طارق شاہ
محفلین
غزلِ
عالمتاب تشنہ
کیا کہا، پھر تو کہو، دِل کی خبر کچھ بھی نہیں
پھر یہ کیا ہے، خمِ گیسو میں اگر کچھ بھی نہیں
آنکھ پڑ تی ہے کہیں، پاؤں کہیں پڑتے ہیں
سب کی ہے تم کو خبر، اپنی خبر کچھ بھی نہیں
شمع ہے، گل بھی ہے، بلبل بھی ہے پروانہ بھی !
رات کی رات یہ سب کچھ ہے، سحر کچھ بھی نہیں
حشر کی دُھوم، یہ سب کہتے ہیں یُوں ہے یُوں ہے
فِتنہ ہے اِک تِری ٹھوکر کا مگر کچُھ بھی نہیں
نیستی کی ہے مجھے کوچۂ ہستی میں تلاش !
سیر کرتا ہوں اُدھر کی، کہ جدھر کچُھ بھی نہیں
شمع مغرور نہ ہو بزم فروزی پہ بہت
رات بھر کی یہ تجلّی ہے، سحر کچھ بھی نہیں
ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہ !
فائدہ رونے سے اے دیدۂ تر کچھ بھی نہیں
عالمتاب تشنہ
عالمتاب تشنہ
کیا کہا، پھر تو کہو، دِل کی خبر کچھ بھی نہیں
پھر یہ کیا ہے، خمِ گیسو میں اگر کچھ بھی نہیں
آنکھ پڑ تی ہے کہیں، پاؤں کہیں پڑتے ہیں
سب کی ہے تم کو خبر، اپنی خبر کچھ بھی نہیں
شمع ہے، گل بھی ہے، بلبل بھی ہے پروانہ بھی !
رات کی رات یہ سب کچھ ہے، سحر کچھ بھی نہیں
حشر کی دُھوم، یہ سب کہتے ہیں یُوں ہے یُوں ہے
فِتنہ ہے اِک تِری ٹھوکر کا مگر کچُھ بھی نہیں
نیستی کی ہے مجھے کوچۂ ہستی میں تلاش !
سیر کرتا ہوں اُدھر کی، کہ جدھر کچُھ بھی نہیں
شمع مغرور نہ ہو بزم فروزی پہ بہت
رات بھر کی یہ تجلّی ہے، سحر کچھ بھی نہیں
ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہ !
فائدہ رونے سے اے دیدۂ تر کچھ بھی نہیں
عالمتاب تشنہ
آخری تدوین: