Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
فواد صاحب ! شمشاد بھائی نے جو سوالات اٹھائے ہیں از راہ کرم ان کی وضاحت فرمادیں
نیز ملا عبد السلام ضعیف قطع نظر اس حیثیت سے کہ وہ طالبان کا نمائندہ تھا طالبان صحیح یا غلط تھے اس سے بھی بحث نہیں لیکن وہ پاکستان میں افغانستان کے باضابطہ سفیر تھے
ان کے پاس حکومت پاکستان کا ویزہ تھا اقوام متحدہ کی طرف سے بھی انہیں اجازت حاصل تھی پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں سفارتی استثنی حاصل نہیں تھا اور انہیں امریکہ نے ان کے گھر سے اٹھوا لیا تھا
ملا عبد السلام ضعیف ریمنڈ ہی کی طرح سفارتی حیثیت کے حامل تھے نیز وہ کسی قتل یا واردات میں بھی ملوث نہیں تھے پھر انہیں کیوں ٹارچر کیا گیا
ان دونوں کيسيز ميں کوئ مماثلت يا قدر مشترک نہيں ہے۔ سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی حمايت سے افغانستان ميں ہونے والی فوجی کاروائ کے بعد افغانستان ميں طالبان کی فعال حکومت کا کوئ وجود نہيں تھا۔
يہ بات نہيں بھولنی چاہيے کہ جس حکومت کی جانب سے کسی سفارت کار کی سفارتی حيثيت کا تعين يا منظوری دی جاتی ہے جب اس حکومت کا اپنا وجود ہی نہ رہے تو اس سفارتی حيثيت کی بھی کوئ اہميت باقی نہيں رہ جاتی۔
ايک جنگی صورت حال يا فوجی غلبے کی صورت ميں جينيوا کنونشن کے سفارتی استثنی سے متعلق قوانين ايک ايسا قانونی معاملہ ہوتا ہے جس پر عمل درآمد ايک سواليہ نشان بن جاتا ہے۔ جب سال 1990 ميں عراق نے کويت پر قبضہ کيا تھا تو کويت ميں موجود غیر ملکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے ليے اقدامات کيے گئے تھے۔
جہاں تک ملا ضعيف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں ان کی گرفتاری کے وقت انھيں سفارتی استثنی حاصل نہيں تھی کيونکہ افغانستان ميں طالبان کی وہ حکومت ہی موجود نہيں تھی جو انھيں يہ سہولت فراہم کر سکتی۔ يقينی طور پر پاکستان ميں گرفتار امريکی سفارت کار کے کيس ميں صورت حال يہ نہيں ہے۔
اس کے علاوہ يہ بات بھی غور طلب ہے کہ امريکی سفارت کار کے برعکس جو کہ اپنی جان بچانے کے حوالے سے ايک واقعے ميں ملوث ہوئے، ملا ضعيف ايک ايسی حکومت کے اعلی عہديداروں کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے جو عالمی دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دينے اور ان کی حمايت کرنے کے جرم ميں شامل تھے۔ يہ ايک ايسی حقيقت ہے جسے اقوام متحدہ نے نہ صرف يہ کہ تسليم کيا بلکہ سرکاری طور پو طالبان کی حکومت کو سيکورٹی کونسل کی کئ قراردادوں کے ذريعے باور بھی کروايا۔
"کومبيٹنٹ اسٹيٹس ريوو" ٹريبيونل کے سامنے الزامات کے حوالے سے جو دستاويز پيش کی گئ تھی اس کے مطابق
گرفتار ہونے والا طالبان کا رکن تھا۔
گرفتار ہونے والے شخص نے يہ خود تسليم کيا تھا کہ اس نے سال 1996 ميں طالبان میں شموليت اختيار کی تھی۔
طالبان کے لیڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو اقغانستان کے سنٹرل بنک کا صدر مقرر کيا گيا تھا۔
اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو افغانستان کی معدنيات اور انڈسٹری سے متعلق وزارت ميں ڈپٹی وزير کے عہدے پر فائز کيا گيا تھا۔
اس کے علاوہ گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان حکومت نے کابل ميں ٹرانسپورٹ کی وزارت پر فائز کيا جہاں پر 3 ماہ کام کيا۔
گرفتار ہونے والے شخص کا آخری عہدہ پاکستان ميں طالبان حکومت کے سفير کی حيثيت سے تھا جہاں پر 18 ماہ تک دسمبر 2001 ميں اپنی گرفتاری تک کام کيا۔
طالبان کی تحريک کے ابتدائ دنوں میں طالبان اور القائدہ کے فعال کمانڈرز افغانستان کے شہر کابل اور گرد ونواح کے علاقوں سے گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان کے "ڈپٹی ڈيفنس" کی حيثيت ميں رپورٹ کيا کرتے تھے۔
پاکستان ميں طالبان کے سفير کی حيثيت سے ان کے طالبان کی سينير ليڈرشپ کے ساتھ قريبی تعلقات تھے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall