محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ظہیر بھائی لیجیے آپ کی نثری نظم کا منظوم ترجمہ حاضر ہے۔ بس اصلاح فرمادیجیے۔
دو بجے تھے دن کے اور یه دوددھ جیسی سرمئی ایک شام ہی تھی
جب یکایک شام اپنے اختتامی وقت کو پہنچی تو سورج
دور دھندلے پانیوں میں
کائیں کائیں کررہا تھا اور نہاتا پھر رہا تھا
روشنی کے، رنگ کے اِک نوری بھُتنے کی طرح جب
چاند نے ساحل پہ آکر قوتِ گویائی پاکر یه کہا کہ
"اے مرے سورج بتا کیا تم بھی اب کوؤں کی صورت
کائیں کائیں کر رہے ہو ؟"
یه جواب آیا کہ میرے اے دلارے چاند سن لو
یه حقیقت ہے شمالی دوریوں میں تو سمندر بھی نہیں ہیں!
چاند بھی تب پوچھ بیٹھا اختتامی وقت کیا ہے ؟
وہ یه بولا درمیان و درمیان و درمیان!
دو بجے تھے دن کے اور یه دوددھ جیسی سرمئی ایک شام ہی تھی
جب یکایک شام اپنے اختتامی وقت کو پہنچی تو سورج
دور دھندلے پانیوں میں
کائیں کائیں کررہا تھا اور نہاتا پھر رہا تھا
روشنی کے، رنگ کے اِک نوری بھُتنے کی طرح جب
چاند نے ساحل پہ آکر قوتِ گویائی پاکر یه کہا کہ
"اے مرے سورج بتا کیا تم بھی اب کوؤں کی صورت
کائیں کائیں کر رہے ہو ؟"
یه جواب آیا کہ میرے اے دلارے چاند سن لو
یه حقیقت ہے شمالی دوریوں میں تو سمندر بھی نہیں ہیں!
چاند بھی تب پوچھ بیٹھا اختتامی وقت کیا ہے ؟
وہ یه بولا درمیان و درمیان و درمیان!
چند منٹ پہلے محفل میں داخل ہوا اور تازہ ترین دھاگوں پر نظر ڈالی تو یہ منفرد کلام نظر سے گزرا ۔ پڑھ کر دل پر اتنا اثر ہوا کہ بے اختیار اور فی الفور ایسا ہی کلام مجھ سے بھی سرزد ہوگیا ۔ ملاحظہ فرمائیے گا ۔
اختتام کا درمیان
دن کے دو بجے جب دوددھ جیسی سرمئی شام
یکایک اپنےاختتام کو پہنچی تو سورج
دور شمالی سمندروں میں کائیں کائیں کرتا نہاتا پھر رہا تھا
رنگ و نور کے ایک بھُتنے کی مانند
چاند نے آکر کہا سرِ ساحل
"کیا سورج بھی کائیں کائیں کیا کرتے ہیں ؟"
جواب آیا کہ شمال میں سمندر بھی نہیں ہوا کرتے!
سوال پوچھا کہ اختتام کیا ہے ؟
جواب آیا کہ درمیان! درمیان!
درمیان!
آخری تدوین: