ادب دوست
معطل
آپ اس تحریر کو سن بھی سکتے ہیں
مکرمی و محترمی جناب قبلہ طاہر عباس صاحب اس محفل کے روح ِرواں ہیں ۔ فنِ گفتگو میں آپکو ملکہ حاصل ہے - گھر اور زندگی کی بھی یہی کیفیت بتاتے ہیں - آپ دنیا کے ہر موضوع پر بات کرتے ہیں سوائے سیاست کے . اس میں آپ عملیت پسندی کے قائل ہیں - شاعری آپ ہاں لونڈی ہے اسی لئے شعراءِ کرام پر کڑی نظر رکھتے ہیں - اردو شاعری پر تنقید نگاری آپ پر آ کر ختم ہو جاتی ہے ، محفل میں یہ شروع بھی آپ ہی سے ہوتی ہے ۔ آپ کی ذاتی شاعری بہت اعلی ہے سلاست و شائستگی کا حسین امتزاج ہے۔ اسکی وجہ آپ کا وہ شاعرانہ فلسفہ ہے جو سننے والے کو تفکر کی اس بلندی تک لے جاتا ہے جہاں یہ کہا جائے " آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا "
آپ بیک وقت فلسفہ، ادب ، نفسیات ، تاریخ ، فلکیات ، زراعت ، طب ، طبیعات ، منطق ، کلام اور وہ وہ مضامین کہ جن کی تاب لانا احباب کے بس کی بات نہیں ، پر عبور رکھتے ہیں-جبکہ ان میں سے ہر ایک موضوع اپنے ذیلی موضوعات کی وسعت کے اعتبار سے گھنٹوں کی تقاریر چاہتا ہے ۔ ایسا تو ممکن ہے کے قبلہ کی غیر موجودگی میں ہم گفتگو کے موضوعات کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے ہوں مگر آپ کے آنے کے بعد کبھی یہ مسئلہ نہیں رہتا۔ کیونکہ آپ دنیا کی ہر بات سے ایک باقاعدہ موضوع وضع کرنے کے فن سے واقف ہیں یعنی اگر کوئی مخبوط الحواس شخص وہاں سے گزا تو آپ نے انسان کے حواس خمسہ پر گفتگو شروع کر دی ، کوئی ریڑھی والا گزرا تو آپ نے پہیےکی ایجاد سے گفتگو کا آغاز کیا اور گفتگو کے اختتام تک ہمیں اپنے چاروں طرف ہوا میں اُڑتی کاریں نظر انے لگیں ۔ اگر کسی نے اپنی بیماری کا ذکر کیا تو گھر واپسی پر اس کی زبان پر قبر کی گنجائش اور کفن کی پیمائش کا تذکرہ تھا ۔
بالخصوص شاعری پر تنقید کرتے ہوئے آپ عموما ایک بات کہتے ہیں اور جس انداز سے آپ یہ جملہ کہتے ہیں اہل محفل اس انداز پر فریفتہ ہیں " شعر نہیں ہوا"...........۔
صرف اس جملے کو سننے کیلئے بہت سے لوگ اپنےپسندیدہ اشعار کو تنقید کے مقتل میں قربان کر چکے ہیں ۔ آپ کا اندازِ گفتگو اس قدر اعلیٰ ہے کہ بعض دفعہ تو راہگیر رک رک کر آپ کی باتیں سنا کرتے ہیں۔ مشکل سے مشکل موضوع آپ انتہائی سادہ زبان میں بیان کر دیتے ہیں ۔ حاضرین عش عش کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ "بس بس" بھی کرتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھیں جلدی گھر جانا تھا مگر گفتگو کے سحر نے باندھے رکھا اور اب مزید دیر کی صورت میں خاتونِ خانہ سے بھی اسی نوعیت کا ڈر ہے ۔ یا یہ وہ بدذوق نوجوان ہیں جنہیں ۔
"اور بھی غم ہیں زمانے میں عقیدت کے سوا "
نہ صرف میں نے بلکہ اور لوگوں نے بھی طاہر صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ کچھ کم ظرفوں نے جو کچھ آپ سے سیکھا وہ آپ ہی پر آزمانے کی کوشش بھی کی ، منہ کی کھائی ۔ کیوں کے ہر ماہر استاد کی طرح، آپ کا علم فقط تدریس کے لئے مختص نہیں بلکہ اس سے شاگردوں کو دائر ہ ِادب میں دراندازی سے بھی روکا جاتا ہے ۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ آپ کی قادر الکلامی آپ کی وہ ممتاز خوبی ہے جو دوسروں کی بہت سی خامیوں کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ آپ کے بارے میں عام تاثر ہے کہ آپ اپنے زورِ خطبات سے مردے کو زندہ کر دیتے ہیں (یہ اشعار کی بات ہو رہی ہے ) ہم سب شاہد ہیں کے بہت سے اشعار نیم مردہ حالت میں آپ کے سامنے لا ئے گئے اور آپکی ذرا سی توجہ پا کر ، "گُنگُناتا، رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں " کے مصداق لوٹے ۔
آپ کے بچپن ہی سے " شعر نہیں ہوا " کا سلسلہ جاری ہے - بچپن میں مبارک منگری کے سامنے انہی کی غزل پر تبصرہ کرتے ہوئے غالباً پہلی بار یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا - جوانی میں جون ایلیا کو ان ہی کی ایک غزل پر یہی تبصرہ سنے کو ملا ۔ میں نے طاہر صاحب سے ہی سیکھا ہے سخن فہمی ہونی چاہیے غالب کی طرفداری نہیں - شعر کسی کا بھی ہو اپنے فنی عیوب و محاسن کی بنیاد پر سنا جائے اور انہی پر پرکھا جائے اس طور کی تنقید نگاری میں ہی وہ شان قلندری پائی جاتی ہے جو لمحوں میں شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دیتی ہے ۔ یہ بات بھی آپ ہی سے سیکھی ہے کہ کبھی بڑا نام دیکھ کر رعب میں نہیں آنا چاہیے بلکہ شعر پر غور کرنا چاہیے کیوں کے اکثر نقاد عیوب شعری کی مثال میں اساتذہ کے اشعار ہی پیش کرتے ہیں - اسکی وجہ یہ ہے کہ غیرِ استاد کو ناقدین درخور اعتنا نہیں سمجھتے - اس لئے ہر شعر ، شعر سمجھ کرہی سنا جائے چاہے وہ کسی نوآموز کا ہو یا استاد کا۔
ارشد بھائی کہتے ہیں طاہر صاحب کو ان کے شاگردوں نے اسی نوعیت کے غم دیے ہیں جن کے مداوے کے لئے چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جبکہ غنیم کمالِ ہوشیاری سے کبھی یکجا نہیں ہوتے بلکہ فرداََ فرداََ ہی آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ بھی فرماتے ہیں کے اعجاز رحمانی صاحب کے داغ مفارقت (جو رحمانی صاحب کو اپنے شاگردوں سے ملے ہیں) آپ کے لئے تسلی کا موجب ہیں ، جو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اسے بھی روایتِ شعراءسمجھ کر تسلیم کر لیا جائے ۔ میرا خیال ہے، برخلافِ سقراط ،آپ شاگردوں کا دیا ہوا یہ زہر کا پیالہ آہستہ آہستہ چسکیاں لے لے کر پی رہے ہیں اور وقفے وقفے سے تریاق بھی کر تے رہتے ہیں ۔
چورنگی کا ماحول بھی "چورنگیایا" ہو ا ہے ۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چار چار ، چھے چھے افراد دن بھر کی تھکن اُتارتے نظر آتے ہیں ۔ کہیں ہنسی ٹھٹہ تو کہیں گالی گلوچ، کہیں سیاست پر گفتگو تو کہیں اس کے عملی مظاہرے۔ ایک مرتبہ چورنگی پر ایک جھگڑے میں ہم سے پرے بیٹھے ایک شخص نے اچانک ، دوسرے کی محرماتِ ابدیہ سے بغیر کسی قانونی و اخلاقی معاہدے کے استواریِ مراسم کا گھناؤنا منصوبہ ایک ہی سانس میں پیش کیا ۔ جواب میں فریقِ ثانی نے بھی اسی نوعیت کے قدرے مفصل منصوبے بیان کئے۔ مگر ان میں وہ برجستگی نہیں تھی جس کی داد فریقِ اول وصول کر چکا تھا۔ جھگڑے کا شور تھا سب نے سنا ، ہم تک بھی آواز آئی ۔ قبلہ نے بھی تجسسِ عارفانہ کا مظاہرہ فرمایا اور ۔ غالبا اِسی سے متاثر ہو کر ( اشارہ برجستگی کی طرف ہے) آپ نے مقاصدِ زن و شو پربحث کا آغاز کیا۔ جس میں ان تمام غیر علانیہ خواہشات کا احاطہ کیا جو بقول پیارے میاں ، فقط مورثی ہوتی ہیں۔ آپ کے کلام میں وہ فطری سادگی تھی کہ موضوع سمجھنے میں غیر معمولی آسانی ہو رہی تھی۔ ہر چند ،ارشد بھائی نے اعتراض کیا کہ "آپ کا یہ بیان نوجوانوں کےلیے نسخہ حصولِ بشارتِ دوئی ثابت ہو گا"۔ مگر بعض عاقبت اندیش نوجوانوں کی فرمائش پر بیا ن جاری رکھا گیا۔
وہ سائنس کے دقیق نظریات ہوں یا فلسفے کی عمیق گہرائیاں احباب چورنگی طاہر عباس کے بیان کے شیدائی ہیں ۔سوائے شاہ صاحب کے ، اس معصوم کی سمجھ ہی کچھ نہیں اتا تو بھلا دیوانگی کیسی؟ مجھ سے کہتے ہے "یار یہ کتنی مشکل باتیں کرتے ہیں ! ان کو کیا ملتا ہے ایسی باتوں سے ؟" یہ شاہ صاحب کے وہ معصومانہ سوالات ہیں جن کا جواب صرف مسکراہٹ ہی سے دیا جا سکتا ہے ۔ یا اگر پروفیسر پاس بیٹھے ہوں تو وہ شاہ صاحب کا بہترین تریاق ہیں ۔ شاہ صاحب کی اپنی الگ ہی دنیا ہے ۔ کہیں کہیں یہ پیارے میاں کی خیالی دنیا کے مماثل ہے جس میں عاقل عورتوں اور بالغ مردوں کا دخلہ منع ہے۔
اقتباس: چورنگی از حسن علی امام
مکرمی و محترمی جناب قبلہ طاہر عباس صاحب اس محفل کے روح ِرواں ہیں ۔ فنِ گفتگو میں آپکو ملکہ حاصل ہے - گھر اور زندگی کی بھی یہی کیفیت بتاتے ہیں - آپ دنیا کے ہر موضوع پر بات کرتے ہیں سوائے سیاست کے . اس میں آپ عملیت پسندی کے قائل ہیں - شاعری آپ ہاں لونڈی ہے اسی لئے شعراءِ کرام پر کڑی نظر رکھتے ہیں - اردو شاعری پر تنقید نگاری آپ پر آ کر ختم ہو جاتی ہے ، محفل میں یہ شروع بھی آپ ہی سے ہوتی ہے ۔ آپ کی ذاتی شاعری بہت اعلی ہے سلاست و شائستگی کا حسین امتزاج ہے۔ اسکی وجہ آپ کا وہ شاعرانہ فلسفہ ہے جو سننے والے کو تفکر کی اس بلندی تک لے جاتا ہے جہاں یہ کہا جائے " آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا "
آپ بیک وقت فلسفہ، ادب ، نفسیات ، تاریخ ، فلکیات ، زراعت ، طب ، طبیعات ، منطق ، کلام اور وہ وہ مضامین کہ جن کی تاب لانا احباب کے بس کی بات نہیں ، پر عبور رکھتے ہیں-جبکہ ان میں سے ہر ایک موضوع اپنے ذیلی موضوعات کی وسعت کے اعتبار سے گھنٹوں کی تقاریر چاہتا ہے ۔ ایسا تو ممکن ہے کے قبلہ کی غیر موجودگی میں ہم گفتگو کے موضوعات کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے ہوں مگر آپ کے آنے کے بعد کبھی یہ مسئلہ نہیں رہتا۔ کیونکہ آپ دنیا کی ہر بات سے ایک باقاعدہ موضوع وضع کرنے کے فن سے واقف ہیں یعنی اگر کوئی مخبوط الحواس شخص وہاں سے گزا تو آپ نے انسان کے حواس خمسہ پر گفتگو شروع کر دی ، کوئی ریڑھی والا گزرا تو آپ نے پہیےکی ایجاد سے گفتگو کا آغاز کیا اور گفتگو کے اختتام تک ہمیں اپنے چاروں طرف ہوا میں اُڑتی کاریں نظر انے لگیں ۔ اگر کسی نے اپنی بیماری کا ذکر کیا تو گھر واپسی پر اس کی زبان پر قبر کی گنجائش اور کفن کی پیمائش کا تذکرہ تھا ۔
بالخصوص شاعری پر تنقید کرتے ہوئے آپ عموما ایک بات کہتے ہیں اور جس انداز سے آپ یہ جملہ کہتے ہیں اہل محفل اس انداز پر فریفتہ ہیں " شعر نہیں ہوا"...........۔
صرف اس جملے کو سننے کیلئے بہت سے لوگ اپنےپسندیدہ اشعار کو تنقید کے مقتل میں قربان کر چکے ہیں ۔ آپ کا اندازِ گفتگو اس قدر اعلیٰ ہے کہ بعض دفعہ تو راہگیر رک رک کر آپ کی باتیں سنا کرتے ہیں۔ مشکل سے مشکل موضوع آپ انتہائی سادہ زبان میں بیان کر دیتے ہیں ۔ حاضرین عش عش کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ "بس بس" بھی کرتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھیں جلدی گھر جانا تھا مگر گفتگو کے سحر نے باندھے رکھا اور اب مزید دیر کی صورت میں خاتونِ خانہ سے بھی اسی نوعیت کا ڈر ہے ۔ یا یہ وہ بدذوق نوجوان ہیں جنہیں ۔
"اور بھی غم ہیں زمانے میں عقیدت کے سوا "
نہ صرف میں نے بلکہ اور لوگوں نے بھی طاہر صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ کچھ کم ظرفوں نے جو کچھ آپ سے سیکھا وہ آپ ہی پر آزمانے کی کوشش بھی کی ، منہ کی کھائی ۔ کیوں کے ہر ماہر استاد کی طرح، آپ کا علم فقط تدریس کے لئے مختص نہیں بلکہ اس سے شاگردوں کو دائر ہ ِادب میں دراندازی سے بھی روکا جاتا ہے ۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ آپ کی قادر الکلامی آپ کی وہ ممتاز خوبی ہے جو دوسروں کی بہت سی خامیوں کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ آپ کے بارے میں عام تاثر ہے کہ آپ اپنے زورِ خطبات سے مردے کو زندہ کر دیتے ہیں (یہ اشعار کی بات ہو رہی ہے ) ہم سب شاہد ہیں کے بہت سے اشعار نیم مردہ حالت میں آپ کے سامنے لا ئے گئے اور آپکی ذرا سی توجہ پا کر ، "گُنگُناتا، رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں " کے مصداق لوٹے ۔
آپ کے بچپن ہی سے " شعر نہیں ہوا " کا سلسلہ جاری ہے - بچپن میں مبارک منگری کے سامنے انہی کی غزل پر تبصرہ کرتے ہوئے غالباً پہلی بار یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا - جوانی میں جون ایلیا کو ان ہی کی ایک غزل پر یہی تبصرہ سنے کو ملا ۔ میں نے طاہر صاحب سے ہی سیکھا ہے سخن فہمی ہونی چاہیے غالب کی طرفداری نہیں - شعر کسی کا بھی ہو اپنے فنی عیوب و محاسن کی بنیاد پر سنا جائے اور انہی پر پرکھا جائے اس طور کی تنقید نگاری میں ہی وہ شان قلندری پائی جاتی ہے جو لمحوں میں شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دیتی ہے ۔ یہ بات بھی آپ ہی سے سیکھی ہے کہ کبھی بڑا نام دیکھ کر رعب میں نہیں آنا چاہیے بلکہ شعر پر غور کرنا چاہیے کیوں کے اکثر نقاد عیوب شعری کی مثال میں اساتذہ کے اشعار ہی پیش کرتے ہیں - اسکی وجہ یہ ہے کہ غیرِ استاد کو ناقدین درخور اعتنا نہیں سمجھتے - اس لئے ہر شعر ، شعر سمجھ کرہی سنا جائے چاہے وہ کسی نوآموز کا ہو یا استاد کا۔
