فرخ منظور
لائبریرین
طولِ شبِ فراق کا قصہ بیاں نہ ہو
خط یار کو لکھوں تو سیاہی رواں نہ ہو
مارا ہے ضبط نے مجھے عشقِ حبیب میں
مردہ مرا جلائیں تو اُس میں دھواں نہ ہو
اے آسماں نمود نہیں ہم کو چاہیے
بعدِ فنا مزار کا اپنے نشاں نہ ہو
گلزار لطف و خلق شگفتہ رہے مدام
اس باغ کی بہار، الٰہی خزاں نہ ہو
دیر و حرم میں شیخ و برہمن رہیں خراب
ملتا ہے وہ کہاں، کہیں جس کا مکاں نہ ہو
سبزے پر اس ذقن کے نگہ جا کے رہ گئی
سچ کہتے ہیں کہ گھاس کے نیچے کنواں نہ ہو
نالوں کی بحث کا کسے آتش دماغ ہے
یا ہم نہ ہوویں یا جرسِ کارواں نہ ہو
(خواجہ حیدر علی آتش)
خط یار کو لکھوں تو سیاہی رواں نہ ہو
مارا ہے ضبط نے مجھے عشقِ حبیب میں
مردہ مرا جلائیں تو اُس میں دھواں نہ ہو
اے آسماں نمود نہیں ہم کو چاہیے
بعدِ فنا مزار کا اپنے نشاں نہ ہو
گلزار لطف و خلق شگفتہ رہے مدام
اس باغ کی بہار، الٰہی خزاں نہ ہو
دیر و حرم میں شیخ و برہمن رہیں خراب
ملتا ہے وہ کہاں، کہیں جس کا مکاں نہ ہو
سبزے پر اس ذقن کے نگہ جا کے رہ گئی
سچ کہتے ہیں کہ گھاس کے نیچے کنواں نہ ہو
نالوں کی بحث کا کسے آتش دماغ ہے
یا ہم نہ ہوویں یا جرسِ کارواں نہ ہو
(خواجہ حیدر علی آتش)