عمران القادری
محفلین
تحریر : ڈاکٹر رحیق اَحمد عباسی (ناظم اَعلیٰ، تحریک منہاج القرآن)
تاریخ انسانی نے بے شمار ایسی شخصیات کا مشاہدہ کیا ہے جنہوں نے انقلابی تحریکوں کی بنیاد رکھی۔ انقلابی تحریک ہمیشہ کسی زوال یافتہ قوم میں ہی شروع ہوتی ہے۔ مثبت انقلاب کا مقصد قوم کو زوال و اِنحطاط سے نکال کر عروج کے راستے پر گامزن کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دائمی حاکمیت صرف اﷲ تعالی کی ہے۔ دنیا کی ہر قوم کی تاریخ میں عروج و زوال کے مراحل آتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی بعثت ہوئی تو معاشرہ تاریکی، جہالت، لاقانونیت، جبر و استبداد کا شکار تھا۔ اُلوہی حکمت سے معمور عملی، نبوی تدبّر و تفکر اور آپ کے جانثار صحابہ کی جہد مسلسل نے تاریخ انسانیت میں ایک ا یسا باب رقم کیا جو چہار دانگ عالم کے لیے مینارہ رُشد و ہدایت ہے۔ اسلام کا سفر عروج، جس کی بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی، اس سفر عروج کو آپ کے خلفاء راشدین نے کاملاً اور بعد ازاں امت مسلمہ کے علماء و مفکرین، صوفیاء و مبلغین، فقہاء و مجددین اور سلاطین و مجاہدین نے اپنے اپنے میادین میں جاری وساری رکھا اوراسلام نے دنیائے انسانیت کو Dark Ages سے نکال کر جدید سائنسی ترقی کی دہلیز پر لاکھڑا کیا۔ پھر تاریخ کا پہیہ چلا اور مسلمان آہستہ آہستہ اپنی کوتاہیوں، غلط حکمت عملیوں، باہم افتراق و انتشار، مصلحت کوشی، عیش پسندی، جہاد و اجتہاد سے کنارہ کشی اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین مصطفوی سے دوری کی وجہ سے زوال کا شکار ہو گئے۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی کے وسط میں برصغیر پاک و ہند میں اسلامی سیاسی عروج کی علامت ’’مغلیہ سلطنت‘‘ اور بیسویں صدی کے شروع میں عالمی سطح پر اسلام کی سیاسی قوت کی علامت ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کا خاتمہ ہوگیا۔ اگرچہ اُس دور میں بہت سارے مفکرین اور تحریکوں نے ملت اسلامیہ کی ڈوبتی نیّا کو ساحل مراد تک پہنچانے کی کوشش کی مگر وقت کے دھارے کا رخ تبدیل نہ ہوسکا اور درجنوں مسلم ممالک آزاد ہونے کے باوجود اُمت سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی حوالے سے زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی ہی چلی گئی۔
اس پس منظر میں موجودہ دور امت کے زوال کا دور ہے، مسلمانوں کا اجتماعی تشخص نہ ہونے کے برابر ہے، اتحاد و اتفاق کی جگہ فرقہ واریت نے لے لی، امت کا ملی تشخص بری طرح مجروح ہو چکا ہے، ہماری اقدار و روایات پامال ہوتی چلی جا رہی ہیں، دین ومذہب پر عمل رسومات کی حد تک بھی باقی نہیں رہا، اسلامی ممالک میں حکمرانوں کا عوام کے ساتھ کوئی واسطہ ہے نہ اسلام کے ساتھ کوئی رشتہ۔ ہر طرف خوف و ہراس ہے، بے یقینی ہے، مایوسی ہے اور اس زوال و انحطاط سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نظر نہیں آ رہی۔ ان مایوس کن حالات میں ہر صاحب درد مسلمان کادل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے مگر اسے راستہ نظر نہیں آتا۔ وہ جس طرف بھی روشنی دیکھ کر جاتا ہے قریب پہنچنے پر محض سراب سے سامنا ہوتا ہے۔
ایسے دور میں مسلمانوں میں سے بعض نے شکست خوردگی کو اپنا لیا، حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور سمجھنے لگے کہ باہر جو کچھ بھی ہوتا ہے ہوتا رہے، ہمیں اپنا ایمان بچانے کی فکر کرنا چاہیے۔ جہاں تک ہو سکے دعوت و تبلیغ کا عمل جاری رکھا جائے۔ دور جدید میں نظام ہاے اسلام کی عملیت اور نتیجہ خیزی پر ایسے لوگوں کا یقین تقریباً ختم ہو گیا۔ اس سوچ نے اسلام کو مکمل دین کے بجائے ایک روایتی مذہب میں تبدیل کر دیا۔ یہ سوچ بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔ شرکی طاقتیں جب جہاز کی رفتار سے سفرکررہی ہوں تو اُن کا مقابلہ سائیکل سوار اہلِ خیر کیسے کرسکتے ہیں؟
