حسان خان
لائبریرین
اقبال کے دو خط استاد سعید نفیسی کے نام
اقبال کو ایران اور ایرانی ادبا اور فضلا میں قدرتاً دلچسپی تھی اور اس کو اشتیاق تھا کہ اپنے فارسی کلام کے متعلق ان کی رائے معلوم کرے مگر دونوں ملکوں کے درمیان کوئی باقاعدہ رابطہ نہیں تھا۔ پروفیسر نفیسی اس زمانے میں بھی ایران اور ایران سے باہر کے علمی، ادبی حلقوں میں شہرت رکھتے تھے۔ اقبال نے پروفیسر اقبال مرحوم کے ہاتھ مثنوی اور زبورِ عجم نفیسی کو بھجوائیں اور جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا پہلا مجموعۂ کلام 'پیامِ مشرق' پروفیسر مذکور کو نہیں پہنچا تو انہوں نے کسی اور ایران جانے والے مسافر کے توسط سے اس کتاب کا ایک نسخہ بھی ان کو بھجوا دیا۔ پروفیسر سعید نفیسی کے نام جو اقبال نے دو خط لکھے اس سے قبل 'اقبال نامہ' میں شائع ہو چکے ہیں۔ ذیل میں پروفیسر نفیسی کے تمہیدی نوٹ کے ساتھ درج کیے ہیں۔
"در بهار سال ۱۹۳۲ میلادی یک نسخه از کتاب زبور عجم را دوستی از هندوستان برای من ارمغان آورد. از خواندن آن احساسات عجیب در من انگیخته شد. نامهای پر از شوق و شعف به مرحوم علامه اقبال نوشتم و چون مطمئنترین وسیله برای رساندن آن نامه مرحوم پرفسور دکتر محمد اقبال استاد ادبیات فارسی در دانشگاه پنجاب بود که از سالیان دراز با او مکاتبه و رابطه داشتم ان نامه را به توسط او فرستادم. دو ماه پس از آن جوابی از مرحوم علامه اقبال رسید و مسافری که از هندوستان به زیارت عتبات میرفت آن را از لاهور برای من آورده بود و نسخهای از کتاب پیام مشرق را هم که مرحوم علامه اقبال برای من فرستاده بود، رساند. خواندن این کتاب دوم باعث شد که باز نامهٔ دیگری به مرحوم اقبال نوشتم و نهایت شوق و شعف خود را در آن نامه بیان کردم و باز پس از دو ماه دیگر نامهٔ دوم مرحوم اقبال به وسیلهٔ مسافر دیگری که او هم به ایران آمده بود به من رسید."
خرداد ماه ۱۳۳۲
سعید نفیسی
"بہار ۱۹۳۲ (میلادی) میں میرا ایک دوست زبورِ عجم کا نسخہ ہندوستان سے میرے لیے بطورِ ارمغان لایا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مجھ میں عجیب احساسات پیدا ہوئے۔ اور میں نے ایک شوق و شعف سے لبریز خط اقبال مرحوم کو لکھا۔ خط بھیجنے کا سب سے قابلِ اعتماد ذریعہ ڈاکٹر محمد اقبال پروفیسرِ ادبیاتِ فارسی پنجاب یونیورسٹی تھے، کیونکہ ان سے میری کئی سال سے خط و کتابت تھی۔ یہ خط میں نے انہیں کے ذریعہ سے بھجوایا۔ دو ماہ بعد اقبال مرحوم کا جواب آیا۔ ہندوستان سے ایک مسافر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کو آیا اور یہ خط لاہور سے میرے لیے لایا اور خط کے ہمراہ پیامِ مشرق کا ایک نسخہ بھی جو اقبال نے میرے لیے بھجوایا تھا مجھ کو پہنچا دیا۔ اس دوسری کتاب کو پڑھنے کے بعد میں نے دوسرا خط اقبال کو لکھا اور اپنے شوق اور شعف کی شدت کا اس میں بیان کیا اس کے دو ماہ بعد اقبال کا دوسرا خط ایک اور مسافر کے ذریعہ جو ایران آیا مجھ تک پہنچا۔"
پہلا خط:
۲۶ اوت ۱۹۳۲
مخدوم دانشمند:
خط دست آقای به وسیله سرکار پروفیسر محمد اقبال صاحب راهی کرده بودید حاصل شده سالهای دراز است که میل آرزوی ایران شما را در صمیم میپرورم و یگانه محصول ذرهنمای وجود را سخن فارسی میدانم. اینکه سخن پارسیام مطلوب و مقبول همچون آقای دانشمند بنامی که میزان ذوق ادب ایران است باشد مایهٔ فخر و دلداری این نیازمند است. یقین دارم که جز از زبور عجم مرا به خدمت شما راه نبودهاست و پیام مشرق را به همین هفته به خدمت فرستاده میکنم. والسلام مع الف احترام نیازکیش محمد اقبال
۲۶ اگست ۱۹۳۲ ع
آپ نے جو خط پروفیسر محمد اقبال کے ہاتھ بھجوایا تھا وصول ہوا۔ کئی سالوں سے آپ کے ایران کو دیکھنے کی آرزو دل میں رکھتا ہوں اور اپنی زندگی کا واحد حاصل شعرِ فارسی کو سمجھتا ہوں اور یہ امر کہ آپ ایسے نامور عالم (جو ایران کے ذوقِ ادبی کے معیار کی حیثیت رکھتا ہو) نے میرا کلام پسند فرمایا ہے نیازمند کے لیے فخر اور ہمت افزائی کا باعث ہے میرا خیال ہے کہ سوائے زبورِ عجم کے میری اور کوئی کتاب آپ کی خدمت میں نہیں پہنچی اس لیے پیامِ مشرق اسی ہفتہ آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں۔
والسلام با ہزار احترام،
نیاز کیش،
محمد اقبال
دوسرا خط:
۴ نوامبر ۱۹۳۲
مخدوم مکرم دانشمند:
خط دست دیگر که به فخر و شرف این نیازمند رقم زده شده بود به همین هفت هشت روز شرف وصول داد. از اینکه پیام مشرق همچنان زبور عجم پسندیده خدمت مخدوم دانشوری آقای بودهاست و سخن پارسی آن را هم پسند داشتهاید این نیازمند را سربلند میگرداند و هم چندان که دانشوران ایران میل و هوس دیدار این نیازمند دارند این نیازمند آرزوی ایشان و خاک ایران میکشد. ناتوانی و فسردگی خاطر تواند که خار راه گردد. چندی دیگر سفری به افغانستان در پیش است و آرزوی آن دارند که باری چشم به ایران باز کند. آرزوی دیگر دیدار آن مشفق مخدوم است که از الله سبحانه و تعالی میخواهد۔
والسلام مع الاحترام
نیازکیش
محمد اقبال
۴ نومبر ۱۹۳۲ ع
مخدوم مکرم دانشمند،
آپ کا دوسرا خط جو نیازمند کی عزت افزائی اور افتخار کے لیے آپ نے لکھا ہے کوئی ساتھ آٹھ روز پہلے ملا۔
یہ سن کر کہ زبور عجم کی طرح پیامِ مشرق بھی آپ جیسے دانشمند نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کے فارسی اشعار کو سراہا ہے، میرے لیے سربلندی کا موجب ہے۔ جس طرح فضلاء و ادبائے ایران کو مجھ سے ملاقات کی خواہش ہے اسی طرح یہ نیازمند بھی ان سے ملنے اور ایران کو دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے لیکن ممکن ہے کہ میری کمزوری اور علالت اس راہ میں رکاوٹ پیدا کرے۔ کچھ عرصہ بعد افغانستان کا سفر در پیش ہے۔ اور میری آرزو ہے کہ کسی دن اپنی آنکھوں سے ایران کو دیکھوں۔ اور دوسری خواہش جو میں خدا سے چاہتا ہوں آپ ایسے شفیق اور مہربان دوست کی ملاقات ہے۔
والسلام مع الاحترام
نیاز کیش
محمد اقبال
(اقبال ایرانیوں کی نظر میں، خواجہ عبدالحمید عرفانی)
اقبال کو ایران اور ایرانی ادبا اور فضلا میں قدرتاً دلچسپی تھی اور اس کو اشتیاق تھا کہ اپنے فارسی کلام کے متعلق ان کی رائے معلوم کرے مگر دونوں ملکوں کے درمیان کوئی باقاعدہ رابطہ نہیں تھا۔ پروفیسر نفیسی اس زمانے میں بھی ایران اور ایران سے باہر کے علمی، ادبی حلقوں میں شہرت رکھتے تھے۔ اقبال نے پروفیسر اقبال مرحوم کے ہاتھ مثنوی اور زبورِ عجم نفیسی کو بھجوائیں اور جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا پہلا مجموعۂ کلام 'پیامِ مشرق' پروفیسر مذکور کو نہیں پہنچا تو انہوں نے کسی اور ایران جانے والے مسافر کے توسط سے اس کتاب کا ایک نسخہ بھی ان کو بھجوا دیا۔ پروفیسر سعید نفیسی کے نام جو اقبال نے دو خط لکھے اس سے قبل 'اقبال نامہ' میں شائع ہو چکے ہیں۔ ذیل میں پروفیسر نفیسی کے تمہیدی نوٹ کے ساتھ درج کیے ہیں۔
"در بهار سال ۱۹۳۲ میلادی یک نسخه از کتاب زبور عجم را دوستی از هندوستان برای من ارمغان آورد. از خواندن آن احساسات عجیب در من انگیخته شد. نامهای پر از شوق و شعف به مرحوم علامه اقبال نوشتم و چون مطمئنترین وسیله برای رساندن آن نامه مرحوم پرفسور دکتر محمد اقبال استاد ادبیات فارسی در دانشگاه پنجاب بود که از سالیان دراز با او مکاتبه و رابطه داشتم ان نامه را به توسط او فرستادم. دو ماه پس از آن جوابی از مرحوم علامه اقبال رسید و مسافری که از هندوستان به زیارت عتبات میرفت آن را از لاهور برای من آورده بود و نسخهای از کتاب پیام مشرق را هم که مرحوم علامه اقبال برای من فرستاده بود، رساند. خواندن این کتاب دوم باعث شد که باز نامهٔ دیگری به مرحوم اقبال نوشتم و نهایت شوق و شعف خود را در آن نامه بیان کردم و باز پس از دو ماه دیگر نامهٔ دوم مرحوم اقبال به وسیلهٔ مسافر دیگری که او هم به ایران آمده بود به من رسید."
خرداد ماه ۱۳۳۲
سعید نفیسی
"بہار ۱۹۳۲ (میلادی) میں میرا ایک دوست زبورِ عجم کا نسخہ ہندوستان سے میرے لیے بطورِ ارمغان لایا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مجھ میں عجیب احساسات پیدا ہوئے۔ اور میں نے ایک شوق و شعف سے لبریز خط اقبال مرحوم کو لکھا۔ خط بھیجنے کا سب سے قابلِ اعتماد ذریعہ ڈاکٹر محمد اقبال پروفیسرِ ادبیاتِ فارسی پنجاب یونیورسٹی تھے، کیونکہ ان سے میری کئی سال سے خط و کتابت تھی۔ یہ خط میں نے انہیں کے ذریعہ سے بھجوایا۔ دو ماہ بعد اقبال مرحوم کا جواب آیا۔ ہندوستان سے ایک مسافر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کو آیا اور یہ خط لاہور سے میرے لیے لایا اور خط کے ہمراہ پیامِ مشرق کا ایک نسخہ بھی جو اقبال نے میرے لیے بھجوایا تھا مجھ کو پہنچا دیا۔ اس دوسری کتاب کو پڑھنے کے بعد میں نے دوسرا خط اقبال کو لکھا اور اپنے شوق اور شعف کی شدت کا اس میں بیان کیا اس کے دو ماہ بعد اقبال کا دوسرا خط ایک اور مسافر کے ذریعہ جو ایران آیا مجھ تک پہنچا۔"
پہلا خط:
۲۶ اوت ۱۹۳۲
