طوطا کہانی باتصویر

شمشاد

لائبریرین


طوطا کہانی باتصویر

TotaKahani1.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

احسان اُس خدا کا کہ جس نے دریائے سخن کو اپنے ابر کرم سے گوہر معنی بخشا اور زبان کو واسطے اپنی حمد کے گویا کیا اور پیغمبر آخر الزمان کو ہم گنہگاروں کی شفاعت کیواسطے رحمۃ اللعالمین پیدا کیا کہ جسکے سبب سے ارض و سما نے قیام پایا۔ حسن وہ الحق کہ ایسا ہی معبود ہے۔ قلم جو لکہے اس سے افزود ہے۔ پیمبر کو بھیجا ہمارے لئے۔ وصی اور امام اُس نے پیدا کئے۔ سبھوں کا وہی دین و ایمان ہے۔ یہ ہیں دل تمام اور وہی جان ہے "تر و تازہ ہے اُس سے گلزار خلق – وہ ابر کرم ہے ہوا دار خلق" اگرچہ وہ بیفکر و غیور ہے۔ ولے پرورش سب کی منظور ہے۔ کسی سے بر آوے نہ کچھ کام جان۔ جو وہ مہربان ہو تو کل مہربان۔ اگرچہ یہاں کیا ہے اور کیا نہیں۔ پر اُس بن تو کوئی کسی کا نہیں۔ یہ سید حیدر بخش متخلص حیدری شاہجہان آبادی تعلیم یافتہ مجلس خاص نواب علی ابراہیم خان بہادر مرحوم شاگرد غلام حسین خان غازی پوری دست گرفتہ صاحب عالیجناب سخندان آبرو بخش سخنواران معدن مروت چشمہ فتوت دریائے جود و کرم منبع علم و حلم صاحب والا شان جان گلگرٹ صاحب بہادر دام اقبالہ کا ہے۔ اگرچہ تھوڑا بہت ربط موافق اپنے حوصلے کے عبارت فارسی میں بھی رکھتا ہے لیکن بموجب فرمائش صاحب موصوف کے ۱۲۱۵ھ مطابق ۱۸۰۱ عیسوی کے حکومت میں سرگردہ امیران جہان حامی غریبان و بیکسان زبدہ نوئینان عظیم الشان مشیر خاص شاہ کیوان بارگاہِ انگلستان مارکویس ولزلی گورنر جنرل بہاردو دام اقبالٰہ کی محمد قادری کے طوطی نامے کا جس کا ماخذ طوطی نامہ ضیاء الدین بخشی ہے۔ زبان ہندی میں موافق محاورہ اردوئے معلےٰ کے نثر میں موافق عبارت سلیک و خوب و الفاظ رنگین ، مرغوب سے ترجمہ کیا۔اور نام اس کا طوطا کہانی رکھا۔ تا صاحب نوآموزوں کی فہم میں جلد آوے۔ اور ہیچمدان ہر ایک اہلِ سخن سے امید رکھتا ہے۔ کہ جو کوئی چشم غور سے اس ترجمہ کو ملاحظہ کرے اور غلطی معنی یا نامربوطی الفاظ اس کے نظر پڑے۔ تو وہ شمشیر قلم سے مانند سرِ دشمن کے اس کو صفحہ ہستی سے اڑا دے۔ ابیات جو بہر صلاح اس پہ رکھے قلم۔ آگہی نہ دینا کبھی اُس کو غم، آلٰہی بحق امام انام۔ یہ جلدی ہو مجھ سے کہانی تمام۔ آمدم برسرِ مطلب، سُننا چاہیے کہ کیا کیا خون جگر کھایا ہے اور کیسا کیسا مضمون باندہا ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
پہلی داستان میمون کے پیدا ہونے اور خجستہ کے ساتھ بیاہے جانے کی

اگلے دولتمندوں میں سے احمد سلطان نام ایک شخص بڑا مالدار اور صاحب فوج تھا۔ لاکھ گھوڑے اور پندرہ سو زنجیر فیل اور نو سو قطار باربرداری اونٹوں کی اُس کے در دولت پر حاضر رہتے تھے، پر اُس کا لڑکا بالا کوئی نہ تھا کہ گھر اپنے باپ کا روشن کرتا۔ حسن اسی بات کا اُس کے دل پر تھا، داغ نہ رکھتا وہ اپنے گھر کا چراغ۔ اسی واسطے صبح و شام خدمت میں خدا پرستوں کی جاتا اور اُن سے درخوست دعا کی کرتا غرض تھوڑے دنوں میں خالق زمین و آسمان نے ایک بیٹا مہ جبین خوبصورت مہر چہر اُسے بخشا۔ احمد سلطان اسی خوشی سے گل کی مانند کھلا اور نام اُس کا میموں رکھا۔ کئی ہزار روپے فقیروں کو بخش کر سجدہ شکر بجا لایا اور یہ بیت پڑہنے لگا۔ حسن تجھے فضل کرتے نہیں لگتی بار۔ نہ ہو تجھ سے مایوس امیدوار۔ دوگانہ غرض شکر کا کیا۔ تہیہ کیا شادی جشن کا۔ اور تین مہینے تک شہر کے امیروں وزیروں دانایوں فاضلوں اُستادوں کی ضیافتیں کیں۔ کشتیان بعضوں کے آگے رکہیں اور اکثروں کو خلعت بھاری بھاری دئے۔ جس وقت وہ لڑکا سات برس کا ہوا واسطے تربیت کے ایک اُستاد دانا کامل کو سونپا۔ حسن معلم اتالیق و منشی ادیبہ ہر فن کے اُستاد بیٹھے قریب، کیا قاعدے سے شروع کلام، پڑھانے لگے علم اُس کو تمام، اور کتنے دنوں میں الف بے تے سے لیکر گلستان اور انشائے ہرکرن و جامع القوانین و ابو الفضل یوسفی و رقعات جامی تک پڑھا بلکہ علم عربی کو بھی تحصیل کیا۔ حسن دیا تھا زبس حق نے ذہن رسا، کئی سال میں علم سب پڑھ چکا، معانی و منطق بیان و ادب، پڑہے اُس نے منقول و معقول سبِ، کبردار حکمت کے مضمون سے، غرض جو پڑھا اُس نے قانون سے، اور قاعدہ نشست و برخاست مجلس بادشاہی کا اور طریقہ عرض و معروض کا اُسنے سیکھا۔ سچ یہ ہے کہ بعض فنون میں باپ پر بھی سبقت لیگیا۔ جب باپ نے دیکہا کہ جوان ہوا تب ایک عورت صاحب جمال گل اندام خجستہ نام کیساتھ بیاہ کر دیا۔ دونوں آپسمیں عیش و عشرت کرنے لگے۔ اور کسی وقت جدا نہوتے۔ غرض یہانتک شیفتہ و فریفتہ ہوئے کہ عاشقی و معشوقی کے درجے سے گذر گئے۔ اتفاقاً ایکدن شہزادہ گھوڑے پر سوار ہو کر بازار میں گیا اور دیکھا ایک شخص اس بازار میں ایک پنجرہ طوطے کا ہاتھ میں لئے کھڑا ہے۔ اُسنے طوطا بیچنے والے سے پوچھا کہ اے شخص اس طوطے کا کیا مول ہے۔

تصویر شاہزادیکا گھوڑے پر سوار ہو کر بازار میں جانا اور طوطے کا خرید کرنا

TotaKahani2.jpg

اُسنے جوابدیا کہ خداوندا اسکو ہزار روپے سے کم نہ بیچونگا۔ میموں نے کہا خیر معلوم ہوا جو اس ایکشت پر ہزار روپے دیکر لے اُسکے برابر دوسرا بیوقوف نہ ہو گا۔ کیونکہ ایک نوالہ بلی کا ہے۔ جب طوطے والا جواب اُسکا نہ دے سکا تو طوطے نے جانا کہ اگر یہ دولتمند عمدہ مجھے خرید نہ کریگا تو موجب قباحت اور بدنامی میری کاہے کیونکہ صحبت بزرگونکی سبب زیادتی عقل اور عزت کا ہے اُس سے میں محروم رہونگا تب طوطے نے جوابدیا کہ اے جوانِ خوشرو اگرچہ میں تیری آنکھونمین حقیر اور ضعیف ہوں لیکن بسبب دانائی اور عقل کے عرش پر پر مارتا ہوں اور ہر ایک اہل سخن میری خوشگوئی اور شیریں زبانی پر حیران ہے بہتر یہی ہے کہ مجھےمول لے۔ اسواسطے کہ سوائے خوشگوئی کے کئی ہنر مجھ میں عجیب ہیں۔ شمہ اسکا یہ ہے کہ میں حقیقت ماضیہ اور مستقبل اور حال کی کہتا ہوں اگر حکم ہو تو ایک بات فائدہ کی عرض کروں ۔ تب اُس نے کہا۔ کہ کیا کہتا ہے۔ کہہ ۔ طوطے نے کہا کہ بعد کئی دن کے ایک قافلہ سوداگروں کا اس شہر میں سنبل خریدنے آویگا۔ تم ابھی سے تمام شہر کے دوکانداروں سے سنبل خرید کر اپنے پاس رکھو جس گھڑی وہ کاروان آویگا اور سوائے آپکے اس شہر میں کسی کے پاس سنبل نہ پاوے گا۔ ناچار ہو کر حضوری میں آ کر درخواست کریگا۔ پھر اپنی خاطرخواہ بیچئے گا۔ اور اُسمیں بہت فائدہ ہو گا۔ یہ بات طوطے کی اُسکو نہایت خوش آئی اور ہزار روپے اُس شخص کو دیکر اُس طوطے کو لے اپنے گھر آیا اور سب سنبل فروشوں کو بلا کر سنبل کی قیمت پوچھی۔ اُنہوں نے عرض کیا کہ جتنا سنبل ہماری دوکان میں ہے دس ہزار روپے اُسکی قیمت ہوتی ہے۔ میموں نے اُسی دم دس ہزار روپے خزانہ سے دلوا کر خرید کیا اور ایک مکان میں رکھوا دیا بعد دو تین دن کے سوداگر اُس شہر میں داخل ہوئے اور تلاش سنبل کی کرنے لگے جب کہیں نہ پایا تب اُس کے پاس آ کر سنبل کو چوگنی قیمت دیکر مول لیا اور اپنے شہر کو گئے تب میموں اُس طوطے سے بہت خوش ہوا اور جان سے زیادہ عزیز رکہنے لگا۔ اور ایک مینا بھی خرید کر کے اُسکے پاس رکہی اسواسطے کہ عالم تنہائی میں اُسے وحشت نہ ہو کہ عقلمندوں نے کہا ہے۔ بیت کند ہمجنس باہمجنس پرواز، کبوتر با کبوترباز با باز، غرض اس مینا کو بھی اُس طوطے کے پاس رکھا کہ یہ دونوں آپس میں ہمجنس ہیں خوش رہینگے۔ اور بعد کئی دن کے میموں نے خجستہ سے کہا کہ میں سفر خشکی اور تری کا کیا چاہتا ہوں کہ شہروں کی سیر سے دل بہلے بعد میرے جو تجھے کام کرنا ہے سو بے مصلحت ان دونوں کے ہرگز نہ کرنا بلکہ جو کہیں اُسکو سچ جاننا اور اُنکی فرمانبرداری سے باہر نہ ہونا۔ یہ دوچار باتیں سمجھا کر آپ کسی شہر کو سفر کیا اور خجستہ کئی مہینے تک اُسکی جدائی میں رویا کی۔ کھانا سونا دن رات کا چھوڑ دیا۔ غرض طوطا کچھ قصہ کہانی کہکر اُسی کے دل غمگین کو ہر ایک وقت بھلایا کرتا اسیطرح سے چھ مہینے تک پُھسلا پُھسلا کر رکھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
دوسری داستان خجستہ کی پادشاہزادے پر عاشق ہونیکی اور دانائی طوطے کی

ایکدن خجستہ نہا دہو کر بناؤ کر کے کوٹھے چڑہی اور سیر ہر ایک کوچہ و بازار کی جھروکے سے کرنے لگی۔ اتنے میں ایک شہزادہ گھوڑے پر سوار آنکھیں اوپر کئے ہوئے گھوڑا قدم بقدم لئے ہوئے چلا جاتا تھا۔ خجستہ کو دیکہتے ہی عاشق ہوا اور اُس کا دل اُسپر آ گیا بے اختیار ہو کر شہزادے نے اُس گھڑی ایک عورت مکار کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا کہ اگر تم ایک رات چار گھڑی کیواسطے میرے گھر آؤ تو اس کے عوض میں ایک انگوٹھی لاکھ روپے کی تمہیں دوں اُسپر اس کٹنی نے وہیں جا کر کہا کہ اے خجستہ اس شاہزادے نے تجھے بلوایا ہے اور ایک گھڑی کیواسطے لاکھ روپے کی انگشتری دیتا ہے اگر تو چلے اور دوستی اس سے پیدا کرے تو کچھ اسی چیز پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ ہمیشہ سلوک نمایاں کیا کریگا اور حظ مفت میں اُٹھاؤ گی۔ خجستہ نے پہلے تو اس بات سے بہت بُرا مانا اور خفا ہو گئی۔ لیکن پھر پیرزال کے دام میں آ گئی اور کہنے لگی کہ اچھا میری طرف سے اُس کی خدمت میں سلام شوق کے بعد یہ کہنا کہ شب کو جس طرح سے جانونگی اُس طرح سے تمہارے پاس اپنے تئیں پہنچاؤنگی یہ پیغام وہ مکارہ لیکر ادہر گئی اور ادہر رات آئی تب خجستہ نے اپنے تئیں نہایت لباس اور گہنے سے آراستہ کیا اور کرسی پر بیٹھ کر جی میں کہنے لگی کہ مینا سے چل کر یہ بات کہیئے اور رخصت لیکر چلئے کیونکہ میں بھی عورت ہوں اور وہ بھی اسی خلقت میں ہے اغلب ہے کہ وہ میری بات سنے اور رخصت دے یہ سخن دل میں ٹھہرایا اور مینا سے جا کر کہا کہ اے مینا عجب ماجرا ہے اگر تو سُنے تو کہوں اُسنے کہا۔ کہ بی بی کیا کہتی ہو میں بھی عقل کے موافق عرض کرونگی تب کہ بانو کہنے لگی کہ آج میں اپنے کوٹھے پر چڑھ کر جھروکے کی راہ سے جھانکتی تھی۔ کہ اتنے میں ایک شہزادہ اُس راستے سے گزرا اور مجھ پر عاشق ہوا۔ اس گھڑی مجھے اپنے پاس بلاتا ہے اگر تو کہے تو میں جاؤں اور اُس سے ملاقات کروں پھر دو چار گھڑی کے بعد اپنے گھر چلی آؤنگی یہ بات سنتے ہی مینا نہایت غضبناک ہوئی اور غوغا کر کے کہنے لگی کہ واہ وا بی بی اچھے ڈہنگ نکالتی ہو اور خاصی باتیں سناتی ہو کیا خوب غیر مرد کے گھر جاؤ گی اور اُس سے دوستی کر کے اپنے شوہر کی حرمت گنواؤگی یہ بڑا عیب ہے تمہاری قوم کے لوگ کیا کہیں گے اس حرکت سے باز آؤ یہ سنتے ہی خجستہ نے اُسے پنجرے سے نکال ایک ٹانگ پکڑ گردن مروڑ زور سے زمین پر دے پٹکا کہ روح اُس کی آسمان پر پرواز کر گئی اور اسیطرح غصے میں بھری ہوئی طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے کچھ حقیقیت مینا کی دیکہی کہ وہ ابھی کیا تھی اور کیا ہو گئی اُس نے کہا کہ جی دیکہی جو خداوند کے بے ادبی کرے گا اُس کا یہی حال ہو گا خجستہ خوش ہو کر کہنے لگی کہ اے طوطے بہت دن ہوئے کہ میں نے مرد کی صورت نہیں دیکہی اور آج ایک بادشاہ زادے نے مجھ کو بمنت بلوایا ہے اگر تو کہے تو اُسکے پاس رات کیوقت جاؤں اور صبح ہوتے ہوتے اپنی جگہ پر آؤں طوطا اپنے جی میں ڈر کر کہنے لگا کہ اگر میں بھی منع کرتا ہوں یا اور کچھ کہتا ہوں تو ابھی مینا کی طرح سے مارا جاتا ہوں یہ سمجھ کر کہنے لگا کہ اے کد بانو مینا ناقص عقل تھی۔ اور اکثر یہ خلقت عورتوں کی بیوقوف ہوتی ہے اسی واسطے شعور مند کو لازم ہے کہ اپنا احوال اُن سے نہ کہیں بلکہ اس ذات سے پرہیز کریں تو خاطر جمع رکھ جلدی مت کر جبتک میری جان اس قالب میں ہے تب تک تیرے کام میں پیروی کرونگا اتنا مت گھبرا کریم کارساز جلد آسان کریگا خدانخواستہ اگر یہ بات ظاہر ہوئی اور اڑتے اڑتے تیرے شوہر تک پہنچی اور اُسنے آنکر تجھ سے خفگی کی تو میں ایکبات بنا کر تم دونوں کو آپسمین ملا دونگا جس طرح سے کہ اُس طوطے نے فرخ بیگ سوداگر کو جورو سے ملا دیا تھا خجستہ نے پوچھا کہ اُسکی نقل کیونکر ہے مفصل بیان کر کہ میں تیری احسانمند رہونگی۔
 

شمشاد

لائبریرین
تیسری داستان فرخ بیگ سوداگر اور اُسکے طوطے کی

طوطے نے کہا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر فرخ بیگ نام نہایت مالدار تھا اور ایک طوطا عقلمند اپنے پاس رکھتا تھا اتفاقاً اُس سوداگر کو سفر درپیش ہوا۔ تب ہر ایک اسباب اپنے گھر کا بی بی سمیت طوطے کے حوالے کیا اور آپ واسطے سوداگری کے کسی شہر میں گیا اور کئی مہینے وہاں کار تجارت میں رہا اُسکے جانیکے بعد کئی دن پیچھے اُسکی جورو نے ایک جوان مغل بچے سے آشنائی کی اور ہمیشہ رات کو اُسے اپنے گھر بلاتی صبح تک اُس کیساتھ عیش و عشرت کرتی یہ احوال اُن دونوں کا طوطا دیکہتا اور باتیں اُنکے اختلاط کی سُنتا لیکن دیکھا سُنا اپنے دل میں چھپا رکھتا بعد ڈیڑھ برس کے وہ تاجر اپنے گھر آیا اور حقیقیت گذری ہوئی اپنے گھر کی اُس طوطے سے پوچھی کہ میرے پیچھے کسطرح سے گذری اور کس کس نے کیا کیا کیا اُسنے ہر ایک کا حال جو ٹھیک ٹھیک تھا سو سب بخوبی کہدیا اور بی بی کی بات سے آگاہ نہ کیا کیونکہ اگر وہ بھی کہتا تو دونوں میں جدائی ہوتی یا کسی نہ کسی کی جان جاتی بعد دو ہفتہ کے وہ تاجر یہ ماجرا اور کسی شخص کی زبانی سُنکر اپنی بی بی سے دق ہوا اور خفگی کرنے لگا کیونکہ ہوشمندوں نے کہا ہے۔ کہ عشق اور مشک نہیں چھپتا ہے اور آگ بارود میں پوشیدہ نہیں رہتی وہ سوداگر طوطے کی طرف سے بدظن ہوا اپنے جی میں کہنے لگا کہ افسوس اس طوطے نے کچھ بھی اس کے نیک اور بد کی بات مجھ سے نہ کہی اور اپنی جورو پر غصہ ہو کر بہت سی سرزنش کی اور وہ احمق عورت یہ سمجھی کہ شاید طوطے نے کچھ اس سے میری بات کہی جو اس قدر مجھ پر آفت اُٹھائی ہے پھر طوطے کو اپنا مخالف سمجھ کر ایک روز آدہی رات کو قابو پا کر اُس طوطے کے بال و پر نوچ ناچ کر گھر کے باہر پھینک کر غل مچانے لگی کہ ہے ہے میرے طوطے کو بلی لیگئی اور جی میں سمجھی کہ وہ کمبخت مر گیا ہو گا لیکن تھوڑی سی جان اُسمیں باقی تھی۔ اوپر سے جو گرا تو صدمہ زیادہ پہنچا بارے بعد ایک ساعت کے اُسکے بدن میں قدرے قوت و توانائی آئی تب سنبھل کر اُٹھا وہاں ایک گورستان تھا اُسمیں گیا اور ایک گور کے سوراخ میں رہنے لگا لیکن تمام دن بھوکا مرتا رات کو اُس سوراخ سے نکلتا جو کوئی مسافراس گورستان میں وارد ہو کر رات کو کھانا کھاتا اور اُس کا گرا پڑا ٹکڑا دانہ دنکا جو پاتا سو چنتا اور کھاتا اور پانی پی کر صبح کو اُسی سوراخ میں جا بیٹھتا بعد چند روز کے سارے پر اُس کے نکل آئے اور تھوڑا تھوڑا اڑنے لگا اس گور سے اُس قبر پر جاتا پھرتا۔ اُدہر تو یہ گذری اب ادہر کی سنو، جس شب وہ طوطا گیا اُسکی صبح کو وہ سوداگر اپنے بچھونے پر اُٹھ کر اُسکے پنجرے کے پاس گیا اور اُسے دیکہا کہ وہ اُسکے اندر نہیں ہے۔ یہ حال دیکہتے ہی اُس نے اپنی پگڑی زمین پر دے پٹکی اور غل مچانے لگا بلکہ نہایت متردد ہوا اور اپنی بی بی پر اسقدر غصہ ہوا کہ کچھ کہا نہیں جاتا۔ آخر اُس نے اسکے غم میں خواب و خور بھی چھوڑ دیا۔ اپنی عورت کی باتوں کا ہرگز اعتبار نہ کیا بلکہ اُسکو اپنے گھر سے نکالدیا۔ تب اُس عورت نے دہیان کیا کہ شوہر نے مجھے اپنے گھر سے نکالدیا ہے اب رہنے والے اس شہر کے دیکھیں گے۔ مناسب یہ ہے کہ میرے گھر کے قریب جو گورستان ہے وہاں چلی جاؤں اور کھانا پینا سب چھوڑ دوں۔ یہانتک کہ مر جاؤں۔ آخرکار اس قبر گاہ میں گئی اور ایک فاقہ کیا۔ جسوقت کہ رات ہوئی اُس طوطے نے قبر کے سوراخ سے کہا کہ اے عورت اپنے سر کے بال نوچ اور ایک اُسترے سے منڈوا اور چالیس دن تک بے آب و طعام اس گورستان میں کہ میں تیرے شوہر میں دوستی کرا دوں، وہ عورت اُس آواز کو سُنکر متعجب ہوئی اور اپنے جی میں سمجہی کہ اس قبرستان میں کوئی ولی خدا پرست کی قبر ہے، البتہ وہ میرے گناہ بخشیگا اور مجھ سے میرے خاوند کو ملائیگا۔ اس بھروسے پر اپنے سر کو منڈوا کر چندے اُس قبرستان میں رہی۔ ایک روز طوطا اُس قبر سے نکل کر کہنے لگا کہ اے عورت تو نے بے تقصیر میرے پر اکھیڑے اور مجھے آزار سخت دیا۔ خیر جو ہوا سو ہوا میری قسمت میں یہی تھا جو تو نے کیا لیکن میں نے تیرا نمک کھایا ہے اور تیرے خاوند کا خرید ہوں۔ تو میری بی بی ہے، تیری خدمت بخوبی کرونگا اور وہ باتیں گور کے سوراخ سے میں نے کہی تھی۔ تو یقین کر میں راست گو ہوں چغلخور نہیں کہ تیرا عیب تیرے خاوند سے کہتا۔ اب دیکھ تو سہی میں تیرے شوہر کے گھر جاتا ہوں اور تجھ سے اُسکو ملا دیتا ہوں۔ غرض طوطے نے یہ کہا اور اپنے خاوند کے گھر جا موافق قاعدے کے اُسکو سلام کیا۔ اور آداب بجا لایا۔ دعائیں دیکر کہنے لگا کہ عمر تیری بڑی ہے اور دولت دو چند ہووے۔ اُسنے کہا کہ تو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے جو اس طرح باادب کھڑا دعائیں دیتا ہے۔ پھر آپ ہی پہچان کر کہنے لگا کہ ابتک کہاں تھا اور کس شخص کے بھر مہمان گیا تھا، سب احوال مفصل اپنا کہہ۔ اُس نے عرض کی کہ میں وہی قدیمی طوطا ہوں۔ مجھے بلی پنجرے سے لے گئی تھی اور اُسکے پیٹ میں تھا۔ آس کے آقا نے کہا تو پھر کیونکر جی اُٹھا۔ اُسنے کہا کہ نے تم بیگناہ اپنی بی بی کو گھر سے ہاتھ پکڑ کر نکال دیا، اس سبب سے وہ ایک قبرستان میں گئی اور چالیس دن فاقے سے رہی۔ بے اختیار آہ و زاری کی کہ حق تعالٰی اُس کی فریاد سُنکر مہربان ہوا۔ اور مجھکو مردہ سے زندہ کر کے کہا کہ اے طوطے تو اُسکے خاوند کے پاس جا اور اُن دونوں کو آپسمیں ملا دے بلکہ اُسکی عصمت پر گواہی دے۔ جب آقا نے یہ احوال دریافت کیا تب خوش ہو کر اپنے جگہ سے اُٹھا اور گھوڑے پر سوار ہو اپنی بی بی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے جانی میں نے بے تقصیر ستایا اور دکھ دیا لیکن اب تو اُس بات سے درگذر آمیری خطا معاف کر۔ وہ راضی ہوئی، تب اُس کو گھر لے آیا۔پھر جو خاوند ملے جلے رہنے لگے اور عیش و عشرت کرنے لگے۔ القصہ طوطے نے اس سوداگر کا قصہ تمام کیا اور خجستہ سے کہا کہ اے خجستہ اُٹھ اور جلد شاہزادے کے پاس جا۔ یاکہ وعدہ تیرا جھوٹ نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ یہ خبر تیرے شوہر تک پہنچے اور وہ تجھ پر خفگی کرے تو میں اُسی سوداگر کے طوطے کی طرح صفائی کرا دوں گا۔ خجستہ اس سخن سے خوش ہوئی اور قصد کیا کہ شہزادے کے پاس جاوے۔ اتنے میں صبح صادق ہو گئی۔ جانا اُسکا موقوف رہا اور یہ شعر آسمان کیطرف دیکھکر پڑھا اور گریبان مثل گل چاک کیا۔ حسن یہ دو دل کو اک جا جھاتا نہیں، کسی کا اسے وصل بھاتا نہیں، یہ ہے دشمن وصل و دل سوز ہجر، کرے ہے شب وصل کو روز ہجر، ازبسکہ خجستہ تمام رات قصہ سننے کیواسطے جاگی تھی۔ سونے کے لیے گئی۔ اور جاتے ہی بچھونے پر سو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین

چوتھی داستان ایک پاسبان نے طبرستان سے وفاداری کی اور اُسنے اُسے اپنا ولیعہد کیا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ اپنے بچھونے پر سے اٹھی، ہاتھ منہ دہو کر بیٹھی۔ خوان کھانے اور میوے کے منگائے، کچھ تناول کیا اور پھر پوشاکِ مکلف اور جواہر قیمتی سے اپنے تئیں آراستہ کر سچ مچ کی پری بنکے دو پری پیکر خواصوں کو ساتھ لیکر خوش اور بشاش طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے "جذبہ عشق نئے لطف دکھاتا ہے مجھے، شوق دل کوئے صنم میں لئے جاتا ہے مجھے، اگر تو مہربانی سے رخصت کرے تو میں اُسکے پاس جاؤں اور آرزو اپنے دل کی نکالوں۔ طوطا کہنے لگا اے کد بانو تو خوش ہو، اندیشہ مت کر کہ میں تیرے کام کی سعی جستجو میں لگ رہا ہوں۔ قریب ہے کہ تجھے تیرے یار کے پاس پہنچاؤں لیکن تجھے لازم ہے کہ تو بھی دوستی اور محبت اُسکی اپنے جی میں رکھے جس طرح سے کہ ایک پاسبان نے بادشاہ طبرستان کی عقیدت اپنے دل میں رکہی اور اُسکے عوض دولت بیشمار پائی۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے۔ مفصل بیان کر۔

حکایت

طوطاکہنے لگا کہ عقلمندوں نے اور اگلے زمانے کے بزرگوں نے کہا ہے کہ ایکدن ایک بادشاہ طبرستان نے مجلس عیش برابر بہشت کے آراستہ کی۔ کھانے اچھے لذیذ اور شرابیں پُرکیف ، کباب قسم قسم کے اُس محفل میں مہیا کئے۔ شہزادے وزیر امیر حکیم اُستاد بلکہ جتنے صاحب کمال اُس شہر کے تھے، حاضر ہوئے اور کھانے اُنہوں نے کھائے اور شرابیں پیں کہ اتنے میں ایک شخص اجنبی اُس محفل بادشاہی میں بیدھڑک چلا آیا۔ تب ہر ایک اہل بزم نے پوچھا کہ اے مرد تو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اُس نے کہا کہ میں شمشیرزن اور شیرگیر ہوں اور تیر اندازی بھی ایسی جانتا ہوں کہ تیر میرا سنگ خارا کو پھوڑتا ہے بلکہ پہاڑ کے پار ہوتا ہے سوائے سپہ گری اور بھی ہر ایک فن سے واقف ہوں اور بہت سی حکمتیں جانتا ہوں۔ پہلے امیر خجستہ کے پاس نوکر تھا۔ جب اُسنے میری قدر کچھ نہ کی اور کاریگری نہ سمجہی تو اُسکی چاکری چھوڑ کر بادشاہ طبرستان کے پاس آیا ہوں۔ اگر وہ مجھے نوکر رکھے گا تو رہوں گا اور جانفشانی قرار واقعی کروں گا۔ طبرستان کے بادشاہ نے یہ بات سُنکر اپنے نوکروں اور اہلکاروں کو حکم کیا کہ بیشک اس کو خدمت پاسبانی کی دوپہر بعد دریافت ہونے کے جو اسکے حق میں مناسب ہو گا کیا جائے گا۔ بموجب حکم بادشاہ کے ارکانِ دولت نے اُسی وقت خدمت پاسبانی کی اُسے دی اور سرفراز کیا۔ چنانچہ وہ شام سے تا صبح ہر ایک شب دولتخانہ کی خبرداری کے واسطے جاگتا اور کھڑے ہو کر بادشاہ کے قصر کو دیکھا کرتا۔ اتفاقاً ایک شب آدہی رات کو بادشاہ بالا خانے پر کھڑا ادہر اُدہر پھرتا تھا۔ نگاہ اُسکی پاسبان پر پڑی، دیکہا کہ ایک شخص مستعد کھڑا ہے، تب اُس نے پوچھا اے شخص تو کون ہے جو بیوقت اس محلسرا کے نیچے کھڑا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ خداوند! میں پاسبان اس دولت خانے کا ہوں۔ خبرداری کے واسطے اس محلسرا کے پاس کتنے دنوں سے شام سے صبح تک حاضر رہتا ہوں اور امیدوار تھا کہ جمال مبارک حضرت کا دیکھوں اور اپنی آنکہیں روشن کروں بارے۔ آج کی شب قسمت نے یاوری کی کہ دیدار خداوند عالیان کا دیکھا ، دل کو شاد کیا۔ اتنے میں ایک آواز جنگل کیطرف سے بادشاہ کے کان میں آئی۔ کہ میں جاتی ہوں کوئی ایسا مرد ہے کہ مجھ کو پھیر لاوے۔ یہ بات سنتے ہی بادشاہ متعجب ہو کر اُس سے کہنے لگا۔ کہ اے پاسبان تو بھی کچھ اُس آواز کو سُنتا ہے۔ کہ یہ آواز کہاں سے آتی ہے۔ اُس نے عرض کی کہ اے خداوند میں تو کئی شب سے سُنتا ہوں کہ بعد آدہی رات کے یہ آواز یوں آتی ہے۔ لیکن میں خدمت پاسبانی کی رکھتا ہوں۔ محلسرا کو چھوڑ کر جا نہیں سکتا۔ اس واسطے دریافت نہ کر سکا کہ یہ کسکی آواز ہے۔ اور کہاں سے آتی ہے۔ اگر شاہجہاں ارشاد کریں تو ابھی جاؤں اور شتاب اُسکو دریافت کر کے حضور پُرنور میں عرض کروں۔ بادشاہ نے فرمایا کہ بہتر جا۔ جا اور سچ خبر حضور میں آ کر گذارش کر۔ وہ پاسبان وہیں خبر لینے چلا، تھوڑی دور گیا تھا۔ کہ بادشاہ بھی ایک کمبل سیاہ لیکر سارا بدن اور منہ اُس سے چھپا کر اُسکے پیچھے ہو گیا۔ پاسبان تھوڑی دور جا کر کیا دیکھتا ہے کہ وہ ایک عورت حسین خوبصورت ایک درخت کے نیچے راہ میں کھڑی ہے۔ اور کہتی ہے کہ میں جاتی ہوں، دیکھوں تو کون ایسا مرد ہے جو مجھے پھیر لاوے اور نہ جانے دے۔ تب اُس نے پوچھا کہ اے بی بی صاحب جمال پری پیکر تو کون ہے۔ اور یہ بات کس لئے سب سے کہتی ہے۔ اُس نے کہا کہ میں تصویر عمر بادشاہ طبرستان کی ہوں۔ وعدہ اس کا برابر ہوا ہے۔ اب اسواسطے میں جاتی ہوں۔ یہ سخن سنتے ہی اُس پاسبان نے کہا کہ اے تصویرِ عمر بادشاہ اب کس طرح سے پھر بھی مراجعت کریگی اور پھر آویگی۔ اُس نے کہا کہ اے پاسبان ایک صورت سے اگر تو اپنے بیٹے کو اُسکے عوض ذبح کرے تو البتہ مراجعت کروں تا کہ بادشاہ پھر چند روز اس جہان میں زندگی کرے اور جلدی نہ مرے۔ یہ بات بادشاہ نے بھی سُنی اور اُس پاسبان نے بھی نہایت خوش ہو کر جوابدیا کہ اے عورت عمر بادشاہ پر اپنی عمر اور بیٹے کی عمر نثار کرتا ہوں۔ جلدی مت کر، یہیں کھڑی رہ۔ میں ابھی اپنے گھر جاتا ہوں اور بیٹے کو لا کر تیرے سامنے ذبح کرتا ہوں۔ میں اس سے ہاتھ اُٹھاؤں گا۔ بادشاہ کی سلامتی کیواسطے ماروں گا۔ حاصل کلام یہ کہکر اپنے گھر گیا۔ بیٹے سے کہنے لگا کہ بیٹا آج بادشاہ کی عمر تمام ہوئی ہے، کوئی دم میں وہ مرتا ہے۔ اگر تو اپنی عمر اُسکو دے تو وہ تیرے مرنے سے جیئے اور چند روز اس دنیا میں رہے۔ وہ لڑکا نیک بخت وفادار اس بات کو سُنتے ہی کہنے لگا کہ اے قبلہ و کعبہ وہ بادشاہ منصف و عادل ہے۔ ایسے والی صاحب سخا اہل ہمت غریب پرور کریم بخش کے لئے ایک میں کیا ہوں، اگر تمام گھر تمہارا کام آوے تو قصور نہ کرنا کیونکہ ایک مجھ سا ناچیز اگر اُسکے صدقے ہوا تو کیا ہُوا۔ وہ جیتا رہے گا۔ تو ایک عالم کو پرورش کرے گا۔ بہتر یہی ہے کہ مجھے جلد لے چلو اور اُس کے اوپر صدقے کرو تو میں سعادتِ دارین حاصل کروں کیونکہ ایک تو آپ کا کہنا اور دوسرے ایسے بادشاہ پر نثار ہونا اس سے بہتر بات میرے واسطے اس جہان میں اور کوئی نہیں۔ میں نے یہ کلام حضرت اُستاد رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ ہر ایک چھوٹے بڑے مکتب کے لڑکوں سے کہتے تھے کہ اگر بادشاہ کی سلامتی کیواسطے کوئی اہلکار بادشاہی ایک آدمی کو رعیت میں سے مارے تو گناہ نہیں کیونکہ وہ بندہ پرور ہے، سینکڑوں کو پالتا ہے۔ وہ جیئے گا تو ہر ایک شہر اس سے آباد رہے گا، اگر وہ مرے گا تو ایک ظالم پیدا ہو گا کہ ہزاروں کو ہلاک کرے گا۔ اور لاکھوں اُسکے ظلم و ستم سے مریں گے۔ پس لازم ہے کہ جلد مجھے لے چلو اور اُس کے واسطے ذبح کرو۔ اُس کے واسطے ایک مجھ سا قربان ہو تو کیا۔ آخر وہ پاسبان اپنے بیٹے کو اُس عورت کے پاس لے گیا اور اُسکے ہاتھ پاؤں باندھ کر چاہتا تھا کہ خنجر تیز سے اُس کا گلا کاٹے، اتنے میں اُس عورت نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ اے پاسبان اپنے بیٹے کو ذبح مت کر اور گلا اُس کا مت کاٹ۔ حق تعالٰی کو تیری ہمت پر رحم آیا اور مہربان ہو کر مجھے پھر ساٹھ برس کا حکم کیا کہ بادشاہ کے قالب میں رہوں۔ جس وقت اُس پاسبان نے اسی خوشی کی خبر کو سُنا، بہت خوش ہوا اور اُسی وقت بادشاہ کو خبر دینے چلا۔ یہ حالت بھی بادشاہ طبرستان نے اپنی آنکھوں سے دیکہی اور بات چیت پاسبان کی اور اُس کے بیٹے کی کما حقہ دریافت کی، پھر اُس کے پیچھے سے دوڑ کر اپنے تئیں بدستور اُسی بالا خانے پر پہنچا اور اُسی طرح اُس پر پھرنے لگا اور بعد ایک گھڑی کے وہ پاسبان بھی حضور پُرنور میں آیا اور تسلیمات بجا لا کر دعا دینے لگا کہ عمر و دولت جاہ و حشمت شاہنشاہ کی تاقیامت بڑہتی رہے۔ بادشاہ نے اُس سے پوچھا کہ اے پاسبان وہ کیسی آواز تھی، کچھ تو نے دریافت کیا ہے تو مفصل بیان کر۔ اُس نے دست بستہ ہو کر عرض کی اے خداوند ایک عورت حسین صاحب جمال اپنے خاوند سے لڑ کر اس جنگل میں نکل آئی تھی اور ایک درخت کے نیچے اُس راہ میں بیٹھی رو رہی تھی اور یہی کہتی تھی کہ میں نہ رہوں گی۔ تب میں اُس کے پاس گیا۔ اور اُس کو میٹھی میٹھی باتوں سے بہلایا اور اچھے اچھے سخن سمجھا بجھا کر اُسکے شوہر سے ملا دیا۔ دوستی اُن دونوں میں کرا دی۔ اب اُس نے مجھ سے اقرار کیا ہے کہ میں ساٹھ برس تک اپنے شوہر کے گھر سے نہ نکلوں گی۔ بادشاہ نے یہ دانائی اور جانفشانی اُسکی اور جرات اُسکے بیٹے کی دیکہی تھی۔ فرمایا کہ اے پاسبان جس وقت تو اُس کی خبر لینے چلا تھا، میں بھی تیرے پیچھے موجود تھا۔سب سوال و جواب تیرے اور تیرے بیٹے کے اور اطوار اس عورت کے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سُنے۔ خیر اگرچہ اگلے وقت میں تو محتاج و غریب و ذلیل و پریشان تھا، اور اب میرے پاس پاسبانی میں نوکر ہواتھا۔ انشاء اللہ تعالٰی روز بروز بہبودی اور ترقی تیری ہو گی اور گھڑی گھڑی سلوک پر سلوک کروں گا۔ خدا کے فضل سے تو نہایت اوج دولت کو پہنچے گا۔ یہ کہکر بادشاہ آرام کرنے گیا۔ بساط عیش پر سو رہا۔ بعد دو چار گھڑی کے صبح ہوئی، بادشاہ تخت پر نکل کر بیٹھا اور پاسبان کو بلایا، پھر امیر وزیروں کو اور اہلکاروں کو جمع کر کے یہ فرمایا کہ اے حاضرانِ پایہ تخت میں نے اسے بخوشی اپنا ولیعہد کیا اور مال و اسباب و خزانہ سب اپنی رضامندی سے اسے دیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کی۔ اتنے میں صبح ہوئی اور آفتاب نکلا۔ جانا خجستہ کا موقوف رہا کیونکہ تمام رات بادشاہ طبرستان اور اُس پاسبان کی کہانی سننے سے آنکھ خمار آلودہ رہی تھی۔ جاتے ہی پلنگ پر سو رہی۔

ہند کڑی مار آخر کو لیٹ
چھپر کھٹ کے کونے میں منہ لپیٹ​
 

شمشاد

لائبریرین
پانچویں داستان زرگر اور نجار کی​

جب سورج چھپا اور چاند نکلا تب خجستہ ارغوانی جوڑا پہن بسنتی دوشالہ اوڑھ جواہر کے دریا میں سراپا غرق ہو طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے مجھے آج کی شب جلد رخصت دے کہ میں اپنے یار سے ملوں اور کچھ باتیں پیار کی کہوں۔ طوطے نے کہا کہ اے کدبانو میں نے تجھے پہلی ہی شب رخصت دی تھی۔ اب تو نے کیوں توقف کیا، خیر اب جا اور یہ زیور اپنے بدن کا اتار کیونکہ بی بی دنیا بہت بُری جگہ ہے۔

تصویر آنا کدبانو شہزادی کا سنگار کر کے طوطے کے پاس لطلبِ رخصت

TotaKahani3.jpg

ایسے اسباب کو پہنکر غیر مرد کے پاس جانا اچھا نہیں۔ شاید اُس کی آنکھ گہنے پر پڑے اور جی میں لالچ کرے تو نہ تو رہیگی اور نہ گہنا۔ دوستی کی دوستی جائے گی، زیور کا زیور جس طرح سے کہ اُس زرگر اور نجار کی دوستی میں خلل پڑا۔ ۔۔۔۔ رہی کیواسطے برسوں کا ساتھ چھوٹا۔ خجستہ نے پوچھاکہ اُسکی نقل مفصل بیان کر۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک بڑہئی اور سُنار میں دوستی تھی کہ جو کوئی انہیں دیکھتا وہ یہی کہتا تھا کہ یہ عاشق اور معشوق ہیں۔ اگر یہ نہیں ہے تو ماں جائے بھائی ہیں۔ اتفاقاً وہ دونوں سفر کو گئے۔ کسی شہر میں جا کر مفلسی ہوئے اور آپسمیں کہنے لگے کہ اس شہر میں فلاں بتخانہ ہے۔ کہ اُس میں کئی بُت سونے کے ہیں۔ یہاں سے برہمنونکی صورت بن کر چلیئے اور عبادت میں مشغول ہو جیئے۔ کسی وقت فرصت پا کر چُرائیے اور مزے سے اُنکو چُرا کر گذران کیجیے۔ یہ بات ٹھہرا کر وہ دونوں اُس بتخانے میں گئے۔ برہمنوں نے جو اُنکی عبادت دیکھی تو سب شرمندہ ہوئے۔ ہر روز اُس بتخانے سے وہ برہمن جاتے اور پھر نہ آتے۔ اگر کوئی پوچھتا کہ تم نے کیوں بتخانے کو چھوڑا تو وہ یہ کہتے کہ کئی دن سے دو برہمن ایسے دہرم صورت صاحب جمال پوجا کرنے والے آئے ہیں کہ ایک دم بھگوان کے دہیان سے سر نہیں اُٹھاتے اور کسی سے آنکھ نہیں ملاتے۔ اس واسطے ہم چلے آتے ہیں۔ کیونکہ ان کے برابر ہم سیوا اور تپسیا نہیں کر سکتے۔ جب اُن دونوں کے سِوا اُس بتخانے میں اور کوئی نہ رہا، تب اُنہوں نے شب کو فرصت پا کر کئی بت سونے کے چُرا کر اپنے گھر کا راستہ پکڑا اور وہ نزدیک شہر کے پہنچ کر کسی درخت کے نیچے ان بتوں کو گاڑ کر اپنے اپنے گھر گئے۔ بعد آدہی رات کے سُنار اکیلا جا کر اُن بتوں کو کھود لایا اور صبح کے وقت نجار کے گھر جا کر اُس نجار سے کہنے لگا کے اے نجار بے ایمان جھوٹے دغا باز میری آشنائی کا پاس نہ کیا اور ایسی قدیم دوستی میں خلل ڈالا کہ اُن بتوں کو تو چُرا لایا۔ اس بے ایمانی سے کے برس جیئے گا اور کے دن گذران کرے گا۔ خوب اس زمانے میں دوستی کا اعتبار نہ رہا۔ وہ اس کی باتیں سُنکر حیران ہوا کہ یہ کیا بکتا ہے۔ آخر ناچار ہو کر یہ کہنے لگا کہ اے زرگر جو کیا سو کیا اور جو ہوا سو ہوا، جانے دے ۔ میں جانتا ہوں۔ خدا کے واسطے مجھ پر بہتان مت باندھ، ازبسکہ وہ عقلمند تھا۔ اور اس سے لڑنا اور قصہ کرنا مناسب نہ جانا، چپکا ہو رہا۔ بعد کئی دن کے ایک پُتلا چوبی اُس بڑہئی نے سُنار کی صورت بنایا اور کپڑے اُسے پہنائے اور دو بچے خرص کے کہیں سے لایا اور اُس پتلے کی آستین اور دامن میں کچھ کچھ اُن بچوں کے کھانے کی چیزیں رکھ دیں۔ جب اُن کو بھوک لگتی تو اُس پتلے کے پاس جاتے اور اُس کی آستین یا دامن سے جو پاتے سو کھاتے اور اپنے جی میں جانتے کہ ہمارا ماں باپ جو کچھ ہے سو یہی ہے اور وہ دونوں اُس پتلے سے آشنائی رکھتے تھے کہ ہر روز الفت سے اُس کے دامن پر آ کر بیٹھتے۔ جب خرس کے بچوں کو اُس صورت سے مہر و محبت ہوئی، تب بڑھئی نے اُس سنار کی اور اُس کی جورو لڑکوں کی ضیافت کی، بلکہ ہمسایہ کی عورتوں کو بھی بُلایا۔ چنانچہ سُنار کی جورو اپنے دونوں لڑکوں کو ساتھ لیکر اُسکے گھر گئی۔ نجار اپنی گھات میں لگ رہا تھا۔ بعد دو گھڑی کے اُس سُنارنی کو غافل پا کر اُن دونوں لڑکوں کو چھپا رکھا اور خرس کے بچوں کو چھوڑ کر غل مچانے لگا کہ ہے ہے یہ سُنار کے لڑکے خرس کے بچے کیونکر ہو گئے۔ یہ بات سنکر سنار باہر سے بے اختیار روتا ہوا آیا اور اُسکی کمر پکڑ کر کہنے لگا کہ ارے جھوٹ کیوں بکتا ہے۔ آدمی بھی جانور ہوئے ہیں۔ آخر یہ قضیہ قاضی کے روبرو گیا اور قاضی نے پوچھا کہ اے بڑہئی اُسکے بچے خرس کے بچے کیونکر ہوئے۔ اُس نے کہا کہ حضرت دونوں لڑکے میرے سامنے کھیلتے تھے، یکایک زمین پر گرتے ہی گرتے خرس کے بچے ہو گئے۔ قاضی نے کہا کہ یہ بات میں کس طرح سچ جانوں۔ تب نجار کہنے لگا کہ خداوندا میں نے کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ کسی وقت میں ایک گروہ انسان کا خدا کے غضب سے حیوان ہو گیا تھا۔ لیکن عقل اُس گروہ کی جوں کی توں رہی تھی اور الفت اور محبت میں بھی ویسا ہی تھا۔ لازم یہ ہے کہ اسوقت دربار عام میں اُن بچوں کو سب ہالی موالی کے سامنے منگوا کر اُسکے روبرو کیجئے۔ اگر وہ اُس کے لڑکے ہونگے تو اُس سے الفت کریں گے اور نہیں تو جو چاہیے گا سو مجھے کیجئے گا۔ یہ بات سُنکر قاضی نے پسند کی اور اُن بچوں کو منگوا کر اُس زرگر کے آگے چھڑوا دیا۔ وہ اُس صورت کے سبب سے آشنا ہو رہے تھے۔ باوجود اُس بھیڑ کے بے اختیار دوڑ کر اُس سے جا لپٹے اور اُس کے پاؤں پر منہ ملنے لگے اور اُسکی بغلوں میں سر ڈالنے لگے۔ تب قاضی نے کہا کہ اے سُنار دغا باز یہ دونوں لڑکے تیرے ہیں۔ مجھے یقین ہوا، پس اب ان دونوں کو اُٹھا کر لیجا، ناحق کیوں شرارت اور بہتان کرتا ہے۔ تب وہ زرگر اُس نجار کے پاؤں پر گر پڑا اور منت کرنے لگا کے اے یار اگر یہ حکمت تو نے اپنا حصہ لینے کیواسطے کی ہے تو اپنا حصہ لے اور میرے لڑکے مجھے دے۔ اُس نے کہا کہ اے سُنار تو نے بُرا کیا ہے اور امانت میں خیانت کی ہے۔ اگر اب جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور دغا بازی سے توبہ کرے تو شاید پھر تیرے بیٹے اپنی اسلی صورت پر آویں۔ غرض اُس زرگر نے اُس کا حصہ دیا اور اپنے بیٹھے اُس سے لئے۔

طوطے نے یہ نقلی تمام کر کے کہا کہ اے خجستہ تو بھی اپنا زیور اُتار کر جا۔ شاید وہ بھی اُسی طرح کا بے ایمان ہو اور اُس کا لالچ کرے تو پھر نہ گہنا ہی رہے اور نہ دوستی ہی رہے گی۔ کدبانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ گہنا اُتارے اور اپنے معشوق کے پاس سدہارے کہ اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھ کر چُپکی رہ گئی۔

روتے روتےتمام رات کٹی
ہجر کی پر نہ میری بات کٹی​
 

شمشاد

لائبریرین
چٹھی داستان لشکری کی جورو سے امیر زادہ شرمندہ ہوا

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، خجستہ نے ایک جوڑا دھانی گلے میں ڈالا اور ہر ایک جواہر سے اپنے تئیں سنوارا اور مسی کی دھڑی کا لکھوٹا ہونٹوں پر جمایا، بالوں میں تیل ڈال کنگھی چوٹی گندھا ایک بانکپن سے اُٹھی اور طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنےلگی کہ اے طوطے تو مجھے ہر ایک وقت باتوں میں لگا لیتا ہے اور یوں ہی جھوٹ موٹ بہلا دیتا ہے۔ تجھے میری خبر نہیں ہے کہ میں دردِ عشق سے مرتی ہوں اور حسب حال میرے یہ بند ہے۔

مخمس

حیران ہوں کیا کرے گا تیرا وعدہ اور پیام
اس منجھلے کے بیچ میرا کام ہے تمام
اگر زندگی عزیز ہے میری تو صبح و شام
موقوف کر یہی ہے میرا حاصلِ کلام

طاقت نہیں رہی مجھے اب انتظار کی​

کد بانو نے کہا کہ قسم ہے مجھے آج کی شب رخصت دے کہ میں جاؤں اور اُسے گلے لگاؤں۔ طوطا کہنے لگا کہ اے خجستہ میں بھی اسی بات سے شرمندہ ہوں، سینہ چاک ہے اور دل جلتا ہے کہ تو ہر ایک شب میری باتیں سُنا کرتی ہے ، اپنے یار کے پاس نہیں جاتی۔ خدانخواستہ اگر اس عرصے میں تیرا خاوند آ جائے گا، تو خواہ مخواہ اپنے معشوق سے خجالت کھینچے گی۔ جس طرح سے کہ اُس لشکری کی جورو سے امیر زادہ شرمندہ ہوا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی کہانی کیونکر ہے۔ بیان کر۔

حکایت

طوطاکہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک مرد لشکری جورو نہایت خوبصورت رکھتا تھا۔ اور اُس کی حرمت کی نگہبانی کیا کرتا تھا۔ ایکدم اُسکے پاس سے جدا نہ ہوتا۔ اتفاقاً گردشِ فلکی سے لشکری محتاج ہوا۔ تب اُسکی جورو نے پوچھا کہ اے صاحب تم نے کیوں اپنا کاروبار دنیا کا موقوف کیا جو احوال یہاں تک پہنچا۔ اُس نے کہا کہ اے بی بی مجھے تیرا اعتبار نہیں اس لیے کہ سب کاروبار تباہ کر کے یہاں تک خراب ہوا ۔ نہ کہیں جا سکتا ہوں نہ کسی کی نوکری کر سکتا ہوں۔ تب اُس نے کہا اجی ایسے خیال فاسد کو اپنے جی سے دور کر کہ اس عورت نیک بخت کو کوئی مرد فریفتہ نہیں کر سکتا اور بدبخت بی بی کو کوئی شوہر سنبھال نہیں سکتا۔ تم نے حکایت اُس جوگی کی نہیں سُنی جو ہاتھی کی صورت بن کر اپنی جورو کو پیٹھ پر چڑہائے جنگل جنگل پڑا پھرتا تھا۔ اور اُس بیحیا نے اُسکی پیٹھ پر ایک سو ایک مرد سے بدکاری کی تھی۔ تب اُس لشکری نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے۔ تو بی بی کہنے لگی۔ نقل ہے کہ ایک راہگیر نے کسی بیابان میں ایک فیل مست بمع عماری دیکھا کہ چلا آتا ہے۔ تب وہ اُسکی دہشت سے ایک بلند درخت پر چڑھ گیا۔ قضا کار وہ فیل اُسی درخت کے نیچے آیا۔اور اُس عماری کو اپنی پیٹھ سے اُسی جگہ اتار کر رکھا اور آپ چرائی کو گیا۔ اس مرد نے دیکھا کہ اس عماری میں ایک عورت خوبصورت حسین ہے۔ اس واسطے اس درخت پر سے اُترا۔ اُس کے پاس آ کر باتیں اور مزاخیں کرنے لگا۔ وہ بھی اُس سے خوش ہو کر اپنے مطلب کی باتیں ناز و انداز سے کر کے ایسی مختلط ہوئی کہ گویا ہمیشہ کی آشنائی تھی۔ غرض شہوت کے غلبہ سے بدکاری میں مشغول ہوئی۔ بعد فراغت کے اُس عورت نے ایک تاگا اپنی جیب سے گرہ دار نکالا اور ایک گرہ اُس ڈورے میں اور دی۔ تب اُس مرد نے پوچھا کہ تم کو اپنے خدا کی قسم سچ کہو کہ یہ ڈورا کیسا ہے اور یہ گرہیں اس میں کیسی ہیں۔ مجھ کو بھی اس احوال سے خبردار کرو۔ تب وہ بدذات کہنے لگی کہ میرا شوہر جادوگر ہے۔ میری حفاظت کیواسطے ہاتھی بنا رہتا ہے اور مجھے اپنی پیٹھ پر چڑہائے جنگل جنگل پھرتا ہے۔ اُسکی اس خرداری پر میں سو مردوں سے بدکاری کی اور یادگاری کیواسطے ایک ایک گرہ دی۔ آج تجھ سمیت ایک سو ایک گرہ ہوئی۔ جب وہ یہ داستان تمام کر چکی تب اُسکے شوہر نے کہا کہ اب میرے حق میں کیا فرماتی ہو جو کہو سو کروں۔ تب اُس عورت نے کہا کہ بہتر مصلحت یہی ہے کہ تم سفر کرو اور کسی کے نوکر ہو۔ میں ایک گلدستہ تر و تازہ پھولوں کا دیتی ہوں۔ جب تک وہ گلدستہ پژمردہ نہو تب تک جاننا کہ میری بیوی حرمت و عصمت سے بیٹھی ہے اور اگر خدانخواستہ وہ مرجھا جاوے تو معلوم کرنا کہ اس سے کچھ فعل صلور ہوا۔ یہ بات اُس لشکری کو خوش آئی۔ تب ناچار اُس سے جدا ہو کر کسی ملک کو واسطے روزگار کے چلا اور اُس عورت نے موافق کہنے کے ایک گلدستہ اُسے دیکر رخصت کیا۔ آخر وہ کسی شہر میں پہنچا اور کسی امیر زادے کا نوکر ہوا۔ غرضیکہ اُس گلدستہ کو بخوبی آٹھوں پہر اپنے پاس رکھتا اور دیکھتا کہ اتنے میں موسم خزاں کا گلستان جہان میں پہنچا اوور ہر ایک گل و غنچہ نے چمن دہر سے سفر کیا اور زمانے میں گل و غنچہ کا نام و نشان نہ رہا سوائے اُس گلدستہ کے جو اُس لشکری کے پاس تھا۔ تب امیرزادے نے اپنے مصاحبوں سے کہ اگر لاکھ روپے خرچ کیجیے تو ایک پھول میسر نہیں ہوتا اور کسی بادشاہ وزیر کے ہاتھ بھی نہیں لگتا ہے۔ تعجب ہے کہ یہ بیچارہ غریب سپاہی ہمیشہ ایک گلدستہ تازہ بتازہ کہاں سے لاتا ہے۔ تب اُنہوں نے عرض کی کہ حضرت سلامت ہم کو بھی یہی تعجب ہے۔ تب اُس امیر نے پوچھا کہ اے لشکری یہ گلدستہ کیسا ہے اور کہاں سے تیرے ہاتھ لگا ہے۔ اُس نے کہا کہ یہ مجھ کر میری بی بی نے اپنی حرمت کی نشانی دی ہے اور کہا ہے کہ جب تک یہ گلدستہ تروتازہ رہے گا، یقین جانیو کہ میری عصمت کا دامن گناہ سے نہیں بھرا۔ اس بات پر وہ امیرزادہ ہنسا اور کہنے لگا کہ اے لشکری جورو تیری جادوگر اور مکارہ ہے۔ اُس نے تجھے فریب دیا ہے اور اپنےدو باورچیوں میں ایک کو کہا کہ تو اس لشکری کے شہر میں جا اور اُس کی بی بی سے جس طرح مکر و فریب سے بنے مل کر جلد پھر آ۔ اور اُسکی کیفیت سے آگاہ کر۔ دیکھیں تو یہ گلدستہ کھلا رہتا ہے یا نہیں۔ بھلا یہ بھی معلوم ہو۔ وہ باورچی اپنے آقا کے حکم کے بموجب اُس کے شہر میں گیا اور ایک عورت دلالہ کو کچھ سمجھا بجھا کر اُسکے پاس بھیجا۔ وہ پیرزال اُس عورت کے گھر گئی اور جو کچھ کہ اُس نے کہا تھا سو سب کہا بلکہ اپنی طرف سے بھی بہت کچھ کہا لیکن اُس نے کچھ جواب اُس کٹنی کو نہ دیا۔ بس اتنا کہا کہ اُس مرد کو میرے پاس لے آ۔ میں دیکھوں وہ میرے لایق ہے یا نہیں۔ آخر اُس بڑہیا نے اُس شخص کو اُس عورت کے سامنے کر دیا۔ تب اُس نیک بخت نے اس مرد کے کان میں جھک کر کہا کہ اچھا میں حاضر ہوں لیکن اسوقت تو جا اور اُس رنڈی سے کہہ کہ میں اس عورت سے دوستی نہ کروں گا کہ میرے لایق نہیں اور بعد پہر رات کے اکیلا بیدھڑک میرے پاس چلا آ۔ پھر جو کچھ تو کہے گا میں قبول کروں گی پر اُسکو خبر مت کر کیونکہ یہ راز اس قوم سے کہنا اچھا نہیں ہے۔ غرض اُس مرد نے اس بات کو پسند کیا اور اُسکے کہنے کے بموجب اُس دلالہ سے کہا کہ میں اس سے آشنائی نہ کروں گا کیونکہ یہ میرے قابل نہیں اور بعد آدہی رات کے اس عورت کے دروازے پر آیا اور دستک دی۔ اُس عورت نے اپنے گھر کے اندر ہی کنوئیں پر ایک چارپائی کچے سوت کی بنی ہوئی بچھوائی۔ اور ایک چادر اُس پر کسوا کر اُس مرد کو بلا کر کہا کہ اس پر بیٹھ۔ وہ مارے خوشی کے جونہی بیٹھا وہیں اُسکے اندر گر پڑا اور غل کرنے لگا۔ تب اُس بی بی نے کہا کہ اے شخص سچ کہہ کہ تو کون ہے اور کس کا بھیجا ہوا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اگر سچ کہتا ہے تو جیتا چھوڑوں گی اور نہیں تو اسی کنویں میں تیری جان ماروں گی۔ تب اُس نے بنا چاری تمام احوال اپنا اور اُس امیرزادے کا اور اُسکے خاوند کا مفصل بیا ن کیا۔ پر اُس حادثے سے نکل نہ سکا۔ اُسی چاہ میں ایک مدت بند رہا۔ اُس امیرزادے نے اُسکے نہ پھر آنے کے باعث سے دوسرے باورچی سے کہا کہ تو بھی یہاں سے بہت سا مال تجارت کا اُس شہر میں لیجا اور اُس عورت سے دوستی کر کے جلد پھر آ۔ لیکن ایسا نہ کرنا کہ تو بھی اُسی کی طرح وہیں کا ہو رہے۔ آخر وہ بھی اُس ملک میں گیا، اور دلالہ کو اپنے ساتھ لیکر اُسکے گھر آیا اور اُسی طرح سے وہ بھی اُسی چاہ میں قید ہوا۔ تب امیرزادے نے جانا کہ شاید اُس پر کچھ آفت پڑی جو اب تک ادہر نہ آیا۔ تب آپ ہی ناچار ہو کر ایک روز شکار کا بہانہ کر کے اُس ملک کو چلا اور مع لشکر وہ لشکری بھی اُس کے ساتھ گیا اور گلدستہ تر و تازہ اپنی بی بی کے آگے رکھدیا۔ تب اُس عورت نے واردات اپنی گزری ہوئی ہوبہو اپنے شوہر سے کہی۔ بعد دو دن کے وہ لشکرہ اپنے آقا کو گھر لے گیا اور ضیافت کی اور اُن دونوں کو اُس کنوئیں میں سے نکالا، لوندی کے کپڑے پہنا کر کہا کہ ہمارے گھر مہمان ایا ہے۔ اگر تم آج کھانا اچھا پکا کے اُن کے آگے لیجاؤ گے اور خدمت اُن کی بجا لاؤ گے تو کل ہم تم کو آزاد کریں گے۔ غرض وہ دونوں ویسے ہی کپڑے پہن کر کھانا امیرزادے کے روبرو لے گئے۔ چونکہ کنوئیں کے دُکھ سے اور تھوڑا کھانا کھانے سے سر کے بال اور مونچھ داڑہی کے جھڑ پڑے تھے اور منہ کا رنگ متغیر ہو گیا تھا۔ امیرزادے نے فی الفور انہیں نہ پہچانا اور لشکری سے پوچھا کہ ان باندیوں نے ایسی کیا تقصیر کی ہے جو تم نے اُن کا سر منڈوایا ہے اور اس احوال کو پہنچایا ہے۔ تب اُس لشکری نے کہا کہ اُنہونے بڑا گناہ کیا ہے۔ میں کیا عرض کروں، آپ ہی ان سے پوچھیئے۔ یہ اپ ہی گناہ بیان کریں گی۔ آخر اُس امیرزادے نے غور کر کے دیکھا تو اپنے باورچیوں کو پہچانا۔ اور اُنہوں نے بھی اپنے آقا کو پہچانا۔ تب وہ دونوں دوڑ کر اُس کے پاؤں پر گر پڑے اور بے اختیار رونے لگے اور اُس لشکری کی جورو کی عصمت پر گواہی دی۔ جب اُس لشکری کی عورت نے پردے کے اندر سے کہا کہ اے امیرزادے میں وہی عورت ہوں۔ کہ جس کو تو نے جادوگر مقرر کیا تھا اور میرے خاوند کو احمق بنا کر ہنسا تھا۔ اور میرے امتحان کے واسطے آدمی بھیجے تھے۔ اب دیکہا تو نے کہ میں کیسی ہوں اور خدا کے فضل سے میری عصمت کیسی ہے، تب وہ امیر زادہ شرمندہ ہوا۔ اور عذر خواہی کرنے لگا۔ جس وقت طوطے نے یہ داستان تمام کی۔ اُس وقت کہا کہ اے خجستہ اب جلد جا اور اپنے معشوق سے مل۔ مبادا اس عرصہ میں کہیں تیرا شوہر آ جاوے تو تو ناحق وعدہ شکن اورجھوٹی اپنے دوست کے آگے ہوویگی۔ کدبانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مُرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ شعر پڑھنے لگی۔

گردش سے آسمان کے نزدیک ہے سبھی کچھ
تجھ سے ہمیں مِلانا اک دُور ہے تو یہ ہے

تصویر شہزادہ اور لشکری کی اور دونوں باورچیوں کا بصورت باندیاں کھانا پکا ہوا لیکر آنا

TotaKahani4.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
ساتویں داستان نجار اور زرگر اور خیاط اور زاہد کی

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا تب خجستہ رخصت لینے کے واسطے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے پیدا کرنے والے کی قسم مجھے آج کی شب جلد رخصت دے کہ میں اپنے جانی کے پاس جاؤں اور دل کھول کر اپنی جوانی کا مزہ اٹھاؤں۔ طوطا کہنے لگا کہ اے کدبانو میں ہر ایک شب تجھے رخصت کرتا ہوں، تو آپ ہی دیر کرتی ہے اور نہیں جاتی بلکہ میں اس بات سے آٹھوں پہر ڈرتا رہتا ہوں کہ ایسا کہیں نہ ہو کہ تیرا شوہر آ جاوے تو پھر تیرا احوال اُنہیں چاروں شخصوں کی طرح سے ہو۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُن چاروں کا قصہ کیونکر ہے بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک بڑہئی اور سُنار اور درزی اور زاہد چاروں آپس میں ملکر کسی شہر کو کچھ روزگار کو چلے۔ اتفاقاً ایک دن سوائے منرل کے کسی جنگل میں شام کے ہونے سے راہ بھول گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ آج کی شب اس جنگل میں رہیے اور پاسبانی کیجیئے۔ اس بیابان میں ہر ایک چیز کا خطرہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم چاروں ایک ایک پہر جاگیں اور چوکی دیں۔ خدا کے فضل سے صبح کے وقت اپنی منزل مقصود کو بخیریت پہنچیں۔ یہ بات ہر ایک نے پسند کی اور پہلے پہر کی چوکی بڑہئی کے ذمہ ہوئی اور وہ سب سو رہے۔ نوبت نجار۔ بعد ایک گھڑی کے اس نجار نے بسولہ لیکر کسی درخت کی ٹہنی موٹی سی کاٹی اور اُس کی پُتلی حسین اپنی کاریگری سے بنا کر تیار کی۔ بعد پہر کے آپ درزی کو جگا کر سو رہا۔ نوبت درزی۔ اور درزی اپنی بیداری کی خاظر کچھ سوچنے لگا کہ کس سبب سے پہر بھر جاگے۔ اتنے میں نجار کی کاریگری سے وہ پتلی نظر آئی۔ تب اپنے دل میں کہنے لگا کہ نجار نے اپنا ہنر دکھانے کو یہ صورت چوبی بنائی ہے پس میں بھی ایسے کپڑے سی سا کر ٹھیک ٹھاک پہناؤں کہ اُس کا حُسن دونا نکلے۔ آخر اُس نے بھی اپنی کاریگری سے اُسی وقت ایک جوڑا نہایت عمدہ دولہنوں کا سا بنایا اور پتلی کو پہنا کر اور سُنار کو جگا کر آپ سو رہا۔ نوبت زرگر۔ تب وہ زرگر اپنے جاگنے کا کچھ سبب ڈھونڈنے لگا۔ اتنے میں وہ پتلی کپڑے پہنے ہوئے دکھلائی دی۔ تب اپنے دل میں کہنے لگا کہ اُن دونوں نے اپنا اپنا کسب دکھلایا ہے پس مجھ کو بھی لازم ہے کہ میں بھی اپنا ہنر ظاہر کروں اور اُس پُتلی کو ایک نئی طرح کی گڑہت کے کہنے سے آراستہ کروں تا کہ وہ بھی معلوم کریں کہ یہ ایسا ہے۔ سُنار نے یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا کر ایسا گہنا گڑھ کے اُسے پہنایا کہ وہ پتلی اور بھی خوبصورت ہو گئی۔ اغلب ہے کہ اس ساخت کا زیور آجتک کسی نے نہ دیکھا ہو گا نہ پہنا ہو گا۔ پھر اُس پتلی کا یہ عالم ہوا کہ بیان نہیں ہو سکتا کہ ایک جی ہی ڈالنا باقی رہ گیا کہ اُس زرگر نے زاہد کو اُٹھا دیا اور آپ سو رہا۔ نوبت زاہد۔زاہد اُٹھتے ہی وضو کر کے عبادت الٰہی میں مشغول ہوا۔ بعد ایک گھڑی کے کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت حسین سامنے کھڑی ہے پر وہ ہلتی ہے نہ جلتی ہے، تب اُس نے معلوم کیا کہ ان تینوں کی کارستانیاں ہیں۔ اب مجھے بھی اپنا کمال دکھلانا لازم ہے۔ پس میں خدا کے فضل سے ایسا کمال ظاہر کروں کہ اس بے جان کو دعا سے جاندار کروں تاکہ یہ بھی یاد کریں کہ عبادت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ آخر کار وہ زاہد بعد نماز کے جناب کریم میں بے اختیار رو کر دعا مانگنے لگا کہ اے خالق زمین و آسمان! واسطے اپنی خداوندی کے اس تصویر چوبی میں جان دے اور گویا کہ میں بھی آبرو اپنی یاروں میں پاؤں۔ بارے یہ التجا اُسکی جناب باری میں قبول ہوئی۔ اُسی گھڑی اُس پتلی میں جان پڑی اور آدمیوں کی طرح سے باتیں کرنے لگی۔ جب رات تمام ہوئی اور آفتاب نکلا، اُس پتلی کو دیکھ کر وہ چاروں عاشق ہوئے اور ایک سے ایک قفیہ کرنے لگا۔ نجار بولا کہ میں اس کا مالک ہوں کیونکہ اس کاٹھ کو میں نے آدمی کی صورت تراش کر بنایا ہے، میں لوں گا۔ خیاط بولا کہ میں اس کا وارث ہوں، کس واسطے کہ میں نے اس پتلی کو حرمت دی ہے اور کپڑے پہنائے۔ سنار بولا کہ یہ دلہن میرا حق ہے کیونکہ میں نے ایسا گہنا پہنایا ہے کہ بنی سے بن گئی۔ زاہد بولا کہ یہ دلہن میرا حق ہے کہ وہ کاٹھ کی پتلی تھی۔ میری دعا سے حق تعالٰی نے اُسے جان دی، سوا میرے اور کس کا منہ ہے کہ اُسپر آنکھ ڈال سکے۔ میں لوں گا۔ غرض یہ قصہ بڑھا اور ایک شخص غیر اُس جگہ آ گیا۔ اُن چاروں نے اُس سے انصاف چاہا۔ وہ اُس صورت کو دیکہتے ہی عاشق ہوا اور کہنے لگا کہ یہ میری بیاہتا بی بی ہے۔ تم سب اسے فریب دیکر نکال لائے ہو اور مجھ سے جُدا کیا ہے۔ آخر اُن چاروں کو غیر شخص کوتوال کے پاس لے گیا۔ کوتوال بھی اُسکو دیکھ کر مبتلا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ میرے بھائی کی بی بی ہے۔ وہ اُس کو اپنے ساتھ سفر کو لے گیا تھا۔ شاید تم نے اُسکو مار ڈالا اور لے بھاگے ہو۔ آخر وہ کوتوال اُن سب کو قاضی کے پاس لے گیا اور قاضی بھی اُس پر شیفتہ ہو کر کہنے لگا کہ تم کون ہو۔ یہ میری باندی ہے۔ میں اس کی مدت سے تلاش کرتا تھا اور بہت سا اسباب اور نقد و زیور لے کر بھاگی تھی۔ بارے آج تمہارے باعث سے ملی۔ وہ اسباب کہاں ہے، اُس کو بھی بتلاؤ۔ غرض اُس قضیئے نے یہانتک طول کھینچا کہ سب زن و مرد اُس شہر کے جمع ہوئے اور تماشا دیکہنے لگے۔ تب اُن تماشبینوں میں سے ایک پیر مرد نے کہا کہ یہ قسہ تمارا یہاں قیامت تک کسی سے فیصل نہ ہو گا۔ تم سب اُس شہر کو جاؤ کہ وہ کئی دن کی راہ ہے اور وہاں ایک درخت بہت پُرانا ہے۔ نام اُس درخت کا شجرۃ الحکم کہتے ہیں۔ جس کا مقدمہ فیصل نہیں ہوتا وہ اُس درخت کے پاس جاتا ہے۔ اُس درخت سے ایک آواز نکلتی ہے کہ مدعی جھوٹا اور سچا معلوم ہو جاتا ہے۔ وہ ساتوں شخص اس بات کو سنتے ہی اُس درخت کے پاس اُس عورت سمیت گئے اور سب نے احوال اپنا اپنا بخوبی اُس سے اظہار کر کے کہا کہ اے درخت سچ کہہ یہ عورت ہم میں سے کس کا حق ہے۔ اتنے میں پیٹ اُس درخت کا پھٹ گیا اور وہ عورت دوڑ کر اُس میں سما گئی۔ تب اُس درخت سے آواز نکلی کہ تم نے بھی سُنا ہو گا کہ ہر ایک چیز اپنی اصل پر جاتی ہے۔ چلو ہوا کھاؤ اور ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے گھر کی راہ لو۔ آخر کو وہ ساتوں شرمندہ ہو کر اپنے اپنے گھر گئے۔ طوطے نے یہ قصہ تمام کر کے کہا کہ اے کدبانو اگر تیرا شوہر آوے اور تجھے قید کر رکھے تو تو بھی اپنے معشوق سے شرمندہ ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب شتابی جا اور اپنے جانی کو گلے سے لگا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی جو جانے کا قصد کیا، صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی یوں ہی رہا تو یہ شعر پڑھا اور زار زار رونے لگی۔

بیت

صبح سے پہلے جی نکل نہ گیا
حیف ہے دل سے یہ خلل نہ گیا​
 

شمشاد

لائبریرین
آٹھویں داستان راجہ رائے رایان اور راجہ قنوج کی لڑکی پر عاشق ہونا ایک فقیر کا​

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، تب خجستہ کپڑے بدل بہنا پہن نہایت بن ٹھن کر طوطے کے پاس رخصت لینے کو گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے میں تجھ سے بہت شرمندہ ہوتی ہوں کیونکہ ہر ایک شب رخصت لینے کو آتی ہوں اور تجھے تکلیف دیتی ہوں اور تو میری خاطر سے اپنا خواب و آرام کھوتا ہے۔ اس تیرے احسان سے گردن اپنی اُٹھا نہیں سکتی اور اُس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتی۔

اگر ہر بن مو ہو میری زبان
نہو مہربانی کا تیری بیان​

طوطے نے کہا اے خجستہ یہ کیا کہتی ہو، میں تیرے شوہر کے زرخرید بندوں میں ہوں۔ کام تیرا موافق اپنی غلامی کے کب کر سکتا ہوں جو اسقدر لطف کرتی ہے، بلکہ میں آپ ہی خجالت کھینچتا ہوں لیکن جوکھوں اُٹھاؤنگا اور قریب ہے کہ تیرے یار سے تجھے ملاؤنگا۔

جی تلک اپنا میں گنواؤں گا
پر تجھے یار سے ملاؤنگا​

اور رائے رایان کی مانند کہ احوال اُس کا تو نے سُنا ہو گا، تیرے کام کرنے میں بھی سعی کروں گا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کا احوال کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ قنوج کے راجہ کی ایک بیٹی صاحب جمال تھی۔ اتفاقاً ایک فقیر اُس پر عاشق ہوا ۔ اور اُس کے عشق میں دیوانہ ہو گیا۔ جب ہوش میں آیا تب اپنے دل سے کہتا کہ یہ کیا دیوانہ پن ہے۔ ادنٰی کو اعلٰی سے کیا نسبت۔ تو بیچارہ درویش فقیر اور وہ راجہ، اُس کی بیٹی کب تیرے ہاتھ لگے گی، لیکن بیقراری کے سبب سے بعد کئی دن کے یہ پیغام راجہ کے پاس بھیجا کہ اپنی بیٹی کا بیاہ میرے ساتھ کر دے کہ میں اس کو چاہتا ہوں۔ میری گدائی اور اپنی بادشاہی پر نظر نہ کر۔ راجہ یہ پیغام فقیر کا سُن کر غضب میں ہوا اور بولا ارے کوئی ہے جلد ادہر کو آوے۔ اس فقیر کو جا کر سزا دیوے۔ دیوان نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ حاکم کو یہ لازم نہیں ہے کہ غریب فقیر کو گالی دے یا ایذا پہنچاوے۔ اُس کو اس حکمت سے اس شہر سے نکالو کہ مارا جاوے اور آپ پر بدنامی نہ آوے۔ بعد اسکے دیوان نے فقیر کو بلوا کر کہا کہ اے فقیر اگر تو ایک ہاتھی زر سے لدا ہوا لاوے تو یقین ہے کہ اپنی معشوقہ کو پاوے۔ درویش اس بات کے سنتے ہی خوش ہو کر زر کی فکر کرنے لگا۔ تب کسی شخص نے فقیر سے کہا کہ اے گدا تو اپنے تئیں اگر رائے رایان کے پاس پہنچاویگا تو موافق اپنی مراد کے جو چاہے گا سو پاویگا۔ اُس وقت وہ فقیر رائے رایان کے پاس گیا اور اُس سے سوال کیا کہ رائے بابا کی خیر ایک ہاتھی اشرفیوں سے لدا ہوا یہ فقیر پاوے۔ یہ صدا درویش کی جو رائے رایان نے سُنی، وہیں ایک ہاتھی زر سے لدا ہوا اُسکو دیا۔ فقیر اُس ہاتھی کو لئے ہوئے راجہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے مہاراج یہ فیل زر سے لدا ہوا مجھ سے لے لیجیے اور اپنی بیٹی کا مجھ سے بیاہ کر دیجیے۔ تب راجہ نے اپنے دیوان سے کہا کہ حکمت تیری کچھ کام نہ آئی۔ وہ فقیر زر کا لدا ہوا ہاتھی لے ہی آیا۔ اب کیا کیجیے۔ تب اُس نے عرض کی کہ یہ فقیر رائے رایان کے پاس جا کے یہ ہاتھی معہ زر مانگ لایا ہے، کیونکہ اب زمانے میں ایسا سخی سوائے اُس کے اور کوئی نہیں۔ وہ پھر اپنے جی میں سوچ کر اُس درویش سے کہنے گا کہ اے فقیر راجہ کی بیٹی ایسی نہیں ہے جو ایے ہاتھی کے بدلے ہاتھ آوے۔ اگر اُسے لینا منطور ہے تو ابھی جا اور رائے رایان کا سر کاٹ لا اور یہ لڑکی راجہ کی اپنے ساتھ جہاں جی چاہے وہاں لے جا۔ غرض وہ فقیر پھر رائے رایان کے پاس جا کر کہنے لگا کہ اے حاتم بابا تیرے سر کے بدلے دل کی آرزو ملتی ہے۔ اگر تو اپنا سر دے گا تو یہ فقیر مدعا اپنا دل خواہ پاوے گا۔ رائے رایان نے کہا کہ اے فقیر تو اپنی خاطر جمع رکھ۔ یہ سر میرا خدا نے اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ کسی کے کام آوے۔ میں ایک مدت سے اس سر کو ہتھیلی پر دہرے ہوں کہ جو کوئی مانگے اُسے دوں۔ اب جو تو نے طلب کیا ہے یہ حاضر ہے اور میں بھی موجود ہوں۔ میرے گلےمیں رسی باندھ کر اُس راجہ کے پاس لے چل اور اُس سے کہہ کہ رہ سر جو تم نے مانگا تھا، اُس سر کو میں مع تن لایا ہوں۔ اگر اُس نے قبول کیا تو سر میرے تن سے کاٹ لینا اور اگر اُس نے کچھ اور مانگا تو وہ بھی حاضر کروں گا۔ آخر وہ درویش رائے رایان کی گردن میں رسی باندھ کر راجہ کے پاس لے گیا۔ اُس راجہ نے جب جوانمردی اس مرد کی دیکہی تو اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے پاؤں پر گرا اور کہنے لگا کہ سچ ہے سوائے تیرے اب اس دنیا میں کوئی ایسا سخی جوانمرد نہیں اور نہ ہو گا جو ایک ادنٰی فقیر کے واسطے اپنا سر دیوے۔ یہ کہہ کر اپنی بیٹی کو بلایا اور رائے رایان کے حوالے کر کے کہا کہ اے مہاراج یہ تمہاری لونڈی ہے جسکو جی چاہے اُس کو دے دیجیے۔ طوطے نے یہ کہانی کہہ کر خجستہ سے کہا کہ اے کدبانو میں بھی اپنا سر تیرے کام میں گنواونگا اور مطلب دلی تیرے بر لاؤنگا، اس میں ہرگز دریغ نہ کروں گا۔ بہتر یہ ہے کہ جلدی اپنے معشوق کے پاس جا اور حظ زندگانی کا اُٹھا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے، اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

اے سحر میری دشمنی کب تک
وصل کی شب کبھی دکھائیگی​
 

شمشاد

لائبریرین
نویں داستان طوطے کی بیوفائی عالم شاہ بادشاہ سے

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، خجستہ درد عشق کے مارے روتی ہوئی طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور اُسے متفکر دیکھ کر کہنے لگی کہ اے عقلمند آج کیوں غمگین ہے۔ طوطا بولا کہ اے کدبانو مجھ کو تیری فکر نے نہایت حیران کیا اور اسی اندیشہ میں میرا دانہ پانی چھوٹ گیا ہے۔ میں اسی سوچ میں آٹھوں پہر رہتا ہوں کہ کیونکر دریافت کروں کہ وہ معشوق تیرا تجھ سے وفاداری کرے گا یا عالم شاہ بادشاہ کے طوطے کی طرح بیوفائی کر کے دغا دیگا۔ خجستہ نے پوچھا کہ وہ نقل کیونکر ہے، بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک صیاد نے طوطی کے آشیانے کے نزدیک جال بچھایا اور اُس کو بچوں سمیت گرفتار کیا۔ اُس وقت طوطی نے اپنے بچوں سے کہا کہ بابا اس وقت یہی مصلحت بہتر ہے کہ تم اس جگہ مردے کی صورت ہو کر پڑ رہو۔ اگر یہ چڑیمار تم کو مردہ جانیگا تو چھوڑ دیگا۔ میں تنہا جو پکڑی گئی کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر میں جیتی رہوں گی تو کسی نہ کسی حکمت سے اپنے تئیں تمہارے پاس پہنچاؤں گی۔ اُن بچوں نے اُس کے کہنے کے بموجب کیا۔ ہر ایک اپنا اپنا دم چُرا کر گر رہا۔ اُس صیاد نے معلوم کیا کہ شاید مرے ہیں۔ ان کو اس دام سے رہا کیجیے۔ یہ کہہ کر جونہی اُن کو دام سے نکالا، وہیں ہر ایک اڑ گیا اور ہر ایک درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔ تب وہ چڑیمار اس طوطی پر غصہ ہوا اور چاہا کہ اُس کو زمین پر پٹکے کہ اتنے میں اُس طوطی نے کہا کہ اے صیاد خبردار مجھ کو مت مار۔ اگر میں جیتی رہوں گی تو یہانتک تجھے زر نقد دلواؤں گی کہ پھر تابہ عمر اپنی تو کسی چیز کا محتاج نہ ہو گا اور جب تک جیتا رہے گا تب تک کسی کام کا اندیشہ نہ کرے گا، کیونکہ میں نہایت عقلمند اور طبیب ہوں۔ ایسا طبابت کا کام جانتی ہوں کہ جیسا چاہیے۔ اس سخن سے صیاد خوش ہوا اور اُس کے مارنے سے باز رہا اور کہنے لگا اے طوطی ہمارے ملک کا بادشاہ عالم شاہ ایک مدت سے بیمار ہے اور مرض سخت رکھتا ہے۔ تو اُس کو اچھا کر سکے گی۔ طوطی بولی کہ اے صیاد کون سا بڑا کام ہے۔ میں وہ طبیب ہوں کہ دس ہزار مریض کہ جنکو ارسطو اور لقمان جواب دیں اُن کو اچھا کروں۔ تو مجھے اپنے بادشاہ کے پاس لے چل اور میری طبابت کی اُس سے تعریف کر۔ پھر جتنے کو چاہنا اُتنے کو اُس کے ہاتھ بیچ ڈالنا۔ غرض وہ صیاد اُس طوطی کو پنجرے میں بند کر کے اپنے بادشاہ کے پاس لے گیا اور کہنے لگا کہ خداوندا یہ طوطی نہایت عقلمند ہے اور طبابت میں بہت ملکہ رکھتی ہے۔ اگر حکم ہو تو حضور پُرنور میں حاضر رہے۔ عالم شاہ نے کہا کہ بھائی میں بھی اس فکر میں تھا۔ مجھے بھی ایک طبیب دانا درکار ہے اور یہی آرزو ہے کہ ایسا کوئی آوے کہ میرے مرض کو دور کرے۔ بہتر ہے کہ میرے پاس رہے۔ تو اُس کی قیمت کہہ۔ اُس نے دس ہزار اشرفی اُس کی قیمت کہی اور بادشاہ نے وہی دلوا دیں۔ صیاد اُسے لیکر اپنے گھر گیا۔ وہ طوطی بادشاہ کی دوا کرنے لگی۔ بارے دو چار دن میں آدہا مرض اُس کا دوا سے دور ہوا۔ تب طوطی نے کہا اے بادشاہ خدا کے فضل سے اور میری تدبیر دوا سے اب تم کو آدھی صحت ہوئی ہے۔ اگر مجھ پر رحم کرو، اس پنجرے سے مخلصی بخشو تو میں ابھی ڈھونڈھ کر ایک ایسی چیز صحرا سے لا کر کھلاؤں کہ بعد دو چار ہی دن کے تو اچھا ہو اور غسل صحت کرے۔ عالم شاہ نے جانا کہ شاید یہ طوطی سچ کہتی ہے۔ اس اعتبار سے اُسے قفس سے آزاد کیا۔ طوطی نے جنگل کا راستہ لیا۔ پھر اُدہر منہ نہ کیا۔ طوطے نے یہ نقل تمام کر کے کہا اے خجستہ میں بھی اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معشوق تیرا اُسی طوطی کی طرح تجھ سے دغا بازی کرے۔ خدا کیواسطے جلد جا اور اپنے یار سے ملاقات کر اور جب تک تو اُس کی آزمایش نہ کرے اعتبار نہ کرنا۔ کدبانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے کہ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ بولا۔ جانا اُس کا اس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

آج مہرو سے اپنے میں ملتی
گر نہ کرتا فلک یہ بےمہری​
 

شمشاد

لائبریرین
دسویں داستان سوداگر اور اُسکی زوجہ کی

جب شمس پنہاں ہوا اور قمر عیاں تب خجستہ روتی اور سرد آہیں بھرتی ہوئی رخصت لینے طوطے کے پاس گئی۔ اور طوطے نے اُسے متفکر دیکھ کر پوچھا کہ اے کدبانو آج کیوں اسقدر حیران ہے، خیر تو ہے۔ وہ بولی میں تیرے پاس آتی ہوں اور حال اپنی بیقراری کا سناتی ہوں۔ وہ کون وقت ہو گا کہ جس وقت تو مجھے رخصت کرے گا اور وہ کون وقت ہو گا کہ میں اپنے معشوق سے ملاقات کروں گی۔ اگر آج کی شب رخصت کرے تویہی جاؤں اور نہیں تو صبر کر کے اپنے گھر بیٹھ رہوں۔ طوطا کہنے لگا کہ اے کدبانو تو ہر رات میرے پاس آتی ہے اور باتیں میری سنتی ہے۔ جانے کے وقت صبح ہو جاتی ہے اور رات کو آخر کر دیتی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ آج کی رات جلد جاوے تو ایک قصہ چھوٹا سا سُناؤں کہ جس کے باعث تیری بات رہے اور تو کسی آفت میں نہ پڑے۔ یہ یاد رکھنا کہ اگر تو کہیں جاوے اور خاوند تیرا وہاں تجھے نظر پڑے تو تو بھی اُس سوداگر کی جورو کی طرح شور و غل کرنا۔ وہ پشیمان ہو جاوے اور تیری بات رہے۔ خجستہ نے پوچھا اُسکی داستان کیونکر ہے بیان کر۔

حکایت

طوطا بولا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر نہایت مالدار تھا اور اُسکی جورو بہت خوبصورت تھی۔ وہ تاجر کسی ملک میں واسطے تجارت کے گیا اور پیچھے اُس کے اُسکی جورو نے بدکاری یہاں تک اختیار کی کہ ہر ایک شخص کی مجلس میں شب کو جاتی، تمام رات عیش و عشرت اور گانے بجانے میں گنواتی، بعد کئی مہینے کے اُس کا شوہر مال و اسباب بہت سا لیکر اپنے شہر میں آیا اور کسی حویلی میں اُترا۔ بعد پہر رات کے ایک دلالہ کو بلوا کر کہنے لگا کہ میں آج ابھی گھر نہیں جا سکتا۔ اگر تو کہیں سے ایک عورت خوبصورت لے آویگی تو میں تجھے خوش کروں گا اور دس ۱۰ اشرفی تجھے دوں گا۔ اور بیس ۲۰ اُسے دوں گا۔ یہ سُنتے ہی وہ بڑہیا لوٹ گئی کہ یہ کوئی بڑا سوداگر ہے کہ ایک عورت کی خاطر تیس ۳۰ اشرفی کھو دیتا ہے۔آخر وہ بڑہیا لالچ میں آ گئی اور ہر کسی کو تلاش کیا۔ غرض بہت سا اِدھر اُدھر ڈہونڈھ ڈھانڈھ کر حیران ہوئی جب کوئی رنڈی ہاتھ نہ لگی۔ تب اتفاقاً وہ کٹنی اُسی تاجر کے گھر گئی اور اُس کی بی بی سے کہنے لگی کہ آج کسی ملک سے ایک بڑا سوداگر مالدار آیا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ اُس نے ایک رنڈی بلوائی ہے۔ اگر تیرا جی چاہے تو چل۔ صبح کو بیس ۲۰ اشرفی لیکر اپنے گھر آ۔ غرض وہ اُس دلالہ کے ساتھ ہوئی اور اُس سوداگر کے پاس گئی۔ جونہی اپنے خاوند کی صورت دیکھی وہیں پہچان گئی اور جی میں کہنے لگی کہ واہ جی واہ یہ تو میرا ہی خاوند ہے۔ اب میں کیا کروں۔ القصہ غل کر اُٹھی اور کہنے لگی کہ اے ہمسائے کے لوگو دوڑو اور میرا انصاف کرو۔ چھ برس سے میرا خاوند سوداگری کو گیا تھا۔ میں دن رات اُسکی راہ تکتی تھی، اب جو یہاں آیا تو اس حویلی میں اترا اور میرے پاس نہ گیا۔ آج میں اُس کے آنیکی خبر سُنکر آپ ہی آئی۔

اگر تم میری داد کو پہنچو تو بہتر ہے، نہیں تو قاضی کے پاس نالش کروں گی اور اُسے چھوڑ دوں گی۔ آخر ہمسایہ کے لوگ جمع ہوئے۔ تب اُس نے اُن سے کہا کہ میں اُسکی جورو ہوں اور یہ میرا خاوند ہے۔ مجھے یہ اکیلا اس شہر میں چھوڑ کر سفر کو گیا تھا۔ میں اسی غم میں آٹھوں پہر روتی تھی۔ بارے آج خدا کے فضل سے میاں صاحب جیتے جاگتے جو آئے ہیں تو گھر نہیں گئے اور مجھ سی بی بی صاحب جمال کو بھلا کر غیر بدبختوں کے ساتھ عیش کیا چاہتے ہیں۔ آج میں یہ خبر سُن کر خود آئی ہوں۔ تم سب خدا ترس ہو۔ انصاف کرو۔ آخر اس سوداگر کو ہر شخص نے سمجھا بُجھا کر اُس کی بی بی سے ملا دیا اور یہ کوئی نہ سمجھا کہ آپ ہی خرچی کو آئی تھی کیوں۔ دیکھا اُس عورت کی زبان آوری کے سبب سے ۔۔۔۔۔۔۔ نہ گئی۔ خاوند کو اپنے گھر میں لائی۔ جب طوطے نے یہ داستان تمام کی، خجستہ سے کہا کہ اُٹھ دوڑ اپنے معشوق کے پاس جا۔ دیر نہ کرو۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑہنے لگی اور مُنہ ڈہانپ کر رونے لگی۔

بیت

کس طرح میسر ہو شب وصل دل آرام
ہر صبح ہے درپے یہ میری گردش ایام​
 

شمشاد

لائبریرین
گیارہویں داستان زمیندار کی جورو کی کہ اپنی سخن آرائی سے ندامت نہ اُٹھائی

جب سورج چھپا اور تارے نکلے، خجستہ بے اختیار زار و زار روتی ہوئی طوطے کے پاس رخصت لینے گئ اور کہنے لگی کہ اے محرم راز آج پھر کچھ اُس کی مفارقت سے حالِ دل تباہ ہے۔ اگر صلاح جانے تو مجھے جلد رخصت دے، نہیں تو صبر کر کے بیٹھ رہوں۔ اگرچہ جانتی ہوں جو کوئی عاشق ہے اُسے صبر سے کیا کام۔ بے اختیار جی چاہتے ہے کہ ہر طرح سے اپنے تئیں اُسکے پاس پہنچاؤں اور خوب سا اُسے گلے لگ کر حظ جوانی اُٹھاؤں۔

رباعی

دیکھوں گی میں تجھ کو کب گسائیں سائیں
آنکھیں تو سفید ہونے آئیں سائیں
دل یاد میں دیدہ منتظر بر سرِ راہ
ہونٹوں پہ ہے ہر دم زبان پہ سائیں سائیں​

طوطا کہنے لگا کہ اے خجستہ میں نہ جانتا تھا۔ کہ عشق اُس کا یہاں تک تجھے تباہ کریگا اور غم اُس کی جدائی کا اس حالت کو پہنچا دے گا۔

حسن

میں اس عشق کا یہ نہ سمجہا تھا ڈول
ترے غم سے آنے لگا مجھ کو ہول​

لیکن خدا کا فضل چاہیے کہ انشا اللہ تعالٰے اب آپ اپنے یار سے ملیں گی، اگرچہ ہر شب میرے پاس رخصت لینے آتی ہے اور میری باتیں سُنکر شب امید کو گنواتی ہے پر عقلمندوں نے کہا ہے جو کوئی سوچ کر کام کرتا ہے وہ ہرگز پشیمانی نہیں اُٹھاتا ہے، بلکہ ہمیشہ سرخرو رہتا ہے، جسطرح سے کہ اُس دہقان کی جورو نے سوچ کر جو حرکت کی تو کچھ ندامت نہ کھینچی۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی دن ایک گنوار کی مہریا اپنے کوٹھے پر بیٹھی تھی اور ایک شخص نوجوان اُس کو دیکھ کر عاشق ہوا اور عورت نے بھی معلوم کیا کہ یہ مجھ پر شیدا ہوا ہے، سوچی بلوائیے اور مزے اڑائیے۔ آخر اس مرد کو اشارے سے طلب کیا اور کہدیا کہ بعد آدہی رات کے تو اُس درخت کے نیچے آ کر بیٹھ رہنا۔ میں بھی اپنے خاوند کو سُلا کر تیرے پاس آوں گی۔ یہ کہہ کر ادہر اُسے رخصت کیا اور آپ ادھر اپنے گھر کے کاروبار میں مشغول ہوئی۔ جب آدہی رات گزری جوان اُسکے گھر میں اُسی درخت کے نیچے بیٹھ رہا۔ یہ عورت خصم کو سوتا چھوڑ کر وہیں گئی اور اُس کے ساتھ سو رہی۔ اتفاقاً اُس کا سُسر اُسی وقت کسی کام کے واسطے اُتھا اور باہر جانے لگا، کیا دیکھتا ہے کہ بیٹے کی جورو ایک غیر مرد کے ساتھ سوتی ہے۔ اس بات سے نہایت رنجیدہ ہوا۔ اُس کے پاؤں سے پازیب اُتار کر اپنے پاس رکھی اور جی میں کہنے لگا کہ اُس بدذات کو خوب سی سزا دوں گا۔ بعد ایک گھڑی کے اُس عورت کی جو آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہے کہ پاؤں میں پازیب نہیں۔ اُس نے اپنی عقل سے معلوم کیا کہ شاید سسرے نے آنکھ سے یہ ماجرا دیکھا ہے اور پازیب اُتار کر لے گیا۔ اب صبح کیا جانیے کیا ہو۔ یہ سمجھ کر اپنے یار سے کہا تم اپنے گھر جاؤ۔ پھر کسی روز اگر جی چاہے تو تُو آئیو۔ یہ کہہ کر اُس کو رخصت کیا اور ادہر اپنے خاوند کے پاس آ کر لیٹ رہی۔ بعد ایک دم کے کہنے لگی کہ یہاں اس وقت گرمی لگتی ہے، اُس درخت کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہے، چلیئے اور سو رہیے۔ آخر اُس بہانے سے اپنے شوہر کو اُسی درخت کے نیچے لائی اور دونوں ملکر سو رہے۔ جب اُسکی آنکھ لگ گئی تب جگا کر کہنے لگی اجی سوتے کیا ہو اُٹھو اور ایک تماشا دیکھو۔ وہ بے اختیار اُٹھ بیٹھا اور کہا کیا کہتی ہو۔ تب اُس نے کہا جیسا میرا ویسا تمہارا باپ، یہ کیا کہ میرے پاؤں کی پازیب اُتار کر لے گیا اور مجھے ننگا کھلا دیکھا۔ اُس نے کہا کہ خیر صبح کو میں اُنہیں سمجھا دوں گا کہ پھر ایسی حرکت نہ کرنا۔ جب صبح ہوئی اپنے باپ سے جھنجھلا کر کہنے لگا بابا جان تم کو مناسب نہیں جہاں بہو بیٹا ساتھ سوتے ہوں وہاں جاؤ اور اُن کو ایک حال میں دیکھو۔ تب اُس کے باپ نے کہا کہ بیٹا کچھ شعور پکڑ، تیری عورت کم بخت ایک مرد کے ساتھ سوتی تھی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ پازیب پاؤں کی اُتاری۔ یہ بات سنتے ہی وہ اور بھی خفا ہوا اور کہنے لگا کہ تم خواہ مخواہ میری جورو کے دشمن ہوئے ہو۔ میں جانتا ہوں، اُس وقت گرمی کے باعث سے میں اُس درخت کے نیچے اُس کے ساتھ سوتا تھا کہ تم نے یہ حرکت کی۔ چنانچہ یہ سُن کر باپ اُس کا شرمندہ ہوا۔ طوطے نے یہ قصہ تمام کر کے کہا کیوں دیکھا تو نے اُ س رنڈی نے کیا کارستانی کی۔ غیر کی دوستی رہی اور سسرے کو ذلیل کیا۔ آپ اچھی کی اچھی رہی۔ اے خجستہ اب جلد جا اور اپنے دلدار کو گلے لگا۔ کدبانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے کہ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑہی۔

فرد

وصل کی شب گئی گذر افسوس
آئی پھر ہجر کی سحر افسوس​
 

شمشاد

لائبریرین
بارہویں داستان سوداگر بچی اور شغال کی، سوداگر بچی شغال کی حکمت سے رسوائی سے بچی

جب سورج چھپا اور رات ہوئی تب خجستہ آنکھوں میں آنسو بھرے گریبان چاک کئے سینہ پرسوز سے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی اے عقلمند میں تیری دانائی پر نہایت اعتبار رکھتی ہوں، اسی واسطے ہر رات تیرے پاس آتی ہوں، تیری تدبیر کے واری اور دانائی کے صدقے اور وفاداری کے قربان، آج دل اُمنڈ آتا ہے اور سینہ پھٹا جاتا ہے، کیونکر اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاؤں اور کر طرح اُسے اپنے گلے سے لگاؤں۔

فرد

آتش عشق جی جلاتی ہے
یہ بلا جان ہی پر آتی ہے​

اب اگر مجھے رخصت نہ کرے گا، تو کب کرے گا۔ اور اب اجازت نہ دے گا تو کب دے گا۔ تیری منت کرتی ہوں اور اس تدبیر میں پھرتی ہوں۔

فرد

نہ اپنے چھوٹنے کی کس طرح تدبیر میں رہیے
بہار آئی ہے کیونکر خانہ زنجیر میں رہیے​

خدا کے واسطے کچھ ایسا ڈھب بتلا کہ جس کے باعث جلد ملنا ہو۔ طوطا کہنے لگا کہ اے خجستہ یہ غم تیرا میرے دل میں ہے اور میں جب تک جیتا رہوں گا، بیفکر نہ رہوں گا۔ اور میں کسی شب تجھے رخصت نہیں کرتا ہوں۔ کہ تو محبوب کے پاس نہ جا۔ بلکہ تو آپ ہی نہیں جاتی اور میری باتوں میں رات گنواتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بھید تیرا کُھلے اور چرچا اُس کا لوگوں میں پڑے۔ تجھے ایسی حکمت سکھا دیتا ہوں کہ جیسے ایک گیدڑ نے کسی سوداگر بچی کو سکھائی تھی۔ کہ اُس کے سبب وہ رسوائی سے بچ رہی۔ تب خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی کہانی کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر نہایت عالیشان اور دولتمند تھا۔ اور بیٹا اُسکا کریہہ منظر اور بدشکل اور احمق تھا۔ جب وہ لڑکا بالغ ہوا، تب اُس کے باپ نے کسی سوداگر کی بیٹی سے بیاہ کر دیا۔ وہ لڑکی نہایت خوبصورت اور ہوشیار اور عقلمند گانے بجانے میں بھی نہایت شعودار تھی۔ اتفاقاً وہ عورت کسی رات اپنے کوٹھے پر بیٹھی تھی، اور ایک شخص دیوار کے تلے خیال گا رہا تھا۔ عورت کا دل سنتے ہی آواز پر اُس کی آ گیا۔ اپنے کوٹھے سے اُتر اُس کے پاس جا کر کہنے لگی۔ کہ اے شخص میرا خاوند نہایت بدصورت اور احمق ہے، تجھ سے ہو سکتا ہے کہ اپنے ساتھ مجھے کسی ملک کو لے نکلے۔ جب تک میں جیتی رہوں گی، تیری فرمانبرداری کروں گی۔ آخرکار اُس نے بھی اُس کی یہ بات قبول کی۔ اُسی گھڑی اُس کو اپنے ساتھ لے کر جنگل کی راہ لی۔ تھوڑی دور جا کر تالاب کے کنارے پر کسی درخت کے نیچے دونوں آپسمیں لپٹ کر سو رہے۔ بعد ایک گھڑی کے وہ مرد جوان چونکا اور اُس عورت کے بدن کا تمام زیور اُتار لیا اور آپ چلتا پھرتا نظر آیا۔ اس عرصے میں کہیں اُس کمبخت کی جو آنکھ کھلی تو نہ بدن میں گہنا دیکھا اور بستر پر یار پایا۔ تب اُس کو یقین ہوا کہ اُس دغا باز نے مجھ سے دغا کی۔ پھر پشیمان ہو کر کہنے لگی کہ یا الٰہی معاف کر میری تقصیر۔ میں نے جو کیا سو پایا۔ اتنے میں صبح ہو گئی۔ تب اُسی تالاب کے کنارے متفکر ہو کر جا کھڑی ہوئی کہ ایک گیدڑ، منہ میں ایک ہڈی لئے تالاب کےکنارے ایک مچھلی جو دیکھی تو ہڈی منہ سے پھینک دی اور اُس پر دوڑا۔ مچھلی اُسے دیکھ کروہیں ڈوب گئی۔ تب وہ گیدڑ اُس ہڈی کو لینے آیا تو اُس کو بھی نہ پایا کیونکہ اُسے کُتا لے گیا تھا۔ اس ماجرے کو دیکھ کر وہ عورت خوب ہنسی اور کہنے لگی کہ کیا خوب مژل مشہور ہے جو آدھی کو چھوڑ کر ساری کو جائے تو پھر ساری ملے نہ آدھی پائے۔ یہ سن کر اُس گیدڑ نے پوچھا بی بی تو کون ہے جو اُس وقت جنگل میں اکیلی اس تالاب پر کھڑی ہے۔ اُس نے اپنا مناسب احوال اُس شغال سے کہا۔ اُس کو اُس کے حال پر رحم آیا اور کہنے لگا کہ بی بی کچھ اندیشہ مت کر۔ صلاح یہ ہے کہ اب تو یہاں سے دیوانوں کی طرح ہنستی اور روتی اپنے گھر چلی جا۔ جو تجھے اس حال سے دیکھے گا، رحم کرے گا اور کچھ نہ کہے گا۔ آخر اس رنڈی نے موافق اُس کی تدبیر کے اپنا احوال بنایا اور وہیں سے دیوانوں کی طرح شور و غل کرتی ہوئی اپنے گھر گئی۔ اُس حیلے کے باعث کسی نے اُس کو بُرا نہ جانا بلکہ ہر ایک اُس کو دیکھ کر کڑہنے لگا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے خجستہ سے کہا کہ یہ وقت اچھا ہے۔ جلد جا اور اپنے معشوق سے مل۔ کچھ اندیشہ نہ کر۔ خدا نہ کرے اگر کوئی مشکل تیرے آگے آویگی، تو ایک ایسا جملہ سکھا دوں گا کہ وہ مشکل آسان ہو جاوے گی اور تیری حرمت رہے گی۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے کہ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

