جناب یہ ان علاقوں میںہوتا رہا تھا جہاںتک اسکے حرام کی خبر نہیںپہنچی تھی ۔۔۔ اگر آپ بغور مطالعہ کریںتو جب حضرت عمر کو پتا چلا تو انہوں نے اس سے منع کر دیا تھا ۔۔۔ متع کی اصل حرمت تو قرآن میںموجود ہے
عقد متعہ ہمیشہ کا اختلافی مسئلہ ہے۔ بہرحال ۔۔۔
ملنگ برادر، آپ جو بات کر رہے وہ عقل کے میزان پر پوری نہیں اتر سکتی۔ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سن 7 ہجری میں عقد متعہ کو حرام قرار دیں، مگر صحابہ اس سے اسقدر بے خبر رہیں کہ رسول اللہ ص کا پورا دور ختم ہو جائے، پھر حضرت ابو بکر کے دو سالہ خلافت کا دور ختم ہو جائے، پھر حضرت عمر کی طویل خلافت کے آدھے دور کے بعد بھی لوگوں کو پتا نہ ہو کہ عقد متعہ حرام ہو چکا ہے (اور معاذ اللہ معاذ اللہ وہ عقد متعہ کے نام پر برائی میں مبتلا رہیں)۔
اور پھر لوگ بھی کیسے؟
جی ہاں لوگ بھی ایسے اکابر صحابہ جیسے جابر بن عبداللہ انصاری اور ابن عباس وغیرہ۔
یہ ایک ناممکن بات ہے۔
دیکھئے، جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو پورے مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اسی طرح اگر عقد متعہ حرام ہوا ہوتا تو یہ اتنی اہم بات ہے کہ جس کے بعد فورا تمام جوڑوں کو الگ کر دیا جانا لازمی و واجب تھا ورنہ یہ بہت بڑی برائی کی بات ہے۔
بہرحال یہ ایک لمبی بحث ہے۔ میرے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عمر نے وقت کے حالات کے مطابق اس سے منع فرمایا تھا جیسا کہ انہوں نے تین نشتوں کی طلاق کے قرآنی حکم میں حالات کے تحت اپنے رائے سے تبدیلی کی تھی۔
والسلام۔