محترم،
ميں آپ کے سامنے کچھ اعداد وشمار رکھنا چاہتا ہوں۔
سال 2002 ميں امريکی حکومت نے پاکستان کو صحت اور تعليم کے ضمن ميں 55۔39 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ سال 2003 ميں صحت اور تعليم کے ضمن ميں ہی مزيد 145۔50 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کو دی گئ۔ اگست 2002 ميں امريکی حکومت کے ادارے يوايس ايڈ اور وزارت تعليم حکومت پاکستان کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے تعليم کے شعبے ميں مزيد 100 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کے حصے ميں آئ۔ سال 2002 اور 2006 کے درميانی عرصے ميں يوايس ايڈ کی جانب سے تعليم، صحت اور معشيت کے شعبوں ميں پاکستان کو 449 ملين ڈالرز کی امداد دی گئ۔ ستمبر 2007 ميں حکومت پاکستان اور امريکہ کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے اگلے 5 سالوں ميں پاکستان کو مزيد 750 ملين ڈالرز کی امداد ملے گی۔ اس کے علاوہ اس سال فاٹا کے علاقوں ميں ترقياتی کاموں کے ليے 105 ملين ڈالرز کی امداد مختص کی گئ ہے۔
8 اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے کی تباہی کے بعد يوايس ايڈ کے ادارے نے پاکستان کو فوری طور پر 67 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ اس کے بعد ہونے والی تباہی سے نبرد آزما ہونے کے ليے اسی ادارے نے مزيد 200 ملين ڈالرز کی امداد حکومت پاکستان کو دی۔
1951 سے لے کر اب تک يوايس ايڈ کی جانب سے صرف تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں پاکستان کو جو مجموعی امداد دی گئ ہے وہ 7 بلين ڈالرز ہے۔
پاکستان کو ترقياتی کاموں کے ضمن ميں سب سے زیادہ امداد دينے والا ملک امريکہ ہے۔ دوسرے نمبر پر جاپان اور تيسرے نمبر پر برطانيہ ہے۔ اس کے بعد جرمنی، فرانس اور ہالينڈ کا نمبر آتا ہے۔
ميں نے يہ سارے اعداد وشمار کسی آرٹيکل، کتاب يا رسالے سے نہيں حاصل کيے بلکہ براہراست يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں۔ يہ اعداد وشمار محض تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں ملنے والی امداد کےحوالے سے ہيں۔ اس ميں وہ امداد شامل نہيں ہے جو دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے حکومت پاکستان کو براہراست دی گئ ہے۔ وہ امداد يو ايس ايڈ کے داۂرہ اختيار سے باہر ہے۔ ايک بات اور، يوايس ايڈ کا ادارہ نہ صرف حکومت پاکستان کو امداد فراہم کرتا ہے بلکہ پاکستان ميں کام کرنے والی بے شمار امدادی تنظيميں بھی اس داۂرہ کار ميں آتی ہيں۔ ان اعداد وشمار کو پيش کرنے کا مقصد يہ نہيں ہے کہ ميں آپ کے سامنے امريکہ کا مثبت اميج پيش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور نہ ہی ميں امريکہ کی خارجہ پاليسی کی حمايت کر رہا ہوں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی کے بہت سے پہلوؤں پر تنقيد کی جا سکتی ہے۔ ليکن ميں تصوير کا دوسرا رخ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
کيا پاکستان کے ہر قومی مسلئے اور حادثے کا ذمہ دار بلواسطہ يا بلا واسطہ امريکہ کو قرار دے کر ہم اپنی قومی ذمہ داريوں سے چشم پوشی نہيں کرتے؟ حد تو يہ ہے کہ ہم صدر پرويز مشرف کی تمام تر پاليسيوں (اس بات سے قطع نظر کے وہ صحيح ہيں يا غلط) کا ذمہ دار امريکہ کو ہی ٹھراتے ہيں۔ صدر مشرف کو پاکستان کا صدر امريکہ نے نہيں بنايا۔ انہيں قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب کردہ نمايندوں نے 57 فيصد ووٹ دے کر ملک کا صدر بنايا ہے۔ يہی نمايندے 18 فروری کو دوبارہ عوام کے سامنے پيش ہوں گے، اگر عوام سمجھتی ہے کہ انھوں نے غلط فيصلہ کيا تھا تو ذات پات برادری اور سياسی وابستگی سے ہٹ کر ملک کے ليے صحيح فيصلہ کريں۔
کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار"بيرونی عناصر" نہيں بلکہ اس ملک کے سياست دان ہوتے ہيں جو منتخب ہو کر اسمبليوں ميں جاتے ہيں اور ملک کے ليے قوانين بناتے ہيں۔ ليکن ہمارے ملک ميں سياست دان جب عوام کے سامنے پيش ہوتے ہيں تو اپنی کاردگی پر بات کرنے کی بجائے "کشمير ہمارا ہے" اور "امريکہ کا جو يار ہے، غدار ہے، غدار ہے" جيسے پرجوش نعرے دے کر اپنی تمام ذمہ داريوں سے ہاتھ صاف کر ليتے ہيں۔ کيا وجہ ہے کہ جو اعداد وشمار ميں نے آپ کے سامنے رکھے ہيں وہ آج تک کبھی کسی سياست دان نے پيش نہيں کيے؟
اگر امريکہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے تو امريکہ پاکستان کو امداد دينے والا سب سے بڑا ملک کيوں ہے؟ جہاں تک ايٹمی اساسوں کے حوالے سے تشويش کا سوال ہے تو ميڈيا کی قياس آرائيوں اور اخباری تبصروں سے ہٹ کر ميں آپ کی توجہ امريکی سينيٹ کی ہوم لينڈ سيکيورٹی کے چيرمين جوزف ليبرمين کے اس بيان کی طرف دلواتا ہوں
"پاکستان کے ايٹمی اساسے محفوظ ہاتھوں ميں ہيں۔ ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov