ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
قوافی کی کمی؟! میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے ۔ نو آموزی کے دور میں اکثر شعرا طبع آزمائی کے لئے بعض اوقات ایسی زمینیں منتخب کرتے ہیں کہ جن میں ردیف قافیہ تنگ ہوتا ہے ( زمین = ردیف+ قافیہ + وزن)۔ لیکن تجربہ جلد ہی سکھادیتا ہے کہ ایسی زمینوں سے پرہیز کرنا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو کشادہ قوافی اور ردیف منتخب کرنا چاہئے ۔ منتخب کرنے سے مراد یہ کہ یا تو کسی استاد شاعر کی آسان زمین میں فکرِ سخن کی جائے یا پھر خود ہی ایسا مصرع کہا جائے ۔ شاعری میں پختگی مطالعہ ، مشق اور تجزیے سے آتی ہے۔ اور اگر کسی استاد کی صحبت اور تربیت میسر آجائے تو گویا سونے پہ سہاگہ ۔ کچھ لوگ پختگی کے یہ مراحل بہت جلد اور ذرا سی کوشش سے طے کرلیتے ہیں کہ ان کی طبیعت میں شاعرانہ جوہر قدرتی طور پر بدرجۂ کمال موجود ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو ایک عمر لگ جاتی ہے ۔ بقولِ اقبال اشعر: ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی ۔قوافی بسا اوقات خیالات کے اظہار کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ یا بالکل ہی بدل ڈالتے ہیں۔ زبان دانی کی کمی تو لغت بہرحال پورا کر دیتی ہے مگر جب قوافی کی کمی ہو تو خیالات کے اظہار میں رکاوٹ آ جاتی ہے ۔ ہمارے ساتھ تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ
پکائی تھی کھیر بن گیا دلیہ
کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے ؟
لغت سے زبان نہیں سیکھی جاتی ۔ لغت تو بوقتِ ضرورت کسی لفظ کا تلفظ ، معانی یا تجنیس وغیرہ کی تصدیق کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ زبان تو صرف اور صرف مطالعے اور زبان دانوں کی صحبت سے نکھرتی ہے۔ میری ناقص رائے میں ادبِ عالیہ کے مطالعے کے بغیر اچھا شعر و ادب تخلیق کرنے کا تصور بھی محال ہے۔ زبان پر قدرت ہو تو پھر ردیف قافیہ اظہارِ خیال میں آڑے نہیں آتے۔ پیرایہ بدل کر یا صنائع بدائع استعمال کرکے مضمون ادا کردیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ لکھے کم اور پڑھے زیادہ !
جہاں تک میرے بارے میں آپ کے سوال کا تعلق ہے تو میں چھٹی ساتویں جماعت سے شاعری کررہا ہوں ۔ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ۔ ابتدائی دور میں زورِ کلام دکھانے اور اپنے "ہنر" کی تسکین و تصدیق کے لئے مشکل زمینوں میں کچھ غزلیں لکھی تھیں جن میں سے کچھ خاکدان میں موجود ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں کرتا ۔ اگر کبھی کوئی ایسا شعر خود بخود ہو بھی جاتا ہے کہ جس کی زمین تنگ ہو تو میں اس میں زیادہ دیر فکرِ سخن نہیں کرتا ۔ اگر کوئی امکان نظر نہ آئے تو اس شعر کو ترک کردیتا ہوں ۔ میں نے اب تک بلا مبالغہ درجنوں نامکمل غزلیں اور سینکڑوں اشعار اسی وجہ سے رد کردیئے کہ ان میں اچھا شعر کہنے کے مزید امکانات نہیں تھے ۔ بالکا ہی معمولی یعنی سامنے کا شعر ، شعر برائے شعر یا بھرتی کا شعر کہنے سے بہتر ہے کہ شعر نہ کہا جائے۔ شعر رد کرنے سے شعری خیال تو ختم نہیں ہوتا ۔ وہ تو آپ کے ذہن میں موجود رہتا ہے اور مستقبل میں کسی اور زمین میں شعر کی صورت ڈھل جاتا ہے ۔
اب اس ایک بات پر اپنے جواب کو ختم کرتا ہوں کہ شاعری گولف کی طرح ہے ۔ ہر دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ گولف کلب گھما کر گیند کو مارنا تو بہت آسان ہے ، اس میں بھلا کیا مشکل ہوگی ۔ لیکن جب کھیلیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسے سیکھنے کے لئے کتنی تربیت اور مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی حال شاعری کا ہے۔ اکثر لوگ شاعری شروع تو کردیتے ہیں لیکن ریاضت سے گھبرا جاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں اساتذہ ایسے لوگوں کو شروع ہی میں کہہ دیا کرتے تھے کہ میاں شاعری تمہارا میدان نہیں ۔ کسی اور صنف میں قلم آزمائی کرو۔ اب انٹرنیٹ پر کسی کو ایسا کہنا فساد کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن عقلمند لوگوں کو اشارہ کافی ہوتا ہے ۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے یا کچھ اور کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