مہوش علی
لائبریرین
السلام علیکم
اردو محفل کی کئی سالہ تاریخ میں آج تک عقد متعہ پر بحث نہیں کی گئی تھی اور مجھے اس پر حیرت تھی کہ یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھا۔
یہ تھریڈ بھی اصل میں مسیار شادی کے متعلق ہے۔ تو کیا بہتر نہ ہو گا کہ عقد متعہ پر ایک اور دھاگہ کھول لیا جائے، اور پھر اہل تشیع کو دعوت دی جائے کہ وہ سب سے پہلے عقد متعہ کے متعلق اپنے عقیدے کو واضح کریں، اور پھر اسکے بعد اس پر بحث شروع ہو؟
میں آپ کو یقین سے بتلا سکتی ہوں کہ لوگوں کو (بشمول اہل تشیع کی اکثریت کو) عقد متعہ کے سب سے اہم معاملات و مسائل کا علم نہیں ہے، ۔۔۔۔ بہت ساری غلط فہمیاں موجود ہیں، ۔۔۔ اور اسلامی تاریخ میں عقد متعہ کب جا کر حرام ہو (یا نہیں ہوا)، یہ کافی بعد کے مسائل ہیں۔
ایک بات اور میں آپ کو یقین سے بتلا سکتی ہوں کہ یہ اختلافی مسائل آج کے اہلسنت اور اہل تشیع کے مابین نہیں ہیں، بلکہ اس مسئلے میں اختلاف رائے کا تعلق براہ راست صحابہ کرام کے زمانے سے ہے اور وہیں سے یہ اختلاف رائے ان تمام تر صدیوں میں چلتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔ ہمارے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ "غلط" اور "صحیح" کی بات کرنے سے قبل "اختلاف رائے" کو قبول کرنے کی بات کریں۔ مثلا اوپر سورۃ النساء کی آیت 24 ایک ایسی آیت ہے کہ جب انسان دونوں فریقین کے اس آیت کے دعوے کے متعلق دیکھے تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
دیکھئیے، عموما ہوتا یہ ہے کہ دو فریقین اپنے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے "دلائل و براہین" کے الگ الگ "سیٹ" set لے کر آتے ہیں۔
مگر اس آیت نمبر 24 کی خاصیت یہ ہے کہ دونوں فریقین اپنا اپنا دعوی ثابت کرنے کے لیے اسی آیت کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایک کے نزدیک اسکے ترجمے سے عقد متعہ حلال ہونے کا حکم نکلتا ہے، جبکہ دوسرے کے نزدیک اسی آیت سے عقد متعہ حرام ٹہرتا ہے۔ ایسی صورتحال شاذ و نادر ہی پیش آتی ہے جب دونوں فریقین اپنے اپنے دعوے کے لیے ایک ہی آیت کو پیش کر رہے ہوں۔
پھر اختلاف رائے کی جو اوپر میں نے بات کی تھی، تو اہل تشیع ایک طرف رہے، بذات خود علمائے اہلسنت اس مسئلے میں ابن عباس کی رائے سے اختلاف کرنے کے باوجود اسے پھر بھی یکسر نظر انداز نہیں کر پاتے اور خود عقد متعہ پر بہت سارے اعتراضات کا جواب ابن عباس کی رائے کی روشنی میں دیتے ہیں۔ مثلا خود اہلسنت علماء جواب دیتے ہیں کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 24 سے جو لوگ عقد متعہ کو حرام ٹہرا رہے ہیں انہیں علم ہونا چاہیے کہ سورۃ النساء مدنی دور کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی تھی اور مدینے کے ابتدائی سالوں میں ہی ازواجی تعلقات کے بارے میں احکامات نازل ہونا شروع ہو گئے تھے (مثلا کونسی عورتوں سے شادی کرنا جائز ہے، عدت گذارنے کی شرائط، وغیرہ وغیرہ)۔ جبکہ عقد متعہ کے متعلق بہرحال یہ اجماع موجود ہے کہ عقد متعہ کم از کم فتح خیبر تک جائز رہا ہے، اور فتح خیبر 7 ہجری میں ہوئی ہے۔ چنانچہ اگر اس تاویل کو مانا جائے کہ سورۃ النساء کی آیت 24 میں عقد متعہ کی حرمت کا حکم موجود ہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ ص سن 7 ہجری فتح خیبر کے روز تک صحابہ و صحابیات کو عقد متعہ کی اجازت دیتے رہتے۔
کنعان بھائی:
۔ جنگوں میں جو عورتیں پچھلے زمانے میں قیدی بن کر آتی تھیں، اُنکا ہر ہر معاشرے میں بہت مسئلہ پیدا ہوتا تھا۔ اسلام نے اس مسئلے سے اُسوقت نپٹنے کے لیے جو احکامات جاری کیے تھے انکے مطابق مالک کو ضرورت نہیں تھی کہ اپنی کنیز باندی سے باقاعدہ نکاح کرے، بلکہ اس کنیز کا اپنے مالک کی ملکیت میں آنا ہی انکا نکاح تھا۔
۔ اور کنیز باندی سے نکاح اُسوقت تھا جب اسکا مالک اس کی ملکیت کو تو اپنے نام پر رکھے مگر اسے عقد میں کسی تیسرے شخص کے دے دے (عدت و دیگر تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے)۔
۔ مسلمان مردوں کو ہدایت تھی کہ پہلی افضلیت یہ ہے کہ وہ آزاد عورتوں سے نکاح کریں۔
۔ مگر اگر کسی کی پاس آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی مالی استطاعت نہیں کہ انکے مالی حقوق کو پورا کر سکے، تو ایسی صورت میں اللہ نے اجازت دی ہے کہ وہ کسی اور شخص کی کنیز باندی سے نکاح کرلیں تاکہ کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں۔
۔ اور اوپر آیت نمبر 24 میں کم از کم "اہل کتاب" کی عورتوں کا حکم موجود نہیں ہے، کیونکہ زمانہ نزول کے مطابق یہ پہلے نازل ہونی والی آیت ہے اور بالاجماع اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت فتح خیبر کے بعد ملی تھی (یعنی 7 یا 8 ہجری میں)۔ اس سلسلے میں علامہ ابن القیم سے لیکر بہت سے دیگر علماء کی آراء میری نظر سےگذری تھیں، اور انکی آراء میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اردو محفل کی کئی سالہ تاریخ میں آج تک عقد متعہ پر بحث نہیں کی گئی تھی اور مجھے اس پر حیرت تھی کہ یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھا۔
یہ تھریڈ بھی اصل میں مسیار شادی کے متعلق ہے۔ تو کیا بہتر نہ ہو گا کہ عقد متعہ پر ایک اور دھاگہ کھول لیا جائے، اور پھر اہل تشیع کو دعوت دی جائے کہ وہ سب سے پہلے عقد متعہ کے متعلق اپنے عقیدے کو واضح کریں، اور پھر اسکے بعد اس پر بحث شروع ہو؟
میں آپ کو یقین سے بتلا سکتی ہوں کہ لوگوں کو (بشمول اہل تشیع کی اکثریت کو) عقد متعہ کے سب سے اہم معاملات و مسائل کا علم نہیں ہے، ۔۔۔۔ بہت ساری غلط فہمیاں موجود ہیں، ۔۔۔ اور اسلامی تاریخ میں عقد متعہ کب جا کر حرام ہو (یا نہیں ہوا)، یہ کافی بعد کے مسائل ہیں۔
ایک بات اور میں آپ کو یقین سے بتلا سکتی ہوں کہ یہ اختلافی مسائل آج کے اہلسنت اور اہل تشیع کے مابین نہیں ہیں، بلکہ اس مسئلے میں اختلاف رائے کا تعلق براہ راست صحابہ کرام کے زمانے سے ہے اور وہیں سے یہ اختلاف رائے ان تمام تر صدیوں میں چلتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔ ہمارے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ "غلط" اور "صحیح" کی بات کرنے سے قبل "اختلاف رائے" کو قبول کرنے کی بات کریں۔ مثلا اوپر سورۃ النساء کی آیت 24 ایک ایسی آیت ہے کہ جب انسان دونوں فریقین کے اس آیت کے دعوے کے متعلق دیکھے تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
دیکھئیے، عموما ہوتا یہ ہے کہ دو فریقین اپنے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے "دلائل و براہین" کے الگ الگ "سیٹ" set لے کر آتے ہیں۔