رات کا سچ ہوا نہ خواب مرا
نہ ملا صبح آفتاب مرا​
 

شمشاد

لائبریرین
تیرہویں داستان شیر اور برہمن کی کہ برہمن طمع کر کے جان سے مارا گیا

جب سورج چھپا اور شام ہوئی، خجستہ بیقراروں کی سی صورت بنائے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی۔ اور کہنے لگی کہ اے طوطے معلوم ہوا تجھے میری درد کی خبر نہیں، جبھی میری باتیں اڑا دیتا ہے اور ادہر اُدھر کی جھوٹ سچ قصہ کہانی سنایا کرتا ہے۔ نہیں جانتی کہ تجھے اس سے کیا حاصل ہے۔ طوطے نے کہا کہ اے کدبانو خدا سے چاہتا ہوں کہ تو جلد کہیں اُسکے پاس جاوے اور اُسے گلے سے لگاوے۔ تو آپ ہی نہیں جاتی اور دیر کرتی ہے۔ اس میں میرے کچھ تقصیر نہیں۔

فرد

یوں آپ کی خوشی ہے مجھے قتل کیجیے
پر حق تو ہے یہی کہ میری کچھ خطا نہیں​

خیر اب شتاب جا اور اُس سے ملاقات کر کے جلد پھر آ، پر یہ یاد رکھنا کہ وہاں کسی چیز کی طمع نہ کرنا کیونکہ لالچ بہت بُری بلا ہے۔ اگر طمع کرے گی تو تیرا بھی ویسا ہی حال ہو گا جیسا کہ اُس برہمن کا ہوا تھا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک برہمن نہایت مالدار تھا۔ اتفاقاً وہ مفلسی ہو کر اور کسی ملک میں مال پیدا کرنے گیا۔ ناگاہ کسی روز ایک جنگل میں جا پہنچا اور تالاب کے کنارے پر دیکھا کہ ایک شیر بیٹھا ہے اور ایک لومڑی اور ہرنی اُس کے آگے کھڑی ہے۔ یہ برہمن متفکر ہو کر ڈر کے مارے وہیں کھڑا ہو رہا کہ یکایک لومڑی اور ہرنی کی نظر اُس پر جا پڑی۔ تب آپسمیں سوچکر وہ یہ بولیاں بولنے لگیں کی اگر اُس کو شیر دیکھے گا تو مار ہی ڈالے گا۔ ایک ایسی مصلحت کیجیے کہ جسکے باعث سے اس کو وہ نہ مارے بلکہ انعام دے۔ یہ بات ٹھہرا کر شیر کو دعائیں دیکر کہنے لگیں کہ سخاوت آپ کی یہاں تک مشہور ہوئی ہے کہ آج ایک برہمن کچھ مانگنے آیا ہے اور ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہے۔ شیر نے سر اُٹھا کر دیکھا اور خوش ہو کر اُس برہمن کو آگے بلایا اور نہایت رحم کھایا۔ غرض زر و زیور اُن لوگوں کا کہ جنہیں مارا تھا سب اُس برہمن کو بخشا اور مہربانی سے رخصت کیا۔ تب وہ برہمن بہت سا مال لیکر گھر گیا اور مزے سے گزران کرنے لگا۔ بعد ایک مدت کے پھر جو لالچ ہوا تو وہ برہمن اجل گرفتہ پھر اُسی شیر کے پاس گیا۔ اس وقت اُس کے سامنے بھیڑیئے اور کتے کھڑے تھے۔ اُس برہمن کو دیکھتے ہی خوش ہوئے اور شیر سے کہنے لگے کہ یہ آدمی کتنا شوخ اور ڈھیٹ ہے کہ آپ کے بے طلب ککئے ہوئے روبرو آتا جاتا ہے اور خطرہ اپنی جان کا نہیں کرتا۔اس بات کے سنتے ہی شیر آگ ہو گیا اور اپنی جگہ سے اُچھل کر ایک ہی طمانچہ سے اُس کا کام تمام کیا۔ طوطے نے یہ نقل تمام کی اور کہا کہ اے خجستہ اگر وہ برہمن لالچ نہ کرتا تو جان سے کیوں مارا جاتا۔ یقین ہے جو لال کرے گا سو بلا میں پڑے گا۔ خیر اب پہر رات باقی ہے۔ جلد جا اور اپنے معشوق سے مل اور اتنی رات عیش و عشرت میں بسر کر۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُسے گلے لگاوے۔ اتنے میں پَو پھٹی اور صبح ہوئی۔ مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُسکا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑہے اور رونے لگی۔

بیت

وصل کی شب کو کیوں گنواتی ہے
اے سحر کس لئے تو آتی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
چودہویں داستان کہ بلی چوہوں کو مار کر منفعل ہوئی

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، تب خجستہ گلنار جوڑا پہن اور گہنے پاتے سے اپنے تئیں آراستہ کر طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور اُسے متفکر دیکھ کر کہنے لی کہ اے جی کے خوش کرنے والے آج کیوں غمگین ہے اور اس قدر کیوں اندشہ کرتا ہے۔ طوطا کہنے لگا کہ اے کدبانو مجھ کو تیرا غم مارے ڈالتا ہے اور یہی اندیشہ کھائے جاتا ہے کہ تو ہر ایک شب میرے پاس رخصت لینے آتی ہے اور میری باتوں میں صبح ہو جاتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یکایک تیرا خاوند آ جاوے اور تو نہ نہ جا سکے اور نہ جانے کے باعث پشیمان ہو مانند اُس بلی کے کہ جس نے چوہوں کو مار کر انفعال کھینچا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی کہا کہ اے طوطے چوہے بلی کی خورات تھی۔ تعجب ہے کہ بلی چوہوں کے مارنے سے پشیمان کیوں ہوئی۔ کچھ اس کا بھید میں نہ سمجھی، بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی بیانان میں ایک شیر ایسا بوڑھا رہا کرتا تھا کہ بڑھاپے کے باعث اُس کے دانتوں نے جڑیں چھوڑ دی تھیں۔ اگر وہ کبھی کچھ گوشت کھاتا تو ریشہ اُس کا دانتوں میں اٹک رہتا۔ اور اُس جنگل میں چوہے بھی رہتے تھے۔ جب وہ شیر رات کو سوتا، تب ہر ایک چوہا آن کر اُس کے مسوڑہوں سے ریشہ گوشت کا کھینچتا اور وہ گوشت نکال کر کھا جاتا۔ اسی سبب سے اُس کو اذیت ہوتی اور وہ چونک چونک پڑتا۔ آخر اُس نے اور جانوروں سے کہا کہ تم کچھ ایسی تدبیر کرو کہ یہ چوہے مجھے تکلیف نہ دیں اور میں چین سے سویا کروں۔ تب لومڑی نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضرت سلامت بلی آپ کی خاص رعیت ہے۔ اُسکو پاسبانی کی خدمت دیجیے اور اپ مزے سے تمام رات آرام کیجیے۔ یہ بات لومڑی کی شیر کو خوش آئی اور بلی کو بلوا کر خدمت کوتوالی کی دی۔ وہ اپنی خدمت پر مستعد ہوئی۔ چوہوں نے بلی کو دیکھا تو جنگل کا راستہ پکڑا۔ تب شیر نے اپنی خاطر خواہ رات کو آرام کیا اور بلی کو سرفراز فرمایا۔ پر وہ بلی اپنی دانائی سے اُن چوہوں کو دور ہی سے دھمکایا کرتی اور کبھی کسی کو پکڑ کر نہ کھاتی کیونکہ یہ جانتی تھی کہ انہی کی بدولت مجھ کو یہ خدمت ملی ہے۔ اگر ان کو کھا جاؤں گی تو شیر کو مجھ سے کچھ سروکار نہ رہے گا اور خدمت چھین لے گا۔ اس بات کو سمجھ کر وہ اپنے اوپر فاقہ قبول کرتی اور اُن میں سے کسی کو نہ کھاتی۔ اہل دن خدا نے اُس کی عقل گنوائی کہ وہ اپنا بچہ بھی شیر کے پاس لائی اور ہاتھ باندھ کر عرض کرنے لگی کہ آن میں کسی کام کو کہیں جاتی ہوں۔ اگر حکم ہو تو اپنے بچے کو چھوڑ جاؤں۔ کل صبح کو پھر حضور میں حاضر ہوں گی۔ یہ بات اُس کی شیر نے پسند کی اور اپنی خوشی سے رضا دی۔ بلی اپنے کام کو گئی اور یہاں اُس بچے نے جس چوہے کو دیکھا، اُسے مار ہی لیا۔ غرض ایک رات دن میں کا کام تمام کیا۔ دوسرے دن صبح کو بلی نے جو آ کے دیکھا تو ہر ایک چوہے کو موا پایا۔ تب اپنا سر پیٹ کر کہنے لگی کہ اے بدبخت یہ کیا کیا جو تمام چوہے مار ڈالے۔ انہیں کے سبب سے میری حرمت تھی۔ تب بچے نے کہا تم نے کس واسطے چلتے وقت مجھ کو منع نہ کیا۔ حاصلِ کلام یہ کہ وہ پچھتائی اور پشیمان ہوئی۔ یہ خبر شیر کو پہنچی کہ اس جنگل میں چوہے کا نام نہیں، تب بلی کو اُس نے جواب دیا اور کوتوالی سے معزول کیا۔ طوطے نے یہ داستان تمام کر کے کہا کہ اے کدبانو تونہایت کاہلی کرتی ہے کہ اتنی دور نہیں جاتی اور ہر ایک رات مفت ہی گنواتی ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تیرا شوہر نہ آ جاوے اور اُسی بلی کی طرح تو بھی خفیف ہو۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے، اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑہی اور رونے لگی۔

بیت

وصل کی رات مفت کھوئی ہے
اے سحر کس لئے تو ہوئی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
پندرہویں داستان شاہ پور مینڈک کی کہ اپنی قوم پر ایذا پہنچانے سے پشیمان ہوا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ کپڑے بدل اور بہت سا گہنا پہن طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے میں تجھے بہت غافل جانتی ہوں اور تیری مصلحت نہایت نیک سمجھتی ہوں، لیکن مجھے کچھ تجھ سے حاصل نہیں ہوتا۔ کوئی تدبیر نہیں بتاتا کہ جس کے باعث اُس سے ملوں اور اپنے مقصد کو پہنچوں، اگرچہ اس کام میں دیر ہوتی ہے۔ طوطا بولا اے خجستہ میں اسی تدبیر میں ہوں۔ تو خاطر جمع رکھ کہ میں تجھے تیرے یار کے پاس پہنچائے دیتا ہوں۔ اے بی بی غافل اُسے کہتے ہیں جو اپنا آغاز و انجام نہ سمجھتا ہو اور جو اپنے نیک و بد پر نظر نہیں رکھتا ہے، وہ آخر پشیمان ہوتا ہے، جس طرح سے کہ شاہ پور نے اپنی قوم کا کہنا نہ مانا اور شرمندہ ہوا۔ خجستہ نے پوچھا کہ شاہ پور کون تھا۔ اُس کا قصہ کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ عرب کے ملک میں ایک گہرا کنواں تھا اور اُس میں بہت سے مینڈک رہتے تھے۔ شاہ پور نام ایک مینڈک اُن کا سردار تھا۔ جب وہ مینڈکوں پر بہت ستم کرنے لگا، تب وہ سب گھبرا گئے اور آپس میں مشورت کر کے کہنے لگے کہ ہم اس کے ہاتھ سے عاجز آئے ہیں۔ اس کو موقوف کر کے ایک اور مینڈک کو اپنی قوم سے سردار کیجیے۔ یہ بات مقرر کر کے اُن مینڈکوں نے اُس کو تبدیل کیا اور دوسرے کو سردار کیا۔ وہ وہاں سے ناچار ہو کر ایک سانپ کے بل کے پاس گیا اور آہستہ آہستہ بولنے لگا۔ سانپ نے بل سے سر نکالا اور مینڈک کو دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا کہ اے احمق تو میرا کھاجا ہے۔ کیوں اپنی جان دینے میرے پاس آیا ہے۔ مینڈک نے کہا کہ میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور فلانے کنوئیں میں رہتا ہوں۔ تمہارے پاس اپنی قوم کی فریاد لایا ہوں کہ داد پاؤں اور بہبودی کو پہنچوں۔ سانپ بہت خوش ہوا اور اُس کو دلاسا دے کر کہنے لگا کہ وہ کنواں مجھے دکھا دے کہ میں وہاں جاؤں اور تیرا بدلہ اُن سے لوں۔ آخر سانپ اور مینڈک باہم اُس کنویں پر جا پہنچے اور اُس کے اندر اُتر گئے۔ سانپ نے جب کتنے دنوں میں اُن مینڈکوں کو کھا چکا تب اُس سے کہنے لگا کہ آج میں نہایت بھوکا ہوں، کچھ ایسی تدبیر کر کہ جس سے میرا پیٹ بھرے۔ تب شاہ پور ڈرا اور نہایت پشیمان ہوا کہ میں یہ کیا کیا کہ اس سانپ سے مدد چاہی اور برادری کو برباد کیا، خیر اب جو ہوا سو ہوا، یہ کہہ کر سانپ سے کہا کہ اب آپ اپنے گھر کو سدہاریئے۔ سانپ نے کہا کہ میں تجھے تنہا چھوڑ کر نہ جاؤں گا۔ تب شاہ پور نے کہا کہ ایک اور کنواں یہاں سے بہت نزدیک ہے اور اُس میں بہت سے مینڈک رہتے ہیں۔ اگر کہو تو اُن کو بھی کسی مکر و فریب سے یہاں لے آؤں۔ یہ بات سانپ نے بہت پسند کی اور اُسے رخصت کیا۔ غرض وہ مینڈک اس بہانے سے اُس کنویں میں سے نکلا اور کسی تالاب میں جا کر چُھپ رہا۔ آخر سانپ کئی دن اُس کی راہ دیکھ کر کنویں میں سے نکلا اور اپنے گھر چلا گیا۔ طوطے نے یہ قصہ تمام کر کے کہا اے خجستہ اب دیر مت کر۔ شتاب جا اور اُس سے مل۔ جونہی اُس نے چاہا کہ جاوے اتنے میں صبح ہوئی اور فجر کے جانور بولنے لگے۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب اس شعر کو پڑھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔

شعر

ہمدم ہم تو ہو گئے آخر وہیں مثل شمع سحر
جونہی اُس کے منہ سے نکلا صبح ہوئی اب رات نہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
سولہویں داستان کہ سیاہ گوش نے مکر سے بندر کو ہلاک کروا دیا اور اپنی تیز فہمی سے شیر کا مکان لے لیا