مخدوم دانشمند:
خط دست آقای به وسیله سرکار پروفیسر محمد اقبال صاحب راهی کرده بودید حاصل شده سالهای دراز است که میل آرزوی ایران شما را در صمیم میپرورم و یگانه محصول ذرهنمای وجود را سخن فارسی میدانم. اینکه سخن پارسیام مطلوب و مقبول همچون آقای دانشمند بنامی که میزان ذوق ادب ایران است باشد مایهٔ فخر و دلداری این نیازمند است. یقین دارم که جز از زبور عجم مرا به خدمت شما راه نبودهاست و پیام مشرق را به همین هفته به خدمت فرستاده میکنم. والسلام مع الف احترام نیازکیش محمد اقبال
۲۶ اگست ۱۹۳۲ ع
آپ نے جو خط پروفیسر محمد اقبال کے ہاتھ بھجوایا تھا وصول ہوا۔ کئی سالوں سے آپ کے ایران کو دیکھنے کی آرزو دل میں رکھتا ہوں اور اپنی زندگی کا واحد حاصل شعرِ فارسی کو سمجھتا ہوں اور یہ امر کہ آپ ایسے نامور عالم (جو ایران کے ذوقِ ادبی کے معیار کی حیثیت رکھتا ہو) نے میرا کلام پسند فرمایا ہے نیازمند کے لیے فخر اور ہمت افزائی کا باعث ہے میرا خیال ہے کہ سوائے زبورِ عجم کے میری اور کوئی کتاب آپ کی خدمت میں نہیں پہنچی اس لیے پیامِ مشرق اسی ہفتہ آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں۔
والسلام با ہزار احترام،
نیاز کیش،
محمد اقبال
دوسرا خط:
۴ نوامبر ۱۹۳۲
مخدوم مکرم دانشمند:
خط دست دیگر که به فخر و شرف این نیازمند رقم زده شده بود به همین هفت هشت روز شرف وصول داد. از اینکه پیام مشرق همچنان زبور عجم پسندیده خدمت مخدوم دانشوری آقای بودهاست و سخن پارسی آن را هم پسند داشتهاید این نیازمند را سربلند میگرداند و هم چندان که دانشوران ایران میل و هوس دیدار این نیازمند دارند این نیازمند آرزوی ایشان و خاک ایران میکشد. ناتوانی و فسردگی خاطر تواند که خار راه گردد. چندی دیگر سفری به افغانستان در پیش است و آرزوی آن دارند که باری چشم به ایران باز کند. آرزوی دیگر دیدار آن مشفق مخدوم است که از الله سبحانه و تعالی میخواهد۔
والسلام مع الاحترام
نیازکیش
محمد اقبال
۴ نومبر ۱۹۳۲ ع
مخدوم مکرم دانشمند،
آپ کا دوسرا خط جو نیازمند کی عزت افزائی اور افتخار کے لیے آپ نے لکھا ہے کوئی ساتھ آٹھ روز پہلے ملا۔
یہ سن کر کہ زبور عجم کی طرح پیامِ مشرق بھی آپ جیسے دانشمند نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کے فارسی اشعار کو سراہا ہے، میرے لیے سربلندی کا موجب ہے۔ جس طرح فضلاء و ادبائے ایران کو مجھ سے ملاقات کی خواہش ہے اسی طرح یہ نیازمند بھی ان سے ملنے اور ایران کو دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے لیکن ممکن ہے کہ میری کمزوری اور علالت اس راہ میں رکاوٹ پیدا کرے۔ کچھ عرصہ بعد افغانستان کا سفر در پیش ہے۔ اور میری آرزو ہے کہ کسی دن اپنی آنکھوں سے ایران کو دیکھوں۔ اور دوسری خواہش جو میں خدا سے چاہتا ہوں آپ ایسے شفیق اور مہربان دوست کی ملاقات ہے۔
والسلام مع الاحترام
نیاز کیش
محمد اقبال
(اقبال ایرانیوں کی نظر میں، خواجہ عبدالحمید عرفانی)