یوسف-2
محفلین
مناسک حج اور اِن کی ترتیب
اقسام حج:میں حج تمتع سب سے افضل ہے ۔ پاکستانی عازمین عموماََ حج تمتع ہی کرتے ہیں۔اس میں گھر سے روانگی کے وقت یا میقات کے پاس صرف عمرہ کی نیت کی جاتی ہے اور عمرہ مکمل کر لینے کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے۔(ارکان ِعمرہ : دو فرائض۔ (۱) احرام مع نیت و تلبیہ (۲)طواف کعبہ۔ دو واجبات: (۱) صفا و مروا کی سعی (۲)حلق یا قصر )۔ پھر آٹھ ذی الحجہ کو دوبارہ حج کی نیت سے مکہ ہی سے احرام باندھا جاتا ہے۔ حج قرن میں حج و عمرہ دونوں جبکہ حج مفرد میں صرف حج کی نیت کی جاتی ہے۔ فرائضِ حج: (۱) اِحرام۔مردوں کے لےے دو چادریںجبکہ عورتوں کے لےے معمول کا لباس۔ نیت کرنا اور تین بار تلبیہ پڑھنا۔(۲) وقوفِ عرفات۔(۳) طوافِ زیارت (خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانا)۔
واجباتِ حج: ۱۔ وقوفِ مزدلفہ ۲۔رمی (جمرات شیطان کو سات سات کنکریاں مارنا) ۳۔حج کی قربانی ۴۔بالوں کا حلق یا قصر ۵۔ صفا و مروا کی سعی (صفا پہاڑی سے مروا پہاڑی تک آنا اور جانا، کل سات مرتبہ) ۶۔ طوافِ وداع۔
۸ ذی الحجہ: ٭اپنی رہائش پر غسل یا وضو کرکے احرام باندھنا۔٭اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نفل نماز ادا کرنا۔٭ پھر حج کی نیت کرنا کہ اے اللہ میں حج کی نیت کرتا کرتی ہوں، اس کو میرے لئے آسان فرما دیجئے اور قبول فرمائے ۔(اَللّٰھُمَّ اِنّی اُریدُالحَجَّ فَیَسِّرہُ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی )٭ اس کے بعد تین مرتبہ تلبیہ پڑھنا۔ ٭ اب احرام کی پابندیاں شروع ہوگئیں۔ ٭اس کے بعدحرم سے کوئی آٹھ کلومیٹر دور واقع منیٰ کو روانگی، جہاں دن اور رات کو منیٰ میں قیام کرنا۔
۹ ذی الحجہ:٭ طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سے 14 کلومیٹر دور عرفات کو روانگی۔٭غسل یا وضو کرکے زوال سے غروبِ آفتاب تک دوسرا فرض وقوفِ عرفات کرنا جوکھڑے ہوکر کرناافضل ہے ۔٭غروبِ آفتاب کے بعد نمازِ مغرب پڑھے بغیر عرفات سے ۹ کلومیٹر دور مزدلفہ روانہ ہونا۔٭ مزدلفہ پہنچنے کے بعد (رات جس وقت بھی پہنچیں) مغرب اور عشا کی نمازیں اکٹھی پڑھنا۔٭ یہ مبارک رات ہے۔ اس رات ذکر اذکار، دعا اور آرام کرنا ہے۔
10 ذی الحجہ:٭ مزدلفہ ہی میں نمازِ فجر کے بعد سے طلوع آفتاب کے قریب تک وقوفِ مزدلفہ کرنا۔٭ رَمی کے لئے کنکریاں مزدلفہ سے اٹھانا۔ ( احتیاطاََ ستّر 80کنکریاں جمع کر لیں)۔٭طلوع آفتاب کے بعد مزدلفہ سے پانچ کلو میٹردور منیٰ روانہ ہونا۔٭زوال سے پہلے منیٰ میں جمرہ عقبہ کی رمی کرنا یعنی سات کنکر یاںمارنا۔ رمی کے دوران آپ کا رُخ اس طرح ہو کہ دائیں جانب منیٰ اور بائیں جانب مکہ ہو۔٭ جمرہ عقبہ کی رمی کے آغاز سے ہی تلبیہ بند کردینا۔٭ بطور شکرانہ حج کی قربانی کرنا جو عید الضحیٰ کی قربانی سے الگ ہے۔٭ قربانی کرنے کے بعدبالوں کاحلق (گنجا ہونا) یا قصر کرنا(کم از کم سر کے ایک چوتھائی بالوں کو انگلی کے ایک پور کے برابر کاٹنا)۔ خواتین تمام بالوں کے آخری سرے کو تقریباََ دو انچ تک کاٹیں۔٭ اب زوجین کے تعلقات کے علاوہ احرام کی جملہ پابندیاں ختم ہوگئیں۔٭ غسل یا وضو کے بعد احرام میں ہی یا پھر عام لباس پہن کر مکہ روانہ ہونا۔٭ تیسرا اور آخری فرض، طوافِ زیارت کی ادائیگی جو۰۱ تا ۲۱ ذی الحج کی جاسکتی ہے مگر۰۱ ذی الحج کو کرنا افضل ہے۔٭طوافِ زیارت کے بعد دو رکعت نمازِ طواف ادا کرنا۔ ٭ اگر ممکن ہو توملتزم پر دعا کرنا۔٭ زم زم کا پانی سیر ہوکر پینا۔٭ صفا و مروا کی سعی کرنا۔٭ جمرات کی رمی کے لئے منیٰ روانگی۔
۱۱ ذی الحجہ:٭بعد زوال اور غروبِ آفتاب سے قبل پہلے جمرہ اولیٰ پھر جمرہ وسطیٰ کی رَمی کرنا یعنی سات کنکریاں مارنا۔ اس کے بعد دعا کرنا کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہے٭ آخر میں جمرہ وعقبہ کی رمی کرنا ۔ اس رَمی کے بعد کوئی دعا نہیں ہے۔
12 ذی الحجہ:٭زوال اور غروبِ آفتاب کے درمیان تینوں جمرات کی بالترتیب رَمی کرنا۔٭ منیٰ میں ہی قیام کریں یا مکہ روانہ ہو جائیں۔ ٭افضل یہی ہے کہ 13 ذی الحجہ کو تینوں جمرات کی بالترتیب رَمی کرکے ہی مکہ روانہ ہوں۔
13 ذی الحجہ:٭اگر 13 ذی الحجہ کی صبح منیٰ میں ہوگئی تو13 ذی الحجہ کی رمی بھی واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔
بیت اللہ کی کہانی
پہلا وہ گھر خدا کا: بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی، وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کُھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقام ِعبادت ہے۔ اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔(آلِ عمران....97)
بیت اللہ کی جگہ اللہ نے تجویز کی: یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیم ؑکے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے( الحج....30)
کعبہ مرکز اور امن کی جگہ ہے:اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اورلوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو، اور ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑ کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔(البقرة....125)
ابراہیم ؑو اسمٰعیل ؑ کی دعا:اور یاد کرو، ابراہیم ؑاور اسمٰعیل ؑجب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب، ہم دونوںکو اپنا مسلم بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے(البقرة۔129)
قیام کا ذریعہ ہے: اللہ نے مکانِ محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ خبردار ہوجاﺅ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔ (المآئدة....۹۹)
بیت اللہ کی جگہ اللہ نے تجویز کی: یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیم ؑکے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے( الحج....30)
کعبہ مرکز اور امن کی جگہ ہے:اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اورلوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو، اور ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑ کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔(البقرة....125)
ابراہیم ؑو اسمٰعیل ؑ کی دعا:اور یاد کرو، ابراہیم ؑاور اسمٰعیل ؑجب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب، ہم دونوںکو اپنا مسلم بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے(البقرة۔129)
قیام کا ذریعہ ہے: اللہ نے مکانِ محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ خبردار ہوجاﺅ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔ (المآئدة....۹۹)
مناسک حج سے متعلق قرآنی ہدایات
حج کی نیت: اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گھر جاﺅ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اَسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔ پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے پہلے مکّے پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عُمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور اگر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اس طرح پُورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
حج کے ساتھ کاروبار کرنا:حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
حج کے بعد: پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چُکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئے۔ پھر جو کوئی جلدی کرکے دو ہی دن میں واپس ہوگیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں۔اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے ۔(بقرة:196 تا 203)
حالت احرام میں شکار حلال نہیں:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کرلو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔(المآئدة....۱)
احرام میں شکارکا کفارہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کرگزرے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا۔ یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا اُس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا۔ لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا۔ اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔(المآئدة....95)
احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے: تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا۔ جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِراہ بھی بنا سکتے ہو۔ البتہ خشکی کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔(المآئدة....96)
حج کے ساتھ کاروبار کرنا:حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
حج کے بعد: پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چُکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئے۔ پھر جو کوئی جلدی کرکے دو ہی دن میں واپس ہوگیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں۔اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے ۔(بقرة:196 تا 203)
حالت احرام میں شکار حلال نہیں:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کرلو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔(المآئدة....۱)
احرام میں شکارکا کفارہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کرگزرے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا۔ یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا اُس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا۔ لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا۔ اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔(المآئدة....95)
احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے: تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا۔ جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِراہ بھی بنا سکتے ہو۔ البتہ خشکی کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔(المآئدة....96)
سفرِحج کی قیام گاہیں
۱۔ ہوٹل یا رہائشی عمارت: حجاج کرام ایام حج سے پہلے اور بعد میں یہیں رہائش پذیرہوتے ہیں۔ چالیس روزہ سفرِ حج کے دوران یہاںکم و بیش ایک ماہ کا قیام ہوتا ہے، لہٰذا ہوٹل کا نام، پتہ، فون اور حدود اربعہ وغیرہ صاف صاف اپنی جیبی ڈائری اور موبائل فون میں محفوظ کر لیں۔ یہ معلومات کسی ایک فرد کے پاس نہیں بلکہ ہر حاجی یعنی مرد، عورت اور بچوں تک کے پاس موجود ہونا چاہئے تاکہ خدا نخواستہ بچھڑنے یا راستہ بھولنے کی صورت میں کسی کو بھی پتہ بتا کر ہوٹل پہنچا جاسکے۔ اگرہوٹل کا بزنس کارڈ مل جائے تو اسے ضرور اپنے ہمراہ رکھیں۔اس رہائش گاہ میں باورچی خانہ کی سہولت موجودہوتی ہے تاہم کھانے پینے اور برتن وغیرہ کا تمام انتظام حجاج کرام یا توخود کرتے ہیں یا ان کا گروپ اجتماعی طور پر کرتا ہے۔
