عالمی دھشت گرد: امریکہ

ہمت شائد آپ کو اندازہ ہوگا کہ کسی بھی حکومت کو ہمیشہ مخالفوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک وجہ سے یا دوسری وجہ سے یہ بات ہمیشہ درست رہی ہے، یہی صورت حال آج بھی ہے۔ معاملہ ہے پاکستان میں تخریب کاری کا۔ آپ اس کو بین الاقوامی تاریخ کے تناظر میں کیوں‌دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور کیوں یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ امریکہ مسلمانوں کا دشمن ہے؟ مسلمان کود مسلمانوں کا کتنا بڑا دشمن ہے، اس کی کتنی مثالیں ہیں۔
ایران عراق جنگ مسلمانوں کے درمیان تھی یا مسلمانوں اور امریکہ کے خلاف؟ آج طالبان اسلام کے نام پر افغانستان اور پاکستان میں دندناتے پھر رہے ہیں، ان کی توجہ ایران پر کیوں نہیں، جبکہ ایران کی آبادی بھی کم ہے اور علاقہ بھی پاکستان سے بہتر ہے؟ اگر آپ چاہیں تو میں پچھلے 10 یا 20 سالوں میں‌مسلمانوں کے مسلمانوں‌پر کئے گئے مظالم کی لسٹ لکھ دیتا ہوں۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ خود مسلمان مسلمان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

بی بی سی نے اسلام آباد میں‌ ہونے والے طالبان کے قتل عام کے بعد ایک معصوم آدمی کو روتے ہوئے دکھایا تھا جس کا بچہ ہلاک ہوگیا تھا۔ جو رو رو کر کہہ رہا تھا ۔۔۔ کتا بھی کتے کو نہیں کھاتا ۔۔۔۔ ہم کہاں جارہے ہیں۔ آپس میں لڑ رہے ہیں اور الزام امریکہ کو دے رہے ہیں؟
 
فاروق اپ غور کریں اور معاملے کی اصل کی طرف جائیں تو معاملے سلجھانے میں‌اسانی ہوگی۔ اگر اپ یرقان کے مریض کے پیلے رنگ کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور خود یرقان کا علاج نہیں‌کریں‌گے تو مرض کبھی دور نہیں‌ہوگا۔ یہ تمام قتل و غارت گری کا ماحول جس نے پیدا کیا ہے اس کو پہچاننا ضروری ہے پھر ہی درستگی ہوگی۔ یہ تھریڈ شیطان بزرگ کی سیاہ کاریوں کا بیان تھا مگر اپ مقامی مسائل لیکر اگئے اور چھوٹے معاملات کو اچھال رہے ہیں۔ جن معاملات پر اپ بات کررہے ہیں وہ بہت ہی مائیکرو ہیں اور انسانیت جس مشکل میں شیطان بزرگ کی وجہ سے پھنس گئی ہے اس کی اصل وجہ نہیں‌ہیں۔ اپ کیوں اپنے ذھن کو محدود کررہے ہیں ۔ ذہن کو وسیع کریں اور معاملے کو اچھی طرح سمجھیں۔ یہ کرنے کے بجائے اپ مجھے جاہل، کم عقل، اور خود مجھے محدود و مقامی کہہ رہے ہیں حالانکہ کریہ اپ خود رہے ہیں۔
 
عالمی دھشت گرد اب پاکستان میں‌دھشت گردی کا بازارگرم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانیوں‌کو متحد ہوکرمقابلہ کرنا پڑے گا۔ اپنے تمام معاملوں‌کو اس تناظر میں‌دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بالاخر امریکہ پاکستان کی سرعت انگیز تباہ کن حملہ کہ صلاحیت کو چھین لینا چاہتا ہے تاکہ بے دست و پا کرکے فائدہ اٹھاتا رہے۔
یہ تھریڈ جو کچھ بھی رہا ہو، آپ کے ان کمنٹس پر بات کی تھی۔ پاکستان روس نہیں ہے کہ اس کے لئے ایک سرد جنگ کا آغاز کیا جائے۔ 60 سالوں میں پاکستان یا امریکہ نے ایک دوسرے کے خلاف کوئی جارحانہ قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اس بات کو ہوا دے رہے ہیں انہوں نے بے تحاشہ پاکستانی جانیں‌لی ہیں۔ اور دین و دنیا میں فساد فی الارض اللہ کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ پاکستان میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذمہ داروں کو کسی طور سراہا نہیں جاسکتا، ان مجرم لوگوں کا امریکہ کو پاکستان کا فرضی دشمن قراد دینا انتہائی جاہلانہ بات ہے۔ آج تک پاکستان کی دفاعی قوت کا دار مدار امریکہ کی مدد پر رہا ہے۔ پچلے ساٹھ سالوں میں امریکی دفاعی ہتھیار نکال دیجئے تو پاکستان فوج کیا رہ جائے گی اس کا آپ کو اندازہ ہے؟ پھر آپ امریکہ کو پاکستان کا دشمن کس طرح قرار دیتے ہیں؟
جو مجرم مولویوں کا روپ دھار کر عوام الناس کے قتل عام کے لئے بچوں کو تیار کررہے ہیں ان کو پاکستان کا اور مسلمانوں کا دوست قرار دینا کس طور عقل مندانہ ہے؟ اپنی آنکھوں پر سے پڑا ہوا پردہ اٹھائیے، اور حقیقت کو دیکھئے۔ کہ قتل عام میں کن لوگوں کا ہاتھ ہے۔ یہ اس قدر بزدل ہیں کہ سامنے بھی نہیں آتے؟ چھپ چھپ کر وار کرتے ہیں؟

کسی بات کو جاہلانہ قرار دینا اور ثابت کرنا اور آپ کو جاہل کہنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ آپ دوبارہ سے پڑھئے، اور دیکھ کر بتائیے کہ آپ کو جاہل کہا گیا ہے یا ان باتوں کو جاہلانہ قرار دیا گیا ہے جو اعداد شمار سے بہت دور ہیں۔ پاکستانی ہر ایسے جو مجرم کو جو مولوی کے بھیس میں پاکستانی عوام پر چھپ چھپ کر حملے کرتا ہو، پاکستانی خون سے نہاتا ہو۔ سخت مذمت کرتے ہیں، حمایت نہیں کرتے۔
یہ بہت واضح ہے کی ہماری ملک گیر سیاسی جماعتیں، ایسے مجرمانہ ٹولے میں شامل نہیں ہیں۔
 
