عالمی مالی بحران اور اس کے اثرات

مالیا تی بحران نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اور جوں جوں وقت گزرتا گیا اس بحران کے دیگر پہلو سامنے آتے گئے ان میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی گئیں اور امریکی منڈیوں سے پھوٹ بہنے والے اس بحران نے قلیل عرصے میں تمام عالمی منڈیوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا ۔ یہ صورتحال تمام دنیا کی سٹاک مارکیٹوں کے کس قدر ایک دوسرے پر منحصر ہونے کی آئینہ دار ہے ۔ یعنی ایک مختصر دورانیئے میں ایک بحران نے تمام دنیا کو متاثر کیا اور اس کے خلاف تدابیر اختیار کی جانے لگیں تاہم جلد ہی اس بات کا بھی احساس ہو گیا کہ ساری دنیا کی سٹاک مارکیٹوں کو مل کر کوئی اقدام کرنے کی ضرورت ہے ۔
بحران سے پہلے کی صورتحال
بحران سے قبل مارکیٹوں میں ایک پر امید صورتحال موجود تھی اور اثاثے مارکیٹوں کے ریٹ بڑھانے کی شکل میں حرکت میں تھے پیٹرول کی قیمتیں بھی اپنی طلب کے حساب سے مستقل اضافے کی طرف مائل تھیں ۔ ماہ جولائی میں پیٹرول کی فی بیرل قیمت 147 ڈالر تک چڑھ گئی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور خشک سالی کی وجہ سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں بھی اضافے سے یہ صورتحال ایک بحران کی شکل اختیار کر گئی ۔ ABD میں رہائشی مکانات کی قیمتیں بڑھوتی کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے بینک اس شعبے میںقرضوں کی فراہمی سے کثیر منافع کمانے کا پروگرام بنا رہے تھے ۔ اور
ایسے شہری بھی ان قرضوں سے فائدہ حاصل کر سکتے تھے جن کی ادائیگی کی صلاحیت قدرے کم تھی۔ قرضے کی مدد سے مالک مکان ، مکانوں کی قیمتیں بڑھنے کے نتیجے میں مکانوں کی قدر میں ہونے والے اضافے کو مکان کی قیمت کے متوازی دیکھتے ہوئے مزید قرضہ جات حاصل کر رہے تھے ۔ مثال کے طور پر اگر دس ہزار ڈالر میں ایک مکان لیا گیا ہو تو مکان کی قیمت میں اکیاون فیصد اضافے سے گھرکی قیمت پندرہ ہزار ہو جاتی ہے اس طرح قرض خواہ اضافی پانچ ہزار ڈالر زر ضمانت کے طور پر دکھا کر نیا قرض حاصل کرنے کا موقع حاصل کر رہے تھے ۔ قرضہ فراہم کرنے والے بینک قرضے کی واپسی کا انتطار کئے بغیر زر ضمانت والے گھروں کی قدر کے مقابلے میں ردعمل دکھاتے ہوئے دوبارہ قرض جاری کر کے مارکیٹ سے نئے امکانات حاصل کر رہے تھے ۔
بحران پیدا ہونا
جب امریکہ میں مکانوں کی قیمتیں گرنے لگیں تو ادائیگیوں کی صلاحیت نہ رکھنے والے قرض داروں نے ادائیگیوں میں مشکل محسوس کی اور اس طرح ادائیگیاں نہ کرنے والوں کو بینکوں کی طرف سے نوٹس مل گیا ۔ بینکوں سے نوٹس وصول کرنے والے قرض داروں نے نقد رقوم کی صورت میں واپسی کے لئے مکانات کو فروخت کرنا شروع کر دیا رسد میں اضافہ ہونے سے مکانات کی قیمت مزید گر گئی ۔ مکانات کی قیمتوں میں ہونے والی کمی ، مکان پر منحصر اسٹاک منافع کی قدر میں بھی کمی کا باعث بنی ۔ اس صورت میں سٹاک کو خریدنے والے مالی ادارے بھی مشکلات کا شکار ہو گئے ۔
