فارسی شاعری عباسی خلافت کے زوال پر مرثیہ - شیخ سعدی شیرازی

حسان خان

لائبریرین
آسمان را حق بود گر خون بگرید بر زمین
بر زوالِ ملکِ مستعصم امیرالمؤمنین
اگر آسمان امیرالمومنین مستعصم کی بادشاہت کے زوال پر زمین پر خون برسائے تو یہ اُس کے لیے روا ہے۔

ای محمد گر قیامت می‌برآری سر ز خاک
سر برآور وین قیامت در میانِ خلق بین

اے محمد (ص)!، اگر آپ قیامت کے وقت اپنی تربت سے سر باہر نکالیں گے، تو ابھی سر باہر نکالیے اور لوگوں کے درمیان یہ قیامت دیکھیے۔

نازنینانِ حرم را خونِ خلقِ بی‌دریغ
ز آستان بگذشت و ما را خونِ چشم از آستین

حرم (محل) کے نازنینوں کی دہلیز سے بے دریغ لوگوں کا خون بہہ گیا اور (اُس کے غم میں) ہماری آستین خونِ چشم سے رنگین ہو گئی۔

زینهار از دورِ گیتی، و انقلابِ روزگار
در خیالِ کس نیامد کانچنان گردد چنین

دنیا کے چکر اور زمانے کے انقلاب سے پناہ! کسی کے خیال میں بھی یہ نہ آیا تھا کہ یوں سے یوں ہو جائے گا۔

دیده بردار ای که دیدی شوکتِ باب‌الحرم
قیصرانِ روم سر بر خاک و خاقانانِ چین

اے وہ کہ جس نے باب الحرم کی شوکت دیکھی تھی، اور قیصرانِ روم اور خاقانانِ چین کو یہاں سر بر خاک دیکھا تھا، اب اپنی آنکھیں اٹھاؤ (اور دیکھو)۔

خونِ فرزندانِ عمِ مصطفی شد ریخته
هم بر آن خاکی که سلطانان نهادندی جبین

اُسی خاک پر کہ جس پر سلطان اپنی جبیں رکھا کرتے تھے، عمِ مصطفیٰ (ص) کے فرزندوں کا خون بہہ گیا۔

وه که گر بر خونِ آن پاکان فرود آید مگس
تا قیامت در دهانش تلخ گردد انگبین

آہ! اگر اُن پاک لوگوں کے خون پر مگس آ کر بیٹھے تو قیامت تک اُس کے دہن میں شہد تلخ ہو جائے۔

بعد از این آسایش از دنیا نشاید چشم داشت
قیر در انگشتری ماند چو برخیزد نگین

اس واقعے کے بعد دنیا سے آسائش کی توقع رکھنا مناسب نہیں ہے؛ جب نگینہ نکل جائے تو انگوٹھی میں محض قیر (تارکول) باقی رہا جاتا ہے۔


دجله خونابست ازین پس گر نهد سر در نشیب
خاکِ نخلستانِ بطحا را کند در خون عجین
دریائے دجلہ کا پانی اب لہو لہو ہے؛ اس کے بعد اگر وہ کبھی نشیب میں بہے تو نخلستانِ بطحا کی خاک کو خون میں لتھڑ دے گا۔

روی دریا در هم آمد زین حدیثِ هولناک
می‌توان دانست بر رویش ز موج افتاده چین

اس ہولناک بات کو سن کر سمندر کا چہرہ درہم ہو گیا ہے (یعنی اُس کی پیشانی پر بل پڑ گئے ہیں)؛ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اُس کے چہرے پر موجوں سے شکنیں پڑ گئی ہیں۔

گریه بیهوده‌ست و بیحاصل بوَد شستن به آب
آدمی را حسرت از دل و اسب را داغ از سرین

گریہ و زاری بے فائدہ ہے اور آدمی کے لیے دل سے حسرت اور گھوڑے کے لیے اپنی سُرین سے داغ پانی سے دھونا بے حاصل ہے۔

نوحه لایق نیست بر خاکِ شهیدان زانکه هست
کمترینِ دولت ایشان را بهشت برترین

خاکِ شہیداں پر نوحہ مناسب نہیں ہے کیونکہ ان کے لیے کمترین نعمت بہشتِ بریں ہے۔


لیکن از رویِ مسلمانی و کویِ مرحمت
مهربان را دل بسوزد بر فراقِ نازنین

ہاں مگر مسلمان ہونے اور رحم کے سبب مہربان کا دل نازنین دوست کے فراق پر جلتا ہے۔


باش تا فردا که بینی روزِ داد و رستخیز
وز لحد با زخمِ خون‌آلوده برخیزد دفین

کل تک صبر کرو، کہ جب تم عدالت و قیامت کا دن دیکھو گے؛ اور جب قبر سے اہلِ قبر خون آلودہ چہروں کے ساتھ اُٹھیں گے۔


بر زمین خاکِ قدمشْان توتیایِ چشم بود
روزِ محشر خونشان گلگونهٔ حورانِ عین

زمین پر اُن کے قدم کی خاک آنکھوں کا سرمہ تھی؛ اور روزِ محشر اُن کا خون حورانِ عین کی سرخی ہو گی۔


قالبِ مجروح اگر در خاک و خون غلطد چه باک
روحِ پاک اندر جوارِ لطفِ رب‌العالمین

اُن کے مجروح قالب اگر خاک و خوں میں غلطاں ہو گئے تو کیا ہوا؟ اُن کی پاک روحیں تو رب العالمین کے لطف کے جوار میں ہیں۔