فاروق ایک بات کو بار بار دھرانا مجھے کچھ پسند نہیں ۔ یہ تکرار کے زمرے میں اتا ہے جو ناخوشگوار بحث کی علامت ہے۔ مگر اپ کو بار بار کہنے کے باوجود سمجھ نہیں ارہا تو پھر دھرارہا ہوں
- لاکھوں انسانوں‌کا قتل کس کھاتے میں‌اتا ہے؟ جوامریکہ کررہا ہے؟
- ہر وہ ملک جہاں شیطان بزرگ نے جارحیت کی وہاں‌قتل و غارت گری کو فروغ دیا ۔ کیا یہ دوستی کی علامت ہے؟
- اس شیطان بزرگ نے بہت سارے ممالک پر حملے کیے جن میں ایٹمی حملے بھی شامل ہیں
- یہ دوسرے ملک کی فوجوں کو سپورٹ کرتا ہے جو اپنے ملک کے لوگوں کے گلے کاٹتی ہیں ۔ یہ صرف ان فوجوں‌کو اسلحہ دیتا ہے جو امریکی مفادات کی کتے کی مانند حفاظت کرتی ہیں
- یہ مسلمان ممالک کے وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے
- یہ اسرائیل کو اسلحہ و امداد دیتا ہے تاکہ وہ فلسطین پر ناجائز قبضہ برقرار رکھ سکے
یہ اس دھشت گرد کو اپ اپنا دوست جانتے ہیں۔ اس میں‌کوئی شک نہیں کہ یہ اپنے پالتوں کو چند ٹکڑے بھی ڈال دیتا ہے۔

اس پوسٹ کے بعد میں‌اپ کی اس موضوع پر کسی پوسٹ‌کا جواب نہیں‌دوں‌گا جب تک اپ اپنے طرز عمل ور طرز تخاطب پر نظر ثانی نہ کرلیں۔
 
دور نہ جائیں۔ ہندوستان کی، سپین کی، افریقہ کی تاریخ‌ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ کاٹنے مارنے کی یہی صورتحال مسلمانوں نے برپا کی ہوئی تھی۔ تاریخی حقیقتوں سے فرار مشکل ہے۔ اور ان تاریخی حقایق کو لے کر یہ ثابت کرنا کہ پاکستان میں تخریب کاروں کی کاروائی جائز ہے، بے معنی ہے۔ اس پر آپ اگر کچھ فرمانا نہیں چاہتے تو یہی سمجھداری ہے۔ آپ جذباتی شدت کا شکار ہیں ، کسی سمجھدار پاکستانی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ پاکستان میں دھماکوں میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ یا خودکش حملے امریکہ کروارہا ہے۔ جو لوگ یہ حملے کروارہے ہیں اس کی ذمہ داری کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ کو کوئی وحی آتی ہے کہ اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ ایسی غیر ذمہ دارانہ بات کے لئے حوالہ تو عنایت فرمائیں۔ خوابوں کی دنیا سے نکلیں اور حقیقت کو دیکھیں۔ میں نے تو آج تک افواہ بھی نہیں سنی کہ پاکستان میں ہونے والے خودکش دھماکوں میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ تو آپ ایسی افواہیں کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اور آپ کیوں مصر ہیں کہ پاکستانی ان تخریب کاروں کا ساتھ دیں جنہوں نے پاکستان کا امن درہم برہم کررکھا ہے؟
 
فواد صاحب کچھ عرصہ تک میں امریکہ آنے والا ہوں اگر میرے ساتھ ائیر پورٹ‌ پر وہی سلوک ہوا جو یوکے کے ائیر پورٹس پر ہوتا ہے تو یقینا مجھ پر امریکہ کا ایک خوشگوار اثر پڑے گا اور اگر وہ ہوا جو قصوں میں‌ مشہور ہے تو معذرت کے ساتھ امریکہ کا تاثر اچھا نہیں پڑے گا۔

میں‌اپنی امریکہ بیتی تفصیل سے لکھوں‌گا انشاءللہ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
محترم،

ميں آپ کے سامنے کچھ اعداد وشمار رکھنا چاہتا ہوں۔

سال 2002 ميں امريکی حکومت نے پاکستان کو صحت اور تعليم کے ضمن ميں 55۔39 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ سال 2003 ميں صحت اور تعليم کے ضمن ميں ہی مزيد 145۔50 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کو دی گئ۔ اگست 2002 ميں امريکی حکومت کے ادارے يوايس ايڈ اور وزارت تعليم حکومت پاکستان کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے تعليم کے شعبے ميں مزيد 100 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کے حصے ميں آئ۔ سال 2002 اور 2006 کے درميانی عرصے ميں يوايس ايڈ کی جانب سے تعليم، صحت اور معشيت کے شعبوں ميں پاکستان کو 449 ملين ڈالرز کی امداد دی گئ۔ ستمبر 2007 ميں حکومت پاکستان اور امريکہ کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے اگلے 5 سالوں ميں پاکستان کو مزيد 750 ملين ڈالرز کی امداد ملے گی۔ اس کے علاوہ اس سال فاٹا کے علاقوں ميں ترقياتی کاموں کے ليے 105 ملين ڈالرز کی امداد مختص کی گئ ہے۔

8 اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے کی تباہی کے بعد يوايس ايڈ کے ادارے نے پاکستان کو فوری طور پر 67 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ اس کے بعد ہونے والی تباہی سے نبرد آزما ہونے کے ليے اسی ادارے نے مزيد 200 ملين ڈالرز کی امداد حکومت پاکستان کو دی۔

1951 سے لے کر اب تک يوايس ايڈ کی جانب سے صرف تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں پاکستان کو جو مجموعی امداد دی گئ ہے وہ 7 بلين ڈالرز ہے۔

پاکستان کو ترقياتی کاموں کے ضمن ميں سب سے زیادہ امداد دينے والا ملک امريکہ ہے۔ دوسرے نمبر پر جاپان اور تيسرے نمبر پر برطانيہ ہے۔ اس کے بعد جرمنی، فرانس اور ہالينڈ کا نمبر آتا ہے۔

ميں نے يہ سارے اعداد وشمار کسی آرٹيکل، کتاب يا رسالے سے نہيں حاصل کيے بلکہ براہراست يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں۔ يہ اعداد وشمار محض تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں ملنے والی امداد کےحوالے سے ہيں۔ اس ميں وہ امداد شامل نہيں ہے جو دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے حکومت پاکستان کو براہراست دی گئ ہے۔ وہ امداد يو ايس ايڈ کے داۂرہ اختيار سے باہر ہے۔ ايک بات اور، يوايس ايڈ کا ادارہ نہ صرف حکومت پاکستان کو امداد فراہم کرتا ہے بلکہ پاکستان ميں کام کرنے والی بے شمار امدادی تنظيميں بھی اس داۂرہ کار ميں آتی ہيں۔ ان اعداد وشمار کو پيش کرنے کا مقصد يہ نہيں ہے کہ ميں آپ کے سامنے امريکہ کا مثبت اميج پيش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور نہ ہی ميں امريکہ کی خارجہ پاليسی کی حمايت کر رہا ہوں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی کے بہت سے پہلوؤں پر تنقيد کی جا سکتی ہے۔ ليکن ميں تصوير کا دوسرا رخ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

کيا پاکستان کے ہر قومی مسلئے اور حادثے کا ذمہ دار بلواسطہ يا بلا واسطہ امريکہ کو قرار دے کر ہم اپنی قومی ذمہ داريوں سے چشم پوشی نہيں کرتے؟ حد تو يہ ہے کہ ہم صدر پرويز مشرف کی تمام تر پاليسيوں (اس بات سے قطع نظر کے وہ صحيح ہيں يا غلط) کا ذمہ دار امريکہ کو ہی ٹھراتے ہيں۔ صدر مشرف کو پاکستان کا صدر امريکہ نے نہيں بنايا۔ انہيں قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب کردہ نمايندوں نے 57 فيصد ووٹ دے کر ملک کا صدر بنايا ہے۔ يہی نمايندے 18 فروری کو دوبارہ عوام کے سامنے پيش ہوں گے، اگر عوام سمجھتی ہے کہ انھوں نے غلط فيصلہ کيا تھا تو ذات پات برادری اور سياسی وابستگی سے ہٹ کر ملک کے ليے صحيح فيصلہ کريں۔

کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار"بيرونی عناصر" نہيں بلکہ اس ملک کے سياست دان ہوتے ہيں جو منتخب ہو کر اسمبليوں ميں جاتے ہيں اور ملک کے ليے قوانين بناتے ہيں۔ ليکن ہمارے ملک ميں سياست دان جب عوام کے سامنے پيش ہوتے ہيں تو اپنی کاردگی پر بات کرنے کی بجائے "کشمير ہمارا ہے" اور "امريکہ کا جو يار ہے، غدار ہے، غدار ہے" جيسے پرجوش نعرے دے کر اپنی تمام ذمہ داريوں سے ہاتھ صاف کر ليتے ہيں۔ کيا وجہ ہے کہ جو اعداد وشمار ميں نے آپ کے سامنے رکھے ہيں وہ آج تک کبھی کسی سياست دان نے پيش نہيں کيے؟

اگر امريکہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے تو امريکہ پاکستان کو امداد دينے والا سب سے بڑا ملک کيوں ہے؟ جہاں تک ايٹمی اساسوں کے حوالے سے تشويش کا سوال ہے تو ميڈيا کی قياس آرائيوں اور اخباری تبصروں سے ہٹ کر ميں آپ کی توجہ امريکی سينيٹ کی ہوم لينڈ سيکيورٹی کے چيرمين جوزف ليبرمين کے اس بيان کی طرف دلواتا ہوں

"پاکستان کے ايٹمی اساسے محفوظ ہاتھوں ميں ہيں۔ ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov

فواد صاحب
http://www.usaid.gov/faqs.html#q1
یہ لنک دیکھئے
What is USAID?

The U.S. Agency for International Development (USAID) is an independent agency that provides economic, development and humanitarian assistance around the world in support of the foreign policy goals of the United States​
.

امریکہ یونہی کسی ملک کو امداد فراہم نہیں کرتا
سرد جنگ کے زمانے میں دونوں عالمی طاقتوں نے ہر جغرافیائی اہمیت کے علاقے میں میں اپنے اتحادی بنا رکھے تھے اس لئے ہم بھی امریکی امداد کے مستحق قرار پائے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی امداد تقریبآ نہ ہونے کے برابر تھی
وہ تو بھلا ہوا سویت یونین کا کہ اس نے افغانستان پر تسلط جما لیا اور ہم نے پھر امریکی امداد لینی شروع کر دی
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ نے ہماری امداد سے ہاتھ کھینچ لیا
ایٹمی دھماکے کے بعد تو ہہم پر ورلڈ بنک اور آئی ایم کے ذریعے عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا
ہماری کریڈٹ ریٹنگ گر گئ حکومت کو مجبورآ عوام کے فارن کرنسی اکاؤنٹس ہضم کرنا پڑے
اگر 9-11کا سانحہ نہ ہوا ہوتا اور امریکہ ساری دنیا سے دہشت گردی ختم کرنے کا بیڑہ نہ اُٹھاتا تو امریکی امداد ایک سہانا خواب ہی رہتی۔

غیر ملکی امداد کے سہارے ترقی کرنا ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں
غیر ملکی امداد غیر ملکی ڈکٹیشن کے ہمراہ ہوتی ہے
غیر ملکی امداد کے ساتھ مہنگے غیر ملکی ماہرین بھی تشریف لاتے ہیں جن کو ہمارے حالات یا ضروریات سے آگاہی نہیں ہوتی
جب تک انہیں ہماری ضروریات کا ادراک ہوتا ہے انکی مدتِ ملازمت پوری ہو جاتی ہے
اکثر یہ امداد امداد نہیں ہوتی بلکہ نرم قرضے ہی ہوتے ہیں جو ہمارے قرضوں میں اضافہ کرتے ہیں
غیر ملکی امداد اکثر مشروط ہوتی ہے
اس لئے اس امداد کو رحمت کے روپ میں زحمت تصور کیا جاتا ہے

باقی سب صاحبان سے گزارش ہے کہ دہشتگردی کا جواب دہشت گردی سے دینا ہر گز دانشمندی نہیں
اگر مسلمان امریکہ کو اپنا دشمن مانتے ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کے خواہشمند ہیں تو پہلےاس کے ہم پلہ بنیں
ورنہ
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

والسلام
زرقا
 
اپ درست کہہ رہے ہیں۔
بدقسمتی سے امریکی دھشت گردی بڑھتی جارہی ہے اور عراق و افغانستان میں ہر روز لوگ امریکی گولیوں‌اور بموں‌کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اگر مسلم حق پر ہیں‌تو "دھشت گردی" کے خلاف ہر قربانی دیں گے ان شاللہ
 

ظفری

لائبریرین
ایک بات مجھے سمجھ نہیں آئی ۔ وہ یہ کہ چلو مان لیتے ہیں کہ امریکہ دہشت گرد ہے ۔ عراق ، افغانستان اور دیگر جگہوں پر اس نے دہشت اور خون کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ اس کے پاس طاقت ہے اس لیئے وہ دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس راستے میں آئی ہوئی وہ تمام رکاوٹیں بھی دور کرتا جارہا ہے جو اس کے لیئے کسی مشکلات یا پریشانی کا سبب بن سکتیں ہیں ۔ یہ تو ایک وہ طرزِ عمل ہے جو امریکہ اپنی طاقت کے بل بوتے کر رہا ہے ۔ مگر دوسرا طرزِ عمل جو ہمارا ہے جو کسی بیوہ کے کوسنے سے مختلف نہیں ۔ ہماری استعاعت کیا ہے ۔ ؟ ہماری اقتصادی اور معاشی حالات کس مقام پر ہے ۔ ہمارے پاس جنگ وحرب کے حوالے سے کہاں اور کب تک لڑنے کی صلاحیت ہے ۔ ہمارے پاس کس قسم کی عسکری ٹیکنالوجی ہے ۔ ایمٹی ہتھیار استعمال کرنے اور ہونے پر ہم کہاں ہونگے ۔ ؟ ہم ان سے مزاحمت تک تو کر نہیں سکتے مگر افسانوی باتیں کرکرکے حقیقت کی دنیا کو فراموش کرنے کی ناکام ضرور کوشش کرتے ہیں ۔ چند خود کش حملوں نے پورے ملک کو متاثر کردیا ہے ۔ عام زندگی مفلوج ہوگئی ۔ خوف و ہراس ، راہ میں چلتے ہوئے ہر شخص کے چہرے سے نمایاں ہے ۔ آج تک اپنے ہی ملک میں وہاں تک نہیں پہنچ سکے جہاں یہ خود کش حملوں کا منبع ہے ۔ اور امریکہ سے لڑنے اور اس کے ظلم کا واویلا مچاتے ہیں ۔ یہ تو کم عقلی کا انتہائی درجے کا مظاہرہ ہے ۔ امریکہ جو کچھ کررہا ہے سو وہ کررہا ہے ، میرا مخاطب امریکہ نہیں ۔ میں تو اپنے ہی لوگوں کو مخاطب کروں گا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ ایک لیڈر کی موت پر اپنے ہی پڑوسیوں‌کو آگ اور خون میں نہلا اور جلا دیا گیا ۔ مگر کسی کو اپنے گریبان تک کا خیال نہیں آیا ۔ یہی بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی کہ وہی کام ہم خود کرتے ہیں جس کا امریکہ کو موردِ الزام ٹہرایا جاتا ہے تو اپنے اوپر انگلی اٹھانے کی ہمیں زحمت نہیں ہوتی ۔ کوئی خود سے شرمندہ کیوں نہیں ہوتا ۔ کسی کو خیال نہیں آتا کہ ہم ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں ۔ کسی کا سیاسی اور عقلی شعور یہاں کام نہیں‌کرتا کہ ملک میں بھی لوگ امریکہ کی طرح اپنے مفادات کی خاطر قبرستان سجا دیتے ہیں ۔ مگر منافقت کا یہ دبیز پردہ ہمارے آنکھوں کو اتنا بھا چکا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں ، ناکامیوں ، کوتاہیوں ، منافقتوں اور نااہلیوں کو کسی اور کے سر پر منڈھنے اور تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اور سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ کرکے اتنے خوش اور مطمئن ہوجاتے ہیں کہ جیسے ہم نے اپنی آنے والی نسلوں پر شاید کوئی کسی قسم کا احسان کردیا ہے ۔ ہر بات کا سرخیل امریکہ ہوتا ہے ۔ ہر سازش کے پیچھے امریکہ ہوتا ہے اور ہر تباہی کے پیچھے امریکہ ہوتا ہے ۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے کاموں میں امریکہ بیشک پیچھے ہوتا ہوگا مگر ہم ان معاملوں میں سب آگے ہوتے ہیں جس کا ہمیں ذرا بھر بھی احساس نہیں ۔ اپنے اوپر مسلط ہر سزا کو ہر مسلمان اپنے کسی گناہ کا باعث سمجھتا ہے ۔ مگر امریکہ کو اپنے اوپر مسلط دیکھ کر یہاں ایمان کی تشریح بدل جاتی ہے ۔ میں یہ سب کہنا تو نہیں چاہتا تھا مگر کیا کروں کہ ۔۔۔

شعلہ ہوں ، بھڑکنے کی گذارش نہیں کرتا
سچ منہ سے نکل جاتا ہے ، کوشش نہیں کرتا​
 
ظفری اپ نے کوئی نئی بات نہیں‌دھرائی ہے یہ وہی سبق ہے جو پچھلے پوسٹز میں‌امریکی ایجنٹ پڑھ رہے ہیں۔
دیکھیے جب اپ مان لیتے ہیں کہ امریکہ دھشت گردی کررہا ہے اور تمام معاملات کے بگاڑ میں امریکہ ہی کا ہاتھ ہےتو اپ پہلا مرحلہ طے کرلیتے ہیں۔ معاملات کے سلجھانے میں پہلامرحلہ بہت اہم ہے۔ جب بگاڑ کے اصل ذمہ دار کی شناخت ہوجاتی ہے تو پھر اپ اس بگاڑ کے درست کرنے کے طریقے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میرا اور اپ کا مخاطب اپنے ہی عوام ہیں‌مگر اپ صرف اپنے عوام کو معطون کرکے اور ذھنی شکست تسلیم کرکے سر تسلیم خم کرنا چاہتے ہیں۔
جب اپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ امریکہ دھشت گردی کررہا ہے تو ایے دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟
اپ اپنے شہروں میں‌ ریلیاں‌منقعد کریں‌کہ امریکی دوسرے ممالک سے نکل جائے ۔ یہ ریلیاں بیرون امریکہ اور خود اپ جیسے لوگ اندرون امریکہ منعقد کریں۔
افغانستان، عراق اور دوسرے ممالک میں‌ کٹھ پتلیاں‌ حکومتوں‌کو رد کریں اور اقوام عالم پر زور دیں کہ وہ عوام کی حقیقی نمائندہ حکومتوں‌کو قائم کرنے میں‌مدد کریں‌نہ کہ امریکہ دھشت گردی میں۔
ہر فورم پر امریکی دھشت گردی کے نقصانات کو واضح کریں‌کہ یہ خود امریکی عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔ دیکھیے انسان کبھی بھی دھشت گردی کو پسند نہیں‌کرتا اور خود امریکی عوام جانتے ہیں‌کہ امریکی حکومت دھشت گردی کررہی ہے۔ میں‌جتنے بھی سمجھدار امریکیوں‌سے ملا وہ اپنی حکومتوں‌کے اعمال پر معذرت خواہی ہی کررہے ہوتے ہیں۔ یہ میر ا ذاتی مشاہدہ بھی۔ لہذا امریکی عوام کو یہ احساس دلایے کہ امریکی حکومت کی دھشت گردیوں‌کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

اپنی اپنی حکومتوں‌کو زور ڈالیں‌کہ وہ امریکی دھشت گردیوں‌کی سپورٹ بند کریں‌اور لاجسٹک سپورٹ کا سلسلہ منقطع کریں۔

تصور کریں‌کہ اگر ناٹو اور امریکی افغانستان سے نکل جائیں تو پاکستان میں‌ یہ جو دھشت گردیوں‌کا سلسلہ شروع ہے وہ رک جائے گا۔
اگر عراق سے امریکی افواج نکل جائیں‌تو عراق میں بھی امن ہوگا۔
اگر فلسطین کو ان کی زمین و اختیار واپس مل جائے تو اسرائیل بھی امن سے رہ سکے گا۔

ذھنی شکست نہ تسلیم کریں‌یہ طبیعی شکست سے زیادہ بری ہے۔
بگاڑ کے ذمہ دار کو پہچانیں‌ پھر بگاڑ کے سلجھاو کے لیے کام کریں۔
اپنے عوام اور خود اپنے اپ کو معطون کرکے اپ صرف غلام بن جائیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم،

