کاشف اسرار احمد
محفلین
میری پوری غزل کا دھاگا یہاں اس دھاگے کے ساتھ خلط ملط ہو گیا ہے۔
اصلاح سخن سے یہاں کہاں آ گئے ؟
الف عین سر،
ادب دوست
ابن رضا
سید عاطف علی
اصلاح سخن سے یہاں کہاں آ گئے ؟
الف عین سر،
ادب دوست
ابن رضا
سید عاطف علی
میری پوری غزل کا دھاگا یہاں اس دھاگے کے ساتھ خلط ملط ہو گیا ہے۔
اصلاح سخن سے یہاں کہاں آ گئے ؟
الف عین سر،
ادب دوست
ابن رضا
سید عاطف علی
عاشقی سے بڑا رِیا ہی نہیں !
کیونکہ انجام کچھ پتا ہی نہیں !
اس کی تربت پہ، پھول رکھ آیا
زندگی بھر، جسے ملا ہی نہیں !
عاطف بھائی ذرا 'ریا' کے مؤنث ہونے کا کوئی حوالہ عنایت فرمائیں۔کاشف بھائی ریا اردو میں مؤنث استعمال ہو تی ہے۔
بہت بہت شکریہ وارث بھائی۔جی یہ کسی خود کار طریقے کی وجہ سے ہو گیا ہوگا، بہرحال اندازہ لگا کر آپ کے تھریڈ کے مراسلے علیحدہ کر دیے ہیں۔
بے حد شکریہ ظہیر صاحبکاشف بھائی ! اچھی غزل ہے۔ بہت خوب ! بہت داد آپ کے لئے! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
صرف دو تین باتوں کو دیکھ لیجئے ۔ ریا مونث ہے اس لئے بڑی ریا درست ہوگا۔ دوسرے شعر میں جسے کے بجائے جس سے کا محل ہے یعنی زندگی بھر میں جس سے ملا ہی نہیں ۔ شاید یہی آپ کا مدعا ہے یہاں ؟! یا میں اسے کسی اور طرح سے دیکھ رہا ہوں؟ ایک شعر میں آپ نے ضِم لکھا ہے لیکن اس کا اصل تلفظ ضَم ہے ۔
ایک بار پھر عرض کروں گا کہ کوما کا بیجا استعمال ہوا ہے کئی اشعار میں جس کی وجہ سے شعر فہمی میں بلاوجہ کی الجھن اور پیچیدگی پیدا ہورہی ہے ۔ مثلا اس شعر کا کیا مطلب ہے؟
شکوہ کیوں، حرفِ زیرِ لب، آیا ؟
یہ، مُحبّت میں ضابطہ ہی نہیں !
میرا برادرانہ مشورہ ہے کہ قواعد کی کسی کتاب سے رموز اوقاف کو ایک نظر دیکھ لیجئے ۔ آگے کے بہت کام آئے گی ۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔ ایک بار پھر داد و تحسین!
شکریہ بھائی۔بہت خوب کاشف بھائی۔
اس زمین میں کرشن بہاری نور صاحب کی غزل میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک ہے۔
نوازش جناب کی۔واہ واہ، کیا کہنے
جزاک اللہبہت کماااااال صاحب،،،،،،،،،
شکریہ رضا بھائی۔بہت خوب
کیا رِیا اور دھوکہ ہم معنی ہیں؟ یعنی بمطابق شرحِ شاعر ریا کو بطور دھوکا استعمال کیا گیا ہے۔ کیا میں درست سمجھا؟
شکریہ ظہیر بھائی۔کاشف بھائی ! ریا کے لئے نوراللغات کا یہ حوالہ دیکھ لیجئے ۔
https://archive.org/details/nrullught03nayy
عاطف بھائی کو زحمت سے بچالیا میں نے ۔
جی تحفظات تو ان کے بھی ہو سکتے ہیں جنھیں یہ 'ریا' لگتی ہے اکمل صاحبجہاں تک غزل کا تعلق ہے تو بلاشبہ خوب کہا لیکن جو کہا اس پر شاید تحفظات ہونگے ۔ ۔ اکثر کے کیونکے اگر عاشقی ہی ٹہری تو پھر ریا کہاں ۔۔ اس کیفیت میں ریا کا گزر نہیں ہوسکتا ۔۔۔ عاشقی تو اپنی ذات مٹادینے کا نام ہے کسی کی ذات کے لئے ...اس میں ریا آگیا تو پھر وہ کچھ اور تو ہوسکتا ہے عاشقی نہیں ...
جزاک اللہ استاد محترم۔ماشاء اللہ اس میں اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہ چاروں جلد میرے پاس تھیں۔کاشف بھائی چار جلدیں ہیں ۔ آرکائیو کے صفحے پر Nrullught لکھ کر تلاش کریں گے تو چاروں کا لنک مل جائے گا ۔
کاشف بھائی یہ والا ربط دیکھ لیجئے ۔ صفحہ نمبر ۱۱۳ پر موجود ہے ۔صاف مونث لکھا ہوا ہے ۔ نیز مولوی فیروزالدین نے بھی ریا کو مونث ہی لکھا ہے ۔ ریا کی تجنیس تو کبھی متنازع نہیں رہی۔یہ چاروں جلد میرے پاس تھیں۔
خیر۔
اس میں آپ کا حوالہ موجود نہیں ہے۔
حوالہ تو ایسی صورت میں درکار ہوتا ہے جہاں کچھ شبہ ہو ۔آدابعاطف بھائی ذرا 'ریا' کے مؤنث ہونے کا کوئی حوالہ عنایت فرمائیں۔
فیروزالغات میں مجھے ایسا کچھ ملا نہیں یا شاید میرے پاس پرانا نسخہ ہے۔
ویب سائٹ پر تو مذکر ہی درج ہے۔
نوازش۔
صحیح کہا مگر ہم نے تو مجموعی بات کی اور بقول حبیب جالب کے "وہ بات چھیڑ جس سے جھلکتا ہو سب کا غم"جی تحفظات تو ان کے بھی ہو سکتے ہیں جنھیں یہ 'ریا' لگتی ہے اکمل صاحب