سینتیسویں داستان عاشق ہونا ایک بادشاہ کا شاہ روم کی لڑکی پر اور حکم قتل دینا اُس کی لڑکی کو
جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا۔ خجستہ یاس سے بھری ہوئی رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں ہر ایک شب تیرے پاس آتی ہوں اور احوال اپنی بیقراری کا سُناتی ہوں۔ پر کچھ نمک کا حق ادا نہیں کرتا۔ اور مجھے ٹھنڈے جی سے رخصت نہیں کرتا۔ اے وائے نصیب۔
رباعی
کہتی ہوں جناب حق میں ڈرتے ڈرتے
مدت گذری دعائیں کرتے کرتے
قدرت ہے اُسی کو یہ کہ مجھ سا محروم
منہ یار کا دیکھ لیوے مرتے مرتے
اور اس قدر نمک میرے دل ریش پر مت چھڑک اور اتنا مجھ ستائی ہوئی کو نہ ستا۔ لازم ہے کہ اب رخصت دے۔ طوطا کہنے لگا کہ خجستہ آج کی شب جس طرح سے بنے، اُس طرح سے جا اور اپنے معشوق کو گلے لگا۔
ابیات
جہاں کے یوہیں ہیں سبھی کاروبار
ولے حاصل عمر ہے وصل یار
شب و روز پی مل کے باہم شراب
مہ و مہر کو رشک کر کر کباب
اگر سوائے میرے اس احوال سے اور کوئی آگاہ ہو تو تو بھی ویسی ہی تدبیر کرنا۔ جیسے روم کی شہزادی نے ساتھ اُس پاکدامنی کے کی تھی۔ کدبانو نے پوچھا کہ اس کی حکایت کیوں کر ہے :
حکایت
طوطا کہنے لگا۔ ایک بادشاہ روم کی بادشاہت کے قریب رہتا تھا۔ اتفاقاً ایکدن اُس کے وزیر نے کہا اے جہاں پناہ روم کا بادشاہ ایسی ایک لڑکی خوبصورت رکھتا ہے۔
فرد
عجب طرح کا نور ہے جانفزا
کہ مہ روبرو جس کے ہو تھک رہا
اگر وہ اپنی بیٹی جناب عالم پناہ کو بیاہ دے تو کیا خوب ہو۔ بادشاہ نے وزیر کے اس سخن کو سُن کر نہایت پسند کیا اور ایک ایلچی کے ہاتھ مع سوغات اُس لڑکی کی طلب کا پیغام روم کے بادشاہ کو بھیجا۔ جس وقت اُس نامہ بر نے یہ پیغام پہنچایا اور اُس بادشاہ سے جا کر کہا، اُسی وقت وہ ایلچی پر خفا ہوا اور کہنے لگا کہ اے نامہ بر تیرے بادشاہ نے مجھ کو کیا سمجھا جو اس ڈھب کا پیغام بھیجا۔ اگر میں اپنی بات پر آتا ہوں تو اُس کی سلطنت خاک میں ملاتا ہوں۔ تجھے کیا کہوں۔ دور ہو سامنے سے۔ بہتر یہی کہ پھر اِدھر منہ نہ کرنا۔ خبردار خیر اسی میں ہے۔ وہ بیچارہ اُس کی خفگی سے تھرا گیا اور وہاں سے نااُمید پھرا۔
حسن
اُسے دیکھ غصہ میں یہ ڈر گیا
کہے تو جیتے جی مر گیا
اُسی طرح پچھلے پاؤں بھاگ کر اپنے بادشاہ کے پاس آیا اور وہاں کی واردات بیان کرنے لگا۔ یہ بات بادشاہ کو نہایت ناگوار معلوم ہوئی۔ اُسی گھڑی ایک فوج قہار اپنے ہمراہ لے کر چڑھ گیا اور اُس کے ملک کو ایک آن میں تاخت و تاراج کیا۔
تصویر اس جگہ کی کہ بادشاہ روم نے اپنی لڑکی اُس سے بیاہ دی اور رسم آرسی مصحف ہو رہا ہے