ڈپازٹ کے مالکوں کے لئے ادائیگیوں کی شرط میں تبدیلی نہیں ہوئی دوسری طرف بینکوں کے موجود اثاثوں کی قدر گرنے سے سرمائے کی مشکلات سامنے آنے لگیں ۔بینکوں کی نقد کی کمی کو پورا کرنے کے لئے دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لے کر سرمایہ فراہم کرنا ضروری ہو رہا تھا لیکن صورتحال بہت غیر واضح اور خطرناک ہو نے سے کریڈٹ کی قدر میں بہت اضافہ ہو رہا تھا جس کی وجہ سے بینک نئے قرضہ جات جاری کرنے میں بہت جاذبیت محسوس کر رہے تھے جبکہ فنانس کے سسٹم میں کمی نظر آ رہی تھی یہ کیفیت مالیاتی منڈیوں میں عدم اعتماد کی فضا پیدا کر رہی تھی اور اس کے ذمہ دار بینک دیوالیہ ہو رہے تھے ۔ اور مالی بحران نے پیداواری سیکٹر کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا تھا ۔
بحران کے اثرات
منڈیوں میں مندی کے رجحان سے طلب میں کمی ہو گئی یا پھر اس کمی کی توقع سرمایہ داروں کو شکوک شبہات میں مبتلا کر رہی تھی ۔ مالی بحران کا حلقہ بہت وسیع ہونے کی وجہ سے تمام دنیا کی منڈیاں اس سے متاثر ہوئیں ۔ اور عدم اعتماد کی ایک مثال سونے کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ تھا ۔ اس بحران کا تقابل 1929 میں امریکہ میں آنے والے بحران سے کیا جا رہا ہے اس دور میں امریکہ کو بہت زیادہ خسارے کا سامنا کرنا پڑا اور بیروز گاری نہاٰت بلندی پر پہنچ گئی تھی ۔اس دور میں امریکہ سالوں تک اس بحران کے اثرات میں رہا ۔ قرضوں میں کمی کے نتیجے میں سرمایہ کاری اور صرف کے فیصلوں میں کمی کا رجحان پیدا کرنے سے بے روزگاری اور سرد بازاری چڑھ سکتی تھی ۔ اس وجہ سے اس موضوع پر اہم اقدامات کئے جا رہے ہیں امریکہ کی آزاد اکانومی مرکزی سطح پر پہچانی جاتی ہے اورمنڈیوں میں اس کی حفاظتی تدابیر دیرپا اثر رکھتی ہیں ۔ لیکن موجودہ مالی بحران اس قدر شدید صورت اختیار کر گیا ہے کہ بعض بینکوں کو نیشنیلائز کرنے کی ضرورت پیش آئی تاہم بعض حلقوں میں اس صورتحال کو سوشلسٹ رجحان سے وابستہ کیا جا رہا ہے ۔
پٹرول کی قیمیتیں:
بحران سے قبل پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا جو کہ تاریخ میں اپنے وقت کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ رہی تھی۔ ماہ جولائی میں پٹرول کی قیمت 147 ڈالر فی بیرل تک پہنچی۔ پٹرول برآمد کرنے والے ممالک قیمت میں اس اضافے سے خوش ہونے کے بجائے اس قیمت کا صارفین بڑھتی ہوئی مالیت سے موازنہ کر رہے تھے۔ ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کا پائیدار طور پر جائزہ لیتے ہوئے ممالک نے اپنے بجٹ کے اخراجات کی اسی حساب سے منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن مالی بحران کے پیدا ہوتے ہی طلب کم ہونے کی توقع منڈیوں پر حاکم ہوگئی اور یہ صورت حال قیمتوں کے تیزی سے گرنے کا سبب بنی۔ ماہ اکتوبر میں اوسطا خام پٹرول کی قیمتیں کچھ ماہ قبل کی قیمتوں کے مقابلے میں 50 فیصد کم ہو کر 70 ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔پٹرول برآمد کرنے والے ممالک اس صورت حال سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور اوپیک تنظیم نے فوری طور پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا اعلان کیا۔ زیر موضوع ممالک اس قدر گھبراہٹ کے عالم میں تھے کہ تنظیم نے 17 دسمبر کو کیا جانے والا اجلاس 24 اکتوبر کو طلب کر لیا۔ بعض رکن ممالک نے اس تیز رفتاری سے گرتی ہوئی پٹرول کی قیمتوں کو روکنے کے لیے پیداوار میں کمی کرنے کا مطالبہ کیا۔ اوپیک کے عالمی پٹرول کی برآمدات کے 40 فیصد کے قریب پیداوار کا مالک ہونے سے ایک جیسی قیمتوں میں تبدیلی کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہو سکتا اور اس طرح پٹرول کی قیمتوں میں کمی جاری رہ سکتی ہے۔
اختیار کی جانے والی تدابیر:
امریکہ سے شروع ہونے والے اس بحران نے پوری دنیا کو متاثر کیاہے۔ اس بحران سے متاثر ہونے والے ممالک نے اس بحران کے نقصانات کے پیش نظر بہت سی تدابیر اختیار کیں ہیں۔ امریکہ نے بعض بینکوں کو اپنی تحویل میں لیا ہے جبکہ آئرلینڈ نے بینکینگ کے شعبے کو حکومت کی ضمانت فراہم کی۔ بعض ممالک نے امدادی پیکیج کونافذ کرنا شروع کیا اور مشکل صورتِ حال سے دو چار ہونے والے بینکوں کو سرمایہ فراہم کیا۔
مالی نظام کے تنگ ہونے والے دور میں بینکوں میں اکاوئنٹس ہولڈرز افراد مایوس ہو کر اپنے اکاونٹس میں سے رقوم نکالنے کا بھی سوچ سکتے ہیں۔ ان بینکوں سے نکالے جانے والی رقوم کو سونے جیسی بعض قیمتی دھاتوں میں یا پھر نقد کے طور پر بھی اپنے پاس رکھنے سے بینکوں میں liquidity کا مسئلہ زیادہ زور پکڑ سکتا ہے اور صورتحال معمول پر ہونے والے بینکوں میں یہ افلاس کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اس سبب سے بعض ممالک نے اکاونٹس کو اپنی ضمانت میں لیا یا پھر زیر ضمانت ہونے والے اکاونٹس کی سطح میں اضافہ کیا ۔
دریں اثنا مالی بحران سے متاثر ہو کر مشکل وقت میں ہونے والے مگر نئے سرمائے کی فراوانی سے بچنے والے بینکوں کی افلاس زدہ ہونے والی اقتصادیات میں غیر مستحکم ماحول میں اضافہ کرتے ہوئے اس میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔
دریں اثنا افلاس زدہ ہونے والے ان بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے ساتھ ساتھ بےروزگار ملازمین،بےروزگار بیمے سے مستفید ہونے والوں پر یا سماجی حقوقی اداروں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں یا پھر آمدنی میں کمی ہونے کے باعث کل طلب میں کمی کے روبرو آ سکتے ہیں۔اس صورت حال میں ویسے ہی آمدنی میں کمی سے پیدا ہو جانے والی اقتصادی سست روی جلتی پر تیل کا کام کر سکتی ہے۔ اس طرح بعض بینکوں کو قومی تحویل میں لینے سے یا پھر انھیں سرمایہ فراہم کرنے سے اسے ایک کم مالیتی سرگرمی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
مالی اداروں میں بلواسطہ یا پھر بلا واسطہ طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہونے اور اس بحرانی ماحول میں ایک مستحکم ماحول کو فروغ دینے کے لیے سب سے زیادہ پراثر پالیسی مرتب دینے کا باعث بینکوں کو افلاس سے روکنے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہیں۔ مگر بینکوں کو فراہم ہونے والی رقوم پر لاگو ٹیکس پو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
معمولی سطح پر سرمائے کی فراوانی سے محفوظ نہ رہنے والے بینکوں کو زیادہ سرمایہ فراہم کرنے سے اپنے قدم جمانے کی کوششیں اور ٹیکسوں کے بوجھھ میں اضافے کے باعث طلب میں کمی کی راہ ہموار کرنے کی صورت میں بینکوں کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
اس کے باعث مشکل صورتِ حال سے دو چار ہونے والے بینکوں کے افلاس زدہ ہونے پر نظر ثانی کرنے کو ایک غلط پالیسی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔
دنیا پر بحران کے اثرات:
بحران کے منظر عام پر رونما ہوتے وقت سے اب تک افراتفری کی صورت حال میں کمی ہوئی ہے اور آہستہ آہستہ اس نے اپنے توازن کو قائم رکھنا شروع کر دیا ہے۔ اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ منڈیوں کی سرگرمیاں اور اسٹاک میں گراوٹ میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ ڈالرکی قدر میں یورو کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض بینکوں کے نقصان ہونے کے باوجود مالی منڈیوں میں افراتفری کا ماحول قائم نہیں ہو رہا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ بحران دو برسوں کے اندر ختم ہو جائے گا۔ بعض ممالک کے بینکوں کو سرمایہ فراہم کرنے سے ان بینکوں کا بحران کے بعد مزید مضبوط ہونے کا بھی تاثر ملتا ہے۔
بعض بڑی کمپنیوں کے اپنے منافع کی شرح میں کمی کرنے سے متعلق بیانات نے خراب صورت حال میں ہونے والی منڈیوں کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اگر حفاظتی پیکیج کو صرف مشکل حالات میں ہونے والے بینکوں کے بارے میں اگر سوچا جائے تو اس بحران کے باعث قرض لینے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنے والے real sector سے وابستہ کمپنیوں کو بھی اس نے اپنے اندر جذب کرنا شروع کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر جاپان کے real sector سے وابستہ کمپنیوں کو امداد فراہم کرنے کی غرض سے ایک حفاظتی پیکیج کو ترتیب دیا گیا۔
بحران کے باعث عالمی سطح پر ایک نئی مرتب کردہ پالیسی منظر عام پر آئی۔متعدد مالک کے یکے بعد دیگرے تجاویز پر مبنی اپنے پیکیجز کا اعلان کرنے سے اگر کم بھی ہو تو مالی منڈیوں میں استحکام کے ماحول کی فضا قائم ہونا شروع ہو گئی ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک جیسے بعض بین الا قوامی اداروں نے درمیان میں آتے ہوئے مالی بحران کو تقویت دینے سے روکنے کوشش کی۔
بحران کا سبب بننے والے امریکہ کے سینٹرل بینک نے منڈیوں کی توقعات کا مثبت جواب دینے کے لیے سود کی شرح میں کمی کر دی۔
اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ بحران کے باعث متعدد ممالک کو مسائل کے حل کے لیے برابر پیش قدمی کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔
بشکریہ صدائے ترکی
 

ماسٹر

محفلین
دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ۔
بحران کے نتیجہ میں بنک ضرورت مندوں کو بھی آجکل قرضے نہیں دے رہے ۔ جس سے بحران میں اور اضافہ ہو رہا ہے ۔
اس کا علاوہ بنک ایک دوسرے کی بھی مدد نہیں کر رہے ، اتنا ایک دوسرے کا اعتبارکم ہو چکا ہے ۔
 

arifkarim

معطل
ہاں اور چونکہ اب یہ بھانڈا بھی پھوٹ چکا ہے کہ بینکس دولت کیسے چھاپتے ہیں، اسلئے بینکس نے قرضے دینے ہی بند کر دئے ہیں۔
 
Top