طارق شاہ
محفلین
غزلِ
عاجزحبیب ملک
تلاشِ ذات میں صاحب یہ واقعہ بھی ہُوا
میں اپنی ذات سے اُلجھا بھی اورجُدا بھی ہُوا
کہیں ہُوا ہے وہ ظاہر، کہیں چُھپا بھی ہُوا
وہ بھید ہے تو، مگر ہم پہ ہے کُھلا بھی ہُوا
مِری ہی ذات، مجھے چار سُو دِکھائی دی
میں جُستجُو میں تِری ایک آئینہ بھی ہُوا
خودی کی ڈھونڈ میں مجھ کو وہ مرحَلے بھی دِکھے
کہ بار ہا مِرا ، تجھ سے ہے سامنا بھی ہُوا
کبھی ہُوا ہُوں میں شیطاں، کبھی ہُوا میں ملک
کبھی، جو ذات میں کھویا، تو اِک خُدا بھی ہُوا
جِسے ہُوا ہے مُیسر، یہ شوق اوریہ جُنوں
وہی تو، ذات سے تیری ہے آشنا بھی ہُوا
تِری تلاش میں تیری ہی جُستجُو میں حبیب
کبھی میں ٹُوٹ کے بِکھرا تو جابجا بھی ہُوا
عاجز ملک حبیب