F@rzana
محفلین
عالمگیریت ایک جاری عمل ہے
درج ذیل تحریراس انٹرویو کا متن ہے جو امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ’سینٹر فار دی سٹڈی آف گلوبلائزیشن‘ کے رسالے کے ایڈیٹر نین چندانے نیویارک ٹائمز کے مشہور کالم نگار، مصنف اور عالمگیریت کے حامی تھامس فریڈمین سے کیا۔
--------------------------------------------------------------------------------
سوال: ہم نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار اور ’لیکسس اینڈ دی اولو ٹری‘ کے مصنف تھامس فریڈمین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
آپ ایک سال قبل بھی یہاں آئے تھے اور آپ نے عالمگیریت کے بارے میں دو باتیں کی تھیں۔ ایک تو یہ کہ دہشتگ ردی عالمگیریت کے راستے میں رکاوٹ ہے لیکن عالمگیریت کا عمل پھر بھی جاری ہے۔ دوسرا آپ نے یہ کہا تھا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عالمگیریت کا خاتمہ ہو گیا ہے انہیں دو ممالک، چین اور انڈیا، کی مثال دیکھنی چاہیے۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان ممالک نے اپنے مستقبل کے لئے عالمگیریت کے اصولوں کو اپنایا، اپنے عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے اور ان کی تعلیم اور سماجی ڈھانچے کی طرف توجہ دی اور تجارت اور طرزِ حکومت کی بہتر پالیسیاں بنائیں۔
سوال:آپ حال ہی میں انڈیا سے واپس آئے ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آپ کے پچھلے انٹرویو سے اب تک عالمگیریت میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟
تھامس فریڈمین: میرے خیال میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے جس کا ادراک مجھے انڈیا میں ہوا۔ میں پچھلے دو سال میں گیارہ ستمبر اور عراق کے معاملات میں مشغول تھا اور عالمگیریت سے میری توجہ ہٹ گئی تھی۔ میں نے اپنے انڈیا کے دورے میں عالمگیریت کی اصل روح کو سمجھا جو کچھ یوں ہے۔ عالمگیریت کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور کو ہم عالمگیریت 1.0 کہہ سکتے ہیں اور یہ دور اس وقت شروع ہوا جب ان ممالک سے واسکوڈے گاما اور کرسٹوفر کولمبس نے نئی دنیاؤں کی تلاش شروع کی۔ یہ دور چودھویں صدی میں شروع ہوا اور بھاپ سے چلنے والے انجن، ریلوے اور ٹیلی گراف کی ایجاد تک جاری رہا۔ اس کا اختتام پہلی جنگ عظیم پر ہوا۔ اس دور نے دنیا کو بہت بڑے سائز سے درمیانے سائز میں تبدیل کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمگیریت 2.0 کےدور کا آغاز ہوا جو سن دوہزار تک جاری رہا۔
سوال: سن دو ہزار میں کیا ہوا؟
فریڈمین: اس دور میں انٹرنیٹ اور فائبر آپٹیکس کی وجہ سے بنیادی طور پر عالمگیریت کا عمل تیز تر ہو گیا۔ اس کا ذکر میں نے اپنی کتاب ’لیکسس اینڈ دی اولو ٹری‘ میں بھی کیا ہے کہ دنیا کا سائز سکڑ کر درمیانے سے چھوٹے میں تبدیل ہوگیا۔ یہاں پر میں عالمگیریت کو چھوڑ کر نائن الیون کے معاملات میں مشغول ہو گیا تھا۔ اسی دوران ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ اور یہ عالمگیریت 3.0 کا آغاز تھا۔ عالمگیریت 3.0 کو ہم عالمگیریت 2.0 میں ہونی والی فائبر آپٹکس، کمپیوٹرز اور سافٹ وئیرز جیسی تیکنیکی تبدیلیوں کا نقطہ عروج کہہ سکتے ہیں۔ اگر عالمگیریت 2.0 میں دنیا کا سائز سکڑ کر درمیانے سے چھوٹے میں تبدیل ہو گیا تھا تو عالمگیریت 3.0 میں دنیا کا سائز چھوٹے سے سکڑ کر انتہائی چھوٹا ہو گیا۔ اگر عالمگیریت 2.0 کمپنیوں کی عالمگیریت تھی تو عالمگیریت 3.0 کو افراد کی عالمگیریت کہا جا سکتا ہے۔
سوال: آپ اس کی تشریح کیسے کریں گے؟
فریڈمین: میرے خیال میں ہم اقوام کی عالمگیریت سے کمپنیوں اور پھر افراد کی عالمگیریت کی طرف گامزن ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم ایک فرد کے طور پر یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہم عالمی ترسیل کی صف میں کہاں کھڑے ہیں۔ مطلب یہ کہ میں آج صبح ساؤتھ ویسٹ ائیر لائنز کے ذریعے یہاں پہنچا۔ بری خبر یہ ہے کہ نائن الیون کی وجہ سے مجھے سکیورٹی کے لئے ایک لمبی صف میں کھڑا ہونا پڑا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ میں ساؤتھ ویسٹ ائیر لائنز کا ٹکٹ اب ائیرپورٹ پر ٹکٹ مشین کے بجائے گھر بیٹھے کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کے ذریعے خرید سکتا ہوں۔
واشنگٹن ٹائمز میں ایک کہانی چھپی جس کے مطابق ایک نئی ویب سائٹ بنائی گئی ہے جس پر پانچ چھ سال کے بچے بھی اپنی ویب سائٹ بنا سکتے ہیں۔ آپ کو ایک فرد کے طور پر یہ سوچنا چاہیے کہ عالمی ترسیل کے نظام میں آپ کہاں کھڑے ہیں۔میرے اندر ایسی کون سے صلاحیتیں اور ہنر ہیں جو منفرد ہیں اور جن کی وجہ سے مجھے ’اچھوت‘ کہا جا سکتا ہے۔ عالمگیریت 3.0 میں ’اچھوت‘ سب سے نچلی ذات نہیں بلکہ وہ سب سے اعلی ذات ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی برابری ان کے ہنر اورصلاحیتوں کی وجہ سے کوئی اور نہیں کر سکتا۔
اب ’اچھوت‘ اعلیٰ ترین ذات ہے
عالمگیریت 3.0 میں ’اچھوت‘ سب سے نچلی ذات نہیں بلکہ وہ سب سے اعلی ذات ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی برابری ان کے ہنر اورصلاحیتوں کی وجہ سے کوئی اور نہیں کر سکتا۔
سوال: آپ کو انڈیا میں عالمگیریت 3.0 کا اظہار کہاں نظر آیا؟
فریڈمین: میں آپ کو بنگلور کی ’دھروا‘ نامی ایک کمپنی کی مثال دوں گا۔ اس کمپنی کے دفاتر بنگلور کے مضافات میں ایک پرسکون سڑک پر واقع ہیں۔ اس کمپنی کے مالک ایک نوجوان راجیش راؤ ہیں جو کمپیوٹر گیمز کے بہت شوقین ہیں۔ آپ کو علم ہوگا کہ آج کل ’گیمنگ‘ کا کاروبار ہالی ووڈ سے بھی بڑھ کر ہے۔ فلموں کی نسبت زیادہ گیمز انٹرنیٹ سے داؤن لوڈ کی جاتی ہیں۔ راجیش یہ کاروبار شروع کرنا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا کہ انڈیا میں ہنر کی کمی نہیں۔ انڈیا کے مندروں میں ایسے فنکاروں کی کمی نہیں جو بہت اچھے مصور اور خطاط ہیں۔ اس نے ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ان فنکاروں کو گیم کی صنعت میں متعارف کروانے کا پروگرام بنایا۔ اس نے ایک کمپنی بنائی، کچھ کمپیوٹر خریدےاور ایک فائبر آپٹکس کمپیوٹر کنکشن لیا۔ انہوں نے مارکیٹ میں دستیاب مائیکرو سافٹ نیٹ میٹنگ، ای میل اور گوگل جیسے سافٹ وئیرز اور سرچ انجنز کو استعمال کر کے امریکی اور یورپین گیم کمپنیوں کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔
انہوں نے گوگل سے مغرب میں مقبول گیمز کے انداز اور کرداروں کا مشاہدہ کیا اور پھر ای میل اور دوسرے سافٹ وئیرز کی مدد سے ایک نئی گیم تخلیق کرکے انٹر نیٹ پر مارکیٹ کر دی۔ یہ گیم امریکی کمپنیوں کو اتنی پسند آئی کہ اب امریکہ کی ممتاز گیم بنانے والی کمپنیاں بنگلور کی ایک گلی میں دھروا کو گیمز کے لئے کردار بھیج رہی ہیں۔ دنیا کتنی چھوٹی ہو گئی ہے۔
سوال: جہاں تک فراہمیِ خدمات کا تعلق ہے، فرد کا اس میں کیا کردار ہوگا؟ کیا افراد مکمل طور پر کمپنیوں پر انحصار کر رہے ہوں گے؟
فریڈمین: آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہر فرد کو کسی کمپنی کے ذریعے ہی کام کروانا پڑے گا۔ بنگلور، انڈیا میں ’ایمفیسز‘ نامی ایک اور کمپنی ہے جسے جیری راؤ چلاتے ہیں۔ جیری نے یہ کمپنی امریکہ میں بنائی اور یہ بالکل ایک کمپیوٹر پورٹل کی طرح ہے۔ اس کے ذریعے جیری لوگوں کے ٹیکس کے مسائل حل کرتے ہیں۔ وہ امریکی اکاؤنٹنگ فرمز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ تمام انڈیا میں ان کے پاس ایسے اکاؤنٹنٹ موجود ہیں جو مختلف امریکی ریاستوں کے ٹیکس قوانین کے ماہر ہیں۔ ان میں سے کچھ صرف ڈیلاویئر کے ماہر ہیں تو کچھ صرف فلوریڈا کے۔ یہ گھر بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ جیری امریکی اکاؤنٹنگ فرمز اور انڈیا کے اکاؤنٹنٹس کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس گوشوارے انڈیا کے چارٹڈ اکاؤنٹنٹس کو بھیجتے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اس سال ایک لاکھ امریکی ٹیکس گوشوارے انڈیا میں بھرے جائیں گے۔
“بشکریہ بی بی سی“
درج ذیل تحریراس انٹرویو کا متن ہے جو امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ’سینٹر فار دی سٹڈی آف گلوبلائزیشن‘ کے رسالے کے ایڈیٹر نین چندانے نیویارک ٹائمز کے مشہور کالم نگار، مصنف اور عالمگیریت کے حامی تھامس فریڈمین سے کیا۔
--------------------------------------------------------------------------------
سوال: ہم نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار اور ’لیکسس اینڈ دی اولو ٹری‘ کے مصنف تھامس فریڈمین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
آپ ایک سال قبل بھی یہاں آئے تھے اور آپ نے عالمگیریت کے بارے میں دو باتیں کی تھیں۔ ایک تو یہ کہ دہشتگ ردی عالمگیریت کے راستے میں رکاوٹ ہے لیکن عالمگیریت کا عمل پھر بھی جاری ہے۔ دوسرا آپ نے یہ کہا تھا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عالمگیریت کا خاتمہ ہو گیا ہے انہیں دو ممالک، چین اور انڈیا، کی مثال دیکھنی چاہیے۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان ممالک نے اپنے مستقبل کے لئے عالمگیریت کے اصولوں کو اپنایا، اپنے عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے اور ان کی تعلیم اور سماجی ڈھانچے کی طرف توجہ دی اور تجارت اور طرزِ حکومت کی بہتر پالیسیاں بنائیں۔
سوال:آپ حال ہی میں انڈیا سے واپس آئے ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آپ کے پچھلے انٹرویو سے اب تک عالمگیریت میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟
تھامس فریڈمین: میرے خیال میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے جس کا ادراک مجھے انڈیا میں ہوا۔ میں پچھلے دو سال میں گیارہ ستمبر اور عراق کے معاملات میں مشغول تھا اور عالمگیریت سے میری توجہ ہٹ گئی تھی۔ میں نے اپنے انڈیا کے دورے میں عالمگیریت کی اصل روح کو سمجھا جو کچھ یوں ہے۔ عالمگیریت کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور کو ہم عالمگیریت 1.0 کہہ سکتے ہیں اور یہ دور اس وقت شروع ہوا جب ان ممالک سے واسکوڈے گاما اور کرسٹوفر کولمبس نے نئی دنیاؤں کی تلاش شروع کی۔ یہ دور چودھویں صدی میں شروع ہوا اور بھاپ سے چلنے والے انجن، ریلوے اور ٹیلی گراف کی ایجاد تک جاری رہا۔ اس کا اختتام پہلی جنگ عظیم پر ہوا۔ اس دور نے دنیا کو بہت بڑے سائز سے درمیانے سائز میں تبدیل کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمگیریت 2.0 کےدور کا آغاز ہوا جو سن دوہزار تک جاری رہا۔
سوال: سن دو ہزار میں کیا ہوا؟
فریڈمین: اس دور میں انٹرنیٹ اور فائبر آپٹیکس کی وجہ سے بنیادی طور پر عالمگیریت کا عمل تیز تر ہو گیا۔ اس کا ذکر میں نے اپنی کتاب ’لیکسس اینڈ دی اولو ٹری‘ میں بھی کیا ہے کہ دنیا کا سائز سکڑ کر درمیانے سے چھوٹے میں تبدیل ہوگیا۔ یہاں پر میں عالمگیریت کو چھوڑ کر نائن الیون کے معاملات میں مشغول ہو گیا تھا۔ اسی دوران ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ اور یہ عالمگیریت 3.0 کا آغاز تھا۔ عالمگیریت 3.0 کو ہم عالمگیریت 2.0 میں ہونی والی فائبر آپٹکس، کمپیوٹرز اور سافٹ وئیرز جیسی تیکنیکی تبدیلیوں کا نقطہ عروج کہہ سکتے ہیں۔ اگر عالمگیریت 2.0 میں دنیا کا سائز سکڑ کر درمیانے سے چھوٹے میں تبدیل ہو گیا تھا تو عالمگیریت 3.0 میں دنیا کا سائز چھوٹے سے سکڑ کر انتہائی چھوٹا ہو گیا۔ اگر عالمگیریت 2.0 کمپنیوں کی عالمگیریت تھی تو عالمگیریت 3.0 کو افراد کی عالمگیریت کہا جا سکتا ہے۔
سوال: آپ اس کی تشریح کیسے کریں گے؟
فریڈمین: میرے خیال میں ہم اقوام کی عالمگیریت سے کمپنیوں اور پھر افراد کی عالمگیریت کی طرف گامزن ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم ایک فرد کے طور پر یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہم عالمی ترسیل کی صف میں کہاں کھڑے ہیں۔ مطلب یہ کہ میں آج صبح ساؤتھ ویسٹ ائیر لائنز کے ذریعے یہاں پہنچا۔ بری خبر یہ ہے کہ نائن الیون کی وجہ سے مجھے سکیورٹی کے لئے ایک لمبی صف میں کھڑا ہونا پڑا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ میں ساؤتھ ویسٹ ائیر لائنز کا ٹکٹ اب ائیرپورٹ پر ٹکٹ مشین کے بجائے گھر بیٹھے کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کے ذریعے خرید سکتا ہوں۔
واشنگٹن ٹائمز میں ایک کہانی چھپی جس کے مطابق ایک نئی ویب سائٹ بنائی گئی ہے جس پر پانچ چھ سال کے بچے بھی اپنی ویب سائٹ بنا سکتے ہیں۔ آپ کو ایک فرد کے طور پر یہ سوچنا چاہیے کہ عالمی ترسیل کے نظام میں آپ کہاں کھڑے ہیں۔میرے اندر ایسی کون سے صلاحیتیں اور ہنر ہیں جو منفرد ہیں اور جن کی وجہ سے مجھے ’اچھوت‘ کہا جا سکتا ہے۔ عالمگیریت 3.0 میں ’اچھوت‘ سب سے نچلی ذات نہیں بلکہ وہ سب سے اعلی ذات ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی برابری ان کے ہنر اورصلاحیتوں کی وجہ سے کوئی اور نہیں کر سکتا۔
