عارضی شادیاں

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم
اردو محفل کی کئی سالہ تاریخ میں آج تک عقد متعہ پر بحث نہیں کی گئی تھی اور مجھے اس پر حیرت تھی کہ یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھا۔
یہ تھریڈ بھی اصل میں مسیار شادی کے متعلق ہے۔ تو کیا بہتر نہ ہو گا کہ عقد متعہ پر ایک اور دھاگہ کھول لیا جائے، اور پھر اہل تشیع کو دعوت دی جائے کہ وہ سب سے پہلے عقد متعہ کے متعلق اپنے عقیدے کو واضح کریں، اور پھر اسکے بعد اس پر بحث شروع ہو؟
میں آپ کو یقین سے بتلا سکتی ہوں کہ لوگوں کو (بشمول اہل تشیع کی اکثریت کو) عقد متعہ کے سب سے اہم معاملات و مسائل کا علم نہیں ہے، ۔۔۔۔ بہت ساری غلط فہمیاں موجود ہیں، ۔۔۔ اور اسلامی تاریخ میں عقد متعہ کب جا کر حرام ہو (یا نہیں ہوا)، یہ کافی بعد کے مسائل ہیں۔
ایک بات اور میں آپ کو یقین سے بتلا سکتی ہوں کہ یہ اختلافی مسائل آج کے اہلسنت اور اہل تشیع کے مابین نہیں ہیں، بلکہ اس مسئلے میں اختلاف رائے کا تعلق براہ راست صحابہ کرام کے زمانے سے ہے اور وہیں سے یہ اختلاف رائے ان تمام تر صدیوں میں چلتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔ ہمارے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ "غلط" اور "صحیح" کی بات کرنے سے قبل "اختلاف رائے" کو قبول کرنے کی بات کریں۔ مثلا اوپر سورۃ النساء کی آیت 24 ایک ایسی آیت ہے کہ جب انسان دونوں فریقین کے اس آیت کے دعوے کے متعلق دیکھے تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
دیکھئیے، عموما ہوتا یہ ہے کہ دو فریقین اپنے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے "دلائل و براہین" کے الگ الگ "سیٹ" set لے کر آتے ہیں۔
مگر اس آیت نمبر 24 کی خاصیت یہ ہے کہ دونوں فریقین اپنا اپنا دعوی ثابت کرنے کے لیے اسی آیت کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایک کے نزدیک اسکے ترجمے سے عقد متعہ حلال ہونے کا حکم نکلتا ہے، جبکہ دوسرے کے نزدیک اسی آیت سے عقد متعہ حرام ٹہرتا ہے۔ ایسی صورتحال شاذ و نادر ہی پیش آتی ہے جب دونوں فریقین اپنے اپنے دعوے کے لیے ایک ہی آیت کو پیش کر رہے ہوں۔

پھر اختلاف رائے کی جو اوپر میں نے بات کی تھی، تو اہل تشیع ایک طرف رہے، بذات خود علمائے اہلسنت اس مسئلے میں ابن عباس کی رائے سے اختلاف کرنے کے باوجود اسے پھر بھی یکسر نظر انداز نہیں کر پاتے اور خود عقد متعہ پر بہت سارے اعتراضات کا جواب ابن عباس کی رائے کی روشنی میں دیتے ہیں۔ مثلا خود اہلسنت علماء جواب دیتے ہیں کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 24 سے جو لوگ عقد متعہ کو حرام ٹہرا رہے ہیں انہیں علم ہونا چاہیے کہ سورۃ النساء مدنی دور کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی تھی اور مدینے کے ابتدائی سالوں میں ہی ازواجی تعلقات کے بارے میں احکامات نازل ہونا شروع ہو گئے تھے (مثلا کونسی عورتوں سے شادی کرنا جائز ہے، عدت گذارنے کی شرائط، وغیرہ وغیرہ)۔ جبکہ عقد متعہ کے متعلق بہرحال یہ اجماع موجود ہے کہ عقد متعہ کم از کم فتح خیبر تک جائز رہا ہے، اور فتح خیبر 7 ہجری میں ہوئی ہے۔ چنانچہ اگر اس تاویل کو مانا جائے کہ سورۃ النساء کی آیت 24 میں عقد متعہ کی حرمت کا حکم موجود ہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ ص سن 7 ہجری فتح خیبر کے روز تک صحابہ و صحابیات کو عقد متعہ کی اجازت دیتے رہتے۔