ارشد بھائی کہتے ہیں طاہر صاحب کو ان کے شاگردوں نے اسی نوعیت کے غم دیے ہیں جن کے مداوے کے لئے چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جبکہ غنیم کمالِ ہوشیاری سے کبھی یکجا نہیں ہوتے بلکہ فرداََ فرداََ ہی آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ بھی فرماتے ہیں کے اعجاز رحمانی صاحب کے داغ مفارقت (جو رحمانی صاحب کو اپنے شاگردوں سے ملے ہیں) آپ کے لئے تسلی کا موجب ہیں ، جو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اسے بھی روایتِ شعراءسمجھ کر تسلیم کر لیا جائے ۔ میرا خیال ہے، برخلافِ سقراط ،آپ شاگردوں کا دیا ہوا یہ زہر کا پیالہ آہستہ آہستہ چسکیاں لے لے کر پی رہے ہیں اور وقفے وقفے سے تریاق بھی کر تے رہتے ہیں ۔
چورنگی کا ماحول بھی "چورنگیایا" ہو ا ہے ۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چار چار ، چھے چھے افراد دن بھر کی تھکن اُتارتے نظر آتے ہیں ۔ کہیں ہنسی ٹھٹہ تو کہیں گالی گلوچ، کہیں سیاست پر گفتگو تو کہیں اس کے عملی مظاہرے۔ ایک مرتبہ چورنگی پر ایک جھگڑے میں ہم سے پرے بیٹھے ایک شخص نے اچانک ، دوسرے کی محرماتِ ابدیہ سے بغیر کسی قانونی و اخلاقی معاہدے کے استواریِ مراسم کا گھناؤنا منصوبہ ایک ہی سانس میں پیش کیا ۔ جواب میں فریقِ ثانی نے بھی اسی نوعیت کے قدرے مفصل منصوبے بیان کئے۔ مگر ان میں وہ برجستگی نہیں تھی جس کی داد فریقِ اول وصول کر چکا تھا۔ جھگڑے کا شور تھا سب نے سنا ، ہم تک بھی آواز آئی ۔ قبلہ نے بھی تجسسِ عارفانہ کا مظاہرہ فرمایا اور ۔ غالبا اِسی سے متاثر ہو کر ( اشارہ برجستگی کی طرف ہے) آپ نے مقاصدِ زن و شو پربحث کا آغاز کیا۔ جس میں ان تمام غیر علانیہ خواہشات کا احاطہ کیا جو بقول پیارے میاں ، فقط مورثی ہوتی ہیں۔ آپ کے کلام میں وہ فطری سادگی تھی کہ موضوع سمجھنے میں غیر معمولی آسانی ہو رہی تھی۔ ہر چند ،ارشد بھائی نے اعتراض کیا کہ "آپ کا یہ بیان نوجوانوں کےلیے نسخہ حصولِ بشارتِ دوئی ثابت ہو گا"۔ مگر بعض عاقبت اندیش نوجوانوں کی فرمائش پر بیا ن جاری رکھا گیا۔
وہ سائنس کے دقیق نظریات ہوں یا فلسفے کی عمیق گہرائیاں احباب چورنگی طاہر عباس کے بیان کے شیدائی ہیں ۔سوائے شاہ صاحب کے ، اس معصوم کی سمجھ ہی کچھ نہیں اتا تو بھلا دیوانگی کیسی؟ مجھ سے کہتے ہے "یار یہ کتنی مشکل باتیں کرتے ہیں ! ان کو کیا ملتا ہے ایسی باتوں سے ؟" یہ شاہ صاحب کے وہ معصومانہ سوالات ہیں جن کا جواب صرف مسکراہٹ ہی سے دیا جا سکتا ہے ۔ یا اگر پروفیسر پاس بیٹھے ہوں تو وہ شاہ صاحب کا بہترین تریاق ہیں ۔ شاہ صاحب کی اپنی الگ ہی دنیا ہے ۔ کہیں کہیں یہ پیارے میاں کی خیالی دنیا کے مماثل ہے جس میں عاقل عورتوں اور بالغ مردوں کا دخلہ منع ہے۔
اقتباس: چورنگی از حسن علی امام
آخری تدوین: