طوفانِ بے ثباتی
چاندنی تھی صبح کا ہنگام تھا
میں یکایک اپنے بستر سے اٹھا
ڈوبتے تاروں کو دیکھا غور سے
آنکھ میں اشکوں سے طوفان آگیا
ذرّہ ذرّہ میں زمیں سے تا فلک
موج زن تھا اِک سمندر حُسن کا
وہ گلابی روشنی ، ہلکا وہ نور
وہ تڑپ دریا کی ، وہ ٹھنڈی ہوا
وہ نسیم صبح کی اٹھکیلیاں
وہ ترنّم خیز جھونکے وہ ہوا
آنکھ اٹھائی روح بالیدہ ہوئی
سانس لی اور خون تازہ ہوگیا
دل ہلا روحانیت کے جوش سے
سجدۂ معبود میں سر جھُک گیا
خاک پر رکھتے ہی سجدے میں جبیں
دفعتاً اک درد سینے میں اٹھا
"باغِ عالم پر" نظر کر غور سے"
دوست کے پہلو سے آئی یہ صدا
"سطحۂ حیوانیت سے ہو بلند"
منتظر ہے خلد کی آب و ہوا"
"سرمدی جلوے ترے مشتاق ہیں"
"میرے بندے قبا کھول دے آنکھیں ذرا "
"حافظہ کو سجا ہماری یاد سے "
ذہن کو دنیا کی فکروں سے بچا"
"میری جانب دیکھ اے فانی وجود"
دیکھ رنگِ دہر سے دھوکا نہ کھا "
"زندگانی کا سبق لے پھول سے "
دیکھ اُس کی ابتدا و انتہا"
بس یہ سننا تھا کہ میں دیوانہ وار
تیز تیز اک باغ کی جانب چلا
دلربا کلیاں کھلی تھیں ہر طرف
خوشنما سبزہ بچھا تھا جا بجا
اوس کے موتی پڑے تھے خال خال
صاف تھے چشمے معطر تھی ہوا
خون میں گردش تھی آنکھوں میں سرور
میں اسی عالم میں اِک جانب بڑھا
آہ کھینچی میں نے شاخِ گل کے پاس
اِک کلی کو توڑ کر بوسہ دیا
گرمی و سردی سے کھل جاتے ہیں پھول
یہ ہوا کا کام ہے اور دھوپ کا
فعل تھا فطرت کا جو کچھ اصل میں
وہ عمل میرے تنفّس نے کیا
شاخِ نازک سے کلی کو توڑ کر
جیسے ہی میں نے لبوں سے مس کیا
مجھ کو حیرت ہو گئی یہ دیکھ کر
غنچہ چٹکا ، اور چٹک کر کھل گیا
مجھ پہ بھی لیکن ہوا طرفہ اثر
"روح کا" "ست" پتیوں میں کھنچ گیا!!
جس طرح شبنم کو پیتی ہے کرن
پھول میری روح کو یوں پی گیا
شاخِ گل سے خون ٹپکا بعدازاں
اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا !
ہوش میں آیا تو دیکھا دھوپ تھی
اور پڑا تھا پھول مرجھایا ہوا !!
یہ صدا گونجی ہوئی تھی ہر طرف
"سوچ اپنی ابتدا و انتہا !!
جوش ملیح آبادی
رُوحِ ادب
33-34
چاندنی تھی صبح کا ہنگام تھا
میں یکایک اپنے بستر سے اٹھا
ڈوبتے تاروں کو دیکھا غور سے
آنکھ میں اشکوں سے طوفان آگیا
ذرّہ ذرّہ میں زمیں سے تا فلک
موج زن تھا اِک سمندر حُسن کا
وہ گلابی روشنی ، ہلکا وہ نور
وہ تڑپ دریا کی ، وہ ٹھنڈی ہوا
وہ نسیم صبح کی اٹھکیلیاں
وہ ترنّم خیز جھونکے وہ ہوا
آنکھ اٹھائی روح بالیدہ ہوئی
سانس لی اور خون تازہ ہوگیا
دل ہلا روحانیت کے جوش سے
سجدۂ معبود میں سر جھُک گیا
خاک پر رکھتے ہی سجدے میں جبیں
دفعتاً اک درد سینے میں اٹھا
"باغِ عالم پر" نظر کر غور سے"
دوست کے پہلو سے آئی یہ صدا
"سطحۂ حیوانیت سے ہو بلند"
منتظر ہے خلد کی آب و ہوا"
"سرمدی جلوے ترے مشتاق ہیں"
"میرے بندے قبا کھول دے آنکھیں ذرا "
"حافظہ کو سجا ہماری یاد سے "
ذہن کو دنیا کی فکروں سے بچا"
"میری جانب دیکھ اے فانی وجود"
دیکھ رنگِ دہر سے دھوکا نہ کھا "
"زندگانی کا سبق لے پھول سے "
دیکھ اُس کی ابتدا و انتہا"
بس یہ سننا تھا کہ میں دیوانہ وار
تیز تیز اک باغ کی جانب چلا
دلربا کلیاں کھلی تھیں ہر طرف
خوشنما سبزہ بچھا تھا جا بجا
اوس کے موتی پڑے تھے خال خال
صاف تھے چشمے معطر تھی ہوا
خون میں گردش تھی آنکھوں میں سرور
میں اسی عالم میں اِک جانب بڑھا
آہ کھینچی میں نے شاخِ گل کے پاس
اِک کلی کو توڑ کر بوسہ دیا
گرمی و سردی سے کھل جاتے ہیں پھول
یہ ہوا کا کام ہے اور دھوپ کا
فعل تھا فطرت کا جو کچھ اصل میں
وہ عمل میرے تنفّس نے کیا
شاخِ نازک سے کلی کو توڑ کر
جیسے ہی میں نے لبوں سے مس کیا
مجھ کو حیرت ہو گئی یہ دیکھ کر
غنچہ چٹکا ، اور چٹک کر کھل گیا
مجھ پہ بھی لیکن ہوا طرفہ اثر
"روح کا" "ست" پتیوں میں کھنچ گیا!!
جس طرح شبنم کو پیتی ہے کرن
پھول میری روح کو یوں پی گیا
شاخِ گل سے خون ٹپکا بعدازاں
اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا !
ہوش میں آیا تو دیکھا دھوپ تھی
اور پڑا تھا پھول مرجھایا ہوا !!
یہ صدا گونجی ہوئی تھی ہر طرف
"سوچ اپنی ابتدا و انتہا !!
جوش ملیح آبادی
رُوحِ ادب
33-34