محمد تابش صدیقی
منتظم
طویل نظم: دیوارِ گریہ
٭
ایک دیوار گریہ بناؤ کہیں٭
یا وہ دیوار گریہ ہی لاؤ یہیں
اب جو اس پار بیت المقدس میں ہے
تاکہ اس سے لپٹ
اردن و مصر کے، شام کے
ان شہیدوں کو یکبار روئیں
ان کے زخموں کو اشکوں سے دھوئیں
وہ جو غازہ میں لڑ کر
وه جو سینائی کے دشت میں بے اماں
وحشی دشمن کی توپوں کا ایندھن بنے
جن پہ گِدھوں کے لشکر جھپٹتے رہے
وہ جو مرتے رہے وہ جو کٹتے رہے
نعرہ تکبیر کا اپنے لب پر لیے
کلمۂ طیبہ کا وظیفہ کیے
آج جب چار دن چار راتوں کے بعد
ایک خونخوار سورج
صبحِ فردا کا سورج لبِ بام آیا
تو یہ آنکھوں نے دیکھا ............
وہ جو آنکھوں نے دیکھا
بھول جاؤ اسے بھول جاؤ کہیں
ایک دیوار گریہ بناؤ کہیں
وہ یہودی کہ مقھور و مغضوب ہو کر
اتنی صدیوں سے آواره و بے وطن تھا
رونے آتا تھا دیوارِ گریہ کے نیچے
دھونے آتا تھا اشکوں سے دامانِ ماضی
آج اس کے قلمرو
شہرِ حیفہ سے تاراسِ تیران ہے
اسی کی افواج تیز
صورتِ رست خیز
خیمہ زن برسویز
- اور اہل عرب
جن کے اجداد نے
شرق سے غرب تک
شہسواری بھی کی، تاجداری بھی کی
شہر و صحرا میں آواره و بے وطن ہیں
حیفہ و جافہ و ناصره کے مکیں
سالہا سال سے ہے مکاں سرفشاں
دشت بھی غیر کا ، شہر بھی غیر کا
بحر بھی غیر کا
اے خداوندِ افلاکیاں خاکیاں
کیا عرب کو بھی آوارہ ہونا پڑے گا
یعنی صدیوں تلک
یونہی دیوار گریہ پر رونا پڑے گا؟
۲
ایک دیوارِ گریہ بناؤ کہیں
آج یاروں کو روؤ رلاؤ کہیں
اپنے دشمن تو ملعون و ناخوب ہیں
ہم تو یاروں کی یاری سے محجوب ہیں
ایک بھبکی سے دشمن کی جو ڈھیر ہے
وہ اگر شیر ہے کاغذی شیر ہے
ایک جانب وہ طیارہ بردار تھے
جن پہ مغرب کے بمبار اسوار تھے
وہ تو اڑتے رہے اور جھپٹتے رہے
آگے بڑھتے رہے پیچھے ہٹتے رہے
روکا یاروں کو اک فکرِ انجام نے
بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے
آئے بمبار جو کارواں کارواں
ان کی یلغار سے تھا سیاه آسماں
ان کی زد میں عرب کے سجیلے جواں
جن کے نیزوں نے جیتا تھا آدھا جہاں
جن کی تاریخ فتحیں سرافرازیاں
کوئی دم میں ہوئے اس طرح بے نشاں
سینۂ دشت تھا خون اور ہڈیاں
وہ بھی جھلسا دیا نارِ نیپام نے
بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے
جن سے دل کو وفا کی امیدیں بہت
جن کے وعدے بہت تھے وعیدیں بہت
بیٹھے لفظوں کے راکٹ چلایا کیے
یا بیانوں کے بم آزمایا کیے
دھمکیوں کے میزائل اڑایا کیے
کوئی گِرتوں کو آیا مگر تھامنے؟
بیڑے یاروں کے دیکھا کیے سامنے
۳
آج سینائی کی مسجدیں بے ازاں
آج سینائی میں عیدِ صیہونیاں
روحِ قبلہ تپاں درد کی آگ میں
ہو رہا ہے چراغاں سناگاگ میں
مضطرب مضطرب روحِ جبریل ہے
سوق در سوق غولِ سرائیل ہے
جورِ دجال ہے، شورِ فریاد ہے
یہ قیامت ہے یا محض افتاد ہے؟
کوئی دن کے لیے
قاہرہ کے شبینہ کلب کے حسینو!
اپنے جلوے نہ اتنے نمایاں کرو
کوئے بیروت و بصرہ کے بے آستینو!
اپنے غمزوں کو اتنا نہ ارزاں کرو
شیخِ عالی مقام!
باز کچھ روز کنجِ قفس میں رہیں
شاہِ ذی احترام!
تجھ کو ناموسِ امت کی قسمیں رہیں
اے عرب کے عوام!
ہاں رقابت کے جذبات بس میں رہیں
ورنہ قطرہ یہ آلِ سرائیل کا
بحرِ ظلمات بن کر بپھر جائے گا
ایک عالم کو غرقاب کر جائے گا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں
آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ان کا مقصد جہانِ عرب پر بزن
آپ کی ترکتازی کی حد ہے یمن
وہ مسخر کریں ارض و افلاک کو
آپ کے مورچے ریڈیو ریڈیو
آپ تسبیح و جام و مئے ارغواں
وہ سپاہی، زن و بچہ، پیر و جواں
آپ اونٹوں پہ محمل سجاتے ہوئے
وہ نئے اسلحے آزماتے ہوئے
آپ سمجھے کہ یہ روز کا کھیل ہے
ان کی نظروں میں تو آپ کا تیل ہے
آپ کی کشت ہے
آپ کا شہر ہے
آپ کا دشت ہے
آپ کی نہر ہے
۴
دیکھ بیت المقدس کی پرچھائیاں
اجنبی ہو گئیں جس کی پہنائیاں
ہر طرف پرچمِ نجمِ داؤد ہے
راہ صخرا کے گنبد کی مسدود ہے
رفعتِ آخریں عالمِ پست کی
منزلِ اولیں تا سما جست کی
سجدہ گاہِ عمرؓ، مسجدِ پاک میں
آج خالی مصلے، اٹے خاک میں
ہر طرف فوجِ دجالِ ملعون ہے
منزل و سوق و بازار میں خون ہے
”میں نہ لوٹوں گا، مجھ کو نہ آواز دو
جب تلک ملک میرا نہ آزاد ہو“
قول ہارا تھا جس مردِ بےباک نے
ہاں اسے بھی پناہ دی تری خاک نے
وہ کہ جوہرؔ تھا شمشیرِ اسلام کا
ایک ہندی محمد علی نام کا
آج یوروشلم تو جو پامال ہے
روحِ آزاد کا اس کی کیا حال ہے؟
یا اخی! یا اخی!
رو چکا، اور کاہے کو روتا ہے تو
تیرے رب کا تو فرمان لا تقنطوا!
کس کی تاریخ ہے بے غم و ابتلا
کربلا بھی ترے دین کا مرحلا
جس جگہ دھوپ ہے، اس جگہ چھاؤں ہے
آ دکھائیں تجھے، تیری دلجوئی کو
دور مشرق میں احرارِ ہنوئی کو
ان کا دشمن شکستوں سے بے حال ہے
ان کو لڑتے ہوئے بیسواں سال ہے
یہ بھی ملحوظ رکھ، تو جو دل تنگ ہے
یہ بھی ان کی ہے، وہ بھی تری جنگ ہے
آج دشمن کو گر کامراں جانیے
اس کو اک عارضی امتحاں جانیے
جنگ میں گام دوگام ہٹتے بھی ہیں
آگے بڑھنے کو پیچھے پلٹتے بھی ہیں
آ کہ ان قاتلوں، وحشیوں مجرموں
غاصبوں، اور ان سب کے آقاؤں کو
وہ جو سونے کے بچھڑوں کی پوجا کریں
سات ساگر کے اس پار سے جو سدا
تار سازش کے بیٹھے ملایا کریں
ساری دنیا میں آشوب لایا کریں
ان کے اپنے گناہوں کے سنگِ گراں
کر کے زیبِ گلو
آج عقبہ کی کھاڑی میں غرقاب کر دیں
تاکہ عمان و مکہ بھی محفوظ ہوں
تاکہ لاہور و ڈھاکہ بھی محفوظ ہوں
تاکہ اور اہلِ دنیا بھی محفوظ ہوں
اور پھر ان کے پسماندگاں کے لیے
ایک دیوارِ گریہ بنائیں کہیں
جس پہ مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
٭٭٭
ابنِ انشا
مدیر کی آخری تدوین: