فرخ منظور
لائبریرین
عارض نہ تری زلفِ پریشان میں دیکھا
یوسف کو زلیخا کے زندان میں دیکھا
سر کھینچے تھا شعلہ سا مرے دل سے فلک تک
میں طرفہ تماشا شبِ ہجران میں دیکھا
ہرگز نہ رہا ہاتھ مرا جامہ دری سے
اِک چاک نیا روز گریبان میں دیکھا
میں کوئی پسِ مرگ بھی آسودہ نہ پایا
عالم کے تئیں خوابِ پریشان میں دیکھا
گر تو بھی کرے سیر بیاباں کی تو سمجھے
اِک جذب عجب میں نے بیابان میں دیکھا
عارض پہ ترے صلِ علیٰ کیوں کہ نہ کہیے
اس رنگ کا اِک گل نہ گلستان میں دیکھا
کاہے کو تعب کھینچے ہے اس دل کی صفا پر
آئینے نے کیا دیدۂ حیران میں دیکھا
جس کشتے کا دنیا میں کہیں کھوج نہ پایا
وہ کشتہ ترے چاہِ زنخدان میں دیکھا
باراں کی ہوا، آبِ رواں، لالے کا کھلنا
یہ رنگ، شب اس دیدۂ گریان میں دیکھا
ہو اشک، ان آنکھوں سے گرے صبح کے تارے
موتی کے تئیں جب سے ترے کان میں دیکھا
کس رنگ کا تھا کشتہ کہ ایّامِ بہاراں
بلبل کو تڑپتا میں خیابان میں دیکھا
اے مصحفی! افسوس کہاں تھا تُو دیوانے
کل اس کے تئیں ہم نے عجب آن میں دیکھا
(غلام ہمدانی مصحفی)
یوسف کو زلیخا کے زندان میں دیکھا
سر کھینچے تھا شعلہ سا مرے دل سے فلک تک
میں طرفہ تماشا شبِ ہجران میں دیکھا
ہرگز نہ رہا ہاتھ مرا جامہ دری سے
اِک چاک نیا روز گریبان میں دیکھا
میں کوئی پسِ مرگ بھی آسودہ نہ پایا
عالم کے تئیں خوابِ پریشان میں دیکھا
گر تو بھی کرے سیر بیاباں کی تو سمجھے
اِک جذب عجب میں نے بیابان میں دیکھا
عارض پہ ترے صلِ علیٰ کیوں کہ نہ کہیے
اس رنگ کا اِک گل نہ گلستان میں دیکھا
کاہے کو تعب کھینچے ہے اس دل کی صفا پر
آئینے نے کیا دیدۂ حیران میں دیکھا
جس کشتے کا دنیا میں کہیں کھوج نہ پایا
وہ کشتہ ترے چاہِ زنخدان میں دیکھا
باراں کی ہوا، آبِ رواں، لالے کا کھلنا
یہ رنگ، شب اس دیدۂ گریان میں دیکھا
ہو اشک، ان آنکھوں سے گرے صبح کے تارے
موتی کے تئیں جب سے ترے کان میں دیکھا
کس رنگ کا تھا کشتہ کہ ایّامِ بہاراں
بلبل کو تڑپتا میں خیابان میں دیکھا
اے مصحفی! افسوس کہاں تھا تُو دیوانے
کل اس کے تئیں ہم نے عجب آن میں دیکھا
(غلام ہمدانی مصحفی)