اٹھارویں داستان چار یاروں کی کہ ایک اپنی نادانی سے پشیمان ہو کے گھر بیٹھا
جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ باسینہ پرسوز چشم گریاں آہیں بھرتی ہوئی طوطے ککے پاس گئی اور کہنے لگی اے سبز پوش طوطے میں عشق کے غم سےے موئی جاتی ہوں اور تو ہر ایک شب میری نصیحت اور گفتگو میں کھو دیتا ہے۔
فرد
نصیحت کی باتیں نہ مجھ کو سُنا
میں عاشق ہوں مجھ کو نصیحت سےکیا
طوطا کہنے لگا اے خجستہ یہ کیا کہتی ہے۔ دوستون کی بات ماننا چاہیے کیونکہ جو کہنا دوستون کا نہیں مانتا وہ خراب ہوتا ہے اور پشیمانی کھینچتا ہے جس طرح سے ایک شخص نے دوست کا کہنا نہ مانا اور پشیمان ہوا۔ خجستہ نے کہا میرے اچھے طوطے میں تیرے صدقے وہ کونسی نقل ہے، بیان کر :
حکایت
طوطا بولا کہ کسی شہر میں چار یار مالدار تھے۔ اتفاقاً وہ چاروں مفلس ہو کر ایک حکیم کے پاس گئے اور ہر ایک نے اپنا اپنا احوال اُس کے آگے ظاہر کیا۔ تب حکیم کو اُن کے اوپر رحم آیا اورر ایک ایک مہرا حکمت کا اُن چاروں کو دے کر کہا کہا یہ مُہرا ہر ایک اپنےاپنے سر پر رکھ لو اور چلے جاؤ۔ جس کے سر کا مُہرا جس جگہ گرے وہ اُس جگہ کو کھودے۔ جو اُس میں نکلے وہ اُس کا حق ہے۔ آخر وہ چاروں ہر ایک مُہرا اپنے سر پر رکھ کر ایک طرف کو چلے۔ جب کئی کوس گئے، ایک کے سر کا مہرا گرا۔ اُس نے جو اس جگہ کو کھودا تو تانبا نکلا۔ اُس نے اُن تینوں سے کہا کہ میں اس تانبے کو سونے سے بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے ساتھ یہاں رہو۔ اُنہوں نے کہنا اُس کا نہ مانا اورآگے بڑہے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ پھر دوسرے کے سر کا مُہرا گرا۔ اُس نے جو زمین کھودی تو روپیہ نکلا۔ تب اُس نے اِن دونوں سے کہا کہ تم ہمارے پاس رہو یہ روپیہ بہت ہے۔ زندگی گزر جائے گی۔ اسکو اپنا ہی سمجھو۔ انہوں نے اُس کا کہنا نہ مانا اور آگے بڑھے کہ تیسرے کے سر کا مہرا گرا اوراُس نے بھی وہ زمین کھودی تو سونا نکلا۔ تب خوش ہو کر چوتھے سے کہنے لگا کہ اس سے اب کوئی چیز بہتر نہیں جانتے ہیں۔ اب ہم تم یہیں رہیں۔ اُس نے کہامیں اگر جاؤنگا تو جواہر کی کھان پاؤنگا۔ یہاں کیوں رہوں۔ یہ کہکر آگے چلا۔ قریب ایک کوس کے پہنچا، تب اُس کا بھی مہرا گرا۔ اسی طرح جو اُس نے جگہ کھودی تو لوہا نکلا۔ یہ حالت دیکھ کر نہایت شرمندہ ہوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ میں نے کیوں سونے کو چھوڑا اور اپنے یا ر کہنا نہ مانا۔ سچ ہے۔
فرد
سخن دوست کا جو نہیں مانتے
وہ خاکِ پشیمان ہیں چھانتے
اُس لوہے کو چھوڑ کر اُس شخص کےپاس گیا جس نے سونے کی کان نکالی تھی۔ وہاں اُس کو نہ پایا نہ وہ سونا ہاتھ آیا، تب تیسرے روپے والے کے پاس گیا۔ اُسے بھی نہ پایا، وہاں سے تانبے والے کے پاس گیا۔ اُسے بھی نہ پایا، تب اپنی قسمت کو رویا اور رکہنے لگا کہ زیادہ قسمت سے کوئی نہیں پاتا۔ وہ پھر حکیم کے گھر گیا۔ اُسے بھی وہاں نہ پایا۔ تب وہ بیچارہ نہایت پشیمان ہو کر یہ شعر پڑھنے لگا۔
شعر
کس سے کیا کہیے کہ کیا کیا ہم نے
جو کیا سو بُرا کیا ہم نے
جب یہ کہانی طوطے نے تمام کی تب خجستہ سے کہا جو دوستوں کی بات نہیں مانتا وہ ایسا ہہی پچھتاتا ہے۔ دیکھا۔ خیر اب جا اور اپنے معشوق کو گلے لگا اور مزا جوانی کا اُٹھا۔ یہ سخن سنتے ہی خجستہ نے چاہا کہ چلوں۔ وہیں صبح ہو گئی اوو مُرغ نے بانگ دی۔ یہ فرد اپنے حسب حال پڑرھی اور رو دی۔
فرد
اے شب وصل جلد آ اب تو
روزِ فرقت مجھے ستاتا ہے