عاشقی سے بڑا رِیا ہی نہیں

محمد وارث

لائبریرین
میری پوری غزل کا دھاگا یہاں اس دھاگے کے ساتھ خلط ملط ہو گیا ہے۔
اصلاح سخن سے یہاں کہاں آ گئے ؟
الف عین سر،
ادب دوست
ابن رضا
سید عاطف علی

جی یہ کسی خود کار طریقے کی وجہ سے ہو گیا ہوگا، بہرحال اندازہ لگا کر آپ کے تھریڈ کے مراسلے علیحدہ کر دیے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عاشقی سے بڑا رِیا ہی نہیں !
کیونکہ انجام کچھ پتا ہی نہیں !
اس کی تربت پہ، پھول رکھ آیا
زندگی بھر، جسے ملا ہی نہیں !

کاشف بھائی ! اچھی غزل ہے۔ بہت خوب ! بہت داد آپ کے لئے! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
صرف دو تین باتوں کو دیکھ لیجئے ۔ ریا مونث ہے اس لئے بڑی ریا درست ہوگا۔ دوسرے شعر میں جسے کے بجائے جس سے کا محل ہے یعنی زندگی بھر میں جس سے ملا ہی نہیں ۔ شاید یہی آپ کا مدعا ہے یہاں ؟! یا میں اسے کسی اور طرح سے دیکھ رہا ہوں؟ ایک شعر میں آپ نے ضِم لکھا ہے لیکن اس کا اصل تلفظ ضَم ہے ۔
ایک بار پھر عرض کروں گا کہ کوما کا بیجا استعمال ہوا ہے کئی اشعار میں جس کی وجہ سے شعر فہمی میں بلاوجہ کی الجھن اور پیچیدگی پیدا ہورہی ہے ۔ مثلا اس شعر کا کیا مطلب ہے؟
شکوہ کیوں، حرفِ زیرِ لب، آیا ؟
یہ، مُحبّت میں ضابطہ ہی نہیں !

میرا برادرانہ مشورہ ہے کہ قواعد کی کسی کتاب سے رموز اوقاف کو ایک نظر دیکھ لیجئے ۔ آگے کے بہت کام آئے گی ۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔ ایک بار پھر داد و تحسین!
 
کاشف بھائی ریا اردو میں مؤنث استعمال ہو تی ہے۔
عاطف بھائی ذرا 'ریا' کے مؤنث ہونے کا کوئی حوالہ عنایت فرمائیں۔
فیروزالغات میں مجھے ایسا کچھ ملا نہیں یا شاید میرے پاس پرانا نسخہ ہے۔
ویب سائٹ پر تو مذکر ہی درج ہے۔
نوازش۔
 
کاشف بھائی ! اچھی غزل ہے۔ بہت خوب ! بہت داد آپ کے لئے! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
صرف دو تین باتوں کو دیکھ لیجئے ۔ ریا مونث ہے اس لئے بڑی ریا درست ہوگا۔ دوسرے شعر میں جسے کے بجائے جس سے کا محل ہے یعنی زندگی بھر میں جس سے ملا ہی نہیں ۔ شاید یہی آپ کا مدعا ہے یہاں ؟! یا میں اسے کسی اور طرح سے دیکھ رہا ہوں؟ ایک شعر میں آپ نے ضِم لکھا ہے لیکن اس کا اصل تلفظ ضَم ہے ۔
ایک بار پھر عرض کروں گا کہ کوما کا بیجا استعمال ہوا ہے کئی اشعار میں جس کی وجہ سے شعر فہمی میں بلاوجہ کی الجھن اور پیچیدگی پیدا ہورہی ہے ۔ مثلا اس شعر کا کیا مطلب ہے؟
شکوہ کیوں، حرفِ زیرِ لب، آیا ؟
یہ، مُحبّت میں ضابطہ ہی نہیں !

میرا برادرانہ مشورہ ہے کہ قواعد کی کسی کتاب سے رموز اوقاف کو ایک نظر دیکھ لیجئے ۔ آگے کے بہت کام آئے گی ۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔ ایک بار پھر داد و تحسین!
بے حد شکریہ ظہیر صاحب
ضَم کے صحیح تلفّظ کی اصلاح کے لئے شکریہ۔
آپ کا اندازہ درست ہے ۔ بات 'جس سے' کے متعلق ہی ہے اور عام فہم زبان کے استعمال سے 'جسے' کہہ کر شعر مکمل کیا گیا ہے۔
رموز و اوقاف سے متعلق آپ کے مشورہ کو ذہن میں رکھونگا۔ نوازش۔
جزاک اللہ
 
جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو بلاشبہ خوب کہا لیکن جو کہا اس پر شاید تحفظات ہونگے ۔ ۔ اکثر کے کیونکے اگر عاشقی ہی ٹہری تو پھر ریا کہاں ۔۔ اس کیفیت میں ریا کا گزر نہیں ہوسکتا ۔۔۔ عاشقی تو اپنی ذات مٹادینے کا نام ہے کسی کی ذات کے لئے ...اس میں ریا آگیا تو پھر وہ کچھ اور تو ہوسکتا ہے عاشقی نہیں ...
جی تحفظات تو ان کے بھی ہو سکتے ہیں جنھیں یہ 'ریا' لگتی ہے اکمل صاحب:p
 
ارے یہ تو تھی میرے پاس ۔
لیکن اس میں کہیں بھی رِیا کے 'مذکر' یا 'مؤنث' ہونے کے بارے میں نہیں لکھا !!
کہیں اور سے درست حوالہ مل سکتا ہے ؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ چاروں جلد میرے پاس تھیں۔
خیر۔
اس میں آپ کا حوالہ موجود نہیں ہے۔
کاشف بھائی یہ والا ربط دیکھ لیجئے ۔ صفحہ نمبر ۱۱۳ پر موجود ہے ۔صاف مونث لکھا ہوا ہے ۔ نیز مولوی فیروزالدین نے بھی ریا کو مونث ہی لکھا ہے ۔ ریا کی تجنیس تو کبھی متنازع نہیں رہی۔
https://archive.org/stream/nrullught03nayy#page/113/mode/2up
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی ذرا 'ریا' کے مؤنث ہونے کا کوئی حوالہ عنایت فرمائیں۔
فیروزالغات میں مجھے ایسا کچھ ملا نہیں یا شاید میرے پاس پرانا نسخہ ہے۔
ویب سائٹ پر تو مذکر ہی درج ہے۔
نوازش۔
حوالہ تو ایسی صورت میں درکار ہوتا ہے جہاں کچھ شبہ ہو ۔آداب
 
Top