اب ’اچھوت‘ اعلیٰ ترین ذات ہے
عالمگیریت 3.0 میں ’اچھوت‘ سب سے نچلی ذات نہیں بلکہ وہ سب سے اعلی ذات ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی برابری ان کے ہنر اورصلاحیتوں کی وجہ سے کوئی اور نہیں کر سکتا۔
سوال: آپ کو انڈیا میں عالمگیریت 3.0 کا اظہار کہاں نظر آیا؟
فریڈمین: میں آپ کو بنگلور کی ’دھروا‘ نامی ایک کمپنی کی مثال دوں گا۔ اس کمپنی کے دفاتر بنگلور کے مضافات میں ایک پرسکون سڑک پر واقع ہیں۔ اس کمپنی کے مالک ایک نوجوان راجیش راؤ ہیں جو کمپیوٹر گیمز کے بہت شوقین ہیں۔ آپ کو علم ہوگا کہ آج کل ’گیمنگ‘ کا کاروبار ہالی ووڈ سے بھی بڑھ کر ہے۔ فلموں کی نسبت زیادہ گیمز انٹرنیٹ سے داؤن لوڈ کی جاتی ہیں۔ راجیش یہ کاروبار شروع کرنا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا کہ انڈیا میں ہنر کی کمی نہیں۔ انڈیا کے مندروں میں ایسے فنکاروں کی کمی نہیں جو بہت اچھے مصور اور خطاط ہیں۔ اس نے ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ان فنکاروں کو گیم کی صنعت میں متعارف کروانے کا پروگرام بنایا۔ اس نے ایک کمپنی بنائی، کچھ کمپیوٹر خریدےاور ایک فائبر آپٹکس کمپیوٹر کنکشن لیا۔ انہوں نے مارکیٹ میں دستیاب مائیکرو سافٹ نیٹ میٹنگ، ای میل اور گوگل جیسے سافٹ وئیرز اور سرچ انجنز کو استعمال کر کے امریکی اور یورپین گیم کمپنیوں کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔
انہوں نے گوگل سے مغرب میں مقبول گیمز کے انداز اور کرداروں کا مشاہدہ کیا اور پھر ای میل اور دوسرے سافٹ وئیرز کی مدد سے ایک نئی گیم تخلیق کرکے انٹر نیٹ پر مارکیٹ کر دی۔ یہ گیم امریکی کمپنیوں کو اتنی پسند آئی کہ اب امریکہ کی ممتاز گیم بنانے والی کمپنیاں بنگلور کی ایک گلی میں دھروا کو گیمز کے لئے کردار بھیج رہی ہیں۔ دنیا کتنی چھوٹی ہو گئی ہے۔
سوال: جہاں تک فراہمیِ خدمات کا تعلق ہے، فرد کا اس میں کیا کردار ہوگا؟ کیا افراد مکمل طور پر کمپنیوں پر انحصار کر رہے ہوں گے؟
فریڈمین: آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہر فرد کو کسی کمپنی کے ذریعے ہی کام کروانا پڑے گا۔ بنگلور، انڈیا میں ’ایمفیسز‘ نامی ایک اور کمپنی ہے جسے جیری راؤ چلاتے ہیں۔ جیری نے یہ کمپنی امریکہ میں بنائی اور یہ بالکل ایک کمپیوٹر پورٹل کی طرح ہے۔ اس کے ذریعے جیری لوگوں کے ٹیکس کے مسائل حل کرتے ہیں۔ وہ امریکی اکاؤنٹنگ فرمز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ تمام انڈیا میں ان کے پاس ایسے اکاؤنٹنٹ موجود ہیں جو مختلف امریکی ریاستوں کے ٹیکس قوانین کے ماہر ہیں۔ ان میں سے کچھ صرف ڈیلاویئر کے ماہر ہیں تو کچھ صرف فلوریڈا کے۔ یہ گھر بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ جیری امریکی اکاؤنٹنگ فرمز اور انڈیا کے اکاؤنٹنٹس کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس گوشوارے انڈیا کے چارٹڈ اکاؤنٹنٹس کو بھیجتے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اس سال ایک لاکھ امریکی ٹیکس گوشوارے انڈیا میں بھرے جائیں گے۔
“بشکریہ بی بی سی“