۲۔ منیٰ کے خیمے : ایام حج (8۔13ذی الحجہ) کے پانچ چھ روزہ قیام کے لئے یہ ایک طرح سے بیس کیمپ ہوتا ہے۔ منیٰ کے انہی خیموں سے تمام کے تمام پچیس تیس لاکھ حاجی ایک ہی دن بعد نماز فجر تا دوپہر وقوف عرفت کے لئے میدانِ عرفات جاتے ہیں۔ خواتین اور مردوں کے لئے علیحدہ مگر متصل الاٹ کردہ ایئر کنڈیشنڈ خیموں میں پچیس تیس افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔ ان خیموں میں بعض گروپوں کی طرف سے کھانے پینے کا انتظام ہوتا ہے تاہم خیمہ بستی سے ملحق بازار میں بھی کھانے پینے کی اشیاءبآسانی مل جاتی ہیں۔ خیمہ بستی مکتب نمبر اور خیمہ نمبر پر مشتمل ہوتی ہے، جو حجاج کے شناختی کارڈ پر بھی درج ہوتا ہے۔کچھ لوگ اپنے ساتھ ملٹی ساکٹس والے کیبل ایکس ٹینشین بھی لے جائیں کیونکہ ہر خیمہ میں موبائل وغیرہ کی چارجنگ کے لئے بجلی کے ساکٹ بہت کم ہوتے ہیں۔سامان برائے قیامِ منیٰ : تالے چابی والے ایک بڑے بیگ میں پانچ چھ روزہ قیام کے لئے ضرورت کی تمام بنیادی اشیاءساتھ لے جائیں۔ باقی سامان اورسوٹ کیس مقفل حالت میں ہوٹل ہی میں چھوڑ جائیں۔ خواتین اور مردوں کے بیگ الگ الگ ہوں۔ منیٰ سے عرفات اور مزدلفہ روانگی: کے وقت ہر حاجی صرف ایک مختصر سا کالج بیگ اور پانی کا تھرموس اپنے ساتھ لے جائے اور بڑا بیگ یہیں چھوڑ جائے۔
۳۔ میدان عرفات: یہاں بھی ہر مکتب کے لئے الگ الگ قناتیں لگی ہوتی ہیں، جہاںمغرب تک قیام کرنا ہوتا ہے۔ یہاں بیت الخلاءکے سوا کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ لہٰذا غیر ہموار فرش پر بیٹھنے ، لیٹنے اور نماز کے لئے چٹائی نما جائے نماز یا چادر اور ہوا بھرے تکیہ اپنے ہمراہ لے کرآئیں۔ گرمیوں میں دستی پنکھے بھی ساتھ لا سکتے ہیں۔اکثر مقامات پر مختلف اداروںکی طرف سے یہاں مفت لنچ پیک بھی مل جاتا ہے ۔ خطبہ حج : خطبہ حج ریڈیو ٹی وی سے براہ راست نشر کیا جاتا ہے کیونکہ بہت کم لوگوں کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مسجدِ نمرہ میں جاکر خطبہ حج سن سکیں۔آپ کے گروپ لیڈرز کم از کم دو ایف ایم ریڈیو، اسپیکرز اور فاضل بیٹری سیل ضرور ساتھ لے جائیں تاکہ خواتین اور مرد الگ الگ خطبہ حج سننے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
۴۔ مزدلفہ : آفتاب غروب ہوتے ہی لاکھوں حجاج کرام ایک ساتھ مزدلفہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ جن گروپوں کو ٹرانسپورٹ نہیں ملتی وہ پیدل چلنے پر مجبو ر ہوتے ہیں۔ حج کا یہ سب سے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے جو رات کے اندھیرے میں طے کرنا پڑتا ہے۔ مغرب و عشاءکی نماز مزدلفہ پہنچ کر اکٹھے پڑنی پڑتی ہے، خواہ آدھی رات کے بعد ہی مزدلفہ کیوں نہ پہنچیں۔ لاکھوں لوگوں کے رش کی وجہ سے گاڑیاں بھی رینگتی ہوئی چلتی ہیں۔کوشش کریں کہ آپ اپنے اہل خانہ اور گروپ کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں سوار ہوں یا ایک ساتھ پیدل چلیں۔ مزدلفہ میں بیت الخلاءکے سوا کوئی اورسہولت موجود نہیں ہے ۔ وسیع و عریض میدان میں کھلے آ سمان تلے وقوف کرنا ہوتا ہے۔ مزدلفہ میںجس وقت بھی پہنچیں، مغرب اور عشاءکی نماز اکٹھے ادا کرنا ہے اور پھر نماز فجر تک وقوف کرنا ہے۔ فجر کی نماز پڑھتے ہی لاکھوں حاجی ایک ساتھ َ منیٰ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ حج کا یہ دوسرا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے لیکن دن کی روشنی اور منیٰ پہنچنے کی کوئی جلدی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سفرتناﺅ والا نہیں ہوتا۔البتہ سواری نہ ملنے کی صورت میں لاکھوں حجاج کے ہمراہ انتہائی رش میں بہت زیادہ چلنا پڑتا ہے۔