دوسری طرف کچھ لوگوں نے اعلائے کلمۃ اﷲ کا نعرہ بلند کیا ہے، غلبہ دین حق کی بحالی کی بات کی، اسلام کی سیاسی قوت کی ضرورت کو محسوس کیا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ مغرب کی تہذیب عصر حاضر پر غلبہ حاصل کیے ہوئے ہے، دنیا میں یورو، ڈالر اورپونڈ کا تسلط ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ساری کی ساری مغربی تہذیب اسلام کی دشمن ہے، لہٰذا جہاد وقت کی ضرورت ہے اور یہ کہ امت کا احیا مغرب کو نیست ونابود کرنے ہی سے ممکن ہے اس لیے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا جانا چاہیے۔ اس فکر پر گامزن لوگ جہاد اور قتال میں فرق بھول گئے، اسلام کی شرائط جہاد ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئیں، جہاد کے آداب و لوازمات سے وہ بے خبر رہے، نتیجتاً اسلام کا جہاد جیسا اہم ترین نظریہ و ادارہ جہاد نہ رہا اور یہ فکر انتہا پسندی سے شروع ہو کر دہشت گردی سے گزرتے ہوئے خود کش حملوں تک پہنچ گئی۔ فوجی و سول شہریوںکا فرق مٹ گیا، سفارتی آداب کا احترام ختم ہو گیا، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے بارے میں نرم دلی تک نہ رہی یہاں تک کہ مسلم اور غیر مسلم کا فرق بھی ختم ہو گیا۔
نتیجتاً وہ دین جو سلامتی کا پیغام لے کر آیا، امن کا پروگرام لے کر آیا، محبت کا مشن لے کر آیا، بقائے باہمی کا منشور لے کرآیا، احترام انسانی کا دستور لے کر آیا، دنیا اس کو نفرت، دہشت، انتہا پسندی، قتل و غارت گری اور خود کش حملوں کی علامت قرار دینے لگی۔
یہ ہیں وہ حالات جو پوری امت کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن کو بھی درپیش تھے اور اس کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حالات و حقائق کا بغور مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا خمیر انقلاب سے اٹھا تھا، ان کے والد گرامی نے ان کو شروع ہی سے خدمت دین کے لئے تیار کیا تھا۔ ان کے مطالعہ قرآن نے انہیں یہ فہم دیا کہ اسلام کا مقدّر بے بسی اور ذلت نہیں بلکہ عروج و تمکنت ہے۔ سیرتِ طیبہ کے مطالعہ نے ان کو وہ فہم دیا جو شاہراہ انقلاب کی طرف جاتا ہے جس کی منزل احیائے اسلام اور اقامت دین ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انقلابی جدوجہد کے بغیر اسلام کے وجود کو قائم رکھنا ناممکن ہے اور حالات کے رخ کا دھارا بدلے بغیر دنیا میں کامیابی ممکن نہیں۔ محض دعوت وتبلیغ سے معاشرے کے حالات تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ اقامت دین کی جدوجہد ناگزیر ہے لیکن اقامتِ دین کیا ہے؟ بعض انتہا پسند طبقا ت نے اس سے مراد دنیا سے تمام ادیان کا خاتمہ لے لیا ہے اور ساری کی ساری انسانیت کو مسلمان بنانا اور دنیا سے غیر مسلموں کا خاتمہ سمجھ لیا ہے۔ یہی تصور ان کی گمراہی کا باعث اور پہچان بن گیا۔ ایسے لوگ اور تحریکیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نزدیک اس طرح کے خیالات کی گنجائش نہیں۔ ان کے ہاں اقامت اسلام کا مقصد امن عالم کا قیام ہے۔ وہ اسلام کو دینِ امن سمجھتے ہیں، دینِ محبت گردانتے ہیں، بقاے باہمی، تحمل و برداشت، احترامِ آدمیت، حرمتِ جانِ انسانی کو وہ بنیادی اسلامی شعائر سمجھتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو ناممکن نظر آتا تھا۔ انہوں نے انقلابیت اور امن پسندی کو ایک جگہ جمع کر دیا اور دنیا بھر میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو اسلام کا عروج دیکھنا چاہتی ہے، اقامت دین جس کی منزل ہے، تجدید دین جس کا راستہ ہے، احیائے دین جس کا مشن ہے لیکن ان کی یہ تحریک دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کلیتاً پاک ہے۔ اس تحریک کے نزدیک نفرت و تعصب پر مبنی نظریات کفر سے کم نہیں اور بے گناہ انسانیت کا قتل ظلمِ عظیم ہے، اس کے نزدیک احیائے اسلام کی منزل نفرت و تصادم سے نہیں بلکہ محبت و ہم آہنگی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