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، خجستہ کپڑے بدل گہنا پہن منہ بنا کے اور تیوری چڑھا کے رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے میں ہر ایک شب تیرے پاس رخصت لینے آتی ہوں اور حالت اپنی بیقراری کی دکھاتی ہوں، کچھ کہانی سننے نہیں آتی ہوں جو تو ناحق میرا مغز پھراتا ہےہ اور جھوٹ موٹ کے قصے سُناتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ سخی سے شوم بھلا جو ترت دے جواب۔ طوطا بولا کہ اے کدبانو میری بات سے کچھ تیرا نقصان نہ ہو گا۔ بلکہ ہو ایک سخن فائدہ بخشے گا۔ بہتر یہ ہے کہ آج جلدی جا اورر اپنے معشوق سے ملاقات کر۔ اگر کوئی دشمن وہاں پہنچے اورتجھے شرمندہ کرے تو تو بھی سیاہ گوش کی طرح مکر سے ایک حیلہ کرنا اور اپنی بات بنانا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس سیاہ گوش کی کہانی کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا اورر ایک بندر اُس کا مصاحب تھا۔ اتفاقاً شیر کسی اور مکان کو چلا اوربندر کو اپنی جگہ پر بٹھا کر کہنے لگا جب تک میں یہاں نہ آؤں تب تک تو اس مکان سے خبردار رہنا اورر کسی کو اسمیں نہ آنے دینا۔ بعد کئی دن کے ایک سیاہ گوش نے اُس مکان کو لے لیا اور وہیں رہنے لگا، اس واسطے کہ وہ مکان نہایت اچھا تھا۔ تب بندر نے کہا کے اے سیاہ گوش یہ مکان شیر کا ہے۔ تیری کیا قدرت کہ تو بے حکم اُس کے یہاں رہے۔ یہ بات اچھی نہیٰں۔ تب سیاہ گوش نے جواب دیا کہ یہ مکان میرے باپ کا ہے۔ میں نے اپنے باپ کی میراث میں پایا ہے۔ تجھے خبر نہیں اور اگر یوں بھی ہے تو تجھے کیاآگ جانے لوہار جانے اور دھونکنے والے کی بلا جانے۔ یہ بات سُنکر بندر چُپ رہا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ مجھے کیا جو کوئی جیسا کرے گا ویسا پاوے گا۔ پھر سیاہ گوش کی مادہ نے کہا کہ بہتر ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دیں کیونکہ سیر کی برابری وہ کرے جو اپنی جان دیوے۔ تب سیاہ گوش نے کہا کہہ اے مادہ جس وقت وہ یہاں آوے گا میں ایک حیلہ کر کے اُس کو اس جگہ سے ٹال دوں گا۔ تو خاطر جمع رکھ۔ کچھ پرواہ نہیں۔ القصہ بعد کئی دن کے شیر کے آنے کی خبر معلوم ہوئی۔ بندر پیشوائی کے لئے گیا۔ اور سیاہ گوش کے احوال سے آگاہ کیا اور کہا۔ میں نے اُس کو منع کیا تھا۔ کہ اس مکان میں مت رہ کیونکہ یہ شیر کے رہنے کا مکان ہے۔ اگر تو یہاں رہے گا تو تیرے حق میں یہاں کا رہنا بہت بُرا ہے۔ تب اُس نے یہ جواب دیا۔ کہ یہ مکان میں نے اپنے باپ کے ورثے میں پایا ہے۔ کچھ شیر کے دادے کا نہیں ہے جو چھوڑ دوں۔ اور آپ جگہ کی خاطر حیران پھروں۔ یہ سُن کے اُس نے کہا کہ اے موذی اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاہ گوش نہیں بلکہ مجھ سے بھی زیادہ قوت رکھتا ہے جو ایسی بیدھڑک بات کہتا ہے نہیں تو سیاہ گوش کی قدرت کیای جو میری جگہ چھینے۔ تب اُس نے کہا کہ نہ صاحب مجھے اپنے خدا کی قسم وہ اجل گرفتہ سیاہ گوش ہے کوئی جانور تمسے طاقتور نہیں۔ اگر اُس پر آپ کی ایک ذرا بھی آنکھ پڑے گی تو اُس کی جان ہی نکل جائے گی۔ آپ چل کر اُسے دیکھیے۔ میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں جو آپ سے کچھ کا کچھ کہوں۔ تب اُس شیر نے کہا کہ اے بندر خدا برحق ہے۔ یہ کیا کہتا ہے۔ اکثر جانور ایسے ہیں کہ وہ دیکھنے میں چھوٹے اور شجاعت اور قوت میں مجھ سے بڑے ہیں۔ شاید اُنہیں میں سے وہ بھی ہو۔ یہ کہہ کر ڈرتے ڈرتے اپنی جگہ کی طرف چلا اورسیاہ گوش بھی اپنی مادہ سے اُس کے پہونچنے سےپہلے ہی کہہ چکا تھا۔ کہ جس وقت شیر پہنچے تو اپنے بچوں کو رُلا دینا اور اگر میں پوچھوں کہ کیوں روتے ہیں تو کہنا کہ آج یہ تازہ گوشت شیر کا مانگتے ہیں۔ باسی نہیں کھاتے۔ القصہ جب شیر اُس مکان کے قریب پہنچا تو بچوں نے رونا شروع کیا۔ سیاہ گوش نے پوچھا کہ یہ کیوں شور مچاتے ہیں۔ مادہ نے کہا کہ یہ بھوکے ہیں۔ سیاہ گوش بولا کہ میں کل ہی اتنا گوشت شیر کا لا دیا تھا۔ کیا اُس میں سے کچھ باقی نہیں۔ تب اُس کی مادہ نے کہا جتنا بچا تھا سو وہ رکھا ہے پر یہ تازہ مانگتے ہیں۔ تب اُس نے بچوں سے کہا کہ تم قدرے دم لو اور خاطر جمع رکھو۔ میں نے سُنا ہے کہ آج اس جنگل میں بہت بڑا شیر آیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو انشاء اللہ تعالٰے ابھی میں اُسے مار لاتا ہوں اور تمہیں مزے شے پیٹ بھر بھر کھلاتا ہوں۔ شیر اس بات کے سنتے ہی بے اختیار جی چھوڑ کر بھاگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سچ مچ مجھے پکڑ لے اور اپنے بچوں کے تئیں کھلا دے۔ اتنا نہ سمجھا کہ سیاہ گوش ہے اور بندر سے کہا کیوں میں نہ کہتا تھا کہ وہ سیاہ گوش نہیں بلکہ کوئی جانور اور ہے جس نے میرا گھر چھین لیا ہے۔ بندر نے کہا اے شیر وہ تجھے فریب دیتا ہے۔ مت ڈر کہ نہایت کمزور اوور چھوٹا جانور ہے۔ شیر یہ سُنکر اپنے گھر کے پاس آیا اور سیاہ گوش کی مادہ نے پھر اپنے بچوں کو رُلایا۔ تب اُس کے نر نے پوچھا کہ اب کیوں غل مچاتے ہیں۔ اُن کو چپ کراؤ۔ البتہ آج شیر کا گوشت میرے ہاتھ لگے گا کیونکہ ایک بندر میرے دوستوں میں ہے۔ وہ مجھ سےاقرار کر گیا ہے اور قسم کھائی ہے۔ کہ میں آج کسی نہ کسی طرح سے شیر کو تیرے پاس لے آتا ہوں۔ یقین ہے کہ وہ اُس کو کسی فریب سے لاویگا۔ اکدم توقف کر اُن کو سمجھا دے کہ پکار کر مت بولو کہ وہ آواز سُن کر ادہر نہ آویگا۔ شیر نے جونہی یہ بات سُنی وہیں اُس بندر کو چیر ڈالا اور بھاگ گیا۔ پھر اُدھر منہ نہ کیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا کہ اے خجستہ آج ساعت نیک اور اچھی ہے اور وقت نیک۔ تو جلدی جا اور اپنے معشوق سے مل۔ خجستہ یہ سنتے ہی اُٹھی اورر چاہا کہ جاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اورمرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور آبدیدہ ہوئی۔

بیت

اپنے جانے کا واں دن کو نہ ہے رات کو ڈہب
دیکھئے کیسی بنے آن پڑی بات بے ڈہب​
 

شمشاد

لائبریرین
سترہویں داستان زریر ریشمی باف کی کہ اس کی قسمت نے موافقت نہ کی ناچار ہو کر گھر میں بیٹھ رہا

جب آفتاب چھپا اور مہتاب نکلا، خجستہ بعد پہر رات کے خاصی پوشاک پہن اور اچھے جواہر سے بن ٹھن طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی اے طوطے ایک مدت سے میں تیری نصیحتیں مانتی ہوں اور باتیں سنتی ہوں لیکن مجھے کچھ دوستی سے حصول نہ ہوا۔ طوطا بولا اے کدبانو تو مجھ پر کیوں غضب ہوتی ہے۔ میں تو ہر شب ترغیب دیتا ہوں۔ کچھ میری خطا نہیں۔ تیری قسمت بُری ہے جو تجھ سے بُرائی کرتی ہے جسطرح سے زریر کے طالع نے زریر سے موافقت نہ کی۔ خجستہ نے پوچھا اُسکی نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں زریر نامی ایک شخص ریشمی کپڑے بُنا کرتا تھا اور ایکدم اس کام سے ہاتھ نہ اٹھاتا تھا لیکن اس سے کچھ فائدہ نہ ہوتا تھا اور موٹا کپڑا بُننے والا اُس کا ایک دوست تھا۔ ایک دن وہ اُسکے گھر گیا اوراُسے دیکھا گھر اُس کا زر اور زیور اور مال و اسباب سے دولتمندوں کیطرح بھرا ہے۔ حیران ہوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ میں کپڑا لایق دولتمندوں کے اور قابل بادشاہوں کے بنتا ہوں۔ کیا سبب ہے کہ مجھے روٹی بھی میسر نہیں اور اس گندہ باف نے اتنی دولت کہاں سے پیدا کی۔ اس فکر میں اپنے گھر آیا اور اپنی جورو سے کہنے لگا۔ کہ میں اب اس شہر ناپرساں میں نہ رہونگا کیونکہ یہاں کے لوگ میری قدر نہیں جانتے اور میری کاریگری کو کوئی نہیں سمجھتا۔ لازم ہے کہ کسی اور شہرر میں جاؤں کہ وہاں میرا کسب چمکے۔

بیت

میں اب شہر بیگانہ میں جاؤنگا
زر نقد اُن سے کما لاؤں گا​

یہ سُن کر اُس کی عورت مسکرائی اور یہ بیت پڑھنے لگی۔

بیت

یہی بخت گر یاں سے لیجاؤ گے
تو کیا خاک واں سے کما لاؤ گے​

پھر سمجھانے لگی کہ اپنے شہر کو چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ کہں مت جا، جو تیری قسمت میں ہے سو یہیں ملے گا۔اور اس سے زیادہ کہیں نہ ملے گا۔ القصہ اُس نے کہنا نہ مانا، کسی طرف چلا گیا اورر ایک شہر میں جا پہنچا۔ مدت تک وہاں اپنا کسب کرتا رہا۔ جب بہت سا روپیہ پیدا کیا تب گھر کی راہ لی۔ ایک رات کہیں جا کے اُترا اور آدہی رات تک جاگا۔ آخر مارے نیند کے سو گیا کہ ایک چور آیا اور تھیلی روپوں کے لے گیا۔ زریر بھی چونکا اور اُس کے پیچھے دوڑا۔ جب اُس کو نہ پکڑ سکا تب ناچار پھر اُسی شہر میں گیا۔ جب بہت سا روپیہ پھر جمع کیا تب گھر کو روانہ ہوا۔ پھر رات آ گئی۔ کسی جگہ اُترا اور مال کی ہر چند احتیاط کی لیکن اُس کو بھی چور لے گیا۔ تب اُس غریب نے اپنے جی میں کہا کہ زر میری قسمت میں نہیں ہے۔ اس سبب سے چور لے جاتا ہے۔ آخر خالی ہاتھ اپنے گھر گیا اور احوال اپنا جورو سے کہا۔ اُس نے جواب دیا کہ میں نے تجھے پہلے ہی کہا تھا کہ نصیب کے سوا کسی جا کچھ نہ پاویگا۔ کہنا میرا تو نے نہ سُنا اورر سفر کیا۔ بھلا کیا فائدہ پایا۔ زریر شرمندہ ہوا۔ طوطے نے یہ قصہ تمام کر کے خجستہ سے کہا اب دیر مت کر۔ جا اپنے معشوق کو گلے لگا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُسے اپنے سینے سے لگاوے۔ اتنے میں فجر ہوئی اور مُرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھ کر رونے لگی۔

بیت

شب امید ہو گئی آخر
روزِ فرقت نے پھر دکھایا منہ​
 

شمشاد

لائبریرین
اٹھارویں داستان چار یاروں کی کہ ایک اپنی نادانی سے پشیمان ہو کے گھر بیٹھا​

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ باسینہ پرسوز چشم گریاں آہیں بھرتی ہوئی طوطے ککے پاس گئی اور کہنے لگی اے سبز پوش طوطے میں عشق کے غم سےے موئی جاتی ہوں اور تو ہر ایک شب میری نصیحت اور گفتگو میں کھو دیتا ہے۔

فرد

نصیحت کی باتیں نہ مجھ کو سُنا
میں عاشق ہوں مجھ کو نصیحت سےکیا​

طوطا کہنے لگا اے خجستہ یہ کیا کہتی ہے۔ دوستون کی بات ماننا چاہیے کیونکہ جو کہنا دوستون کا نہیں مانتا وہ خراب ہوتا ہے اور پشیمانی کھینچتا ہے جس طرح سے ایک شخص نے دوست کا کہنا نہ مانا اور پشیمان ہوا۔ خجستہ نے کہا میرے اچھے طوطے میں تیرے صدقے وہ کونسی نقل ہے، بیان کر :

حکایت

طوطا بولا کہ کسی شہر میں چار یار مالدار تھے۔ اتفاقاً وہ چاروں مفلس ہو کر ایک حکیم کے پاس گئے اور ہر ایک نے اپنا اپنا احوال اُس کے آگے ظاہر کیا۔ تب حکیم کو اُن کے اوپر رحم آیا اورر ایک ایک مہرا حکمت کا اُن چاروں کو دے کر کہا کہا یہ مُہرا ہر ایک اپنےاپنے سر پر رکھ لو اور چلے جاؤ۔ جس کے سر کا مُہرا جس جگہ گرے وہ اُس جگہ کو کھودے۔ جو اُس میں نکلے وہ اُس کا حق ہے۔ آخر وہ چاروں ہر ایک مُہرا اپنے سر پر رکھ کر ایک طرف کو چلے۔ جب کئی کوس گئے، ایک کے سر کا مہرا گرا۔ اُس نے جو اس جگہ کو کھودا تو تانبا نکلا۔ اُس نے اُن تینوں سے کہا کہ میں اس تانبے کو سونے سے بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے ساتھ یہاں رہو۔ اُنہوں نے کہنا اُس کا نہ مانا اورآگے بڑہے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ پھر دوسرے کے سر کا مُہرا گرا۔ اُس نے جو زمین کھودی تو روپیہ نکلا۔ تب اُس نے اِن دونوں سے کہا کہ تم ہمارے پاس رہو یہ روپیہ بہت ہے۔ زندگی گزر جائے گی۔ اسکو اپنا ہی سمجھو۔ انہوں نے اُس کا کہنا نہ مانا اور آگے بڑھے کہ تیسرے کے سر کا مہرا گرا اوراُس نے بھی وہ زمین کھودی تو سونا نکلا۔ تب خوش ہو کر چوتھے سے کہنے لگا کہ اس سے اب کوئی چیز بہتر نہیں جانتے ہیں۔ اب ہم تم یہیں رہیں۔ اُس نے کہامیں اگر جاؤنگا تو جواہر کی کھان پاؤنگا۔ یہاں کیوں رہوں۔ یہ کہکر آگے چلا۔ قریب ایک کوس کے پہنچا، تب اُس کا بھی مہرا گرا۔ اسی طرح جو اُس نے جگہ کھودی تو لوہا نکلا۔ یہ حالت دیکھ کر نہایت شرمندہ ہوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ میں نے کیوں سونے کو چھوڑا اور اپنے یا ر کہنا نہ مانا۔ سچ ہے۔

فرد

سخن دوست کا جو نہیں مانتے
وہ خاکِ پشیمان ہیں چھانتے​

اُس لوہے کو چھوڑ کر اُس شخص کےپاس گیا جس نے سونے کی کان نکالی تھی۔ وہاں اُس کو نہ پایا نہ وہ سونا ہاتھ آیا، تب تیسرے روپے والے کے پاس گیا۔ اُسے بھی نہ پایا، وہاں سے تانبے والے کے پاس گیا۔ اُسے بھی نہ پایا، تب اپنی قسمت کو رویا اور رکہنے لگا کہ زیادہ قسمت سے کوئی نہیں پاتا۔ وہ پھر حکیم کے گھر گیا۔ اُسے بھی وہاں نہ پایا۔ تب وہ بیچارہ نہایت پشیمان ہو کر یہ شعر پڑھنے لگا۔

شعر

کس سے کیا کہیے کہ کیا کیا ہم نے
جو کیا سو بُرا کیا ہم نے​

جب یہ کہانی طوطے نے تمام کی تب خجستہ سے کہا جو دوستوں کی بات نہیں مانتا وہ ایسا ہہی پچھتاتا ہے۔ دیکھا۔ خیر اب جا اور اپنے معشوق کو گلے لگا اور مزا جوانی کا اُٹھا۔ یہ سخن سنتے ہی خجستہ نے چاہا کہ چلوں۔ وہیں صبح ہو گئی اوو مُرغ نے بانگ دی۔ یہ فرد اپنے حسب حال پڑرھی اور رو دی۔

فرد

اے شب وصل جلد آ اب تو
روزِ فرقت مجھے ستاتا ہے​
 
Top