منیٰ۔عرفات۔مزدلفہ۔منیٰ کا سفر: تقریباََ چوبیس گھنٹوں پر مشتمل حج کا سب سے مشکل اور مشقت سے بھرپور مرحلہ یہی ہوتا ہے۔ لہٰذا کوشش کریں کہ اس دوران ہر فرد کے پاس ایک مختصر سا بیگ ہو جسے اسکول بیگ کی طرح پشت پر لٹکایا جاسکے ۔ ایک پانی کا تھرموس ہو۔ بیگ میں ایک اضافی احرام (اورخواتین کے لئے اضافی جوڑا) اور ایک اضافی چپل موجود ہو تاکہ احرام ناپاک ہونے اور چپل گم ہونے کی صورت میں تبدیل کئے جاسکیں۔ کچھ خشک خوراک مثلاََ بسکٹ وغیرہ بھی لے لیں ۔ اگر آپ بلڈ پریشر، ذیابطیس یا اور کسی مرض میں مبتلا ہوں تو کم از کم دو دن کی دوائی کی خوراک بھی ساتھ رکھ لیں۔
منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کے عوامی بیت الخلا : ان تنگ بیت الخلا کے اندر ہی غسل کے لےے شاور بھی نصب ہیں۔ لہٰذا یہاں دورانِ غسل ناپاک چھینٹوں سے بچنے کی خاص ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر خوشبو والے صابن کی چھوٹی چھوٹی ٹکیاں اور حمام میں احرام کو محفوظ رکھنے کے لئے پلاسٹک کے مضبوط شاپر بیگز اپنے ساتھ منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ کے بیت الخلا میںلے جانا سود مند رہتا ہے۔ مردانہ غسل خانوں کی دوسری طرف زنانہ غسل خانے ہوتے ہیں۔
منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ میں قبلہ رُخ: ان تینوں جگہوں پر قیام اور وقوف کے لےے کی گئیں حد بندیاں قبلہ رُخ نہیں ہیں۔ تاہم قبلہ نما کے نشانات آویزاں ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہی نماز کے لئے اپنی صفیں بنائیں۔
مزدلفہ اور کنکریاں: مزدلفہ میں جگہ جگہ کنکریوںکے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ہر حاجی کو کل 70 کنکریاں درکار ہوتی ہیں۔ احتیاطاََ 80 کنکریاں فی حاجی چن لیں۔ یہاں پر کنکریوں کے پیکٹس بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اگر پیکٹس مل جائیں تو ٹھیک ورنہ خود ہی اپنے لئے اور اپنی خواتین و بچوں کے لئے کنکریاں چُن لیں۔
بالوں کاحلق یا قصر:حج کا واجب رکن، جس کے بغیر حاجی احرام کی پابندیوں سے باہر نہیں آسکتا۔منیٰ میں بالعموم حلق یا قصر کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ گو کہ بعض خیموں میں حجام از خود پہنچ جاتے ہیں۔ جمرات کے قریب حجام کی چند دکانیں موجود ہیں ۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی ایک دوسرے کے بال مونڈتے نظر آتے ہیں۔ آپ کے پاس ریزر یا ہیئر ٹرمرمشین ہو تو ایک دوسرے کا حلق یا قصرکر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا وہی کر سکتا ہے، جس نے پہلے خود حلق یاقصر کروالیا ہو۔چند ایک خواتین پہلے اپنے بال اپنے شوہر سے کٹوا کر پھر دوسری خواتین کے بال خودکاٹ سکتی ہیں۔ بال کاٹنے کے لئے ایک چھوٹی قینچی اپنے ہمراہ لے جائیں۔
صفا و مروا کی سعی: وھیل چیئر پر طواف وسعی کروانے کے لئے مزدوربھی مل جاتے ہیں۔ کوشش کیجئے کہ اپنے گروپ کے ضعیف مرد و خواتین کو وھیل چیئر پر خود سعی کروائیں۔ اور اگر مزدور لینا ہی ہو تو مزدوری کی رقم پر پہلے سے طے کرلیں ۔
طوافِ زیارت کے لئے منیٰ سے بیت اللہ شریف جانے اور آنے کے لےے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگرآپ کے گروپ کی طرف سے ایسا انتظام نہیں ہے تو آپ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے عین ممکن ہے کہ آپ کو میلوں پیدل بھی چلنا پڑے۔ اگر ٹرانسپورٹ میسر نہ آئے تو منیٰ تا بیت اللہ شریف پیدل بھی جایا جاسکتا ہے۔ اگر پیدل چلنا پڑے تو کسی ایسے گروپ کے ساتھ چلیں، جنہیں راستوں کا بخوبی علم ہو۔ جمرات سے دور مکاتب والوں کو بھی منیٰ والی اپنی قیام گاہ سے جمرات آنے جانے میں کافی پیدل چلناپڑتا ہے۔اب یہاں ٹرین سروس کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔اس سہولت سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
۲۔ منیٰ کے خیمے : ایام حج (8۔13ذی الحجہ) کے پانچ چھ روزہ قیام کے لئے یہ ایک طرح سے بیس کیمپ ہوتا ہے۔ منیٰ کے انہی خیموں سے تمام کے تمام پچیس تیس لاکھ حاجی ایک ہی دن بعد نماز فجر تا دوپہر وقوف عرفت کے لئے میدانِ عرفات جاتے ہیں۔ خواتین اور مردوں کے لئے علیحدہ مگر متصل الاٹ کردہ ایئر کنڈیشنڈ خیموں میں پچیس تیس افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔ ان خیموں میں بعض گروپوں کی طرف سے کھانے پینے کا انتظام ہوتا ہے تاہم خیمہ بستی سے ملحق بازار میں بھی کھانے پینے کی اشیاءبآسانی مل جاتی ہیں۔ خیمہ بستی مکتب نمبر اور خیمہ نمبر پر مشتمل ہوتی ہے، جو حجاج کے شناختی کارڈ پر بھی درج ہوتا ہے۔کچھ لوگ اپنے ساتھ ملٹی ساکٹس والے کیبل ایکس ٹینشین بھی لے جائیں کیونکہ ہر خیمہ میں موبائل وغیرہ کی چارجنگ کے لئے بجلی کے ساکٹ بہت کم ہوتے ہیں۔سامان برائے قیامِ منیٰ : تالے چابی والے ایک بڑے بیگ میں پانچ چھ روزہ قیام کے لئے ضرورت کی تمام بنیادی اشیاءساتھ لے جائیں۔ باقی سامان اورسوٹ کیس مقفل حالت میں ہوٹل ہی میں چھوڑ جائیں۔ خواتین اور مردوں کے بیگ الگ الگ ہوں۔ منیٰ سے عرفات اور مزدلفہ روانگی: کے وقت ہر حاجی صرف ایک مختصر سا کالج بیگ اور پانی کا تھرموس اپنے ساتھ لے جائے اور بڑا بیگ یہیں چھوڑ جائے۔
۳۔ میدان عرفات: یہاں بھی ہر مکتب کے لئے الگ الگ قناتیں لگی ہوتی ہیں، جہاںمغرب تک قیام کرنا ہوتا ہے۔ یہاں بیت الخلاءکے سوا کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ لہٰذا غیر ہموار فرش پر بیٹھنے ، لیٹنے اور نماز کے لئے چٹائی نما جائے نماز یا چادر اور ہوا بھرے تکیہ اپنے ہمراہ لے کرآئیں۔ گرمیوں میں دستی پنکھے بھی ساتھ لا سکتے ہیں۔اکثر مقامات پر مختلف اداروںکی طرف سے یہاں مفت لنچ پیک بھی مل جاتا ہے ۔ خطبہ حج : خطبہ حج ریڈیو ٹی وی سے براہ راست نشر کیا جاتا ہے کیونکہ بہت کم لوگوں کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مسجدِ نمرہ میں جاکر خطبہ حج سن سکیں۔آپ کے گروپ لیڈرز کم از کم دو ایف ایم ریڈیو، اسپیکرز اور فاضل بیٹری سیل ضرور ساتھ لے جائیں تاکہ خواتین اور مرد الگ الگ خطبہ حج سننے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
۴۔ مزدلفہ : آفتاب غروب ہوتے ہی لاکھوں حجاج کرام ایک ساتھ مزدلفہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ جن گروپوں کو ٹرانسپورٹ نہیں ملتی وہ پیدل چلنے پر مجبو ر ہوتے ہیں۔ حج کا یہ سب سے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے جو رات کے اندھیرے میں طے کرنا پڑتا ہے۔ مغرب و عشاءکی نماز مزدلفہ پہنچ کر اکٹھے پڑنی پڑتی ہے، خواہ آدھی رات کے بعد ہی مزدلفہ کیوں نہ پہنچیں۔ لاکھوں لوگوں کے رش کی وجہ سے گاڑیاں بھی رینگتی ہوئی چلتی ہیں۔کوشش کریں کہ آپ اپنے اہل خانہ اور گروپ کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں سوار ہوں یا ایک ساتھ پیدل چلیں۔ مزدلفہ میں بیت الخلاءکے سوا کوئی اورسہولت موجود نہیں ہے ۔ وسیع و عریض میدان میں کھلے آ سمان تلے وقوف کرنا ہوتا ہے۔ مزدلفہ میںجس وقت بھی پہنچیں، مغرب اور عشاءکی نماز اکٹھے ادا کرنا ہے اور پھر نماز فجر تک وقوف کرنا ہے۔ فجر کی نماز پڑھتے ہی لاکھوں حاجی ایک ساتھ َ منیٰ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ حج کا یہ دوسرا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے لیکن دن کی روشنی اور منیٰ پہنچنے کی کوئی جلدی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سفرتناﺅ والا نہیں ہوتا۔البتہ سواری نہ ملنے کی صورت میں لاکھوں حجاج کے ہمراہ انتہائی رش میں بہت زیادہ چلنا پڑتا ہے۔
منیٰ۔عرفات۔مزدلفہ۔منیٰ کا سفر: تقریباََ چوبیس گھنٹوں پر مشتمل حج کا سب سے مشکل اور مشقت سے بھرپور مرحلہ یہی ہوتا ہے۔ لہٰذا کوشش کریں کہ اس دوران ہر فرد کے پاس ایک مختصر سا بیگ ہو جسے اسکول بیگ کی طرح پشت پر لٹکایا جاسکے ۔ ایک پانی کا تھرموس ہو۔ بیگ میں ایک اضافی احرام (اورخواتین کے لئے اضافی جوڑا) اور ایک اضافی چپل موجود ہو تاکہ احرام ناپاک ہونے اور چپل گم ہونے کی صورت میں تبدیل کئے جاسکیں۔ کچھ خشک خوراک مثلاََ بسکٹ وغیرہ بھی لے لیں ۔ اگر آپ بلڈ پریشر، ذیابطیس یا اور کسی مرض میں مبتلا ہوں تو کم از کم دو دن کی دوائی کی خوراک بھی ساتھ رکھ لیں۔
منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کے عوامی بیت الخلا : ان تنگ بیت الخلا کے اندر ہی غسل کے لےے شاور بھی نصب ہیں۔ لہٰذا یہاں دورانِ غسل ناپاک چھینٹوں سے بچنے کی خاص ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر خوشبو والے صابن کی چھوٹی چھوٹی ٹکیاں اور حمام میں احرام کو محفوظ رکھنے کے لئے پلاسٹک کے مضبوط شاپر بیگز اپنے ساتھ منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ کے بیت الخلا میںلے جانا سود مند رہتا ہے۔ مردانہ غسل خانوں کی دوسری طرف زنانہ غسل خانے ہوتے ہیں۔
منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ میں قبلہ رُخ: ان تینوں جگہوں پر قیام اور وقوف کے لےے کی گئیں حد بندیاں قبلہ رُخ نہیں ہیں۔ تاہم قبلہ نما کے نشانات آویزاں ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہی نماز کے لئے اپنی صفیں بنائیں۔
مزدلفہ اور کنکریاں: مزدلفہ میں جگہ جگہ کنکریوںکے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ہر حاجی کو کل 70 کنکریاں درکار ہوتی ہیں۔ احتیاطاََ 80 کنکریاں فی حاجی چن لیں۔ یہاں پر کنکریوں کے پیکٹس بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اگر پیکٹس مل جائیں تو ٹھیک ورنہ خود ہی اپنے لئے اور اپنی خواتین و بچوں کے لئے کنکریاں چُن لیں۔
بالوں کاحلق یا قصر:حج کا واجب رکن، جس کے بغیر حاجی احرام کی پابندیوں سے باہر نہیں آسکتا۔منیٰ میں بالعموم حلق یا قصر کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ گو کہ بعض خیموں میں حجام از خود پہنچ جاتے ہیں۔ جمرات کے قریب حجام کی چند دکانیں موجود ہیں ۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی ایک دوسرے کے بال مونڈتے نظر آتے ہیں۔ آپ کے پاس ریزر یا ہیئر ٹرمرمشین ہو تو ایک دوسرے کا حلق یا قصرکر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا وہی کر سکتا ہے، جس نے پہلے خود حلق یاقصر کروالیا ہو۔چند ایک خواتین پہلے اپنے بال اپنے شوہر سے کٹوا کر پھر دوسری خواتین کے بال خودکاٹ سکتی ہیں۔ بال کاٹنے کے لئے ایک چھوٹی قینچی اپنے ہمراہ لے جائیں۔