شیخ الاسلام کا یہ کارنامہ ایسے ہی تھا جیسے آگ اور پانی کو ایک جگہ جمع کر دینا۔ انہوں نے اسلام کا امن و محبت اور رواداری پر مبنی پیغام دنیا تک پہنچایا۔ اسلام پر فکری اور نظریاتی محاذوں پر ہونے والے حملوں کا جواب غصے اورجلال سے نہیں بلکہ علم اور دلیل کی زبان میں دیا۔ ابھی 9/11 کا حادثہ وقوع پذیر نہیں ہوا تھا لیکن نیو ورلڈ آرڈر کے تانے بانے میں آپ اس سازش کو دیکھ رہے تھے کہ اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ذریعے بدنام کرنے کی عالمی سازش زوروں پر ہے۔ وہ 1999ء میں اوسلو ناروے میں عالمی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے :
"So this is just mention of what is the significance of peace in Islam. Islam, from the very beginning to its end, is peace and nothing else. Anything detrimental to peace, anything damaging to peace, anything conflicting to peace, anything contradictory to peace, it has no, absolutely no, concern with Islamic teachings. And whosoever may be, if he has any kind of terroristic character, extremistic character, any character detrimental to the welfare of humanity, any character detrimental to the global peace, any character detrimental to the societal peace of mankind, that is absolutely anti-Islam to our faith." (International Peace Conference, Oslo, Norway, 13 August)
’’یہ اسلام میں امن کی اہمیت کا بیان ہے۔ اسلام تو اوّل تا آخر امن ہے اور کچھ بھی نہیں۔ جو چیز بھی امن کے لیے نقصان دہ، امن سے متصادم اور امن کی مخالف ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کسی کا بھی رویہ دہشت گردی، انتہا پسندی، انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ضرر رساں ہو یا امن عالم اور عالم انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو، وہ ہمارے عقیدے میں مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔‘‘ (انٹرنیشنل پیس کانفرنس، اوسلو، ناروے، 13 اگست 1999ء)
اس سے بھی بہت قبل 1993ء میں اسلام کو درپیش خطرات کو محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے انقلابی کارکنوں کو یہ نعرہ دے رہے تھے کہ انقلاب کے لیے شعور ضروری ہے اور شعور کی بیداری کے لیے علم کا فروغ اور جہالت کا خاتمہ ضروری ہے۔ لہٰذا جہالت کے خاتمے کی جدوجہد کرتے ہوئے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں لیکن وہ تعلیمی ادارے روایتی مدارس نہیں ہونے چاہییں بلکہ جدید تعلیمی نصاب کے حامل ادارے ہوں کیونکہ ایک طرف وہ دیکھ رہے تھے کہ دنیاوی علوم میں مہارت کے بغیر ترقی کا خواب ایک دیوانے کی بڑ ہی ہو سکتی ہے اور دوسری طرف ان کی نظر جہاں بیں دیکھ رہی تھی کہ مستقبل میں کس طرح مدارس کو دہشت گردی کے مراکز بنایا یا مشہور کیا جائے گا۔ ان کے اس تعلیمی منصوبہ کی وجہ سے منہاج القرآن وہ واحد دینی و تجدیدی تحریک ہے جس نے 572 تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک قائم کیا اور ملک و قوم کو ایک باقاعدہ چارٹرڈ یونیورسٹی دی۔
