طنز و مزاح کے نامور شاعر طالب خوندمیری کی رحلت

حیدرآبادی

محفلین
اردو حلقوں میں یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ طنز و مزاح کے نامور شاعر طالب خوندمیری کا آج بروز اتوار 16-جنوری-2011ء دوپہر ڈھائی بجے انتقال ہو گیا۔
اناللہ وانا الیہ راجعون
سید عبدالکریم مرحوم کے فرزند سید محمود طالب خوندمیری (پیدائش : 14-فبروری-1938ء) کا شمار حیدرآباد دکن (انڈیا) کے ممتاز آرکیٹکٹس میں ہوتا تھا۔ انہوں نے خود کی قائم کردہ آرکیٹکچرل فرم کے ذریعے بیشمار مساجد کی منفرد اسلامی طرز کی ڈیزائیننگ کی تھی۔
مرحوم طالب خوندمیری ، زندہ دلانِ حیدرآباد کے 20 سال سے زائد عرصے تک معتمد عمومی برقرار رہے۔ مزاحیہ ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد) کی مجلس ادارت کے وہ فعال رکن تھے۔ طنزیہ و مزاحیہ کلام پر مبنی ان کا ایک مجموعہ بعنوان "سخن کے پردے میں" منظر عام پر آ چکا ہے۔
طالب خوندمیری کی نمازِ جنازہ کل بروز پیر 17-جنوری-2011ء کو بعد نماز عشاء پڑھائی جائے گی۔ مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین فرزند اور تین دختران شامل ہیں۔

طالب خوندمیری گو کہ سنجیدہ شاعری بھی کرتے رہے مگر انہیں طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے سبب زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ طنز و مزاح سے لبریز ان کے کلام سے جہاں قاری/سامع کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے تو وہیں پلکیں بھی بھیگ جاتی ہیں۔
طالب خوندمیری ایسے پہلے آرکیٹک مزاح گو شاعر ہیں ، جن کے متعلق معروف مزاح نگار یوسف ناظم (مرحوم) نے فرمایا تھا :
ان کی شاعری میں زاویے ہی زاویے ہیں۔ مزاح کی کمانیں اور طنز کے جھروکے اور مستزاد کا ایک روف گارڈن۔

طالب خوندمیری کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی نظموں میں غالب کے مصرعوں کو نہایت فنکارانہ انداز میں استعمال کیا۔ نظموں کے عنوانات تک یوں رہے ہیں : پامسٹ غالب ، آرکیٹکٹ غالب ، طبیب غالب ، غالب حسینوں کے جھرمٹ میں ۔۔۔۔
"آرکیٹکٹ غالب" اپنے ایک موکل کو یوں مشورہ دیتا ہے :
میں جو کہتا ہوں ڈیکوریشن کروائیے
سبزۂ شاداب کی شطرنجیاں بچھوائیے
چوبِ صندل کی بنی سب کھڑکیاں لگوائیے
گیسوئے پرپیچ و خم کی چلمنیں ڈلوائیے


شاعرِ مشرق کے "شکوہ" کی طرز پر طالب خوندمیری نے بھی ایک "شکوہ" مسدس کی ہئیت میں تحریر کیا ہے جس میں اردو زبان اپنے وطن سے بھرپور طنزیہ انداز میں شکوہ کرتی نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔ :
محفلِ خورد و کلاں میں صفتِ جام پھری
لے کے آسان قواعد سحر و شام پھری
لکھنؤ دلی و پنجاب تا آسام پھری
کیا کبھی کام سے اپنے کہیں ناکام پھری
شہر تو شہر ہیں قریے بھی نہ چھوڑے میں نے
دور دیہات میں دوڑا دئے گھوڑے میں نے


افسوس کہ طنز و مزاح کا ایک مقبول و روشن باب ختم ہو گیا۔ طالب خوندمیری نے ایک مرتبہ اپنے معبودِ حقیقی کی بارگاہ میں عرض کیا تھا :
تو نے آنکھوں میں ندامت بھی مری دیکھی ہے
اس کے آگے مرے معبود تری مرضی ہے !!


اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے اور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے ، آمین۔
 

الف عین

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اب مجھے یہ پوسٹ کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ بہر حال اتنی مزید اطلاع دوں گا کہ موصوف ایک مشاعرے میں لونا ولا (مہاراشٹر) گئے ہوئے تھے، مشاعرہ تین بجے صبح تک چلا، واپسی کے بعد ان کو سینے میں درد محسوس ہوا لیکن اسے گیس کا سمجھ کر فورآ ڈاکٹر سے رجوع نہیں ہوئے، اور دوپہر تک وہیں جان جان آفریں کو سپرد کر دی۔
 

فاتح

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور انھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین
 
Top