کنعان بھائی:
۔ جنگوں میں جو عورتیں پچھلے زمانے میں قیدی بن کر آتی تھیں، اُنکا ہر ہر معاشرے میں بہت مسئلہ پیدا ہوتا تھا۔ اسلام نے اس مسئلے سے اُسوقت نپٹنے کے لیے جو احکامات جاری کیے تھے انکے مطابق مالک کو ضرورت نہیں تھی کہ اپنی کنیز باندی سے باقاعدہ نکاح کرے، بلکہ اس کنیز کا اپنے مالک کی ملکیت میں آنا ہی انکا نکاح تھا۔
۔ اور کنیز باندی سے نکاح اُسوقت تھا جب اسکا مالک اس کی ملکیت کو تو اپنے نام پر رکھے مگر اسے عقد میں کسی تیسرے شخص کے دے دے (عدت و دیگر تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے)۔
۔ مسلمان مردوں کو ہدایت تھی کہ پہلی افضلیت یہ ہے کہ وہ آزاد عورتوں سے نکاح کریں۔
۔ مگر اگر کسی کی پاس آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی مالی استطاعت نہیں کہ انکے مالی حقوق کو پورا کر سکے، تو ایسی صورت میں اللہ نے اجازت دی ہے کہ وہ کسی اور شخص کی کنیز باندی سے نکاح کرلیں تاکہ کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں۔
۔ اور اوپر آیت نمبر 24 میں کم از کم "اہل کتاب" کی عورتوں کا حکم موجود نہیں ہے، کیونکہ زمانہ نزول کے مطابق یہ پہلے نازل ہونی والی آیت ہے اور بالاجماع اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت فتح خیبر کے بعد ملی تھی (یعنی 7 یا 8 ہجری میں)۔ اس سلسلے میں علامہ ابن القیم سے لیکر بہت سے دیگر علماء کی آراء میری نظر سےگذری تھیں، اور انکی آراء میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
اس سے صاف واضح ہے کہ جو قبضے میں آجانے والی عورتیں ہیں ۔ان کے علاوہ اوروں سے نکاح کا کہا گیا ہے ۔ اور مہر نکاح میں مقرر کیا جاتا ہے نہ متعہ میں

البتہ ایران میں جو میں نے دیکھا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس سے صاف واضح ہے کہ جو قبضے میں آجانے والی عورتیں ہیں ۔ان کے علاوہ اوروں سے نکاح کا کہا گیا ہے ۔ اور مہر نکاح میں مقرر کیا جاتا ہے نہ متعہ میں

اسی وجہ سے میں نے اوپر کہا تھا کہ نکاح المتعہ پر یوں اعتراضات کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ الگ تھریڈ کھول لیا جائے اور پھر فریق مخالف کو موقع دیا جائے کہ وہ غلط الزامات کو دور کرتے ہوئے سب سے پہلے نکاح المتعہ کے قوانین بیان کر دے، ورنہ یوں ہی غلط الزامات کے پروپیگنڈہ کی ٹرین چلتی رہی گی اور کبھی بھی اس موضوع سے انصاف نہیں کیا جا سکے گا۔
 

میر انیس

لائبریرین
السلام علیکم جناب انیس صاحب

جیسا کہ آپ نے اوپر کچھ مراسلے پوسٹ کئے ہوئے ہیں‌ ان کی مد نظر رکھتے ہوئے میں آپ سے کچھ گفتگو کروں گا اگر اجازت ہو تو۔
کچھ مسائل ایسے ہیں‌‌ جو فقہی لحآظ‌ سے بڑے سٹرونگ ہوتے ہیں‌‌ اس پر مجھ جیسا بندہ کو کچھ بھی لکھتے ہوئے پرہیز کرنا چاہئے،

انیس صاحب ایک وقت کے لئے آپ یہ بھول جائیں‌‌‌‌ کہ آپ کا کسی فقہ سے تعلق ھے اور میں بھی یہ بھول جاتا ہوں، جو قرآن مجید کی آیت آپ نے پیش کی ھے جس سے آپ متعہ کا ہونا جائز قرار دے رہے ہیں اس پر علمی طور سے بات کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد آپ اس پر روشنی ڈالنا،


یہ قرآن مجید کی سورت النسا ترتیب سے 4 اور آیت نمبر 24 ھے پہلے آپ اپنی یہ غلطی ٹھیک کر لیں۔

"جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں یہ اللہ کا تحریری حکم ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔ اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہوجائو تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے"
4:24

میری اتنی اوقات نہیں کہ میں قرآن مجید کی تشریح پیش کروں مگر میرے ناقص علم کے حساب سے مجھے جو سمجھ آ رہی ہے وہ پیش کرتا ہوں آپ کے لئے جسے آپ متعہ کا ہونا جائز قرار دے رہے ہیں۔ ان آیات کو اگر علماء کرام سے ہی سمجھا جائے تو اچھا ہوتا ھے کیونکہ ان کے پیچھے حالات اور واقعات بھی موجود ہوتے ہیں جس سے پتہ چلتا ھے کہ اللہ سبحان تعالی کو کونسے عمل ہر کونسا حکم دینا پڑا اس کی کیا وجوہات تھیں۔
آپ خود ہی کوئی بھی قرآن مجید کی آیت دکھا کر خود کچھ بھی سمجھ سکتے ہیں اور دوسرں کو دکھا کر آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں مگر حکم نہیں دے سکتے۔ اس کے لئے آپ کو ثابت کرنا پڑے گا۔


سورت النسا کی آیت نمبر 24 کو پورا پڑھیں تو پتہ چلتا ھے کہ کہ کسی جنگ/جہاد کے دوران یا ختم ہونے کے وقت نازل ہوئی تھی

جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں یہ اللہ کا تحریری حکم ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔
4:24

اس فرمان کا مطلب یہ نہیں ھے کہ کفار کی عورتیں قبضے میں آ جانے سے تم ان کے ساتھ کچھ بھی کرو اب اگلے حکم میں دیکھتے ہیں

اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔
4:24

پہلا حکم ختم نہیں ہوا اس کے بعد "اور" لگا ہوا ھے یہ حکم ابھی جاری ھے پہلے حکم میں کفار عوتوں کا ذکر ھے اور اس میں " اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں" ہو سکتا ھے اھل کتاب والی عورتیں ہوں۔
تو پتہ چلتا ھے کہ اس جنگ میں جو بھی عورتیں تمہارے قبضہ میں آئیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں کرنا بلکہ انہیں اپنے نکاح میں لانا ھے اب اگلا حکم دیکھتے ہیں



اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہو جائو تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے
4:24


اللہ کا فرمان جاری ھے اور اس فرمان سے صاف ظاہر ہو رہا ھے کہ جنگ و جہاد میں اس آیت کے اترنے سے پہلے جس نے متعہ جیسا فعل کیا اس پر جو انہوں نے اس کی شرط کے مطابق جو مہر مقرر کیا تھا وہ انہیں ادا کر دیں اگر وہ عورتیں تھوڑے میں بھی راضی ہو جائیں تو کوئی گناہ نہیں،
اس جنگ کے دوران جو بھی اس وقت جنگ سے پہلے تک کا قانون تھا جس میں متعہ کیا جاتا تھا اس آیت کے بعد وہ متعہ کرنا منسوخ ہو گیا۔


انیس صاحب کے بیان کے مطابق انہی کی پیش کی ہوئی آیت کے مطابق متعہ کا حکم اللہ سبحان تعالی کی طرف سے ہی اسی آیت سے منسوخ ھے جو کہ اس جنگ سے پہلے تک کیا جاتا تھا۔ انیس صاحب پوری آٰیت پڑھیں حکم ہو رہا ھے کہ جہاد میں کفار عورتیں اور دوسری عورتیں جو تمہارے قبضے میں‌ آئی ہیں وہ جائز ہیں مگر ان کے ساتھ نکاح پڑھو


انیس صاحب اب آپ اس آیت سے کیسے ثابت کرتے ہیں‌‌ کہ اس میں‌‌ متعہ کا حکم دیا جا رہا ھے۔ آپکی آسانی کے لئے ایک بار پھر اسی آیت کا ترجمہ یہاں‌ پر نقل کر دیتا ہوں

"جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں
وہ تم پر حرام نہیں ہیں
یہ اللہ کا تحریری حکم ہے
جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔
اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں
بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں
بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔

اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے
انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو
مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہو جائو
تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے"

4:24


والسلام

وعلیکم سلام کعنان صاحب
بھائی میں آپ سے گفتگو کرنے کیلئے بالکل تیار ہوں اور آپ اس گفتگو کو چاہے جتنا طویل کرلیں میں بالکل پیچھے نہیں ہٹوں گا پر صرف ایک شرط کے ساتھ کہ یہ گفتگو بحث برائے بحث نہ بنے بلکہ اگر اصلاح کیلئے ہو تو یقیناََ ہم دونوں میں سے جسکی بھی اصلاح ہوگی فائدہ انشاللہ دونوں کو ہوگا ورنہ اکثر ایسی بحثوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور دل کی کدورتیں بڑھ جاتی ہیں۔
یہ بات آپکی دل کو نہیں بھارہی کیوں کہ مجھکو مشورہ دینے کے باوجود آپ یہ نہیں بھولے کہ آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے ۔ جہاں آپ نے عالموں کی بات کردی بس وہیں یہ دعوٰی ختم کیوںکہ ظاہر ہے آپ میرے مسلک کے کسی عالم سے استفادہ نہیں کریں گے اور نا ہی ان کی بات کا اعتبار کریں گے اور ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہے
میرے بھائی آپ نے اس آئت سے پہلے والی چند آیات کا مطالعہ کی ہوتا تو یہ بات آپکی سمجھ میں آتی کہ یہ ایک تسلسل ہے نکاح اور طلاق کے بارے میں ازدواجی تعلق کے بارے میں جو جو حرام اور حلال ہیں اسکے بارے میں احکامات کا اگر میں تفصیل میں جائوں تو جواب بہت لمبا ہوجائے گا پر مختصراََ اتنا سمجھ لیں کہ اس میں کس کس سے نکاح جائز ہے کس سے حرام ہے اور کس کس طرح کا نکاح حلال ہے کس طرح کا حرام ہے۔ یہ صرف جہاد سے متعلق ہی احکامات نہیں ہیں ۔ چونکہ نکاح کی یا عورت کے حلال ہونے کی ساری ہی شرائط بتائی جارہی تھیں تو اگر جہاد میں قید ہوکر آنے والی عورتوں کو بطور کنیز بغیر نکاح کے حلال ہونے کی بات نا کی جاتی یا متعہ کے حلال ہونے کی بات نا کی جاتی تو بات ادھوری رہ جاتی اسلئے اللہ نے ان دونوں کا ذکر بھی کیا ۔ اور اگر آپ غور کریں تو اس سے پہلے آیت میں نکاح کے بعد طلاق اور مہر کا جس طرح ذکر ہے کم و بیش اسی طرح متعہ کے بعد مہر کا تزکرہ ہے کے جو مقرر کیا ہے وہی دو نکاح دائمی میں کہا گیا ہے اگر تم انکو اگر کچھ مال طلاق سے پہلے دے چکے ہو تو واپس نا لو اور مہر پورا دو۔
مجھے پتا ہے کہ آپ لوگ کنفیوز صرف اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ جہاد کے بعد قبضہ میں آنے والی عورتوں کے بعد فوراََ متعہ کا ذکر ہے تو یہ بھی تو دیکھیں کہ اور ان عورتوں کے علاوہ بھی کچھ عورتیں تمہارے لیئے حلال ہیں کا اضافہ اسلئے ہے کہ اللہ پہلے ہی فرما چکا تھا کہ کون کون سی عورتیں تمہارے اوپر حلال ہیں عقدِ دائمی کے سلسلے میں مگر جب ذکر آیا عقد دائمی کے علاوہ بھی اور عورتوں کے حلال ہونے کا تو اللہ نے متعہ کا ذکر ضرور کیا ۔ اگر متعہ کو حرام کرنا تھا تو جہاں دوسری بہت سی چیزوں کی حرمت کا قران میں بعض جگہ صاف صاف اور بعض جگہ اشاراتاََ ذکر کیا ہے اسکے بھی حرام ہونے کا ذکر کرتا ۔ یا چلیں جب دین مکمل ہورہا تھا تب یا اس سے پہلے آنحضرت(ص) ضرور اس بات کا اعلان کر دیتے جس طرح گدھے کے گوشت کا کیا تھا پر آپ کوئی تو حدیث یا آیت ایسی دکھادیں جہاں متعہ حرام قرار دیا گیا ہو ۔ تعجب خیز بات ہے کہ اتنی اہم بات جس سے بعد میں بہت زیادہ شک پیدا ہونا تھا واضع نہیں کرکے گئے یہان تک کہ اللہ نے اسلام کو بہتریں دین ہونے کا عندیہ بھی دے دیا اور اسکو مکمل کرنے کا اعلان بھی کردیا۔
اور پھر اللہ نے آخر میں بات یہاں ختم کا اللہ ہر چیز کا سے واقف اور مصلحتوں کا پہچاننے والا ہے ۔ اگر آپ صرف اس بات پر ہی غور کریں تو بہت کچھ آپکی سمجھ میں آجائے گا۔ دیکھئے یہ جواب ہے ان چند عاقبت نا اندیش لوگوں کی بات کا کہ متعہ تو زنا جیسا ہے اور اس میں مدت ہوتی ہے پیسہ دو اور کسی سے بھی کرلو وغیرہ وغیرہ یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے تو اللہ کہ رہا ہے کہ تم لوگ کیا جانو کہ میرے کسی بھی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے میں کیا مصلحت ہے ۔ جو چیز بظاہر تم کو ایسی نظر آرہی ہے ہوسکتا ہے وہ تم کو ایک وقت میں کتنے بڑے عذاب سے بچادے ۔
 

میر انیس

لائبریرین
اس سے صاف واضح ہے کہ جو قبضے میں آجانے والی عورتیں ہیں ۔ان کے علاوہ اوروں سے نکاح کا کہا گیا ہے ۔ اور مہر نکاح میں مقرر کیا جاتا ہے نہ متعہ میں

البتہ ایران میں جو میں نے دیکھا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

بھائی کوئی بھی بات بولنے سے پہلے مطالعہ ضروری ہوتا ہے یا کم از کم اپنے ہی کسی عالم سے اسکے بارے میں اچھی طرح جان لیا کریں ورنہ اگر معلومات نا ہوں تو یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بات میں بولا جائے ۔ ورنہ ندامت بھی ہوسکتی ہے۔
متعہ میں بھی مہر مقرر کیا جاتا ہے ورنہ اس آیت کا مفہوم آپ خود ہی سمجھادیں ۔ متعہ میں مہر بھی ہوتا ہے اور طلاق کے بعد عدت بھی ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس میں بھی ولی کی اجازت بہت ضروری ہے ۔ صرف بیوہ یا طلاق یافتہ سے جائز ہے اور کنواری سے مکروہ ہے۔ اور با عصمت اور پاکباز لڑکی سے جائز ہے اور بازاری عورتوں سے حرام ہے۔ ساری شرائط وہی ہیں جو نکاح دائمی میں ہوتی ہیں صرف یہ کہ یہ غیر دائمی ہوتا ہے۔
 

کعنان

محفلین
وعلیکم سلام کعنان صاحب
بھائی میں آپ سے گفتگو کرنے کیلئے بالکل تیار ہوں اور آپ اس گفتگو کو چاہے جتنا طویل کرلیں میں بالکل پیچھے نہیں ہٹوں گا

السلام علیکم و رحمۃ‌ اللہ و برکاتہ

انیس بھائی آپ نے ٹاپک بہت طویل کر دیا آپ جو بیان کرنا چاہتے ہیں اسی آیت کے ترجمہ کے ساتھ کوٹ‌ کریں‌‌ اور ساتھ ساتھ بتائیں کہ کہاں‌ ، کیا اور کونسا فرمان ھے کہاں سے متعہ کا حکم جاری ہو رہا ھے۔
پہلے‌‌‌‌‌‌‌ آپ نے سورت النسا کی آٰیت نمبر 24 کوٹ کی تھی اور اب آپ اس سے پہلے کی آیات کا ترجمہ پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں ٹھیک ھے آپ متعہ کے لئے دوسری آیات بھی شامل کر لیں‌ اور آپ خود ہی بتائیں‌ ان کو کوٹ کر کے۔ شائد ہماری نظر سے نہ گزرا ہو۔

جزاک اللہ

والسلام
 

میر انیس

لائبریرین
وعلیکم سلام و رحمۃ‌ اللہ و برکاتہ
میرے بھائی آپ غلط سمجھے شائد میں نے آپ کو بتایا کہ اس سے پہلے کی جو چند آیات ہیں ان میں جو اللہ نے احکامات دئے ہیں سب نکاح،طلاق اور ازدواجی تعلقات سے متعلق ہیں یعنی چوتھے پارے کے بالکل آخر میں اللہ نے اچھی طرح بہت ہی تفصیل سے یہ واضع کیا ہے کہ کون کون سی عورتیں ایک انسان پر حلال ہوتی ہیں اور کونسی حرام۔ اور یہ آیت نمبر 24 جو ہے وہ سب ان ہی احکامات کا تسلسل ہے۔ آیت کا حرف با حرف ترجمہ میں پیش کردیتا پر دامن وقت میں اتنی گنجائش نہیں ہے مجھکو بہت کم وقت ملتا ہے آج کل نیٹ پر آنے کا۔
 

فرخ

محفلین
شادی کا سیدھا سادہ مسئلہ قران نے چند آیات میں پیش کر دیا ہے ۔۔ یہ ہمارے علماء کے ہی کارنامے ہیں کہ ہر معاملے کو پیچدہ بنانا اور پھر اپنی دین بینی کا دعوٰی کر کے عوام کو بےوقوف بنانا ۔۔
وسلام

یہی میں‌بھی کہنے والا تھا کہ شادی کا مسٗلہ اتنا گھمبیر تو نہیں‌ہوا کرتا تھا
 
Top