ميں آپ کے سامنے کچھ اعداد وشمار رکھنا چاہتا ہوں۔

سال 2002 ميں امريکی حکومت نے پاکستان کو صحت اور تعليم کے ضمن ميں 55۔39 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ سال 2003 ميں صحت اور تعليم کے ضمن ميں ہی مزيد 145۔50 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کو دی گئ۔ اگست 2002 ميں امريکی حکومت کے ادارے يوايس ايڈ اور وزارت تعليم حکومت پاکستان کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے تعليم کے شعبے ميں مزيد 100 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کے حصے ميں آئ۔ سال 2002 اور 2006 کے درميانی عرصے ميں يوايس ايڈ کی جانب سے تعليم، صحت اور معشيت کے شعبوں ميں پاکستان کو 449 ملين ڈالرز کی امداد دی گئ۔ ستمبر 2007 ميں حکومت پاکستان اور امريکہ کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے اگلے 5 سالوں ميں پاکستان کو مزيد 750 ملين ڈالرز کی امداد ملے گی۔ اس کے علاوہ اس سال فاٹا کے علاقوں ميں ترقياتی کاموں کے ليے 105 ملين ڈالرز کی امداد مختص کی گئ ہے۔

8 اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے کی تباہی کے بعد يوايس ايڈ کے ادارے نے پاکستان کو فوری طور پر 67 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ اس کے بعد ہونے والی تباہی سے نبرد آزما ہونے کے ليے اسی ادارے نے مزيد 200 ملين ڈالرز کی امداد حکومت پاکستان کو دی۔

1951 سے لے کر اب تک يوايس ايڈ کی جانب سے صرف تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں پاکستان کو جو مجموعی امداد دی گئ ہے وہ 7 بلين ڈالرز ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov


فواد صاحب، آپ نے یقیناً صحیح اعداد و شمار پیش کیئے، اور یہ بات سبھی پڑھے لکھے پاکستانی جانتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو امداد دینے میں سرِ فہرست ہے۔

میرا استفسار صرف اتنا سا ہے کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ امریکہ کا کوئی ایسا ادارہ بھی ہے جو یہ معلوم کرتا ہو کہ پاکستان کو ملنے والی ترقیاتی، غیر ترقیاتی، فوجی اور دہشت گردی کے خلاف ملنے جنگ میں ملنی والی امداد کا مصرف کیا ہے اور کیا یہ صحیح بھی ہے کہ یا نہیں۔

یہ بات سبھی پاکستانی جانتے ہیں کہ پاکستان کو ملنے والی امداد کبھی بھی صحیح طور پر استعمال نہیں ہوئی، بلکہ کرپٹ حکمرانوں، سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی نذر ہو جاتی ہے جسکی ایک تازہ ترین مثال 'زلزلے' کے دوران ملنی والی مدد کا غلط استعمال ہے، یہ بات یقیناً امریکہ بہادر بھی جانتا ہوگا بلکہ ہم سب سے بہتر جانتا ہوگا تو پھر آپ کیوں رقم دیتے ہیں ہمارے کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھ میں مدد کے نام پر۔ :confused:

ع- کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری اپ نے کوئی نئی بات نہیں‌دھرائی ہے یہ وہی سبق ہے جو پچھلے پوسٹز میں‌امریکی ایجنٹ پڑھ رہے ہیں ۔
ہمت علی صاحب صحیح بات تو یہ ہے کہ آپ کے لیئے کوئی بھی نئی بات ، نئی نہیں ہوسکتی ۔ اس کا مجھے اندازہ ایک دو ٹاپک پر آپ سے بحث کر کے ہوچکا ہے ۔ لہذا اس سلسلے میں‌کوئی نئی بحث کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ مگر میں اس موضوع پر اپنا استدال ان لوگوں کے لیئے ضرور پیش کرتا رہوں گا ۔ جو حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ۔

دیکھیے جب اپ مان لیتے ہیں کہ امریکہ دھشت گردی کررہا ہے اور تمام معاملات کے بگاڑ میں امریکہ ہی کا ہاتھ ہےتو اپ پہلا مرحلہ طے کرلیتے ہیں۔ معاملات کے سلجھانے میں پہلامرحلہ بہت اہم ہے۔ جب بگاڑ کے اصل ذمہ دار کی شناخت ہوجاتی ہے تو پھر اپ اس بگاڑ کے درست کرنے کے طریقے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میرا اور اپ کا مخاطب اپنے ہی عوام ہیں‌مگر اپ صرف اپنے عوام کو معطون کرکے اور ذھنی شکست تسلیم کرکے سر تسلیم خم کرنا چاہتے ہیں۔

بڑی عجیب سی بات کہی آپ نے ۔ یعنی بات کو سرے سے ہی نہ سمجھ کر اپنا نقطہِ نظر پیش کرنا شاید آپ کا محبوب مشغلہ ہے ۔ اور آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی کو اس کی غلطی کا احساس دلایا جائے تو یہ معطون اور ذہنی شکست کے زمرے میں آتا ہے ۔ یہ فلسفہ تو صرف ضدی اور اپنی بات منوانے والوں کا شیوہ ہوتا ہے ۔

جب اپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ امریکہ دھشت گردی کررہا ہے تو ایے دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟
اپ اپنے شہروں میں‌ ریلیاں‌منقعد کریں‌کہ امریکی دوسرے ممالک سے نکل جائے ۔ یہ ریلیاں بیرون امریکہ اور خود اپ جیسے لوگ اندرون امریکہ منعقد کریں۔
افغانستان، عراق اور دوسرے ممالک میں‌ کٹھ پتلیاں‌ حکومتوں‌کو رد کریں اور اقوام عالم پر زور دیں کہ وہ عوام کی حقیقی نمائندہ حکومتوں‌کو قائم کرنے میں‌مدد کریں‌نہ کہ امریکہ دھشت گردی میں۔
ہر فورم پر امریکی دھشت گردی کے نقصانات کو واضح کریں‌کہ یہ خود امریکی عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔ دیکھیے انسان کبھی بھی دھشت گردی کو پسند نہیں‌کرتا اور خود امریکی عوام جانتے ہیں‌کہ امریکی حکومت دھشت گردی کررہی ہے۔ میں‌جتنے بھی سمجھدار امریکیوں‌سے ملا وہ اپنی حکومتوں‌کے اعمال پر معذرت خواہی ہی کررہے ہوتے ہیں۔ یہ میر ا ذاتی مشاہدہ بھی۔ لہذا امریکی عوام کو یہ احساس دلایے کہ امریکی حکومت کی دھشت گردیوں‌کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
اس اخلاقی جارحیت کے لیئے کوشش کی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ جب تصادم کی فضا قائم نہیں رکھنی تو یہ بتانا بھی فرض ہے کہ کہاں ظلم ہو رہا ہے اور کون کرر ہا ہے ۔ مگر موجودہ صورتحال میں یہ کافی نہیں‌ ہے ۔ آپ کو انصاف حاصل کرنا ہے اور دنیا میں انصاف صرف طاقت کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے ۔اس طرح کی ریلیاں ، اتجاج اور مظاہرے کئی دہائیوں سے نہ صرف دنیا بلکہ امریکہ میں خود ہورہے ہیں ۔ اگر ایسی تحریکوں سے تبدیلیاں ممکن ہوتیں تو سپر پاور کا تشخص ہی کوئی دوسرا ہوتا ۔ یہ اقدام میرے نزدیک ایک اخلاقی جارحیت ہے تو ہے مگر اس کے اثر دیرپا ثابت نہیں ہوسکتے ۔

اپنی اپنی حکومتوں‌کو زور ڈالیں‌کہ وہ امریکی دھشت گردیوں‌کی سپورٹ بند کریں‌اور لاجسٹک سپورٹ کا سلسلہ منقطع کریں۔

تصور کریں‌کہ اگر ناٹو اور امریکی افغانستان سے نکل جائیں تو پاکستان میں‌ یہ جو دھشت گردیوں‌کا سلسلہ شروع ہے وہ رک جائے گا۔
اگر عراق سے امریکی افواج نکل جائیں‌تو عراق میں بھی امن ہوگا۔
اگر فلسطین کو ان کی زمین و اختیار واپس مل جائے تو اسرائیل بھی امن سے رہ سکے گا۔

یہاں آپ نے بڑی دلچسپ بات کہی ہے ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس بات میں آپ نے " تصور " بھی کروادیا ۔ ;)
امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ تو کیا ، جہاں‌جہاں کسی بھی اور قسم کی سپورٹ کی ضرورت پڑی تو وہ حاصل کر لے گا ۔ اسے کسی سے درخواست نہیں کرنی ۔ بھائی میرے ۔۔۔ امریکہ کی طاقت کا توازن جس درجے میں ہے آپ شاید اس سے واقف نہیں ہیں ۔ آپ خود امریکہ نواز ملک میں رہتے ہیں ۔ ذرا اس ملک کے لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ اس امریکہ کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں تو آپ کو حقیقت کا اندازہ ہوجائے گا ۔ یہ تو کسی پہاڑ پر موجود کسی مسجد میں بیٹھے ہوئے کسی مولوی کا خواب لگتا ہے کہ وہ ایسے عمل کو اپنی کسی بشارت سے تعبیر کرکے لوگوں کو ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کریں کہ جس کا راستہ صرف خودکشی کے علاوہ کوئی اور نہ ہو ۔

ذھنی شکست نہ تسلیم کریں‌یہ طبیعی شکست سے زیادہ بری ہے۔
بگاڑ کے ذمہ دار کو پہچانیں‌ پھر بگاڑ کے سلجھاو کے لیے کام کریں۔
اپنے عوام اور خود اپنے اپ کو معطون کرکے اپ صرف غلام بن جائیں گے۔


اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں جناب ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
( گذشتہ سے پیوستہ )
اس وقت مسلمان کسی قسم کی مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اب اگر طاقت نہیں ہے تو کوشش کی جائے کہ تصادم کی فضا نہ پیدا ہو ۔ آپ حالات میں خرابی پیدا نہ ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں ۔ تاکہ اپنے اندر طاقت اور قوت پیدا کرسکیں ۔ بصورتِ دیگر یہ تو ایسا ہوگا کہ جرم ِ ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر آپ خودکشی کریں گے ۔
اس وقت امریکہ سپر پاور ہے اور سپر پاورز ظاہر ہے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیئے نکلیں گے ۔ اپنی برتری کو قائم رکھنے کے لیئے جہاں ان کو ذرائع اور وسائل میسر آئیں گے وہ ان ذرائع اور وسائل تک رسائی حاصل کریں گے ۔ مستقبل میں ان کے مقابلے میں کوئی طاقت اگر سامنے آسکتی ہے تو اس کا راستہ روکنے کے لیئے اقدامات کریں گے ۔ دنیا میں ‌کوئی بین الاقوامی قوت کسی اخلاقی اصول کی پابند نہیں ہوتی ۔ لہذاٰ وہ ہر اخلاقی اصولوں کو پامال کریں گے ۔ اور جہاں جہاں ان کے مفادات ہونگے وہاں وہ ہر اخلاقی قدروں کو بھول جائیں گے ۔ جہموریت بھی یاد نہیں رہے گی ۔ اقدار بھی یاد نہیں رہے گا ۔ کچھ بھی یاد نہیں رہے گا ۔ یہ دنیا میں تمام سپر پاور کا طریقہ رہا ہے ۔ یعنی جب دنیا میں کسی قوم کو کسی بڑے پیمانے پر طاقت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اسی قسم کے رویئے اختیار کرتی ہے ۔ چلیں اپنے ملک کو ہی لے لیں کہ جب یہاں کسی کو طاقت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ کیا کرتا ہے ۔ ؟ اخلاقی حدود کی پابندی کرتا ہے ۔ ؟ یہ دیکھتا ہے کہ دستور میں کیا لکھا ہوا ہے۔ ؟ کیا یہ دیکھتا ہے کہ قانون میں کیا لکھا ہے ۔ ؟ وہ صرف اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے ۔ اور اس وقت یہی حیثیت عالمگیر طور پر امریکہ کو حاصل ہے ۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال اور مختلف زاویوں سے انفرادی ، ذاتی اور احمقانہ نظریات کی بھرمار سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میری قوم کی غلط رہنمائی کی جا رہی ہے ۔ اس کو ایسی آگ میں جھونکا جا رہا ہے جس سے بچ کر نکلنے کے کوئی امکانات نہیں ‌ہیں ۔ اس وقت اس قوم کو کسی قسم کی رہنمائی دی جارہی ہے ۔ یہی کہ ایک طوفان ہے جو امنڈا چلا آرہا ہے اس کے مقابلے میں جاؤ اور اپنے آپ کو فنا کردو ۔ اس وقت ہماری یہ ضرورت ہے کہ ہم اپنی تعمیر کریں ۔ امن کا وقفہ حاصل کریں جن جگہوں پر ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے ۔ وہاں صبر سے کام لیں اور یہ کوشش کریں کہ جو چیز ممکن ہے وہ حاصل کرلیں ۔ دیکھیں انصاف دنیا میں صرف طاقت کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے ۔ البتہ آپ کے لیئے کچھ امکانات بھی ہوتے ہیں ۔ تو ممکن کے حصول کے لیئے آپ اگر تیار ہوجائیں تو آپ کو امن میسر آجائے گا اور امن میسر آجائے تو پھر اپنی پوری قوت جو آپ ان کاموں میں صرف کررہے ہیں وہ اپنی تعمیر میں صرف کریں گے ۔ جب آپ اپنی تعمیر کرکے اس پوزیشن میں آجائیں گے ۔ کہ آپ دنیا کی کسی بڑی طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں گے تو پھر انصاف حاصل کر لیجیئے گا ۔ انصاف دنیا میں کسی نے ایسے کبھی نہیں دیا ہے ۔ اور میں عرض کرتا ہوں کہ جب مسلمان سپر پاور تھے ۔ تو ان سے بھی انصاف حاصل کرنے کے لیئے یہی کچھ کرنا پڑتا تھا ۔ اس قسم کی یہ رہنمائی ایک خاص طرح کی خطابت ہے جو مخصوص لوگوں نے اختیار کی ہوئی ہے ۔

چلیں ۔۔ ساتھ ساتھ اب میں امریکہ کی پالیسی کی بھی وضاحت کرتا چلوں ۔ دنیا میں چونکہ ان کی حکومت قائم ہے اس لیئے جس جس جگہ ان کے کوئی مادی مفادات وابستہ ہیں ، یا ایسے وسائل ہیں جو ان کی حکومت کی بقاء میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں وہ اس پر ضرور قبضہ کرنا چاہیں گے ۔ اور وہ روٹس ، جہاں سے وہ چل کر اپنے ان ہدف تک پہنچ سکتے ہیں ۔ ان سب پر وہ اپنا قبضہ کرنا چاہیں گے اور جو کچھ ان کے لیئے ممکن ہوسکے گا وہ کریں گے ۔ وہ اپنی برتری اور تفوع کو برقرار رکھنا چاہیں گے ۔ کیونکہ اس کے بغیر دنیا کی چھوٹی اقوام بھی بعض اوقات اٹھ کھڑی ہوتیں ہیں اور مسائل پیدا کردیتیں ہیں ۔ اور مستقبل میں اگر کوئی طاقت ابھر رہی ہے تو وہ اس کا بھی گھیراؤ کریں گے ۔ اور تاریخ میں یہی سب کچھ ہر سپر پاور نے کیا ہے ۔ رومنوں نے بھی یہی کیا ، ایرانیوں نے بھی یہی کیا ، ہم مسلمانوں کو طاقت حاصل ہوئی تو ہم نے بھی یہی کچھ کیا ، برطانیہ عظمی نے بھی یہی کیا اور اب امریکہ بھی یہی کچھ کررہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آپ اس وقت کیا کریں گے ۔ ؟ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں امن کے سوا ہماری کیا ضرورت ہوسکتی ہے ۔ !

مزاحمتوں کی بات چلی ہے تو میں آپ کو بتاؤں کہ پچھلے دو سو سالوں میں مزاحمت کی کون سی تحریکیں کامیاب ہوئیں ہیں ۔ ؟ مسلمانوں میں جو مزاحمتوں کی جو تحریکیں اٹھیں ۔ اس میں آپ نے جہاد بھی کیا ، آپ کے بڑے صالحین جہاد کرنے کے لیئے اٹھے ۔ تاریخ پر ایک نظر ڈال کر دیکھئے کہ کہاں کامیابی ہوئی ۔ اصل میں دنیا کے اندر میدان جنگ میں کامیابی کی اپنی ایک سائنس ہے ۔ اور اسی کے مطابق کامیابی ہوگی ۔ ٹیپو سلطان کو کامیابی ہوئی ، بخت خان کو جنگِ آزادی میں کامیابی ہوئی ۔ ؟ سید احمد شہید کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ مہدی سوڈانی کو کامیابی ہوئی ۔ انور پاشا کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ امام شامل کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ ملا عمر کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ صدام حیسن کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ کارگل میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ جنگِ رمضان میں مصر کو کامیابی ہوئی ۔؟
آج آپ کا مقابلہ جن لوگوں سے ہے ذرا ان سے اپنی نسبت اور تناسب کا موازانہ تو کجیئے ۔ صفر اور لاکھ ہے ۔ ہے کیا آپ کے پاس ۔ ؟ نہ آپ کے پاس ٹیکنالوجی ہے ، نہ آپ کے پاس علوم ہے ، نہ آپ کے پاس کوئی پس منظر ہے ، نہ آپ کی اقتصادی حالت اس قابل ہے ۔ جنگ کیا کوئی کھیل ہے کہ کوئی قوم آج جنگ کا فیصلہ کر لے ۔ ہمارے پاس آج رہنمائی اور جنگ کا کیا طریقہ ہے کہ آپ یہاں ایک بم چلا دیں ، وہاں ایک خودکش حملہ کردیں ، معصوم لوگوں کے پرخچے اڑادیں ۔ گھر جاتی ہوئی ، راہ چلتی ہوئی عورتوں کو قتل کردیں ۔ یہ تو ایک بدترین ظلم ہے ۔ آپ کو جہاد کرنا ہے تو اس کے لیئے تو آپ کو طاقت چاہیئے ۔ وہ ہوگی تو ہوگا ، ورنہ نہیں ہوگا ۔ اس وقت ہمیں اپنے لیئے امن کا وقفہ حاصل کرنا ہے ۔ جس کے دوران ہم اپنی ارسرِنو تعمیر کرسکیں ۔ قومیں مہینوں یا سالوں میں نہیں بن جاتیں ۔ اس کے لیئے صدی بھی لگ سکتی ہے ۔ پانچ سو سال قبل جب ہمارا زوال شروع ہوا تھا اگر یہی حکمتِ عملی اس وقت اختیار کر لی جاتی تو اج صورتحال قدرے مختلف ہوتی ۔ جب تک ہمیں امن کا زمانہ میسر نہیں آئے گا ہم کبھی بھی اپنی تعمیر اور ترقی کی راہ پا نہیں سکتے ۔ لہذا کسی کی طاقت اور ظلم کا رونا رونے کے بجائے ، ہمیں اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں کا ازالہ کرنا پڑے گا ۔ ورنہ آج امریکہ ہمارے سر پر مسلط ہے ۔ کل کوئی اور آجائے گا کہ ایک بھٹکی اور انتشار میں گھری قوم کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔
 
شکریہ ظفری اپ کے جواب کے ہر پوائنٹ کے تفصیلی تنقید پر جائے بغیر یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اپ کا نقطہ نظر کم و بیش میرے موقف کی تائید ہی ہے۔ دیکھیے سپر پاور اگر طاقت کی مدد سے کچھ کرتا ہے تو اسے یہ جواز نہیں مل جاتا چونکہ وہ طاقت ور ہے لہذا اس کی دھشت گردی بھئ جائز ہے اور کم زور کے دفاع کو بھی "دھشت گردانہ کردار" کہا جائے۔
اصولی طور پر ہر چیز کو اس کی اپنی جگہ پر دیکھا جانا چاہیے۔ دیکھئےاگر حق پر رہنے والا وقتی طور پر یا ظاہری طور پر مغلوب بھی ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ حق غلط ہے۔
بہرحال میں‌نے صرف یہ عرض کیا تھا کہ معاملوں کی حقیقی پہچان کرنی چاہیے چاہے وہ کوئی بھی کررہا ہو۔ پھر ایک اصولی موقف طے کرنا چاہیے اور پھر معاملے کو طے کرنے کے لیے ہدف مقرر کرنے چاہیے۔ اس کے تفصلی طریقہ کار مختلف ہوسکتے ہیں مگر ہدف واضح ہونے اور ذھن روشن ہونے کے بعد معاملات کا سلجھاو اسان ہوتا ہے۔
ہر چیز اسان نہیں بالخصوص جب معاملہ ظلم اور انصاف کا ہو۔ ظلم چاہے سپر پاور کررہی ہو یا کوئی اور اس کی مذمت ضروری ہے چاہے اس کے لیے جان بھی چلی جائے۔ مگر مخصوص حالات میں‌ہر طرح کے طریقہ کار اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ میں‌ نے ایک قابل عمل طریقہ کار تجویز کیا تھا کہ دھشت گردی کے خلاف احتجاج کیسے ریکارڈ کرایا جائے۔ مگر اپ اس دھشت گردی کے خلاف کوئی دوسرا طریقہ اختیار کر نے ازاد ہیں۔ ہر صورت میں‌ یہ تو ماننا پڑے گا کہ ہم اصل "دھشت گرد" کو پہچانیں‌اور یہی پہلا مرحلہ ہے معاملات کو سلجھانے میں باقی تفصیلات بعد کی باتیں ہیں۔
بہر حال بہت شکریہ ۔
 

ظفری

لائبریرین
میں‌ نے ایک قابل عمل طریقہ کار تجویز کیا تھا کہ دھشت گردی کے خلاف احتجاج کیسے ریکارڈ کرایا جائے۔ مگر اپ اس دھشت گردی کے خلاف کوئی دوسرا طریقہ اختیار کر نے ازاد ہیں۔ ہر صورت میں‌ یہ تو ماننا پڑے گا کہ ہم اصل "دھشت گرد" کو پہچانیں‌اور یہی پہلا مرحلہ ہے معاملات کو سلجھانے میں باقی تفصیلات بعد کی باتیں ہیں۔
بہر حال بہت شکریہ ۔
مجھے بھی اس بات سے انکار نہیں ۔۔۔۔ مگر دہشت گرد کےقدم ہمارے ہی گھر سے نکلتے ہیں‌۔لہذا اپنی اصلاح پہلے ضورری ہے ۔ اور میری ساری گفتگو کانقطہ نظر بس اسی بات پر ہے ۔ میں‌ نے آپ کے اتجاج والے اقتباس میں اپنی ایک پوسٹ پر نظرِ ثانی کرکے تبدیلی کرلی ہے ۔ برائے مہربانی اسے بھی دیکھ لیجیئے گا ۔ شکریہ
 

ظفری

لائبریرین
دیکھیے سپر پاور اگر طاقت کی مدد سے کچھ کرتا ہے تو اسے یہ جواز نہیں مل جاتا چونکہ وہ طاقت ور ہے لہذا اس کی دھشت گردی بھئ جائز ہے اور کم زور کے دفاع کو بھی "دھشت گردانہ کردار" کہا جائے۔
۔

یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کسی طاقت ور کی دہشت گردی کو کسی نے جائز نہیں‌ کہا ۔ میں اور آپ ظالم کو کیا کہہ سکتے ہیں ۔ اسے تو اپنی من مانی کرنی ہے ۔ لہذا آپ اور میرا مخاطبِ اول صرف ہماری قوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ ہم اس زاویئے سے سوچیں تو شاید ہی کوئی تبدیلی ممکن ہوسکے گی ۔
 
دہشت گردی کا الزام تو ہم کسی پر بھی لگا سکتے ہیں‌۔ لیکن دہشت گردی اور فوج کشی میں بہت فرق ہے۔ مسجد میں نہتے معصوم شہریوں کو بناء بتائے بم سے اڑا دینا دہشت گردی ہے۔ خود کش حملوں سے جلسہ اور جلوسوں میں معصوم جانوں کا ضیاع ، دہشت گردی ہے۔ خیالات مختلف ہونے کی صورت میں‌ماردینا دہشت گردی ہے۔ اگر فوج کشی اور دفاع دہشت گردی ہے تو معاف کیجئے ایسا کہنا والا سب حدوں سے گذر گیا۔

آپ کی دی ہوئی مثالوں سے امریکہ جنگجو، فوج کش اور علی الاعلان حملہ آور ملک تو کہلا سکتا ہے لیکن دہشت گرد نہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے جس سیلاب کا سامنا ہے وہ اسلامی جماعتوں کا پیدا کیا ہوا نہیں۔ مجرموں کا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ان مجرموں کو ہیرو قرار دیتے ہیں۔ ایسے جرم کو قربانی کہنا قربانی کا مذاق اڑانا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح برسرعام کراچی لاہور، اسلام آباد میں مسلمانوں‌کے خون سے ہاتھ رنگنے والے مجرم کسی سنت پر عمل کررہے ہیں تو ایسا کہنا توہین رسول اور اہانت اسلام ہے۔
پاکستان کا سامنا دہشت گرد، انتہا پسند اور بے ایمان مجرموں سے ہے، جو بزدل ہیں، چھپ کر وار کرتے ہیں، معصوم لوگوں کے قاتل ہیں اور سامنے آنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ جو انسانی جان کو معمولی سمجھتے ہیں، اور ہر روز احکام الہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
فاروق بھائی ۔۔ آپ نے بلکل صحیح بات کہی ہے اور یہی بات میں نے اپنی پوسٹ میں کسی اور پیرائے میں لکھی ہے ۔ جب قوم خود ہی اپنے ہی ظالم بن جائے تو کسی اور پر انگلی کیا اٹھانا ۔ اسی لیئے میں نے اپنی اصلاح پر پہلے زور دینے کو کہا ہے ۔ خارجی مسائل اور خطرات سے آپ اس وقت ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں جب آپ متحد ہوں ۔ پانی کے ذخیروں کے مسئلوں پر تو آپ متفق ہو نہیں سکتے ۔ اور چلے ہیں سامراجی اور بین الاقوامی طاقتوں سے مقابلہ کرنے ۔
بہرحال میں اس خاص موضوع پر کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا ۔ موضوع یہ ہوگا " مسلمانوں کی تاریخ میں زوال و عروج کے اسباب " ۔ ہوسکتا ہے کہ اس پر کچھ لکھنے کے بعد مکالمے کی کچھ ایسی فضا پیدا ہوا کہ ہم اپنا ایک تنقیدی جائزہ لے سکیں ۔ اور اس حوالے سے ہمیں آج کی صورتحال کو سمجھنے کا صحیح ادراک ہوسکے ۔
 

اظہرالحق

محفلین
دوستو کہا جاتا ہے کہ جب تک اپنا گھر نہ جلے پتہ نہیں چلتا کہ دکھ کیا ہوتا ہے اور جب تک بھوک میں روٹی نہ ملے ۔ ۔ اس وقت تک دوسرے کی بھوک کا احساس نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ مگر ہم پاکستانی قوم نے ان تمام مفروضات کو غلط کر کہ بتا دیا ہے ۔ ۔ ۔ اور ایمان اتحاد اور تنظیم کے جو معنٰی ہم نے دنیا کو دیئے ہیں وہ ہی ہمیں لے ڈوب رہے ہیں ۔ ۔ مگر میں اقبال کی طرح ناامید نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ اس مٹی کو نم ہونا ہو گا تا کہ یہ زرخیز ہو جائے ۔ ۔ مگر لگتا ہے ۔ ۔ یہ نمی آنسوؤں کی نہیں ۔ ۔ بلکے خون سے ہو گی !!!!!!
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

محترم،

امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقاۂق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔

برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟

افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القاعدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے نمبر دو ليڈر ايمن الزواری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" الشرک الاوسعت" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔

ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔

ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القاۂدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القاۂدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
Top