صفا و مروا کی سعی: وھیل چیئر پر طواف وسعی کروانے کے لئے مزدوربھی مل جاتے ہیں۔ کوشش کیجئے کہ اپنے گروپ کے ضعیف مرد و خواتین کو وھیل چیئر پر خود سعی کروائیں۔ اور اگر مزدور لینا ہی ہو تو مزدوری کی رقم پر پہلے سے طے کرلیں ۔
طوافِ زیارت کے لئے منیٰ سے بیت اللہ شریف جانے اور آنے کے لےے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگرآپ کے گروپ کی طرف سے ایسا انتظام نہیں ہے تو آپ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے عین ممکن ہے کہ آپ کو میلوں پیدل بھی چلنا پڑے۔ اگر ٹرانسپورٹ میسر نہ آئے تو منیٰ تا بیت اللہ شریف پیدل بھی جایا جاسکتا ہے۔ اگر پیدل چلنا پڑے تو کسی ایسے گروپ کے ساتھ چلیں، جنہیں راستوں کا بخوبی علم ہو۔ جمرات سے دور مکاتب والوں کو بھی منیٰ والی اپنی قیام گاہ سے جمرات آنے جانے میں کافی پیدل چلناپڑتا ہے۔اب یہاں ٹرین سروس کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔اس سہولت سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
مسائل اور مناسک ِ حج پر ہدایاتِ نبوی ﷺ
حج کی فضیلیت: اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا کہ ہم جہاد کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں تو پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایاسب سے افضل جہاد ”حجِ مقبول“ ہے۔سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اﷲ کے لےے حج کرے پھر حج کے دوران کوئی فحش بات کرے اور نہ گناہ کرے تو وہ حج کرکے اس طرح بے گناہ واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے بے گناہ جنم دیاتھا۔سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے کہا کہ یا رسول اﷲ! ﷺ اﷲ میرے ضعیف با پ پر حج فرض ہے مگر وہ سواری پر نہیں جم سکتے ۔ توکیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں کرلے۔( بخاری)
حضرت علی مرتضیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اﷲ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ایسا اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :”اﷲ کے لئے بیت اﷲ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں“۔ (جامع ترمذی)
حج اور عمرہ پے در پے کرنا: حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو کیونکہ حج اور عمرہ دونوں فقرو محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور رکردیتے ہیں جس طرح لوہا اور سنا ر کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے ۔ اور ”حج مبرور “ کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے۔(جامع ترمذی، سنن نسائی) حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لئے کہو۔ کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہوچکا ہے ۔ (مسند احمد) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کا جو بندہ حج یا عمرہ کی نیت سے یا راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلا۔پھر راستہ ہی میں اس کو موت آگئی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کے واسطے وہی اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے جو حج و عمرہ کرنے والوں کیلئے یاراہ جہاد کرنے والے کے لےے مقرر ہے۔ (بیہقی)