عالمگیریت

F@rzana

محفلین
عالمگیریت ایک جاری عمل ہے
درج ذیل تحریراس انٹرویو کا متن ہے جو امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ’سینٹر فار دی سٹڈی آف گلوبلائزیشن‘ کے رسالے کے ایڈیٹر نین چندانے نیویارک ٹائمز کے مشہور کالم نگار، مصنف اور عالمگیریت کے حامی تھامس فریڈمین سے کیا۔


--------------------------------------------------------------------------------


سوال: ہم نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار اور ’لیکسس اینڈ دی اولو ٹری‘ کے مصنف تھامس فریڈمین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

آپ ایک سال قبل بھی یہاں آئے تھے اور آپ نے عالمگیریت کے بارے میں دو باتیں کی تھیں۔ ایک تو یہ کہ دہشتگ ردی عالمگیریت کے راستے میں رکاوٹ ہے لیکن عالمگیریت کا عمل پھر بھی جاری ہے۔ دوسرا آپ نے یہ کہا تھا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عالمگیریت کا خاتمہ ہو گیا ہے انہیں دو ممالک، چین اور انڈیا، کی مثال دیکھنی چاہیے۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان ممالک نے اپنے مستقبل کے لئے عالمگیریت کے اصولوں کو اپنایا، اپنے عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے اور ان کی تعلیم اور سماجی ڈھانچے کی طرف توجہ دی اور تجارت اور طرزِ حکومت کی بہتر پالیسیاں بنائیں۔

سوال:آپ حال ہی میں انڈیا سے واپس آئے ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آپ کے پچھلے انٹرویو سے اب تک عالمگیریت میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟

تھامس فریڈمین: میرے خیال میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے جس کا ادراک مجھے انڈیا میں ہوا۔ میں پچھلے دو سال میں گیارہ ستمبر اور عراق کے معاملات میں مشغول تھا اور عالمگیریت سے میری توجہ ہٹ گئی تھی۔ میں نے اپنے انڈیا کے دورے میں عالمگیریت کی اصل روح کو سمجھا جو کچھ یوں ہے۔ عالمگیریت کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور کو ہم عالمگیریت 1.0 کہہ سکتے ہیں اور یہ دور اس وقت شروع ہوا جب ان ممالک سے واسکوڈے گاما اور کرسٹوفر کولمبس نے نئی دنیاؤں کی تلاش شروع کی۔ یہ دور چودھویں صدی میں شروع ہوا اور بھاپ سے چلنے والے انجن، ریلوے اور ٹیلی گراف کی ایجاد تک جاری رہا۔ اس کا اختتام پہلی جنگ عظیم پر ہوا۔ اس دور نے دنیا کو بہت بڑے سائز سے درمیانے سائز میں تبدیل کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمگیریت 2.0 کےدور کا آغاز ہوا جو سن دوہزار تک جاری رہا۔

سوال: سن دو ہزار میں کیا ہوا؟

فریڈمین: اس دور میں انٹرنیٹ اور فائبر آپٹیکس کی وجہ سے بنیادی طور پر عالمگیریت کا عمل تیز تر ہو گیا۔ اس کا ذکر میں نے اپنی کتاب ’لیکسس اینڈ دی اولو ٹری‘ میں بھی کیا ہے کہ دنیا کا سائز سکڑ کر درمیانے سے چھوٹے میں تبدیل ہوگیا۔ یہاں پر میں عالمگیریت کو چھوڑ کر نائن الیون کے معاملات میں مشغول ہو گیا تھا۔ اسی دوران ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ اور یہ عالمگیریت 3.0 کا آغاز تھا۔ عالمگیریت 3.0 کو ہم عالمگیریت 2.0 میں ہونی والی فائبر آپٹکس، کمپیوٹرز اور سافٹ وئیرز جیسی تیکنیکی تبدیلیوں کا نقطہ عروج کہہ سکتے ہیں۔ اگر عالمگیریت 2.0 میں دنیا کا سائز سکڑ کر درمیانے سے چھوٹے میں تبدیل ہو گیا تھا تو عالمگیریت 3.0 میں دنیا کا سائز چھوٹے سے سکڑ کر انتہائی چھوٹا ہو گیا۔ اگر عالمگیریت 2.0 کمپنیوں کی عالمگیریت تھی تو عالمگیریت 3.0 کو افراد کی عالمگیریت کہا جا سکتا ہے۔

سوال: آپ اس کی تشریح کیسے کریں گے؟

فریڈمین: میرے خیال میں ہم اقوام کی عالمگیریت سے کمپنیوں اور پھر افراد کی عالمگیریت کی طرف گامزن ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم ایک فرد کے طور پر یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہم عالمی ترسیل کی صف میں کہاں کھڑے ہیں۔ مطلب یہ کہ میں آج صبح ساؤتھ ویسٹ ائیر لائنز کے ذریعے یہاں پہنچا۔ بری خبر یہ ہے کہ نائن الیون کی وجہ سے مجھے سکیورٹی کے لئے ایک لمبی صف میں کھڑا ہونا پڑا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ میں ساؤتھ ویسٹ ائیر لائنز کا ٹکٹ اب ائیرپورٹ پر ٹکٹ مشین کے بجائے گھر بیٹھے کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کے ذریعے خرید سکتا ہوں۔

واشنگٹن ٹائمز میں ایک کہانی چھپی جس کے مطابق ایک نئی ویب سائٹ بنائی گئی ہے جس پر پانچ چھ سال کے بچے بھی اپنی ویب سائٹ بنا سکتے ہیں۔ آپ کو ایک فرد کے طور پر یہ سوچنا چاہیے کہ عالمی ترسیل کے نظام میں آپ کہاں کھڑے ہیں۔میرے اندر ایسی کون سے صلاحیتیں اور ہنر ہیں جو منفرد ہیں اور جن کی وجہ سے مجھے ’اچھوت‘ کہا جا سکتا ہے۔ عالمگیریت 3.0 میں ’اچھوت‘ سب سے نچلی ذات نہیں بلکہ وہ سب سے اعلی ذات ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی برابری ان کے ہنر اورصلاحیتوں کی وجہ سے کوئی اور نہیں کر سکتا۔
اب ’اچھوت‘ اعلیٰ ترین ذات ہے
عالمگیریت 3.0 میں ’اچھوت‘ سب سے نچلی ذات نہیں بلکہ وہ سب سے اعلی ذات ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی برابری ان کے ہنر اورصلاحیتوں کی وجہ سے کوئی اور نہیں کر سکتا۔



سوال: آپ کو انڈیا میں عالمگیریت 3.0 کا اظہار کہاں نظر آیا؟

فریڈمین: میں آپ کو بنگلور کی ’دھروا‘ نامی ایک کمپنی کی مثال دوں گا۔ اس کمپنی کے دفاتر بنگلور کے مضافات میں ایک پرسکون سڑک پر واقع ہیں۔ اس کمپنی کے مالک ایک نوجوان راجیش راؤ ہیں جو کمپیوٹر گیمز کے بہت شوقین ہیں۔ آپ کو علم ہوگا کہ آج کل ’گیمنگ‘ کا کاروبار ہالی ووڈ سے بھی بڑھ کر ہے۔ فلموں کی نسبت زیادہ گیمز انٹرنیٹ سے داؤن لوڈ کی جاتی ہیں۔ راجیش یہ کاروبار شروع کرنا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا کہ انڈیا میں ہنر کی کمی نہیں۔ انڈیا کے مندروں میں ایسے فنکاروں کی کمی نہیں جو بہت اچھے مصور اور خطاط ہیں۔ اس نے ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ان فنکاروں کو گیم کی صنعت میں متعارف کروانے کا پروگرام بنایا۔ اس نے ایک کمپنی بنائی، کچھ کمپیوٹر خریدےاور ایک فائبر آپٹکس کمپیوٹر کنکشن لیا۔ انہوں نے مارکیٹ میں دستیاب مائیکرو سافٹ نیٹ میٹنگ، ای میل اور گوگل جیسے سافٹ وئیرز اور سرچ انجنز کو استعمال کر کے امریکی اور یورپین گیم کمپنیوں کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔

انہوں نے گوگل سے مغرب میں مقبول گیمز کے انداز اور کرداروں کا مشاہدہ کیا اور پھر ای میل اور دوسرے سافٹ وئیرز کی مدد سے ایک نئی گیم تخلیق کرکے انٹر نیٹ پر مارکیٹ کر دی۔ یہ گیم امریکی کمپنیوں کو اتنی پسند آئی کہ اب امریکہ کی ممتاز گیم بنانے والی کمپنیاں بنگلور کی ایک گلی میں دھروا کو گیمز کے لئے کردار بھیج رہی ہیں۔ دنیا کتنی چھوٹی ہو گئی ہے۔

سوال: جہاں تک فراہمیِ خدمات کا تعلق ہے، فرد کا اس میں کیا کردار ہوگا؟ کیا افراد مکمل طور پر کمپنیوں پر انحصار کر رہے ہوں گے؟

فریڈمین: آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہر فرد کو کسی کمپنی کے ذریعے ہی کام کروانا پڑے گا۔ بنگلور، انڈیا میں ’ایمفیسز‘ نامی ایک اور کمپنی ہے جسے جیری راؤ چلاتے ہیں۔ جیری نے یہ کمپنی امریکہ میں بنائی اور یہ بالکل ایک کمپیوٹر پورٹل کی طرح ہے۔ اس کے ذریعے جیری لوگوں کے ٹیکس کے مسائل حل کرتے ہیں۔ وہ امریکی اکاؤنٹنگ فرمز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ تمام انڈیا میں ان کے پاس ایسے اکاؤنٹنٹ موجود ہیں جو مختلف امریکی ریاستوں کے ٹیکس قوانین کے ماہر ہیں۔ ان میں سے کچھ صرف ڈیلاویئر کے ماہر ہیں تو کچھ صرف فلوریڈا کے۔ یہ گھر بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ جیری امریکی اکاؤنٹنگ فرمز اور انڈیا کے اکاؤنٹنٹس کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس گوشوارے انڈیا کے چارٹڈ اکاؤنٹنٹس کو بھیجتے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اس سال ایک لاکھ امریکی ٹیکس گوشوارے انڈیا میں بھرے جائیں گے۔

“بشکریہ بی بی سی“
 

F@rzana

محفلین
تھامس فریڈمین انٹرویو

سوال: یہ واضح ہے کہ اس سے امریکی ٹیکس کمپنیوں کو فائدہ پہنچے گا یا ٹیکس گزاروں کو مالی فائدہ ہو گا جنہیں اپنے کے قانونی گوشوارے بھروانے کے لئے کم قیمت ادا کرنا ہوگی لیکن انڈیا کی کمپنیوں کو کام دینے کے خلاف امریکہ میں بہت شور مچ رہا ہے اور لوگ اب عالمگیریت کو امریکہ کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟
فریڈمین: میں دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ ایک تو یہ کہ میں آپ کا درد سمجھتا ہوں۔ اگر میں امریکہ میں ایک اکاؤنٹنٹ ہوتا، ریڈیولوجسٹ ہوتا یا کال سینٹر کا کارکن ہوتا یا میرے بچے یہ سب کچھ ہوتے تو مجھے کافی مایوسی ہوتی اور غصہ بھی آتا۔ یہ دنیا جو اتنی چھوٹی ہوگئی ہے، مجھ سے میری نوکری بھی چھین رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ان لوگوں کی بات سننی چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ عوامی مفاد میں ہم ایسی کون سی حکمت عملی اپنا سکتے ہیں جس سے ان لوگوں کو روزگار کا تحفظ دیا جا سکے یا تنخواہ کی انشورنس ہو یا صحت کے فوائد، تعلیم اور تربیت جیسے دوسرے مسائل، ہمیں ان کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ تجارت میں ایک پرانا قانون ہے کہ وہ لوگ جنہیں آزاد تجارت سے نقصان ہوتا ہے، صرف وہی جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں؟ وہ لوگ جنہیں آزاد تجارت سے فائدہ ہوتا ہے، وہ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ جن لوگوں کو اس سے نقصان ہو رہا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق سفید پوش طبقے سے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ووٹ دیتے ہیں اور نیویارک ٹائمز میں ایڈیٹر کے نام خطوط لکھتے ہیں۔ جوں جوں وہ منظم ہوں گے، ان کا سیاسی اثر بڑھتا جائےگا اور یہی آج کل ہم دیکھ رہے ہیں۔

اس لئے ہمیں ان لوگوں کی بات سننی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دیواریں نہیں کھڑی کردینی چاہئیں۔ یہ امریکی جدت پسندی ہے جس نے ماضی میں ہماری معیشت کو آگے بڑھایا۔ اس کی مثال گیارہ ستمبر کی تباہی کے باوجود گوگل، یاہو، ای بے اور ایمزون جیسی کمپنیاں ہیں جو امریکی جدت اور اختراع کی پیداوار ہیں۔ یہ کمپنیاں چین ، جرمنی یا انڈیا میں وجود میں نہیں آئیں بلکہ یہ ایک ایسی تہذیب اور معاشرے میں تخلیق ہوئیں جو انتہائی وسیع ا لنظر ہے ، جو پابندیوں میں یقین نہیں رکھتا، جو صحتمند مسابقت کا دعوے دار ہے، جہاں عمدہ اقتصادی بازار اور ایک ایسا سرمائے کے مقابلے کا نظام ہے جو جدت اور اختراع کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں مسلسل ناکامیوں کے بعد کامیاب ہو کر کروڑ پتی بننے کی مثالیں موجود ہیں۔ مجھے یقین ہےہ کہ جب تک ہم ان اقدار کو برقرار رکھیں گے اس وقت تک ہمارے پاس متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے وسائل بھی مہیا ہوتے رہیں گے۔
میری سہولت تو ہے لیکن۔۔۔۔
ساؤتھ ویسٹ ائیرلائنز کے کاؤنٹر پر کام کرنے والے بہت سے لوگوں کی نوکریاں چھن گئی ہے کیونکہ اب میں انٹرنیٹ پر جا کر نہ صرف ساؤتھ ویسٹ ائیر لائن کا ٹکٹ خرید سکتا ہوں بلکہ اپنا بورڈنگ پاس بھی ڈاؤن لوڈ کر سکتا ہوں۔



میرے دوست کانگریس کے قائم مقام سیکریٹری ڈیوڈ روتھ کوف کا قول ہے کہ روزگار کے مواقع انڈیا یا چین نہیں جا رہے بلکہ وہ ماضی کی طرف جا رہے ہیں۔ اگر آپ یاد کریں تو میں نے ساؤتھ ویسٹ ائیرلائنز پر یہاں آنے کی بات کی تھی۔ ساؤتھ ویسٹ ائیرلائنز کے کاؤنٹر پر کام کرنے والے بہت سے لوگوں کی نوکریاں چھن گئی ہے کیونکہ اب میں انٹرنیٹ پر جا کر نہ صرف ساؤتھ ویسٹ ائیر لائن کا ٹکٹ خرید سکتا ہوں بلکہ اپنا بورڈنگ پاس بھی ڈاؤن لوڈ کر سکتا ہوں۔

سوال: میرے خیال میں دو مسئلے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہے اور حکومتیں اس کے ردعمل میں مناسب حکمت عملی بنانے میں بہت سست ہیں اور دوسرا سوال یہ کہ جدت کے لئے آپ کو تعلیم کی ضرورت ہے لیکن تعلیم کے لئے مختص بجٹ، خاص طور پر امریکہ، میں کمی ہو رہی ہے۔ یہ ایک لمبی مدت کا مسئلہ ہے۔

فریڈمین: مجھے ایک خوف یہ ہے کہ دنیا کے ’چھوٹے سائز‘ سے ’ بہت چھوٹے سائز‘ کی طرف سفر کے دوران کہیں ہم انسان اور حکومت کے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت کی آخری حد پر تو نہیں پہنچ گئے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب میرے پاس نہیں۔ ہاں تعلیم کے بارے میں آپ کے خیال سے متفق ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ جتنی زیادہ دنیا سکڑتی جا رہی ہے، اتنا ہی آپ کو بہتر بننا پڑے گا۔ مطلب یہ کہ آپ جتنے زیادہ تعلیم یافتہ ہوں گے، اتنا ہی آپ کو ایسی صلاحیتیں اور ہنر حاصل کرنے پڑیں گے جو دوسرے لوگ یا مشینیں آسانی سے مہیا نہ کر سکیں۔ اب ہم سے ہر کوئی دماغ کا سرجن نہیں ہو سکتا۔ ہم میں سے کچھ لوگ ریڈیولوجسٹ بھی ہوں گے۔ کچھ لوگ درمیانے درجے کی نوکریاں بھی کریں گے جس سے ان کے معیار زندگی میں کمی واقع ہو گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ مجھے امید ہے کہ کالمسٹ ان میں سے ایک نہیں ہوں گے۔ لیکن ایسا کوئی وقت آتا ہے تو مجھے اس کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور ہم سب کو دیکھنا چاہیے کہ موجودہ عالمی نظام ترسیل میں ہماری بقا کیسے ممکن ہے۔

سوال: میرے خیال میں جب لوگ ’وال مارٹ‘ جا کر چین کی بنی ہوئی ڈی وی ڈی سو ڈالرز میں خریدتے ہیں تو وہ عالمی نقطہِ نظر سے نہیں سوچ رہے ہوتے۔ بلکہ اس سارے عمل کا عالمگیریت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

فریڈمین: ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس کا تعلق ’مال‘ سے ہے۔

سوال: لیکن جب ان کی تنخواہ کا چیک لینے کا وقت آتا ہے توانہیں عالمی نقطہ نظر سے سوچنا پڑتا ہے۔

فریڈمین: میرے خیال میں اصل نامعلوم سوال کچھ اور ہے۔ دیکھیں جب نوکریاں بیرون ملک مہیا کی جاتی ہیں تو یہ عمل برآمد کے مانند ہے۔ ایک وقت آئےگا کہ طلب اور رسد برابر ہو جائے گی۔ہم روزگار کے جو مواقع انڈیا اور چین کو برآمد کر رہے ہیں، یہ مواقع مستقبل میں ہمارے پاس امریکی مصنوعات کی طلب کی صورت میں واپس آئیں گے۔ تجارت کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آیا یہ ملازمت کے مواقع کی صورت میں واپس آئیں گے یا پھر باربرا سٹریس لینڈ اور بل گیٹس کی ’رائلٹیز‘ کی طلب کی صورت میں واپس آئیں گے؟ ہم جیسے باقی سب لوگوں کا کیا بنے گا؟ بقول لیری سمرز ’ہم باقی سب لوگ ان کے پول صاف کریں گے‘ ۔ یا یہ کہ ہونے والی تبدیلیوں کے بعد ملازمت کے مواقع کسی اور شکل میں پیدا ہوں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب مجھے معلوم نہیں۔