تحریک کے آغاز میں ہی انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ انقلابی تحریک کو میانہ روی پر قائم رکھنا آسان نہیں۔ انہوں نے تاریخ میں متعدد دینی انقلابی تحریکوں کو بتدریج انتہا پسندی تک پہنچتے دیکھا تھا۔ انہوں نے ان کمزوریوں کا بھی تعین کر لیا تھا جو کسی انقلابی تحریک کو انتہا پسندی تک پہنچا دیتی ہیں۔ اگرچہ روحانیت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو والد گرامی سے ورثہ میں ملا تھا مگر فکری سطح پر بھی وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ادب و تعظیم رسالت کا جذبہ وہ قوت ہے جو کبھی انتہا پسندی کی طرف نہیں جانے دیتی کیونکہ محبت اور نفرت ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ روحانیت و تصوف وہ طرزعمل اور طریقہ کار ہے جو انسانیت سے محبت کے درس پر مبنی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی تحریک کی فکری و نظریاتی بنیاد ہی تین عناصر۔ احیاء و اقامت دین، تصوف و روحانیت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پر رکھی۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ یہی وہ تین عناصر تھے جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی جماعت کو ناقابل تسخیر بھی بنا دیا تھا اور ساتھ ہی محبت و امن کا عظیم داعی بھی۔ وہ جہاں جاتے لوگ ان کی قوت و دہشت سے نہیں بلکہ اخلاق و کردار کو دیکھ مسلمان ہوتے جاتے۔ لیکن جدید دنیائے اسلام اور موجودہ دور زوال میں جو چند صدیوں پر محیط ہے، ڈاکٹر طاہر القادری ہی وہ رہنما ہیں جنہوں نے کسی ایک تنظیم و تحریک اور جدوجہد و دعوت میں ان تین عناصر کو جمع کر دیا، وہ عناصر جنہوں نے احیائے اسلام کی ایک ایسی عظیم تحریک کی بنیاد رکھی جس کا مشن امن و محبت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب 9/11 کے بعد ساری مذہبی قیادت ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی ہمدرد بنی ہوئی تھی، جہاد کے نعرے لگ رہے تھے، دنیا سے امریکہ کے خاتمے کے دعوے ہو رہے تھے تو شیخ الاسلام پاکستان کے وہ واحد قائد تھے جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اس فکر اور اس آواز کو اسلام کے خلاف سازش کا حصہ قرار دے رہے تھے۔ جب بے گناہ شہریوں، معصوم بچوں، بے بس عورتوں کی تمیز کے بغیر قتل و غارت گری کو جہاد کا نام دیا جا رہا تھا، تو وہ اس کو فساد قرار دے رہے تھے۔ اس کا اقرار برطانوی پارلیمنٹ بھی کیے بغیر نہ رہ سکی۔ برطا نوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز کی ڈیفنس کمیٹی نے اپنے سیشن 2002-2003 کی چھٹی رپورٹ میں بیان کیا :
Dr Qadri claimed that any terrorist act is against the basic precepts of Islam and that it does not allow aggression, oppression and barbarism in any event. And that there is a faction in the Islamic world whose interpretations of Islam are extremist in nature. Their handling of political, social and cultural matters reflect the extremist trend in their thinking. He stated that this extremist class believes that Islam is inconsistent with democracy and any association with democracy is forbidden .(Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri, "Extremism : Causes and Cures", The Nation, December 14, 2001)
Criticising the extremist elements he stated that such groups present a horrifying picture of Islam in the Western world and provoke the religious sentiments of the people for their personal gains. Dr Qadri encouraged the Taliban to hand Osama bin Laden over to a third party, he suggested that such a role can be played by NATO, the European Union, or the Organisation of Islamic Conference (OIC). (Lecture delivered by Dr Tahir-ul-Qadri, "Terrorism & International Peace," September 2001, Pakistan
تاریخ انسانی نے بے شمار ایسی شخصیات کا مشاہدہ کیا ہے جنہوں نے انقلابی تحریکوں کی بنیاد رکھی۔ انقلابی تحریک ہمیشہ کسی زوال یافتہ قوم میں ہی شروع ہوتی ہے۔ مثبت انقلاب کا مقصد قوم کو زوال و اِنحطاط سے نکال کر عروج کے راستے پر گامزن کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دائمی حاکمیت صرف اﷲ تعالی کی ہے۔ دنیا کی ہر قوم کی تاریخ میں عروج و زوال کے مراحل آتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی بعثت ہوئی تو معاشرہ تاریکی، جہالت، لاقانونیت، جبر و استبداد کا شکار تھا۔ اُلوہی حکمت سے معمور عملی، نبوی تدبّر و تفکر اور آپ کے جانثار صحابہ کی جہد مسلسل نے تاریخ انسانیت میں ایک ا یسا باب رقم کیا جو چہار دانگ عالم کے لیے مینارہ رُشد و ہدایت ہے۔ اسلام کا سفر عروج، جس کی بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی، اس سفر عروج کو آپ کے خلفاء راشدین نے کاملاً اور بعد ازاں امت مسلمہ کے علماء و مفکرین، صوفیاء و مبلغین، فقہاء و مجددین اور سلاطین و مجاہدین نے اپنے اپنے میادین میں جاری وساری رکھا اوراسلام نے دنیائے انسانیت کو Dark Ages سے نکال کر جدید سائنسی ترقی کی دہلیز پر لاکھڑا کیا۔ پھر تاریخ کا پہیہ چلا اور مسلمان آہستہ آہستہ اپنی کوتاہیوں، غلط حکمت عملیوں، باہم افتراق و انتشار، مصلحت کوشی، عیش پسندی، جہاد و اجتہاد سے کنارہ کشی اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین مصطفوی سے دوری کی وجہ سے زوال کا شکار ہو گئے۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی کے وسط میں برصغیر پاک و ہند میں اسلامی سیاسی عروج کی علامت ’’مغلیہ سلطنت‘‘ اور بیسویں صدی کے شروع میں عالمی سطح پر اسلام کی سیاسی قوت کی علامت ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کا خاتمہ ہوگیا۔ اگرچہ اُس دور میں بہت سارے مفکرین اور تحریکوں نے ملت اسلامیہ کی ڈوبتی نیّا کو ساحل مراد تک پہنچانے کی کوشش کی مگر وقت کے دھارے کا رخ تبدیل نہ ہوسکا اور درجنوں مسلم ممالک آزاد ہونے کے باوجود اُمت سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی حوالے سے زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی ہی چلی گئی۔
اس پس منظر میں موجودہ دور امت کے زوال کا دور ہے، مسلمانوں کا اجتماعی تشخص نہ ہونے کے برابر ہے، اتحاد و اتفاق کی جگہ فرقہ واریت نے لے لی، امت کا ملی تشخص بری طرح مجروح ہو چکا ہے، ہماری اقدار و روایات پامال ہوتی چلی جا رہی ہیں، دین ومذہب پر عمل رسومات کی حد تک بھی باقی نہیں رہا، اسلامی ممالک میں حکمرانوں کا عوام کے ساتھ کوئی واسطہ ہے نہ اسلام کے ساتھ کوئی رشتہ۔ ہر طرف خوف و ہراس ہے، بے یقینی ہے، مایوسی ہے اور اس زوال و انحطاط سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نظر نہیں آ رہی۔ ان مایوس کن حالات میں ہر صاحب درد مسلمان کادل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے مگر اسے راستہ نظر نہیں آتا۔ وہ جس طرف بھی روشنی دیکھ کر جاتا ہے قریب پہنچنے پر محض سراب سے سامنا ہوتا ہے۔
ایسے دور میں مسلمانوں میں سے بعض نے شکست خوردگی کو اپنا لیا، حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور سمجھنے لگے کہ باہر جو کچھ بھی ہوتا ہے ہوتا رہے، ہمیں اپنا ایمان بچانے کی فکر کرنا چاہیے۔ جہاں تک ہو سکے دعوت و تبلیغ کا عمل جاری رکھا جائے۔ دور جدید میں نظام ہاے اسلام کی عملیت اور نتیجہ خیزی پر ایسے لوگوں کا یقین تقریباً ختم ہو گیا۔ اس سوچ نے اسلام کو مکمل دین کے بجائے ایک روایتی مذہب میں تبدیل کر دیا۔ یہ سوچ بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔ شرکی طاقتیں جب جہاز کی رفتار سے سفرکررہی ہوں تو اُن کا مقابلہ سائیکل سوار اہلِ خیر کیسے کرسکتے ہیں؟
دوسری طرف کچھ لوگوں نے اعلائے کلمۃ اﷲ کا نعرہ بلند کیا ہے، غلبہ دین حق کی بحالی کی بات کی، اسلام کی سیاسی قوت کی ضرورت کو محسوس کیا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ مغرب کی تہذیب عصر حاضر پر غلبہ حاصل کیے ہوئے ہے، دنیا میں یورو، ڈالر اورپونڈ کا تسلط ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ساری کی ساری مغربی تہذیب اسلام کی دشمن ہے، لہٰذا جہاد وقت کی ضرورت ہے اور یہ کہ امت کا احیا مغرب کو نیست ونابود کرنے ہی سے ممکن ہے اس لیے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا جانا چاہیے۔ اس فکر پر گامزن لوگ جہاد اور قتال میں فرق بھول گئے، اسلام کی شرائط جہاد ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئیں، جہاد کے آداب و لوازمات سے وہ بے خبر رہے، نتیجتاً اسلام کا جہاد جیسا اہم ترین نظریہ و ادارہ جہاد نہ رہا اور یہ فکر انتہا پسندی سے شروع ہو کر دہشت گردی سے گزرتے ہوئے خود کش حملوں تک پہنچ گئی۔ فوجی و سول شہریوںکا فرق مٹ گیا، سفارتی آداب کا احترام ختم ہو گیا، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے بارے میں نرم دلی تک نہ رہی یہاں تک کہ مسلم اور غیر مسلم کا فرق بھی ختم ہو گیا۔
نتیجتاً وہ دین جو سلامتی کا پیغام لے کر آیا، امن کا پروگرام لے کر آیا، محبت کا مشن لے کر آیا، بقائے باہمی کا منشور لے کرآیا، احترام انسانی کا دستور لے کر آیا، دنیا اس کو نفرت، دہشت، انتہا پسندی، قتل و غارت گری اور خود کش حملوں کی علامت قرار دینے لگی۔
یہ ہیں وہ حالات جو پوری امت کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن کو بھی درپیش تھے اور اس کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حالات و حقائق کا بغور مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا خمیر انقلاب سے اٹھا تھا، ان کے والد گرامی نے ان کو شروع ہی سے خدمت دین کے لئے تیار کیا تھا۔ ان کے مطالعہ قرآن نے انہیں یہ فہم دیا کہ اسلام کا مقدّر بے بسی اور ذلت نہیں بلکہ عروج و تمکنت ہے۔ سیرتِ طیبہ کے مطالعہ نے ان کو وہ فہم دیا جو شاہراہ انقلاب کی طرف جاتا ہے جس کی منزل احیائے اسلام اور اقامت دین ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انقلابی جدوجہد کے بغیر اسلام کے وجود کو قائم رکھنا ناممکن ہے اور حالات کے رخ کا دھارا بدلے بغیر دنیا میں کامیابی ممکن نہیں۔ محض دعوت وتبلیغ سے معاشرے کے حالات تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ اقامت دین کی جدوجہد ناگزیر ہے لیکن اقامتِ دین کیا ہے؟ بعض انتہا پسند طبقا ت نے اس سے مراد دنیا سے تمام ادیان کا خاتمہ لے لیا ہے اور ساری کی ساری انسانیت کو مسلمان بنانا اور دنیا سے غیر مسلموں کا خاتمہ سمجھ لیا ہے۔ یہی تصور ان کی گمراہی کا باعث اور پہچان بن گیا۔ ایسے لوگ اور تحریکیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نزدیک اس طرح کے خیالات کی گنجائش نہیں۔ ان کے ہاں اقامت اسلام کا مقصد امن عالم کا قیام ہے۔ وہ اسلام کو دینِ امن سمجھتے ہیں، دینِ محبت گردانتے ہیں، بقاے باہمی، تحمل و برداشت، احترامِ آدمیت، حرمتِ جانِ انسانی کو وہ بنیادی اسلامی شعائر سمجھتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو ناممکن نظر آتا تھا۔ انہوں نے انقلابیت اور امن پسندی کو ایک جگہ جمع کر دیا اور دنیا بھر میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو اسلام کا عروج دیکھنا چاہتی ہے، اقامت دین جس کی منزل ہے، تجدید دین جس کا راستہ ہے، احیائے دین جس کا مشن ہے لیکن ان کی یہ تحریک دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کلیتاً پاک ہے۔ اس تحریک کے نزدیک نفرت و تعصب پر مبنی نظریات کفر سے کم نہیں اور بے گناہ انسانیت کا قتل ظلمِ عظیم ہے، اس کے نزدیک احیائے اسلام کی منزل نفرت و تصادم سے نہیں بلکہ محبت و ہم آہنگی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
شیخ الاسلام کا یہ کارنامہ ایسے ہی تھا جیسے آگ اور پانی کو ایک جگہ جمع کر دینا۔ انہوں نے اسلام کا امن و محبت اور رواداری پر مبنی پیغام دنیا تک پہنچایا۔ اسلام پر فکری اور نظریاتی محاذوں پر ہونے والے حملوں کا جواب غصے اورجلال سے نہیں بلکہ علم اور دلیل کی زبان میں دیا۔ ابھی 9/11 کا حادثہ وقوع پذیر نہیں ہوا تھا لیکن نیو ورلڈ آرڈر کے تانے بانے میں آپ اس سازش کو دیکھ رہے تھے کہ اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ذریعے بدنام کرنے کی عالمی سازش زوروں پر ہے۔ وہ 1999ء میں اوسلو ناروے میں عالمی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے :
"So this is just mention of what is the significance of peace in Islam. Islam, from the very beginning to its end, is peace and nothing else. Anything detrimental to peace, anything damaging to peace, anything conflicting to peace, anything contradictory to peace, it has no, absolutely no, concern with Islamic teachings. And whosoever may be, if he has any kind of terroristic character, extremistic character, any character detrimental to the welfare of humanity, any character detrimental to the global peace, any character detrimental to the societal peace of mankind, that is absolutely anti-Islam to our faith." (International Peace Conference, Oslo, Norway, 13 August)
’’یہ اسلام میں امن کی اہمیت کا بیان ہے۔ اسلام تو اوّل تا آخر امن ہے اور کچھ بھی نہیں۔ جو چیز بھی امن کے لیے نقصان دہ، امن سے متصادم اور امن کی مخالف ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کسی کا بھی رویہ دہشت گردی، انتہا پسندی، انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ضرر رساں ہو یا امن عالم اور عالم انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو، وہ ہمارے عقیدے میں مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔‘‘ (انٹرنیشنل پیس کانفرنس، اوسلو، ناروے، 13 اگست 1999ء)
اس سے بھی بہت قبل 1993ء میں اسلام کو درپیش خطرات کو محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے انقلابی کارکنوں کو یہ نعرہ دے رہے تھے کہ انقلاب کے لیے شعور ضروری ہے اور شعور کی بیداری کے لیے علم کا فروغ اور جہالت کا خاتمہ ضروری ہے۔ لہٰذا جہالت کے خاتمے کی جدوجہد کرتے ہوئے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں لیکن وہ تعلیمی ادارے روایتی مدارس نہیں ہونے چاہییں بلکہ جدید تعلیمی نصاب کے حامل ادارے ہوں کیونکہ ایک طرف وہ دیکھ رہے تھے کہ دنیاوی علوم میں مہارت کے بغیر ترقی کا خواب ایک دیوانے کی بڑ ہی ہو سکتی ہے اور دوسری طرف ان کی نظر جہاں بیں دیکھ رہی تھی کہ مستقبل میں کس طرح مدارس کو دہشت گردی کے مراکز بنایا یا مشہور کیا جائے گا۔ ان کے اس تعلیمی منصوبہ کی وجہ سے منہاج القرآن وہ واحد دینی و تجدیدی تحریک ہے جس نے 572 تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک قائم کیا اور ملک و قوم کو ایک باقاعدہ چارٹرڈ یونیورسٹی دی۔
تحریک کے آغاز میں ہی انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ انقلابی تحریک کو میانہ روی پر قائم رکھنا آسان نہیں۔ انہوں نے تاریخ میں متعدد دینی انقلابی تحریکوں کو بتدریج انتہا پسندی تک پہنچتے دیکھا تھا۔ انہوں نے ان کمزوریوں کا بھی تعین کر لیا تھا جو کسی انقلابی تحریک کو انتہا پسندی تک پہنچا دیتی ہیں۔ اگرچہ روحانیت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو والد گرامی سے ورثہ میں ملا تھا مگر فکری سطح پر بھی وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ادب و تعظیم رسالت کا جذبہ وہ قوت ہے جو کبھی انتہا پسندی کی طرف نہیں جانے دیتی کیونکہ محبت اور نفرت ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ روحانیت و تصوف وہ طرزعمل اور طریقہ کار ہے جو انسانیت سے محبت کے درس پر مبنی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی تحریک کی فکری و نظریاتی بنیاد ہی تین عناصر۔ احیاء و اقامت دین، تصوف و روحانیت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پر رکھی۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ یہی وہ تین عناصر تھے جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی جماعت کو ناقابل تسخیر بھی بنا دیا تھا اور ساتھ ہی محبت و امن کا عظیم داعی بھی۔ وہ جہاں جاتے لوگ ان کی قوت و دہشت سے نہیں بلکہ اخلاق و کردار کو دیکھ مسلمان ہوتے جاتے۔ لیکن جدید دنیائے اسلام اور موجودہ دور زوال میں جو چند صدیوں پر محیط ہے، ڈاکٹر طاہر القادری ہی وہ رہنما ہیں جنہوں نے کسی ایک تنظیم و تحریک اور جدوجہد و دعوت میں ان تین عناصر کو جمع کر دیا، وہ عناصر جنہوں نے احیائے اسلام کی ایک ایسی عظیم تحریک کی بنیاد رکھی جس کا مشن امن و محبت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب 9/11 کے بعد ساری مذہبی قیادت ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی ہمدرد بنی ہوئی تھی، جہاد کے نعرے لگ رہے تھے، دنیا سے امریکہ کے خاتمے کے دعوے ہو رہے تھے تو شیخ الاسلام پاکستان کے وہ واحد قائد تھے جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اس فکر اور اس آواز کو اسلام کے خلاف سازش کا حصہ قرار دے رہے تھے۔ جب بے گناہ شہریوں، معصوم بچوں، بے بس عورتوں کی تمیز کے بغیر قتل و غارت گری کو جہاد کا نام دیا جا رہا تھا، تو وہ اس کو فساد قرار دے رہے تھے۔ اس کا اقرار برطانوی پارلیمنٹ بھی کیے بغیر نہ رہ سکی۔ برطا نوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز کی ڈیفنس کمیٹی نے اپنے سیشن 2002-2003 کی چھٹی رپورٹ میں بیان کیا :
Dr Qadri claimed that any terrorist act is against the basic precepts of Islam and that it does not allow aggression, oppression and barbarism in any event. And that there is a faction in the Islamic world whose interpretations of Islam are extremist in nature. Their handling of political, social and cultural matters reflect the extremist trend in their thinking. He stated that this extremist class believes that Islam is inconsistent with democracy and any association with democracy is forbidden .(Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri, "Extremism : Causes and Cures", The Nation, December 14, 2001)
Criticising the extremist elements he stated that such groups present a horrifying picture of Islam in the Western world and provoke the religious sentiments of the people for their personal gains. Dr Qadri encouraged the Taliban to hand Osama bin Laden over to a third party, he suggested that such a role can be played by NATO, the European Union, or the Organisation of Islamic Conference (OIC). (Lecture delivered by Dr Tahir-ul-Qadri, "Terrorism & International Peace," September 2001, Pakistan