عالمتاب تشنہ :::: کیا کہا، پھر تو کہو، دِل کی خبر کچھ بھی نہیں

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
عالمتاب تشنہ

کیا کہا، پھر تو کہو، دِل کی خبر کچھ بھی نہیں
پھر یہ کیا ہے، خمِ گیسو میں اگر کچھ بھی نہیں

آنکھ پڑ تی ہے کہیں، پاؤں کہیں پڑتے ہیں
سب کی ہے تم کو خبر، اپنی خبر کچھ بھی نہیں

شمع ہے، گل بھی ہے، بلبل بھی ہے پروانہ بھی !
رات کی رات یہ سب کچھ ہے، سحر کچھ بھی نہیں

حشر کی دُھوم، یہ سب کہتے ہیں یُوں ہے یُوں ہے
فِتنہ ہے اِک تِری ٹھوکر کا مگر کچُھ بھی نہیں

نیستی کی ہے مجھے کوچۂ ہستی میں تلاش !
سیر کرتا ہوں اُدھر کی، کہ جدھر کچُھ بھی نہیں

شمع مغرور نہ ہو بزم فروزی پہ بہت
رات بھر کی یہ تجلّی ہے، سحر کچھ بھی نہیں

ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہ !
فائدہ رونے سے اے دیدۂ تر کچھ بھی نہیں

عالمتاب تشنہ
 
آخری تدوین:
آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتے ہیں
سب کی ہے تم کو خبر اپنی خبر کچھ بھی نہیں​
یہ شعر مشہور ہے؟
کئی سال ہوئے یہ شعر کہیں پڑھا تھا اور پھر بھول گیا - اکثر نامکمل یاد آتا اور الجھن رہتی - خیر طارق صاحب نجات دہندگی کا شکریہ!
 
آخری تدوین:
واہ واہ عمدہ انتخاب ہے ۔
شاہ صاحب بہت شکریہ ارسال فرمانے کے لیے
ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہ !
فائدہ رونے سے اے دیدۂ تر کچھ بھی نہیں
کیا کہنے !
 

عمر سیف

محفلین
آنکھ پڑ تی ہے کہیں، پاؤں کہیں پڑتے ہیں
سب کی ہے تم کو خبر، اپنی خبر کچھ بھی نہیں
شمع مغرور نہ ہو بزم فروزی پہ بہت
رات بھر کی یہ تجلّی ہے، سحر کچھ بھی نہیں

بہت خوب
 

mohsin ali razvi

محفلین
ای اشرف ا لمخلوقات
ای امت رسول
ای معتقدین به صحابه و اهلبیت
ای حا فظین و قاریین قران
محبت واخوت اسلامی شما کجاست ؟
ایا در مهر ورزی اینها از ما بهتر نیستند ؟//
images
 
Top