سوال: سوال یہ ہے کہ طلب کیسے پیدا ہوگی۔ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ مصائب کا شکار ہے اور وہ مارکیٹ سے باہر ہے۔ جب تک آپ ان لوگوں کو مارکیٹ کا حصہ نہیں بنائیں گے، اس وقت تک موجودہ مارکیٹ میں رسد زیادہ ہو گی، قیمتیں کم رہیں گی اور لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوتی رہیں گی۔

فریڈمین: یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لئے اقدام کرنے پڑیں گے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی معاشی سروسز، انشورنس اور تفریح جیسے اچھے شعبے انڈیا کی مارکیٹ میں متعارف کرائیں۔ انڈیا، چین اور جاپان جیسے ممالک میں ابھی بھی تجارتی محصول کی پابندیاں ہیں۔ ہمیں ان مارکیٹوں کو زیادہ سے زیادہ رسائی کے قابل بنانا چاہیے اور ہر جگہ مجموعی طلب میں اضافہ کرنا چاہیے۔

میرے خیال میں دنیا کے اس سکڑنے کے عمل کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ سیاسی تبدیلیوں کو وجہ سے تجارتی پابندیوں میں برابری اور آخرکار کمی واقع ہو گی۔ انڈیا اور چین میں سفید پوش طبقے کے سیاسی دباؤ سے تجارتی پابندیوں میں کمی ہو کر رہے گی۔

سوال: ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت امریکہ میں زیرتعلیم انڈیا کے طلباء کی تعداد ریکارڈ کی حد تک زیادہ ہے۔ اور یہ وہی طالبعلم ہیں جو یہاں سے تعلیم مکمل کر کے انڈیا واپس جائیں گے اور وہاں پر ان امریکی کمپنیوں کے لیے کام کریں گے جو انڈیا میں روزگار کے مواقع مہیا کر رہی ہیں۔

فریڈمین: مگر میں انہیں کہوں گا کہ وہ یہیں ٹھہریں۔ میری زندگی کا ایک سادہ اصول ہے۔ ہمارے انڈینز ایک دن انڈیا کے انڈینز پر غالب آ جائیں گے۔ ہمارے چینی ایک دن چین کے چینیوں پر غالب آ جائیں گے۔ ہمارے جاپانی ایک دن جاپان کے جاپانیوں پر غالب آ جائیں گے۔ ہمارے یورپی ایک دن یورپ کے یورپیوں پر غالب آ جائیں گے۔ اس وقت صرف سلی کون ویلی میں چار لاکھ یورپی تکنیکی کارکنوں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مگر میں ایک ایسے نظام کے حق میں ہوں جس میں ہم ساری دنیا سے بہترین دماغ چنیں اور انہیں یہاں لا کر رکھیں۔ میرے خیال میں وہ ہمارے لئے بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوں گے۔

سوال: لیکن اس کے لئے تو موجودہ سخت امیگریشن پالیسی میں نرمی کرنی پڑے گی۔

فریڈمین: بالکل درست۔

سوال: تو اس عالمگیریت 3.0 کے لئے بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔

فریڈمین: جی، بالکل۔

سوال: اور لوگوں کو ابھی تک علم نہیں کہ وہ تبدیلیاں کیا ہیں۔

فریڈمین: بالکل۔ یہ ابھی آغاز ہے۔ بیرونی وسائل کا استعمال کوئلے کی کان میں کینیری کی بولی کی مانند ہے جو یہ کوک رہی ہے کہ’ تم ایک نئی دنیا میں ہو، تم ایک نئی دنیا میں ہو‘۔ ۔ ۔

“بشکریہ بی بی سی“
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت عمدہ۔ مگر یہ فریڈ مین نے بالکل امریکی انداز میں ساری باتیں کہیں ہیں جو انہیں پسند تھیں۔ اور باقی گول۔ دینا پر قبضہ کرنے کو یہ نیو ورلڈ آرڈر کہتے ہیں ناں؟
 
Top