جاسم محمد
محفلین
عالم فاضل دکھائی دینے کا ایک آزمودہ نسخہ
05/08/2019 عدنان خان کاکڑ
لوگ کسی وجہ سے آپ کو خوب پڑھا لکھا آدمی سمجھنے لگے ہیں تو اپنا رعب قائم رکھنے کو ایک گر کی بات یاد رکھیں۔ جب کسی کتاب کا ذکر ہو تو بے نیازی سے کہا کریں کہ ”ہاں نظر سے گزری ہے“۔ یہ وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی کتابوں کی دکان میں شیلف میں رکھی تھی جب آپ کی نظر سے گزری تھی۔
اس سے لوگوں پر خوب رعب پڑتا ہے کہ جس کتاب کا بھی پوچھیں وہ آپ نے پڑھ رکھی ہے۔ اس طرح وہ آپ کو الٹی سیدھی باتیں اس کتاب سے منسوب کر کے بھی نہیں سنا سکتے کیونکہ بیشتر صورتوں میں متعلقہ کتاب ان کی نظر سے بھی صرف گزری ہوتی ہے اور انہیں یہ خوف ستاتا ہے کہ انہوں نے کتاب کے متعلق کوئی غلط بات کی تو آپ جھٹ پکڑ لیں گے۔
نوٹ کریں کہ تکنیکی طور پر یہ بات جھوٹ نہیں ہے کیونکہ آپ یہ دعوی نہیں کر رہے کہ وہ کتاب آپ نے پڑھی ہے، آپ تو محض یہ بیان کر رہے ہیں کہ وہ کتاب آپ کی نظر سے گزری ہے۔ اب اگر اس فقرے کو کوئی آپ کے عجز و انکساری پر محمول کر کے یہ فرض کر لے کہ آپ نے وہ کتاب پڑھ رکھی ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے، آپ کا نہیں۔
اس کے بعد غیر محسوس انداز میں بات کو گھما کر اس ایک کتاب کی طرف لے جائیں جو آپ نے پڑھ رکھی ہو۔ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر آدمی صرف ایک کتاب ہی پڑھ لے تو وہ تمام علمی مباحث کے لئے بہت ہوتی ہے۔ اس بات کو بڑے بڑے مفکرین تسلیم کرتے ہیں۔
مثلاً مسیحیت کے بہت بڑے مفکر ہیں سینٹ تھامس اکوینس نامی۔ ان کے دلائل کو حجت مانا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ”مجھے اس شخص سے ڈر لگتا ہے جس کے پاس صرف ایک کتاب ہے“۔
یہ عالی دماغ بزرگ تو خیر آٹھ سو ہزار سال ہوئے گزر گئے ہیں مگر عصر حاضر کے ایک مشہور مصنف اور صحافی آرتورو پیریز رویورتے بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ”اس شخص پر کبھی اعتبار مت کرو جس نے صرف ایک کتاب پڑھ رکھی ہو۔ “ یہ حضرت بھی غالباً بارہا خفت اٹھا چکے ہوں گے۔
ویسے بھی ہر الٹی سیدھی کتاب پڑھنا لازم نہیں ہے۔ مرشدی مارک ٹوین کلاسیک کی تعریف کرتے ہوئے یہ حقیقت بیان کر چکے ہیں کہ ”کلاسیک وہ کتاب ہوتی ہے جس کی تعریف میں ہر شخص رطب اللسان ہوتا ہے مگر اسے پڑھتا نہیں“۔
آپ نے دیکھا کہ ہم بے بنیاد بات نہیں کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے مفکر، مصنف اور متکلم اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ جس نے صرف ایک کتاب پڑھ لی اس نے گویا علم کا سارا سمندر پی لیا اور بڑے سے بڑا عالم اس کے سامنے ٹک نہیں پاتا۔ نیز بلاوجہ کتابیں پڑھنا ضروری نہیں بلکہ بس مشہور کتابوں کی تعریف کرنا ہی آدمی کو معتبر کر دیتا ہے۔
میرا آزمودہ نسخہ ہے۔ آپ بھی ضرور ٹرائی کریں۔
مثلاً کوئی صاحب سوال کریں کہ کیا آپ نے ارسطو کی بوطیقا پڑھی ہے؟ اب ماجرا یہ ہے کہ آپ نے بچپن میں اٹھنی دے کر ایک ہی کتاب خریدی تھی اور اسی پر آپ کی ذاتی لائبریری آج بھی مشتمل ہے۔ تو آپ گھبرائے بغیر نہایت متانت سے جواب دیں ”نظر سے گزری ہے۔ مگر مجھے ’عمرو عیار اور زباٹا دیو‘ نے زیادہ متاثر کیا تھا۔ بظاہر بچوں کی کہانی ہے مگر اس میں استعاروں کے استعمال سے جو گہری بات کی گئی ہے وہ صاحب نظر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ زندگی اور سیاست کے بہت پیچیدہ مسائل کو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ اور کمال یہ ہے کہ جب ریڈر کی عمر پانچ سال ہوتی ہے تو یہ کتاب اسے بچوں کی دلچسپ کہانی لگتی ہے اور جب وہ پچاس برس کا ہوتا ہے تو پھر اسی کہانی میں پوشیدہ فلسفے کو وہ سمجھ کر حیران ہوتا ہے کہ یہ کتنی بڑی کتاب ہے۔ آپ کی نظر سے بھی یقیناً گزری ہو گی۔ “
اب کیونکہ سامنے والا بھی عموماً کتابوں کا نام سن کر ہی علم جھاڑ رہا ہوتا ہے تو وہ یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ”عمرو عیار اور زباٹا دیو“ علم و حکمت کا ایک سمندر ہے۔ اب کیونکہ اس نے یہ اہم کتاب پڑھی ہی نہیں ہے بلکہ یہ صرف اس کی نظر سے گزری ہے، تو آپ اس سے منسوب کر کے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہاں کئی عالم لوگ بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بلاوجہ ہی سچ بولتے ہیں اس لئے وہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں کتاب پڑھی ہے اور فلاں نہیں۔ انہوں نے ارسطو سے لے کر کارل پوپر تک سب حفظ کر رکھے ہوتے ہیں مگر یقین مانیں کہ ”عمرو عیار اور زباٹا دیو“ ان کی نظر سے بھی نہیں گزری ہو گی۔ اس لئے خواہ وہ افلاطون کا غار لے آئیں یا کارل پوپر کی فلاسفی آف سائنس، آپ نہایت اعتماد سے بتا سکتے ہیں کہ جب زباٹا دیو نے عمرو عیار اور اس کے ساتھیوں کو غار میں بند کیا تھا تو اس منظر میں افلاطون کی حکمت استعمال کر کے ہی عمرو نے اپنے ساتھیوں کو سایوں کے سحر سے آزاد کیا تھا۔
نظریہ ارتقا پر بحث چل رہی ہو اور علم حیاتیات کے کوئی پروفیسر شد و مد سے بیان کر رہے ہوں کہ کس طرح ایک مینڈک نما نیم آبی نیم ارضی مخلوق رفتہ رفتہ انسان بن گئی، تو آپ بتا سکتے ہیں کہ ”عمرو عیار اور زباٹا دیو“ میں سامری جادوگر کے ذریعے بہت اچھے انداز میں اس نظریے کو سمجھایا گیا ہے جب اس نے برق فرنگی کے سر میں کیل ٹھونک کر اسے گرگٹ بنا دیا تھا اور پھر عمرو عیار نے آبِ سحر کش چھڑک کر اسے واپس انسان بنایا تھا۔ اس سے بچوں کے ذہن میں نظریہ ارتقا کا تصور جم جاتا ہے کہ ایک نوع حیات دوسری نوع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
یعنی بات فلسفے کی ہو یا آئین سٹائن کے نظریہ اضافت کی، ہیری پوٹر کے فنی محاسن کی ہو یا ڈارون کے نظریہ ارتقا کی، آپ کی یہ ایک کتاب جسے آپ نے بچپن میں اپنے جیب خرچ کی اٹھنی صرف کر کے خریدا تھا، آپ کو ایک عالم فاضل تسلیم کروا دے گی۔
05/08/2019 عدنان خان کاکڑ
لوگ کسی وجہ سے آپ کو خوب پڑھا لکھا آدمی سمجھنے لگے ہیں تو اپنا رعب قائم رکھنے کو ایک گر کی بات یاد رکھیں۔ جب کسی کتاب کا ذکر ہو تو بے نیازی سے کہا کریں کہ ”ہاں نظر سے گزری ہے“۔ یہ وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی کتابوں کی دکان میں شیلف میں رکھی تھی جب آپ کی نظر سے گزری تھی۔
اس سے لوگوں پر خوب رعب پڑتا ہے کہ جس کتاب کا بھی پوچھیں وہ آپ نے پڑھ رکھی ہے۔ اس طرح وہ آپ کو الٹی سیدھی باتیں اس کتاب سے منسوب کر کے بھی نہیں سنا سکتے کیونکہ بیشتر صورتوں میں متعلقہ کتاب ان کی نظر سے بھی صرف گزری ہوتی ہے اور انہیں یہ خوف ستاتا ہے کہ انہوں نے کتاب کے متعلق کوئی غلط بات کی تو آپ جھٹ پکڑ لیں گے۔
نوٹ کریں کہ تکنیکی طور پر یہ بات جھوٹ نہیں ہے کیونکہ آپ یہ دعوی نہیں کر رہے کہ وہ کتاب آپ نے پڑھی ہے، آپ تو محض یہ بیان کر رہے ہیں کہ وہ کتاب آپ کی نظر سے گزری ہے۔ اب اگر اس فقرے کو کوئی آپ کے عجز و انکساری پر محمول کر کے یہ فرض کر لے کہ آپ نے وہ کتاب پڑھ رکھی ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے، آپ کا نہیں۔
اس کے بعد غیر محسوس انداز میں بات کو گھما کر اس ایک کتاب کی طرف لے جائیں جو آپ نے پڑھ رکھی ہو۔ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر آدمی صرف ایک کتاب ہی پڑھ لے تو وہ تمام علمی مباحث کے لئے بہت ہوتی ہے۔ اس بات کو بڑے بڑے مفکرین تسلیم کرتے ہیں۔
مثلاً مسیحیت کے بہت بڑے مفکر ہیں سینٹ تھامس اکوینس نامی۔ ان کے دلائل کو حجت مانا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ”مجھے اس شخص سے ڈر لگتا ہے جس کے پاس صرف ایک کتاب ہے“۔
یہ عالی دماغ بزرگ تو خیر آٹھ سو ہزار سال ہوئے گزر گئے ہیں مگر عصر حاضر کے ایک مشہور مصنف اور صحافی آرتورو پیریز رویورتے بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ”اس شخص پر کبھی اعتبار مت کرو جس نے صرف ایک کتاب پڑھ رکھی ہو۔ “ یہ حضرت بھی غالباً بارہا خفت اٹھا چکے ہوں گے۔
ویسے بھی ہر الٹی سیدھی کتاب پڑھنا لازم نہیں ہے۔ مرشدی مارک ٹوین کلاسیک کی تعریف کرتے ہوئے یہ حقیقت بیان کر چکے ہیں کہ ”کلاسیک وہ کتاب ہوتی ہے جس کی تعریف میں ہر شخص رطب اللسان ہوتا ہے مگر اسے پڑھتا نہیں“۔
آپ نے دیکھا کہ ہم بے بنیاد بات نہیں کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے مفکر، مصنف اور متکلم اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ جس نے صرف ایک کتاب پڑھ لی اس نے گویا علم کا سارا سمندر پی لیا اور بڑے سے بڑا عالم اس کے سامنے ٹک نہیں پاتا۔ نیز بلاوجہ کتابیں پڑھنا ضروری نہیں بلکہ بس مشہور کتابوں کی تعریف کرنا ہی آدمی کو معتبر کر دیتا ہے۔
میرا آزمودہ نسخہ ہے۔ آپ بھی ضرور ٹرائی کریں۔
مثلاً کوئی صاحب سوال کریں کہ کیا آپ نے ارسطو کی بوطیقا پڑھی ہے؟ اب ماجرا یہ ہے کہ آپ نے بچپن میں اٹھنی دے کر ایک ہی کتاب خریدی تھی اور اسی پر آپ کی ذاتی لائبریری آج بھی مشتمل ہے۔ تو آپ گھبرائے بغیر نہایت متانت سے جواب دیں ”نظر سے گزری ہے۔ مگر مجھے ’عمرو عیار اور زباٹا دیو‘ نے زیادہ متاثر کیا تھا۔ بظاہر بچوں کی کہانی ہے مگر اس میں استعاروں کے استعمال سے جو گہری بات کی گئی ہے وہ صاحب نظر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ زندگی اور سیاست کے بہت پیچیدہ مسائل کو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ اور کمال یہ ہے کہ جب ریڈر کی عمر پانچ سال ہوتی ہے تو یہ کتاب اسے بچوں کی دلچسپ کہانی لگتی ہے اور جب وہ پچاس برس کا ہوتا ہے تو پھر اسی کہانی میں پوشیدہ فلسفے کو وہ سمجھ کر حیران ہوتا ہے کہ یہ کتنی بڑی کتاب ہے۔ آپ کی نظر سے بھی یقیناً گزری ہو گی۔ “
اب کیونکہ سامنے والا بھی عموماً کتابوں کا نام سن کر ہی علم جھاڑ رہا ہوتا ہے تو وہ یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ”عمرو عیار اور زباٹا دیو“ علم و حکمت کا ایک سمندر ہے۔ اب کیونکہ اس نے یہ اہم کتاب پڑھی ہی نہیں ہے بلکہ یہ صرف اس کی نظر سے گزری ہے، تو آپ اس سے منسوب کر کے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہاں کئی عالم لوگ بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بلاوجہ ہی سچ بولتے ہیں اس لئے وہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں کتاب پڑھی ہے اور فلاں نہیں۔ انہوں نے ارسطو سے لے کر کارل پوپر تک سب حفظ کر رکھے ہوتے ہیں مگر یقین مانیں کہ ”عمرو عیار اور زباٹا دیو“ ان کی نظر سے بھی نہیں گزری ہو گی۔ اس لئے خواہ وہ افلاطون کا غار لے آئیں یا کارل پوپر کی فلاسفی آف سائنس، آپ نہایت اعتماد سے بتا سکتے ہیں کہ جب زباٹا دیو نے عمرو عیار اور اس کے ساتھیوں کو غار میں بند کیا تھا تو اس منظر میں افلاطون کی حکمت استعمال کر کے ہی عمرو نے اپنے ساتھیوں کو سایوں کے سحر سے آزاد کیا تھا۔
نظریہ ارتقا پر بحث چل رہی ہو اور علم حیاتیات کے کوئی پروفیسر شد و مد سے بیان کر رہے ہوں کہ کس طرح ایک مینڈک نما نیم آبی نیم ارضی مخلوق رفتہ رفتہ انسان بن گئی، تو آپ بتا سکتے ہیں کہ ”عمرو عیار اور زباٹا دیو“ میں سامری جادوگر کے ذریعے بہت اچھے انداز میں اس نظریے کو سمجھایا گیا ہے جب اس نے برق فرنگی کے سر میں کیل ٹھونک کر اسے گرگٹ بنا دیا تھا اور پھر عمرو عیار نے آبِ سحر کش چھڑک کر اسے واپس انسان بنایا تھا۔ اس سے بچوں کے ذہن میں نظریہ ارتقا کا تصور جم جاتا ہے کہ ایک نوع حیات دوسری نوع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
یعنی بات فلسفے کی ہو یا آئین سٹائن کے نظریہ اضافت کی، ہیری پوٹر کے فنی محاسن کی ہو یا ڈارون کے نظریہ ارتقا کی، آپ کی یہ ایک کتاب جسے آپ نے بچپن میں اپنے جیب خرچ کی اٹھنی صرف کر کے خریدا تھا، آپ کو ایک عالم فاضل تسلیم کروا دے گی۔