مگر اس آیت نمبر 24 کی خاصیت یہ ہے کہ دونوں فریقین اپنا اپنا دعوی ثابت کرنے کے لیے اسی آیت کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایک کے نزدیک اسکے ترجمے سے عقد متعہ حلال ہونے کا حکم نکلتا ہے، جبکہ دوسرے کے نزدیک اسی آیت سے عقد متعہ حرام ٹہرتا ہے۔ ایسی صورتحال شاذ و نادر ہی پیش آتی ہے جب دونوں فریقین اپنے اپنے دعوے کے لیے ایک ہی آیت کو پیش کر رہے ہوں۔
پھر اختلاف رائے کی جو اوپر میں نے بات کی تھی، تو اہل تشیع ایک طرف رہے، بذات خود علمائے اہلسنت اس مسئلے میں ابن عباس کی رائے سے اختلاف کرنے کے باوجود اسے پھر بھی یکسر نظر انداز نہیں کر پاتے اور خود عقد متعہ پر بہت سارے اعتراضات کا جواب ابن عباس کی رائے کی روشنی میں دیتے ہیں۔ مثلا خود اہلسنت علماء جواب دیتے ہیں کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 24 سے جو لوگ عقد متعہ کو حرام ٹہرا رہے ہیں انہیں علم ہونا چاہیے کہ سورۃ النساء مدنی دور کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی تھی اور مدینے کے ابتدائی سالوں میں ہی ازواجی تعلقات کے بارے میں احکامات نازل ہونا شروع ہو گئے تھے (مثلا کونسی عورتوں سے شادی کرنا جائز ہے، عدت گذارنے کی شرائط، وغیرہ وغیرہ)۔ جبکہ عقد متعہ کے متعلق بہرحال یہ اجماع موجود ہے کہ عقد متعہ کم از کم فتح خیبر تک جائز رہا ہے، اور فتح خیبر 7 ہجری میں ہوئی ہے۔ چنانچہ اگر اس تاویل کو مانا جائے کہ سورۃ النساء کی آیت 24 میں عقد متعہ کی حرمت کا حکم موجود ہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ ص سن 7 ہجری فتح خیبر کے روز تک صحابہ و صحابیات کو عقد متعہ کی اجازت دیتے رہتے۔
کنعان بھائی:
۔ جنگوں میں جو عورتیں پچھلے زمانے میں قیدی بن کر آتی تھیں، اُنکا ہر ہر معاشرے میں بہت مسئلہ پیدا ہوتا تھا۔ اسلام نے اس مسئلے سے اُسوقت نپٹنے کے لیے جو احکامات جاری کیے تھے انکے مطابق مالک کو ضرورت نہیں تھی کہ اپنی کنیز باندی سے باقاعدہ نکاح کرے، بلکہ اس کنیز کا اپنے مالک کی ملکیت میں آنا ہی انکا نکاح تھا۔
۔ اور کنیز باندی سے نکاح اُسوقت تھا جب اسکا مالک اس کی ملکیت کو تو اپنے نام پر رکھے مگر اسے عقد میں کسی تیسرے شخص کے دے دے (عدت و دیگر تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے)۔
۔ مسلمان مردوں کو ہدایت تھی کہ پہلی افضلیت یہ ہے کہ وہ آزاد عورتوں سے نکاح کریں۔
۔ مگر اگر کسی کی پاس آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی مالی استطاعت نہیں کہ انکے مالی حقوق کو پورا کر سکے، تو ایسی صورت میں اللہ نے اجازت دی ہے کہ وہ کسی اور شخص کی کنیز باندی سے نکاح کرلیں تاکہ کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں۔
۔ اور اوپر آیت نمبر 24 میں کم از کم "اہل کتاب" کی عورتوں کا حکم موجود نہیں ہے، کیونکہ زمانہ نزول کے مطابق یہ پہلے نازل ہونی والی آیت ہے اور بالاجماع اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت فتح خیبر کے بعد ملی تھی (یعنی 7 یا 8 ہجری میں)۔ اس سلسلے میں علامہ ابن القیم سے لیکر بہت سے دیگر علماء کی آراء میری نظر سےگذری تھیں، اور انکی آراء میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