرفتار ہوئے۔
اس وقت امیر نے عزم میدان جنگ گاہ فرمایا۔ مگر بختیارک نے جب لشکر اسلام کا پرا بندھا دیکھا۔ خیال کیا کہ شاید صاحبقران نکلیں گے۔ پس وہ اسم اعظم جانتے ہیں۔ سوفار مارا جائے گا۔ یہ سوچ کر اس نے طبل بازگشت بجوادیا۔ لشکر میدان قتال سے پھرا۔ امیر بھی رنجیدہ خاطر مراجعت پزیر ہوئے۔ ازبسکہ دن تمام نہ ہوا تھا اور امیر رنجیدہ خاطر بھی تھے۔ سرداروں نے لشکر خیمہ گاہ کی طرف بھیجے اور آپ باتوں میں لگا کر امیر کو صحرا کی طرف لائے اس جگہ دامن کوہ میں گلہائے خورد و کھلے تھے۔ دامن کوہ دامن گلچیں تھا یا ارژنگ چین تھا۔ ابر بہاری کا شامیانہ تھا۔ طاؤس زریں لباس کا رقص مستانہ تھا۔ سوائے سرد کشتی اے جان کے لیے ماومراد تھی۔ زمین وہاں کی شاید ان گل سے آباد تھی۔ آتش لالہ گل کا دھواں سحاب بناتھا۔ بجلی کا اس ابر میں کوند لب مسی آلود معشوق کا ہنسایا دلاتا تھا۔ طرفہ بہار تھی نسیم ہر سمت مشکبار تھی۔
جابجا منتظم ہے باد بہار
ہے وہ صحرا نمونہ گلزار
برق سے ہے عیار تجلی طور
سارا جنگل نور سے معمار
گھر کے آیا ہے ابر دریا بار
بھینی بھینی سی پڑی رہی ہے پھوہار
قہقہ زن کسی طرف ہیں چکور
کہیں کوئل کہیں پیپے کا شور
گل خود رد پہ زور جوبن سے
دامن دشت رشک گلشن ہے
ڈھانک پھولا ہے بور آیا ہے
لالہ کوہ رنگ لایا ہے