عافیہ ، قوم کی مظلوم بیٹی

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جہاں تک ميں سمجھ سکا ہوں، يہ رائے اور تاثر کہ ڈاکٹر عافيہ کيس کے وکلاء اورجيوری ممبرز جانب دار اور يکطرفہ سوچ کے حامل تھے دراصل ان مخصوص کالم نگاروں کے تخليق کردہ کالم اور ان ميں بيان کردہ خيالات کی بنياد پر ہیں جن کا مقصد ہی جذبات کو بھڑکانہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر ان کالمز میں شواہد کی تصديق اور حقائق کی تحقيق کے مروجہ اور رائج صحافتی اصولوں کو يکسر نظرانداز کر ديا جاتا ہے۔

ميں نے وہ کالمز پڑھے ہیں جن ميں متعدد بار يہ دعوی کيا گيا کہ جيوری ممبران دراصل 911 ميں ہلاک شدگان کے عزير واقارب تھے۔

اس ضمن میں امريکی نظام قانون ميں استعمال ہونے والی ايک قانونی اصطلاح کا حوالہ دينا چاہوں گا جسے "پريمپٹوری چيلنج" کہا جاتا ہے۔ اس قانون کے مطابق ممکنہ جيوری ممبران کا انتخاب بغير کسی تفريق کے مقامی کميونٹی سے کيا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران ججج اور وکيلوں کو يہ اختيار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ان افراد کو جيوری ميں شامل ہونے سے روک سکيں جن کی جانب داری پر شک ہو۔ صرف يہی نہيں بلکہ وکيل صفائ کو يہ اختيار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ جيوری ممبران کو محض اس بنياد پر پينل سے نکال دے کيونکہ ان کے خيال کے مطابق ان جيوری ممبران کا جھکاؤ کسی ايک فريق کی جانب ہو سکتا ہے۔

آپ "پريمپٹوری چيلنج" کی قانونی تشريح اور اس کی تفصيل اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://legal-dictionary.thefreedictionary.com/peremptory+challenge

اس قانون کی بنياد اسی اصول اور سوچ کی بنياد پر رکھی گئ تھی کہ اگر دونوں فريقين کے وکيلوں کی باہمی رضامندی سے جيوری کی تشکيل عمل ميں آئے گی تو فيصلے پر کسی فريق کو اعتراض نہيں ہو سکے گا۔ امريکہ میں قانونی کاروائ میں اس اصول کی موجودگی دونوں فريقین کو يہ ڈھال اور تحفظ فراہم کرتی ہے کہ وہ جيوری کے جانب دار ارکان کو نکال باہر کريں۔

امريکہ ميں قانون کے ماہر وکيلوں کی تربيت اور ان کا تجربہ ان کے ليے يہ ممکن بنا ديتا ہے کہ وہ ايسے جيوری ممبران کو پرکھ ليں جو بظاہر تو غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست بيانات ديں ليکن درحقيقت وہ کسی ايک فريق کے بارے ميں پہلے سے رائے قائم کر چکے ہوں۔

امريکہ ميں نظام قانون میں ايسے اصول موجود ہیں جن کی وجہ سے اس جانب داری اور يکطرفہ سوچ کو کسی مقدمے کی کاروائ اور فيصلے پر اثرانداز ہونے سے روکا جا سکتا ہے جس کی تشہير پاکستان ميں کچھ کالم نگار اپنی تحريروں ميں کرتے رہتے ہيں

ڈاکٹر عافيہ کيس ميں بھی وہی اصول اور قوانين موجود تھے اور اس کيس کو اس ضمن میں کسی غير معمولی طريقہ کار يا قوانين کے ذريعے پايہ تکميل نہيں پہنچايا گيا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
جی ہاں یہی فرق ہے امریکی انصاف کا۔

ریمنڈ ڈیوس دنوں میں آزاد اور عافیہ کو 86 سال کی قید۔ واہ جی واہ انصاف کے ٹھیکیدارو۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جی ہاں یہی فرق ہے امریکی انصاف کا۔

ریمنڈ ڈیوس دنوں میں آزاد اور عافیہ کو 86 سال کی قید۔ واہ جی واہ انصاف کے ٹھیکیدارو۔


ڈاکٹر عافيہ اور ڈیوس کيس میں کوئ مماثلت نہيں ہے۔ ڈاکٹرعافيہ کا کيس کوئ پوشيدہ ٹرائل نہيں تھا۔ اس کيس کی تمام کاروائ پاکستانی ميڈيا کے اہم اداروں، پاکستانی سفارت خانے کے افسران اور عالمی ذرائع ابلاغ کے موجودگی ميں عمل ميں لائ جارہی تھی۔

ڈاکٹر عافيہ صديقی کو واقعات کے حوالے سے اپنا موقف بيان کرنے کے ليے انھی طے شدہ ضوابط کے تحت پورا موقع فراہم کيا گيا جسے دونوں فريقين کے وکلاء تسليم کر چکے تھے۔

ريمنڈ ڈيوس کی رہائ کے بعد جو تجزيہ نگار اور رائے دہندگان امريکہ کو اپنی شديد تنقید کا نشانہ بنا رہے ہيں وہ اس کيس کے حوالے سے حقائق کو نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس کيس کا فيصلہ پاکستانی نظام قانون کے مطابق سفارتی استثنی سے متعلق سوالات کے حوالے سے سرکاری حقائق پر پہنچے بغير کيا گيا ہے۔ اگر بعض مبصرين کی رائے کے مطابق امريکی حکومت کا اس تمام تر کاروائ میں فیصلہ کن اثر ہوتا تو ان کی رہائ سفارتی استثنی سے متعلق عالمی قوانین ميں مختص کيے گيے ضوابط کے مطابق ہو جاتی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ايسا نہیں ہوا۔

اس کيس کا فيصلہ پاکستانی قانون کے عين مطابق اور پاکستانی خودمختاری سے متعلق احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کيا گيا۔

ہم سمجھتے ہيں کہ اس کيس کی حوالے سے بہت رنج اور غصے کے جذبات پائے جاتے ہيں اور ہم پاکستان کی عوام کے ساتھ مل کر امن اور شراکت داری کے حصول کے ليے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہيں۔

امريکی حکومت نے واضح کر ديا ہے کہ متعين طريقہ کار کے مطابق ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس نے لاہور ميں پيش آنے والے واقعے کے حوالے سے تفتيش کا آغاز کر ديا ہے۔

امريکہ اور پاکستان دوست تھے اور رہيں گے۔ ہم پاکستان اور امريکہ کے مابين تعلق کو اسٹريجيک بنيادوں پر اہميت ديتے ہيں۔ ہم اس تعلق کو باہم احترام اور مشترکہ مفادات کی بنياد پر مستحکم کرنے کے ليے کوشاں ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
ہاں ہاں درست کہہ رہا ہے فواد
امریکہ اور پاکستان دوست تھے اور رہیں گے۔
کیا کہا؟۔۔۔۔۔ زبردستی ہے؟
لگاو ایک اسکو جو یہ سوچتا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہاں ہاں درست کہہ رہا ہے فواد
امریکہ اور پاکستان دوست تھے اور رہیں گے۔
کیا کہا؟۔۔۔۔۔ زبردستی ہے؟
لگاو ایک اسکو جو یہ سوچتا ہے۔


جو جذباتی تجزيہ نگار ريمنڈ ڈيوس کے ايشو کے حوالے سے تند وتيز جملوں اور نت نئ تاويليوں کے ذريعے بے چينی کی فضا پيدا کر رہے ہيں اور اس معاملے کو امريکہ پاکستان کے مابين تعلقات کے حوالے سے اہم ترين موڑ قرار دے رہے ہيں انھيں يہ نقطہ سمجھنا چاہیے کہ اسٹريجيک اتحاديوں کے مابين تعلقات مقبول نعروں اور چند افراد کے سياسی ايجنڈے کے تابع نہيں ہوتے۔ اس کے علاوہ اقوام کی فتح اور شکست کا پيمانہ ايسے حادثوں اور واقعات کی بنياد پر نہيں ہوتا جو محض چند افراد سے متعلق ہوں۔

جنوری 27 کو پيش آنے والے واقعات کے سلسلے ميں امريکی حکومت کو مورد الزام نہيں قرار ديا جا سکتا۔ ہم نے ہميشہ يہ بات کہی ہے کہ وہ ايک افسوس ناک واقعہ تھا اور زندگيوں کا ضياع المناک تھا۔ ليکن اس معاملے کا منطقی اور سلجھا ہوا حل امريکہ اور پاکستان دونوں کے مفاد ميں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ابن عادل

محفلین
کیا بات ہے جناب ۔ واہ
فواد صاحب ! میں نے کسی موقع پر آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کبھی امریکی کے بجائے انسان کی حیثیت سے بھی کوئی رائے دے دیا کریں ۔
ویسے اس پاکستانی بھائی کو امریکہ سے پہنچے والے فائدے بتادیجیے ۔ تاکہ ہم بھی امریکہ کے لیے داعائیں کریں ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کیا بات ہے جناب ۔ واہ
فواد صاحب ! میں نے کسی موقع پر آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کبھی امریکی کے بجائے انسان کی حیثیت سے بھی کوئی رائے دے دیا کریں ۔
۔


آپ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کو جس "کمزوری" يا "مجبوری" کا نام دے رہے ہيں، ميرے نزديک حقائق تک رسائ کے ليے وہی "مجبوری" يا وابستگی مجھے بہتر مواقع فراہم کرتی ہے۔ بہت سے دوستوں کی رائے ان معلومات پر مبنی ہوتی ہے جو ميڈيا اور انٹرنيٹ پر ديکھتے اور سنتے ہيں باوجود اس کے کہ يہ بات تصديق شدہ ہے کہ ميڈيا پر کچھ عناصر دانستہ بيانات اور واقعات کو توڑ مڑور کر پيش کرتے ہيں۔

ميرے جوابات امريکی حکومت کی پاليسی اور نقطہ نظر کو واضح کرتے ہيں اور ان کی تصديق کسی بھی سرکاری ريفرنس يا بيان سے کی جا سکتی ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کا تھا کہ ميرا مقصد نہ تو حقائق سے گمراہ کرنا ہے اور نہ ہی امريکہ کی خارجہ پاليسی کے فيصلوں کے لیے حمايت حاصل کرنا ہے اور اس کا سب سے واضح ثبوت يہ ہے کہ ميں اپنی ہر پوسٹ سے پہلے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے اپنی وابستگی واضح کرتا ہوں۔ مجھے کچھ بھی چھپانے يا پوشيدہ رکھنے کی ضرورت نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top