عادل منصوری انتقال کر گئے

الف عین

لائبریرین
عادل منصوری انتقال کرگئے
07.11.2008, 12:02am , جمہ (GMT)
عالمی اخبار ریسرچ یونٹ

عادل منصوری 1936ء میں ولی دکنی کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے کچھ عرصے بعد ان کا خاندان نقلِ مکانی کر کے کراچی میں آباد ہو گیا۔ جہاں عادل نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اگرچہ 1955ء میں ان کے والد دوبارہ گجرات منتقل ہو گئے، لیکن کراچی کے زرخیز ماحول میں نوجوان عادل کو اردو غزل کا چسکا پڑا گیا تھا، سو وہ عمر بھر ان کے ساتھ رہا۔ 1985ء میں ایک اور ہجرت انھیں سرزمینِ امریکہ لے آئی، جہاں آج چھ نومبر کو انھوں نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا:

بس آخری ڈیرا ہے یہ ٹوٹا ہوا چھپر
اب آگے کوئی نقلِ مکانی بھی نہیں ہے

عادل منصوری ساٹھ کی دہائی میں جدیدیت کے سرخیل رسالے ’شب خون‘ سے یوں متعارف ہوئے کہ آخر تک ساتھ برقرار رہا۔ ان کی سینکڑوں غزلیں اور نظمیں شب خون میں شائع ہوتی رہیں، شمس الرحمٰن فاروقی کی سرپرستی میں عادل منصوری کا شمارجدید اردو شاعری کے صف اول کے تخلیق کاروں میں ہونے لگا:

آباد شہر چھوڑ کے سنسان راستے
جنگل کی سمت جانے کسے ڈھونڈنے چلے
کیا پوچھتے ہو کیسے رہے دن بہار کے
گر پھول بے شمار تھے، کانٹے بھی کم نہ تھے
گھر سے گلی کی سمت مرے پاؤں جب بڑھے
دروازے پوچھنے لگے، صاحب کدھر چلے؟
پانی پلانے والا وہاں کوئی بھی نہ تھا
پنگھٹ کے پاس جا کے بھی ہم تشنہ لب رہے

عادل منصوری کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو سستی سماجی شہرت کی قربان گاہ پر اپنے فن کو بلی نہیں چڑھاتے۔ شمالی امریکہ میں اردو دنیا سے تعلق رکھنے والا ہر تیسرا ریٹائرڈ شخص، جس نے کبھی اختر شیرانی اور جوش ملیح آبادی کو پڑھ رکھا تھا، کھونٹی سے قلم اتار کر شاعر بن جاتا ہے اور اسی قلم سے یبوست زدہ شاعری کی ندیاں بہاتا چلا جاتا ہے۔ عادل منصوری اگر چاہتے تو آسان فہم، کچی پکی رومانویت سے معمور شاعری کر کے داد و تحسین حاصل کر سکتے تھے، جہاں ان کا عصائے قلم آس پاس کے تمام سنپولیوں کو نگل جاتا ، لیکن ان کا عقیدہ بھی اپنے دوست ظفر اقبال سے ملتا جلتا تھا:

سیدھے سادھے شعر کہتے، سب کو خوش آتے ظفر
کیا کریں اپنی طبیعت میں مگر افتور تھا

...مزید
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
 

حیدرآبادی

محفلین
مرحوم عادل منصوری صاحب کا شمار میرے والد محترم کے دوستوں میں ہوتا تھا۔ گذشتہ دیڑھ دو سال سے بذریعے ای-میل میرے ان سے روابط رہے تھے۔ فون پر بھی انہوں نے مجھ سے کچھ مرتبہ گفتگو کی تھی۔
محترم شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کی ویب سائیٹ کے متعلق بھی انہوں نے مجھ سے رائے مشورہ لیا تھا۔ تصویری اردو کے بجائے یونیکوڈ اردو میں ویب سائیٹ بنانے کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی۔ ویب سائیٹ سے متعلق سارا InPage مواد انہوں نے مجھے یونیکوڈ میں منتقل کرنے کے لئے بھیجا بھی تھا۔

اپنی خطاطی کے کئی منفرد نمونے بھی روانہ کیے تھے۔ جن میں سے ایک یہاں لگا رہا ہوں۔ اور ان کی اپنی ایک غزل بھی جو انہوں نے پچھلے ہی سال مجھے بھیجی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔ اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے، آمین۔
 

حیدرآبادی

محفلین
mansuriartot5.gif
 

الف عین

لائبریرین
سشمس الرحمن کو میں نے جو خط لکھا تھا اسا سلسلے میں (یعنی ان کی ویب سائٹ کو اردو میں کرنے کے لئے( تو اس کا کوئی جواب نہیں ملا تھا،
میں البت ان کے بھانجے نور فاروقی سے ربط میں تھا. لیکن انہوں نے بھی مجھے کوئی مواد نہیں بیھیجا تھا، اب معلوم ہوا کہ عادل سے بھی تعلقات تھ تو اس مواد کا کیا ہوا؟
 

زیف سید

محفلین
عادل منصوری صاحب اس قدر اچانک چلے گئے کہ ہمارے بہت سے مشترکہ منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اور پھر جب ایک دن یہ اندوہ ناک خبر ملی تو یقین ہی نہیں‌آیا، یہی سمجھا کہ کسی نے مذاق کیا ہے۔ پھر ان کے گھر فون کیا تب جا کر تصدیق ہوئی۔

منصوری صاحب کے لیے لکھا ہوا اپنا حقیر سا نذرانہٕٕ عقیدت یہاں‌دیکھ کر اچھا لگا۔

زیف
 

الف عین

لائبریرین
اچھا زیف یہ آپ کی تحریر تھی۔۔۔۔لیکن وہ مشترکہ منصوبے کیا تھے۔۔۔۔
میں نے تو ان کی گجراتی اور اردو غزلوں (نیٹ پر) بھی کمینٹس لکھے تھے کہ اردو میں کر دیں، لیکن شاید انھوں نے دیکھے ہی نہیں نہ ای میل کا جواب دیا۔۔
 

زیف سید

محفلین
جناب الف عین صاحب:

ایک منصوبہ تو یہ تھا کہ وہ اپنے ممدوح ظفر اقبال کی ویب سائٹ بنانا چاہتے تھے۔ ان کے پاس ظفر اقبال کی کلیات (چار جلدیں) ڈجیٹل شکل میں‌موجود تھیں اور ہمارا پروگرام تھا کہ ان سب کو انٹرنیٹ پر دستیاب کرا دیں۔ انھوں نے پہلی جلد مجھے بھیجی تھی (تصویری شکل میں)، لیکن افسوس کہ اب یہ کام مکمل نہ ہو پائے گا۔

میرے اور عادل صاحب کے درمیان ایک قدرِ مشترک خطاطی بھی تھی اور ہم چاہتے تھے کہ خطاطی کی ویب سائٹ بھی بنائی جائے۔ خیر، میں اس کام کو بہ شرطِ فراغت آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

زیف
 
Top