تکیه بر دنیا نشاید کرد و دل بر وی نهاد
کاسمان گاهی به مهرست ای برادر گه به کین

دنیا پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے اور نہ اُس سے دل لگانا چاہیے کیونکہ اے برادر! آسمان کبھی دوست ہے اور کبھی دشمن۔

چرخِ گردان بر زمین گویی دو سنگِ آسیاست
در میانِ هر دو روز و شب دلِ مردم طحین

زمین پر یہ چرخِ گرداں گویا چکّی کے دو پتھروں کی طرح ہے جن کے درمیان ہر روز و شب انسان کا دل آٹے کی طرح پیسا جاتا ہے۔

زورِ بازویِ شجاعت برنتابد با اجل
چون قضا آمد نماند قوّتِ رایِ رزین

بازوئے شجاعت کا زور اجل پر غالب نہیں آتا اور جب قضا آ جائے تو رائے صائب میں قوت باقی نہیں رہتی۔

تیغِ هندی برنیاید روزِ پیکار از نیام
شیرمردی را که باشد مرگ پنهان در کمین

پیکار کے دن اُس شیر مرد کے نیام سے ہندی تلوار باہر نہیں آ پاتی جس کی گھات میں موت چھپ کر بیٹھی ہوتی ہے۔

تجربت بی‌فایده‌ست آنجا که برگردید بخت
حمله آوردن چه سود آن را که در گردید زین

جس جگہ پر بخت پلٹ جائے وہاں تجربہ بے فائدہ ہے؛ جس شخص کی زین گر گئی ہوئی اُس کے لیے حملہ کرنے میں کیا فائدہ ہے؟

کرکسانند از پیِ مردارِ دنیا جنگجوی
ای برادر گر خردمندی چو سیمرغان نشین

(۱) یہ جنگ جُو لوگ مردارِ دنیا کے لیے گدھ کی طرح ہیں (۲) مردارِ دنیا کے لیے گدھ آپس میں لڑ رہے ہیں؛ اے برادر اگر تم عقل مند ہو تو سیمرغوں کی طرح (الگ) بیٹھو۔

ملکِ دنیا را چه قیمت حاجت اینست از خدای
کو نگه دارد به ما بر ملکِ ایمان و یقین

ملکِ دنیا کی کیا قیمت ہے؟ ہماری خدا سے تو یہ حاجت ہے کہ وہ ملکِ ایمان و یقیں میں ہم پر نگاہ رکھے۔


یارب این رکن مسلمانی به امن آباد دار
در پناه شاه عادل پیشوای ملک و دین

یا رب! اس ستونِ مسلمانی کو شاہِ عادل اور پیشوائے ملک و دین کی پناہ میں امن کی حالت میں آباد رکھ۔ (ایک نسخے میں رکنِ مسلمانی کی جگہ پر ملکِ مسلمانی ہے۔)


خسروِ صاحبقران غوثِ زمان بوبکرِ سعد
آنکه اخلاقش پسندیدست و اوصافش گزین

(وہ بادشاہ کہ جو) خسروِ صاحب قراں اور غوثِ زماں ہے اور جس کا نام ابوبکر سعد ہے۔ اور وہ کہ جس کے اخلاق پسندیدہ اور اوصاف برگزیدہ ہیں۔ (ابوبکر بن سعد زنگی سعدی کے زمانے میں فارس کا حاکم تھا۔)


مصلحت بود اختیارِ رایِ روشن‌بینِ او
با زبردستان سخن گفتن نشاید جز به لین

اُس کی جانب سے روشن بیں فکر و تدبیر کا اختیار کیا جانا خیر اندیشی اور بھلائی کی بات تھی۔ صاحبِ قدرت لوگوں کے ساتھ سوائے نرمی سے بات کرنا شائستہ اور مناسب نہیں ہے۔
(اس شعر کا اپنی فہم کے مطابق لفظی ترجمہ کر دیا ہے، لیکن اس کا مفہوم مجھ پر ٹھیک سے واضح نہیں ہو پا رہا۔ اگر کوئی عزیز مدد کرے تو شکر گزار ہوں گا۔)


لاجرم در برّ و بحرش داعیانِ دولتند
کای هزاران آفرین بر جانت از جان آفرین

بے شک خشکی اور تری میں لوگ اُس کی سعادت کے لیے (یوں) دعاگو ہیں کہ "خدائے جان آفریں کی جانب سے تمہاری جان پر ہزاروں آفریں!"

روزگارت با سعادت باد و سعدت پایدار
رایتت منصور و بختت یار و اقبالت معین

(خدا کرے) کہ تمہارے ایام مبارک رہیں، تمہاری نیک بختی پایدار رہے اور تمہارا پرچم فاتح، تمہاری قسمت یار اور تمہارا اقبال تمہارا معاون رہے۔

(سعدی شیرازی)
 
آخری تدوین:

زبیر مرزا

محفلین
سبحان اللہ - بہت عمدہ کلام حسان جیتے رہو- یہی دعائیہ شعر آپ کی نذر
روزگارت با سعادت باد و سعدت پایدار
رایتت منصور و بختت یار و اقبالت معین
(خدا کرے) کہ تمہارے ایام مبارک رہیں، تمہاری نیک بختی پایدار رہے اور تمہارا پرچم فاتح، تمہاری قسمت یار اور تمہارا اقبال تمہارا معاون رہے۔
 
Top