جب وہ تنگ آیا، ناچار اپنی لڑکی بیاہ دی اور اُس لڑکی کو خاوند کے ساتھ رخصت کیا۔ غرض وہ بادشاہ اُس شاہزادی کو لیکر اپنے شہر گیا اور اُس سے عیش و عشرت کرنے لگا۔ بعد کتنے دنوں کے شہزادی اپنے بیٹے کی جدائی سے کہ پہلے خاوند سے ایک لڑکا رکھتی تھی اور اُس کو نانا پاس چھوڑ آئی تھی۔ بن دیکھے اُس کے بیقرار ہوئی اور رونے لگی اور بہت غم کرنے لگی۔ آخر یہ بات اپنے جی میں ٹھہرائی کہ کسی بہانہ سے اس کو اپنے پاس بلوائیے۔ اسی خیال میں رہتی تھی کہ اتنے میں بادشاہ نے اُسے ایک ڈبہ جواہر کا نہایت بیش قیمت بھرا ہوا دیا۔ تب اُس نے تجویز کی کہ اب اس بہانے سے بادشاہ کے روبرو ذکر کر کے لڑکے کو بلوائیے۔ تب بادشاہ سے کہنے لگی کہ آپ نے سُنا ہو گا کہ میرے باپ کے پاس ایک ایسا غلام عقلمند ہے۔ دانا جواہر شناس کہ تعریف سے باہر ہے۔ وہ عیب و ہنر جواہر کا خوب جانتا ہے۔ اگر وہ اس وقت یہاں ہوتا تو اس جواہر کو دریافت کرتا اور اچھا پہچان دیتا۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر اُس غلام کو تیرے باپ سے مانگوں تو وہ مجھے دے یا نہ دے۔ کہا بابا جان نے اُسکو بچپن سے فرزند کی طرح پرورش کیا ہے۔ اگر تم کو اس کی تمنا ہے اور اُسے بلوانا منظور ہے تو ایک سوداگر میں اپنی طرف سے بھیجوں اور کچھ اپنی نشانی دوں اور بہتری کا امیدوار اُس لڑکے کو کروں تو اس سبب سے شاید جہاں پناہ اُسے بھیجدیں۔ اور وہ خوشی سے آوے۔ چنانچہ بادشاہ نے اُس کے کہنے کے بموجب ایک سوداگر نہایت مالدار کو واسطے تجارے کے روم کی طرف بھیجا۔ جس وقت وہ تاجر بادشاہ سے بموجب فرمانے کے مال و اسباب واسطے سوداگری کے لیکر چلا، اُس وقت شہزادی نے بادشاہ سے چھپ کر کہا اے سوداگر وہ لڑکا غلام نہیں ہے۔ میرا بیٹا ہے۔ ایک خط میرا اُسے دیجیو اور بادشاہ روم سے میرا پیغام کہیو کہ میں لڑکے کی جدائی سے نہایت غم میں ہوں۔ بہانے سے غلام کے اُ س کو بھیج دو۔ جب تیرے ساتھ آوے، بخوبی لے آئیو۔ مگر یہ پردہ نہ کھولیو۔ آخر کار وہ سوداگر گیا اور کتنے دن کے بعد اُس لڑکے کو لے آیا۔ اور اُس بادشاہ کے حوالے کیا۔ بادشاہ نے جو اُس لڑکے کو خوبصورت اور ہنرمند پایا تو نہایت خوش ہوا۔ اور اُس تاجر کو ایک خلعتِ فاخرہ بخشا اور اُس غلام کو اپنے پاس رکھا اور ماں اُس کی اُسے دور سے دیکھ لیتی۔ اور اُس کے سلام پیام سے اپنا جی خوش کرتی۔
تصویر سوداگر کا شاہزادی کے لڑکے کو روم سے لا کر بادشاہ کے حوالے کرنا
اتفاقاً ایک دن بادشاہ شکار کھیلنے گیا اور شہزادی نے فرصت پا کر اُس لڑکے کو محل میں بلوا کر اپنے گلے لگایا اور اُس کا سر اور منہ چُوما اور گذشتہ جُدائی کا غم اپنا اُس سے کہا۔ یہ خبر خبرداروں نے اُسی گھڑی بادشاہ کو پہنچائی۔ کہ آج شہزادی نے جہاں پناہ کے پیچھے اُس غلام کو محل میں طلب کیا اور اپنے برابر بٹھلایا۔ یہ خبر وحشت اثر سنتے ہی بادشاہ نہایت اپنے جی میں آزردہ ہوا اور کہنے لگا ایسی عورت سے ڈرئیے کہ دیدے پر دیوار بناتی ہے۔ مکر کر کے اپنے یار کو روم سے بلایا۔ اللہ رے کلیجہ۔ پھر آپ جلد شکار گاہ سے محل میں داخل ہوا۔ اور ایک کرسی جواہر نگار پر متفکر ہو کر بیٹھ رہا۔ اس حالت میں شہزادی نے جو بادشاہ کو دیکھا تو اپنے فہم سے دریافت کیا اور کہا کہ آج مزاج مُبارک پر ملال معلوم ہوتا ہے۔ یہ کیا سبب ہے۔ تب بادشاہ نے کہا کیا خوب تم اپنے معشوق کو روم سے بلوا کر ہم بستر ہو اور مجھ سے بیوفائی کرو۔ یہ کیا شوخی اور بے شرمی ہے۔ چاہتا تھا کہ اُسے ہلاک کرے پر عاشق معشوق کو کب مار سکے۔ پھر اپنے جی میں کہنے لگا کہ بی بی کے بدلے غلام کو مارے۔ یہ ٹھہرا کر ایک جلاد کو اشارہ کیا اور کہا کہ اسی گھڑی اس کے سر کو جُدا کر۔ یہ سنتے ہی اُس لڑکے کو جلاد نے پکڑا اور قتل گاہ میں بٹھلا کر پوچھا۔ کہ اے اجل گرفتہ تو جانتا تھا کہ بادشاہ کی بیگم ہے۔ اس سے دوستی کروں گا تو کیونکر بچوں گا۔ اور تیرا قدم کیونکر بڑھا جو تو محل بادشاہی میں گیا۔ اُس نے کہا تو ایسی بات نہ کہہ۔ وہ میری سگی ماں ہے۔ جب میرا باپ فوت ہوا، تب اُس نے اسے شوہر کیا اور مارے شرم کے میرا احوال اُس سے نہ کہا۔ میں جھوٹ نہ کہوں گا، مار یا چھوڑ۔
بیت
قابو میں ہوں میں تیرے گو اب جیا تو پھر کیا
خنجر تلے کسی نے ٹُک دم لیا تو پھر کیا
اس بات کے سنتے ہی جلاد کو رحم آیا اور اُس کے قتل سے باز رہا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ بات بادشاہ پر کُھلی کہ وہ اُس کا بیٹا ہے، تو نے کیوں مارا اور شاہزادی کی خاطر اُس لڑکے کو مجھ سے وہ طلب کرے اور میں اُس کو اُس کے پاس جیتا نہ پہنچاؤں گا تو میں اسی طرح دوسرے کے ہاتھ سے مارا جاؤں گا۔ اسی اندیشہ کو دل میں جگہ دے کر بادشاہ سے عرض کی جہاں پناہ سلامت۔ اُس کشتنی کو وہاں جا کے ماروں گا جہاں پانی کا نام بھی نہ ہو گا۔ غرض اس بہاہنے سے وہ اُس کو بادشاہ سے لے کر اپنے گھر گیا اور چُھپا رکھا۔ بعد دو دن کے بادشاہ کی جناب میں عرض کی۔ عالم پناہ سلامت۔ اُس کا سر قدم مبارک پر نثار ہوا۔ بارے اس بات کے سُنتے ہی تھوڑی سی آتش غضب بادشاہ کی ٹھنڈی ہوئی، پر شہزادی کا اعتبار اُٹھ گیا۔ اور اُس کی کوکھ میں اور بھی محبت کی آگ بھڑکی۔
حسن
کلیجہ پکڑ ماں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بیکس رہ گئی
بے اختیار ہو کر جی سے کہنے لگی، یہ کیا ہوا۔ ادھر بیٹا موا، اُدھر خاوند چھوٹا۔ قضائے کار ایک دن ایک بڑھیا جو اُس کے محل میں رہتی تھی، اُس نے پوچھا اے بی بی اس جوانی پر یہ کس کا غم کھاتی ہے۔ جو اس طرح سے آٹھویں پہر مسند پر منہ ڈہانپ کے پڑی رہتی ہے۔ تب اُس نے سارا احوال اُس سے کہا کہ یہ کیا ماجرا مجھ پر گزرا۔ اُس نے عرض کی اے شہزادی خاطر جمع رکھ۔ میں ایک بہانے سے تیرے بادشاہ کو تجھ پر مہربان کر دوں گی اور محل میں لے آؤں گی۔ شہزادی نے کہا اے مادر مہربان اگر اس درد کی دوا کرے گی تو میں تیرے دامن و جیب کو جواہر سے بھر دوں گی۔ آخر کار ایک دن اُسی پیرزال نے بادشاہ کو تنہا دیکھ کر پوچھا اے شہنشاہ میں تجھے کچھ اور دنوں سے آج دبلا دیکھتی ہوں۔ کیوں، واری جاؤں، خیر تو ہے۔
بیت
تجھے نت رکھے خوش میرا کردگار
تری اس جوانی پہ بڑھیا نثار
بادشاہ نے کہا، اے ماما نیک بخت، میں وہ درد بے درمان رکھتا ہوں کہ جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ درد یہ ہے کہ شہزادی نے روم سے اُس کو بلایا کہ جس پر عاشق ہوئی تھی اور میں نے اُسے قتل کیا۔ پر شہزادی نہیں مار سکتا۔ خدا جانے یہ بات جھوٹ ہے یا سچ۔ اور وہ میری معشوقہ ہے۔ اگر بے تصفیہ مار ڈالوں اور پھر جھوٹ نکلے، تو بدنامی اور جی کی بے قراری علاوہ ہو۔ یہ عقدہ باعث دلبستگی میری کا ہے۔ یہ بات سنتے ہی وہ پیرزال کہنے لگی کہ بادشاہ سلامت تم اس کی فکر نہ کرو۔ میرے پاس ایک ایسا تعویذ ہے کہ اُس کو سوتے کی چھاتی پر رکھ دو۔ وہ اپنا سب جی کا احوال خود بخود کہہ دے۔۔ سو وہ نقش میں تمہیں لکھ دیتی ہوں۔ تم شہزادی کے سینے پر دھر دیکھو۔ اُس کے جی میں جو ہو گا، سو سب آپ سے آپ کہہ دے گی۔ بادشاہ نے کہا کہ تعویذ جلد لا۔ بڑھیا نے وہ تعویذ اُسی گھڑی بادشاہ کو لا دیا۔ اورآپ شہزادی کے پاس جا کر کہا کہ آج تو سرِ شام جھوٹ موٹ سو رہیو۔ اے ملکہ جس وقت بادشاہ تیری چھاتی پر تعویذ کو رکھے، تو اُس وقت سوتوں کی طرح سے جو تیرا احوال ٹھیک ہو سو بخوبی کہہ دینا۔ حاصل کلام جب پہر رات گئی۔ بادشاہ نے اُس نقش کو بادشاہزادی کے سینے پر جونہی رکھا، وہیں اُس نے اپنے خاوند سے پہلے خاوند کا اور اُس لڑکے کا احوال ایک ایک کہہ دیا۔ بادشاہ نے جو یہ بات سُنی، اُسے جگا کر نہایت مہربانی کی اورسینے سے لگا کر شہزادی سے کہا جانی کس واسطے یہ راز پہلے ہی مجھ سے نہ کہا۔ وہ گھبرا کر بولی، میں نے کون سی بات چُھپائی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ تیرا سگا بیٹا تھا۔ تو نے غلام کیوں بتلایا۔ تب اُس نے آنکھیں نیچی کر کے عرض کی کہ مجھے شرم معلوم ہوتی ہے۔کہتی کیوں کر۔ یہ سنتے ہی بادشاہ نے اُسی گھڑی اُس جلاد کو بلا کر کہا کہ جلدی اُس لڑکے کو میرے پاس لے آ۔ اگر مار ڈالا ہے تو اس کی گور کہاں ہے بتلا۔ اُس نے کہا جہاں پناہ میں نے اُسے تاحال نہیں مارا۔ وہ خدا کے فضل سے جیتا جاگتا موجود ہے۔ یہ بات سنتے ہی بادشاہ نہایت خوش ہوا اور اُسی وقت لڑکے کو بلوا کر اُس کی ماں کے حوالے کیا۔ اُس ناامید نے لڑکے کو گود میں لے کر درگاہ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا۔ اے کدبانو اگر تجھ کو بھی کوئی کام مشکل پڑے تو تو بھی اسی طرح سے بیان کرنا۔ خیر اب جا اور اپنے معشوق سے مل۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے۔ اتنے میں پَو پھٹی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس رور بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اوررونے لگی۔
اے سحر یہ یقین ہُوا مجھ کو
وصل کی شب میں اب نہ دیکھوں گی