عباس اطہر انتقال کرگئے

یوسف-2

محفلین
Link
5-6-2013_145450_1.gif


اناللہ وانا الیہ راجعون
 

تلمیذ

لائبریرین
اناللہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے۔ آمین۔
 

یوسف-2

محفلین
مرحوم اطہر عباس ’بائیں بازو‘ (جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد عملاً منہدم ہوچکا ہے :D ) کے بہت سینیئر اہل قلم صحافی اور اپنے سیکولر خیالات و نظریات میں بہت ”شدت پسند“ تھے۔ اس کے باوجود آپ کے ذاتی حلقوں اور بہترین دوستوں میں دائیں بازو بلکہ ”جماعتی“ حلقوں کے صحافی بھی شامل تھے۔ ایک طرف آپ بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار ”مساوات“ سے وابستہ رہے تو دوسری طرف برسوں دائیں بازو کے ”مسلم لیگی“ نظریات کے حامی اخبار نوائے وقت میں نہ صرف یہ کہ صحافت کرتے رہے بلکہ کالم بھی لکھتے رہے۔ جب جنگ کے مقابلہ میں ایکسپریس نکلا تو آپ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر بن گئے اور اسی ناطے سے ایکسپریس نیوز چینل میں ایک کرنٹ افیئر ٹاک شوز بھی کرتے رہے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس شو میں انہوں نے مجیب الرحمٰن شامی اور عبدالقادر حسن جیسے ”جماعتی“ نظریات والے صحافیوں کے اپنے پینل پر رکھا۔ غالباً ضیا ءالحق کے دور میں آپ ”جلاوطنی گذارنے“ کئی برس لندن میں بھی مقیم رہے اور ع روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر کے مصداق وہاں شراب کی ایک دکان چلاتے رہے۔ یہ بات خود انہوں نے اپنے کالم میں لکھی تھی۔ لیکن ”وطن کی یاد“ اُس ماحول میں بھی آتی رہی۔ چنانچہ ”موقع“ ملتے ہی واپس پاکستان آکر صحافت کی خدمت میں لگ گئے۔ اللہ مرحوم کی خامیوں، کوتاہیوں کو معاف کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین
 

یوسف-2

محفلین
123611-AbbasAtherNEW-1367824114-965-640x480.JPG
عباس اطہر کی تاریخی ہیڈلائن''اِدھرتم اُدھر ہم'' نصاب کاحصہ بھی بنی ، وہ '' کنکریاں'' کے عنوان سے برسوں کالم لکھتے رہے ، فوٹو: فائل
لاہور: روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر اورمعروف کالم نگار عباس اطہرکینسرکےباعث انتقال کرگئے۔
سید عباس اطہر کینسرکے باعث گزشتہ شب سی ایم ایچ اسپتال لاہور میں انتقال کر گئے، ان کی نماز جنازہ تاج پورہ ہاؤسنگ اسکیم میں شام 5 بجے ادا کی جائے گی ، ان کے انتقال پرایکسپریس میڈیاگروپ نے افسوس کااظہارکیا، عباس اطہر کےقلم کی کاٹ تلوار سے زیادہ تیز سمجھی جاتی تھی، ان کی تاریخی ہیڈلائن”اِدھرتم اُدھر ہم” نصاب کاحصہ بھی بنی، وہ ” کنکریاں” کے عنوان سے برسوں کالم لکھتے رہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹرسید عباس اطہر نے جنرل ضیاء کےدور آمریت میں جیل بھی کاٹی ، حکومت ِ پاکستان نے انہیں کئی ایوارڈز سے نوازا جبکہ صدر آصف زرداری، گورنر پنجاب احمد محمود ، نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی،چئیرمین تحریک انصاف عمران خان اورجماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نےان کی وفات پرگہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس
 

یوسف-2

محفلین
ایک گائے رسی سے بندھی ہے۔رسی کتنی لمبی ہے، اسی سے طے ہوگا کہ گائے کتنی حرکت کر سکتی ہے۔ وہ آگے بڑھ سکتی ہے، پیچھے ہٹ سکتی ہے، دائیں گھوم سکتی ہے، بائیں مڑ سکتی ہے لیکن یہ سب رسی کی دی گئی گنجائش کے اندر ہی ہوگا۔ یہ گائے کی تقدیر ہے۔
اور یہی انسان اور ہر جاندار کی تقدیر ہے۔ اس نے جو کرنا ہے اور جو نہیں کرنا ہے، سب تقدیر کی رسّی نے طے کر رکھا ہے۔کبھی تقدیر دعا سے بدل بھی جاتی ہے۔ گائے اپنی قید سے تنگ آکر بہت واویلا کرے تو مالک کیا کرے گا؟ رسّی کی لمبائی بڑھا دے گا یا تنگ آکر اسے ذبح کر دے گا۔ تقدیر بدل گئی!انسان کی دعا خدا سے رحم کی ہوتی ہے۔ فیصلہ خدا کی مشیّت نے کرنا ہے کہ اپیل سنی جائے یا نہ سنی جائے۔ آسانی پیدا کی جائے یا اسے بندشوں اور دکھوں بھری زندگی سے چھٹکارا دے دیا جائے۔ تقدیر بدلنے کا فریضہ قدرت کے کارندے کرتے ہیں ، سورۃ کہف میں اس کا اشارہ موجود ہے۔ یکے از رجالِ غیب(بعض کے خیال میں حضرت خضر تھے) نے ایک کشتی کو بادشاہ کے قبضے میں جانے سے بچایا، یتیم بچوں کے لئے خزانہ محفوظ بنایا اور ایک ماں باپ کے بڑھاپے کو اولاد کے ہاتھوں دکھی ہونے سے بچایا۔ ان تینوں میں سے کس نے دعا کی تھی، یہ نہیں لکھا۔ جس طرح ضروری نہیں کہ جو بھی دعا کرے گا، رجالِ غیب اس کی مدد کوبھیجے جائیں گے اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ جو دعا نہیں کرے گا، اس پر رحمت کا کوئی چھینٹا پڑہی نہیں سکتا۔ خدائی فیصلے ہماری خواہش کے تابع نہیں۔ ہماری خوشی اور غمی اس کے فیصلوں کے تابع ہیں۔ رجال غیب کیا ہیں؟ فرشتے؟ یا انسان؟ یا کوئی اور مخلوق۔ قرآن پاک میں وضاحت نہیں۔ سورۃ کہف میں جس ہستی کا ذکر ہے، اس کے بارے میں بس یہ لکھا ہے، ’’ہمارا ایک بندہ‘‘
عباس اطہر (شاہ جی )چل بسے۔ کئی مہینوں سے سخت بیمار تھے۔ مشہور انگریزی کہانی فائنل ڈیسٹی نیشن کا مرکزی خیال یہ ہے کہ آدمی تدبیر کرکے موت کو جل دے جائے، یہ ممکن نہیں۔ ایک بار پہلو بچا لے تو بچا لے لیکن موت دوسرے روپ میں آئے گی اور جو لکھا گیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ عباس اطہر صاحب کو سال ڈیڑھ پہلے کینسر ہوا۔ برطانیہ گئے اور کامیاب علاج کرا کے لوٹے۔ پاکستان میں ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ آپ کے پاس چھ مہینے یا سال سے زیادہ کا وقت نہیں ہے۔ لندن کے ڈاکٹروں نے آپریشن کیا کیا، جادوگری کر ڈالی۔ جس کینسر کو پاکستانی ڈاکٹروں نے لا علاج بتایا تھا، اسے جڑ سے اکھیڑ دیا۔ عباس اطہر صاحب صحت یاب ہو کر لوٹے اگرچہ کیمو تھراپی کے عمل نے کافی کمزور کر دیا تھا۔ پاکستان آنے کے دو اڑھائی ماہ بعد ہی ایک اور مرض نے حملہ کیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا، یہ کینسر نہیں ہے لیکن اتنا ہی خطرناک۔ اس کا بھی علاج ہوا لیکن پھر وہی ہوا جو پاکستانی ڈاکٹروں نے بتایا تھا۔ شاہ صاحب دن بدن کمزور ہوتے گئے، کئی دوسرے عوارض بھی نمودار ہونے لگے اور آخر اتوار کی رات گئے، تقدیر کا لکھا پورا ہوا، ایک مرتبہ جل کھا کر موت پلٹی اور کامیاب لوٹی۔ چراغ زندگی بجھ گیا۔شاہ صاحب کو مرض کی سنگینی کا علم تھا لیکن بڑے حوصلے کے ساتھ انہوں نے اپنے آخری مہینے گزارے۔ حوصلہ اتنا زیادہ تھا کہ بڑے سے بڑے صدمے سے بھی نہیں ڈگمگائے۔ کبھی کبھار ذاتی معاملات میں بات چیت ہوتی تو پتہ چلتا کہ دل پرنہ جانے کتنے زخم لئے پھر رہے ہیں لیکن کبھی تذکرہ نہیں کرتے۔ موت سے بالکل نہیں ڈرتے تھے۔ جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے پاس سال چھ مہینے کا وقت ہے تو منصوبہ بندی کرنے لگے کہ اس عرصے میں کیا کرنا ہے، کہاں کہاں کی سیر کرنی ہے اور کون کون سی کتابیں پڑھنی ہیں۔ ایسے واقعات ناولوں اور فلموں میں ملتے ہیں، زندگی میں نہیں لیکن شاہ صاحب نے یہ منصوبہ بندی کرکے حیران کر دیا۔ میں نے مشورہ دیا، آپ فلموں کا انتخاب کریں۔ بولے، کتاب زیادہ بامغز ہوتی ہے۔ عرض کیا فلم زیادہ زود ہضم ہوتی ہے نیز کتاب ایک دانشور کی زندگی کا نچوڑ ہوتی ہے اور فلم میں چار دانشوروں کی دانش اور تجربے کا عطر ملتا ہے۔ چونک کر بولے، کیسے؟ عرض کیا ایک وہ جس نے فلم کی کہانی لکھی، یا جس کی کتاب پر اس فلم کی بنیاد ہے۔ دوسرا وہ ڈائریکٹر جس نے کہانی میں ڈوب کر ایسی ہدایت کاری کی کہ فلم بولتی کتاب بن گئی۔ تیسرے وہ لوگ جو اجتماعی طور پر مل کر ایک آدمی بنے یعنی جواداکار کہلاتے ہیں انہوں نے مکالمے اس طرح بولے کہ کتاب کی روح سمودی۔ اور پھر ان کے علاوہ وہ عکّاس جنہوں نے لوکیشن سے لے کر کرداروں کے چہروں کو ایسے زاویوں سے فلمایا کہ فلم ، فلم نہ رہی،سراپا زندگی بن گئی۔ زندگی سے مراد وہ عرصہ وقت جس میں یہ کہانی انجام پائی اور صرف کوئی شاہکار ادب ہی نہیں ، سوانح حیات،کوئی تاریخی ماجرا مثلاً جنگ عظیم، ہٹلر کا عروج اور زوال یا افریقہ میں غلامی کے دور کی تاریخ، یہ سب ایک فلم جس طرح بتاتی ہے، کتاب نہیں بتا سکتی۔
وہ سنتے رہے اور بات مکمل ہوتے ہی ملازم سے کہا، ابھی جاؤ اور سی ڈی پلیئر خرید کر ہلاؤ، مجھے حکم دیا، فلموں کی لسٹ دو، بلکہ اپنی لائبریری سے منتخب فلمیں بھی دو۔ افسوس، انہیں اس کے لئے فرصت نہیں مل سکی۔ علاج کے لئے فوری برطانیہ جانا پڑا۔واپس آئے تو دفتری کام کے لئے درکار توانائی سے محروم تھے۔ آہستہ آہستہ توانائی بحال ہونے لگی لیکن اس سے پہلے کہ پوری طرح تندرست ہوتے، خطرناک بیماری نے سر اٹھایا جس نے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔تقدیر کی زنجیر کی حد یہیں تک تھی۔
آخری دنوں میں بہت کمزور ہوگئے تھے، بے بسی اتنی تھی کہ دیکھنے والے کے آنسو نکل آئیں لیکن ان کے چہرے پر تکلیف کاعکس نہیں تھا۔خدا سے ان کا کیا تعلق تھا، کبھی واضح نہیں ہو سکا لیکن ایک بات کا شاہد ہوں۔ لوگ انہیں ایک بہت بڑے صحافی کے طور پر جانتے ہیں۔ ایسا صحافی جس کی کئی سرخیاں تاریخ کا حصہ بن گئیں، جس نے صحافت میں نئے اسلوب بھی دیئے۔ لیکن وہ خدا کی مخلوق کے خادم بھی تھے۔ بے شمار لوگوں کی انہوں نے ایک بار، ایک سے زیادہ بار یا عمر بھر مدد کی۔ خدا نے ان کی یہ بات پسند کی اور اس کے صلے میں انہیں تکلیف برداشت کرنے کا حوصلہ دیا۔ ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات مریض کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اس کا تصّور بھی سخت تکلیف دہ لیکن اصل میں مریض کو اتنی تکلیف نہیں ہو رہی ہوتی (یا شاید سرے سے ہی نہیں ہو رہی ہوتی) یہ خدا کا انعام ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد کسی سے کیا ہوگا، اس کا دارومدار خدا کے رحم پر ہے اور خدا کے رحم کا تعلق بہت زیادہ اس بات سے ہے کہ کوئی دوسروں پر کتنا رحم کرتا تھا۔شاہ صاحب کی زندگی، ان کے انفرادی دکھوں اور صدموں کے علاوہ، کامیابیوں کا سفر تھی۔ وہ کئی اخبارات کے عروج کا حصہ بنے اور خود بھی بلندیوں پر پہنچے۔ ان کے مخالف بھی ان کا ذکر مناسب احترام کے ساتھ کرتے تھے۔ ایسی عزت ہر باعزت کو نہیں ملتی۔ 90کی دہائی میں ان پر ایک آزمائش آئی۔ اتفاقاً ملاقات ہوئی، کوئی پریشانی نہیں تھی، یوں ظاہر کیا جیسے ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ دل کا گداز کبھی چہرے سے نہیں جھلکا ۔کئی دیکھنے والے انہیں ’’بیدل‘‘ سمجھتے تھے۔ لیکن وہ صاحبِ دل تھے لیکن ایسے صاحب دل جو زندگی کی تلخ سچائیوں کو قبول کرنا جانتا ہو۔ اس حوالے سے گفتگو ہوتی تو کہتے، جسے ہم ٹال نہیں سکتے، اس پر دکھی ہونے کا فائدہ نہیں۔ان کی یہ بات آدھا سچ تھی۔ دکھی وہ ہوتے تھے، بس ظاہر نہیں کرتے تھے۔ وہ بہت بڑے صحافی تھے لیکن یہ چند سطریں ان کے صرف انسان ہونے کے حوالے سے ہیں اور ظاہر ہے، کافی نہیں ہیں۔ ان سے ملنے والے سیاست پر بات کرتے تھے، مجھے کئی بار ’’باطنی‘‘ امور پر گفتگو کرنے کا موقع ملا اور یہ باتیں ان میں پائیں جن کا ذکر کیا۔ یہ چند سطریں لکھنے سے ان کے انسانی پہلوؤں کی تصویر کھینچنے کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ خدا ان کی مغفرت کرے۔ اور ان کا حساب کرتے ہوئے وہ کتاب بھی سامنے رکھے جس میں لوگوں کے دُکھ بٹانے، ان کی مدد کرنے کا کھاتہ ہے۔
(عبداللہ طارق سہیل کا کالم مطبوعہ روزنامہ نئی بات)
Link
 

یوسف-2

محفلین
124443-JavedChaudhryNew-1368037290-754-640x480.JPG


تحریر: جاوید چوہدری​



شاہ جی نے ہاں کر دی اور یوں میرے لیے صحافت کے دروازے کھل گئے‘ میں آج بیس سال بعد سوچتا ہوں اگر اس دن عباس اطہر صاحب ہاں میں گردن نہ ہلاتے تو کیا میں آج صحافی ہوتا؟ کیا مجھ پر عزت اور شہرت کے دروازے کھلتے؟ میراجواب عموماً ناں ہوتا ہے چنانچہ مجھے عباس اطہر عرف شاہ جی نے صحافی بنایا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی ہو گی‘ یہ اپریل 1992ء کے دن تھے‘ میں یونیورسٹی سے تازہ تازہ فارغ ہوا تھا‘ میں ایک ایسا نالائق دیہاتی لڑکا تھا جس کے پاس ضد کی حدوں تک پھیلی مستقل مزاجی کے سوا کچھ نہ تھا‘ میں روز آدھ درجن کیلے لے کر نوائے وقت لاہور کے دفتر پہنچ جاتا تھا اور سارا سارا دن استقبالیہ پر بیٹھ کر گزار دیتا تھا‘ میری اس مستقل مزاجی سے استقبالیہ کلرک‘ مجید نظامی صاحب کا ذاتی چپڑاسی اور بعد ازاں نوائے وقت کے کوآرڈی نیشن ایڈیٹر اقبال زبیری کا دل پسیج گیا‘ ان لوگوں نے مجھے موقع دینے کا فیصلہ کیا مگر حتمی منظوری عباس اطہر صاحب نے دینی تھی، یہ نوائے وقت لاہور کے نیوز ایڈیٹر تھے اور ان کے فیصلے کے بغیر کسی نوجوان کو نیوز سیکشن میں نوکری نہیں مل سکتی تھی۔
ایڈیٹر کوآرڈی نیشن نے بیل بجائی‘ چپڑاسی اندر آیا اور اقبال زبیری نے شاہ جی کو بلانے کا حکم دیا‘ شاہ جی اس وقت واک کرنے کے لیے سیڑھیاں اتر رہے تھے‘ چپڑاسی انھیں سیڑھیوں سے بلا لایا‘ وہ دفتر آ گئے‘ میں اقبال زبیری صاحب کے دفتر میں پریشان کھڑا تھا‘ زبیری صاحب نے میری طرف اشارہ کیا اور شاہ جی سے پوچھا ’’ کیا اس بغلول کو نوکری مل سکتی ہے‘‘ شاہ جی نے بغلول کی طرف دیکھا‘ مسکرائے اور ہاں میں سر ہلا دیا‘ اس ہاں کے ساتھ ہی میرے لیے صحافت کا دروازہ کھل گیا‘ مجھے آج یہ تسلیم کرتے ہوئے کوئی باک نہیں میں اس شہرت‘ اس عزت اور اس خوشحالی کو ڈیزرو نہیں کرتا تھا‘ یہ اندھوں کا ملک ہے جس کے ہر شعبے‘ ہر فیلڈ میں سے کسی کو ذرا سا نظر آنے لگتا ہے تو وہ ان کا سردار بن جاتا ہے‘ ہماری صحافت بھی اندھوں کے شہر کی اندھی دلہن ہے اور مجھے اللہ کے کرم اور شاہ جی کے رحم کی وجہ سے اس دلہن کے سامنے بیٹھنے کا موقع مل گیا‘ میں ذرا سا مستقل مزاج تھا چنانچہ اس مستقل مزاجی نے مجھے راستہ دکھانا شروع کر دیا اور میں لائم لائٹ میں آ گیا ورنہ میری جھولی میں جہالت کے سو چھید ہیں اور میں روز اپنے پیٹ کو ان چھیدوں سے بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔
شاہ صاحب ’’نئے فنکاروں‘‘ کے معاملے میں کھلے دل کے مالک تھے‘ یہ نوجوانوں کو موقع بھی دیتے تھے اور سہارا بھی‘مجھے بھی انھوں نے سہارا دیا‘ میں نوائے وقت کے نیوز سیکشن میں ٹرینی سب ایڈیٹر ہوگیا‘ یہ پڑھے لکھے چپڑاسی کی نوکری تھی‘ میں خبریں جمع کرتا تھا‘ کمپوزنگ سیکشن میں لے جاتا تھا‘ کمپوز شدہ خبروں کا پروف پڑھتا تھا اور اچھے وقت کا انتظار کرتا تھا‘ کبھی کبھار قسمت کی ماری کوئی خبر بھی ہتھے چڑھ جاتی تھی اور میں اس کا لولہ لنگڑا ترجمہ کر دیتا تھا یا اس پر سرخی جما دیتا تھا‘ ایک دن شاہ جی نے میری خبر پڑھی‘ یہ خبر انتہائی کمزور اور ناقابل اشاعت تھی‘ شاہ صاحب اگر روایتی نیوز ایڈیٹر ہوتے تو وہ مجھے اسی وقت نوکری سے برخاست کر دیتے مگر ان کے اندر کیونکہ ایک درویش‘ ایک عظیم انسان چھپا ہوا تھا چنانچہ انھوں نے اس خبر کا انگلش ورژن منگوایا‘ اپنے ہاتھ سے اس کا ترجمہ کیا اور میرے حوالے کر دیا‘ وہ ایک کالم کی خبر میرے لیے مشعل راہ بن گئی‘ میں خبر بنانا سیکھ گیا۔
مجھے عباس اطہر کے ساتھ تین بار کام کا موقع ملا‘ میرا کیریئر ان کے ہاتھ سے اسٹارٹ ہوا‘ دوسرا یہ پاکستان اخبار میں ایڈیٹر بن کر آئے‘ میں اس اخبار میں سب ایڈیٹر تھا‘ شاہ صاحب نے مجھے آخری صف کے آخری بنچ سے اٹھایا اور اس اخبار کا شفٹ انچارج بنا دیا اور ان کے ساتھ تیسری اور آخری بار کام کرنے کا موقع ایکسپریس اخبار میں ملا‘ یہ گروپ ایڈیٹر تھے اور میں اس اخبار کا ادنیٰ کالم نگار۔ شاہ جی صرف اخبار نویس‘ ایڈیٹر‘ کالم نگار یا نیوز ایڈیٹر نہیں تھے‘ یہ تخلیق کار تھے‘ ان کی ذات میں تخلیق موجیں مارتی تھی‘ یہ اپنی تخلیقی قوت سے جس چیز‘ جس فقرے کو چھو لیتے تھے وہ سونا بن جاتا تھا۔ ’’اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘ شاہ صاحب کی ایسی سرخی تھی جو بھٹو صاحب کی شخصیت اور پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن گئی‘ یہ 1971ء کے اس پس منظر کو ظاہر کرتی ہے جس میں کھڑے ہو کر ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو دعوت دی تھی تم مشرقی پاکستان میں حکومت بناؤ اور ہم مغربی پاکستان میں بناتے ہیں اور یوں ’’اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘ کے نعرے کے ساتھ ملک تقسیم ہو گیا‘ یہ سرخی صرف سرخی نہیں تھی‘ یہ تاریخ کا ایک ایسا نوحہ تھی جو سردی کی چوٹ کی طرح ہر 16دسمبر کو تازہ ہو جاتی ہے‘ آپ اس میں شکست آرزو اور ٹوٹتے ہوئے دو قومی نظریئے کی چیخ سنتے ہیں‘ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف بنے تو شاہ صاحب نے صرف ایک لفظ کی سرخی نکالی اور وہ لفظ تھا ’’ کرامت‘‘۔ یہ ایک لفظ اس واقعے کا پورا پس منظر اور جنرل جہانگیر کرامت کی آمد کا پورا بیک گراؤنڈ سمجھا جاتا ہے‘ شاہ جی نے 1996ء میں بے نظیر بھٹو کے حوالے سے سرخی لگائی ’’ ہم پھر آئیں گے‘ پھر آئیں گے اور پھر آئیں گے‘‘ یہ سرخی بھی بہت مشہور ہوئی۔
شاہ جی کا کالم ’’ کنکریاں‘‘ بھی اپنے اسلوب کی وجہ سے مقبولیت کی تمام حدیں کراس کر گیا‘ ہم لوگ صرف کالم لکھتے ہیں مگر لوگ شاہ جی کے کالم کا باقاعدہ انتظار کرتے تھے‘ وہ پورے سسٹم‘ پورے معاشرے کو لفظوں کی کنکریاں مارتے تھے اور یہ کنکریاں عہد کہن کو جڑوں سے ہلا دیتی تھیں‘ ہم میں سے بے شمار لوگ صحافی ہیں‘ پاکستان کی صحافت کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ یہ تربوزوں کی فصل ہے جس میں ہر سال سیکڑوں ہزاروں تربوزوں کا اضافہ ہو جاتا ہے اور ہر تربوز خود کو جنت کا میوہ سمجھتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب کسی شخص کو کوئی کام نہیں آتا تو وہ صحافی بن جاتا ہے اور روز مانگ تانگ کر پانچ دس کلو آٹا گھر لے جاتا ہے مگر شاہ جی ان سب سے مختلف تھے‘ یہ صرف صحافی نہیں تھے‘ یہ بہادر اور دلیر صحافی تھے‘ یہ اپنی رائے میں ہمیشہ بے لاگ اور بولڈ ہوتے تھے‘ یہ ہمیشہ غیر مقبول لائین لیتے تھے اور اس پر ڈٹ جاتے تھے‘ مثلاً ملک میں طالبان کا ایک ایسا بھی دور گزرا ہے جب میاں نواز شریف تک ان لوگوں کو آئیڈیالائز کرتے تھے‘ میاں نواز شریف ببانگ دہل کہتے تھے‘ ہم ملک میں طالبان جیسا نظام عدل نافذ کریں گے‘ اس دور کے زیادہ تر لکھنے والوں کے قلم نے سر پر عمامہ باندھ لیا تھا مگر شاہ جی نے غیر مقبول لائن لی‘ یہ طالبان کے خلاف لکھنے لگے‘ ہم انھیں روکتے تھے تو یہ کہتے تھے ’’ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے‘ یہ مجھے قتل کر دیں گے‘ کر دیں‘ میں نے بالآخر مر ہی جانا ہے‘ ان کے ہاتھوں سے نہ مرا تو بیماری کے ہاتھوں مر جاؤں گا‘ جب موت برحق ہے تو پھر زندگی کے لیے کمپرومائز کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ دور میں جب پارٹی کے اپنے لوگ ’’ جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگاتے وقت شرمندہ ہو جاتے تھے‘ شاہ جی واحد لکھاری تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی کا کھل کر ساتھ دیتے تھے اور اس ساتھ پر ٹھیک ٹھاک گالیاں کھاتے تھے مگر وہ کہتے تھے ’’ میں صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کی مرضی کے مطابق کیوں لکھوں؟‘‘۔
عباس اطہر صاحب مجھ سے خوش نہیں تھے‘ یہ میری تحریروں اور پروگراموں کو پسند نہیں کرتے تھے‘ ان کا خیال تھا صحافی کو کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے‘ اسے پانی کے بہاؤ کے خلاف چلنا چاہیے مگر میں ان سے عرض کرتا تھا ہم لوگ ٹیپو سلطان نہیں ہیں‘ ہم معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمیں اس معاشرے کے ساتھ رہ کر آگے بڑھنا ہے‘ وہ اختلاف کرتے تھے مگر اس اختلاف میں انھوں نے کبھی ایڈیٹر کی ویٹو پاور استعمال نہیں کی‘ وہ ضرورت پڑنے پر ہمیشہ میرا ساتھ دیتے تھے‘ یہ شاہ جی کینسر سے ہار گئے‘ یہ 6مئی کو اِس دنیا سے اُس دنیا میں چلے گئے جہاں جانے والے کبھی لوٹ کرنہیں آتے اور جہاں ہم سب نے چلے جانا ہے اور ہم بھی وہاں سے واپس نہیں آئیں گے مگر شاہ جی جاتے جاتے پاکستانی صحافت پر کچھ ایسے نقش چھوڑ گئے ہیں جو اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک پاکستانی صحافت سانس لیتی رہے گی‘ پاکستان میں جب بھی اخباری سرخیوں کا ذکر ہو گا لوگ بے اختیار عباس اطہر کو یاد کریں گے اور یہ یاد شاہ جی کا سب سے چھوٹا احسان ہے‘ وہ اس ملک میں صحافیوں اور صحافتی روایات کی ایسی باقیات چھوڑ کر گئے ہیں جو شاہ جی کو کبھی گمنام نہیں ہونے دیں گی‘ یہ شاہ جی کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی‘شاہ جی اُدھر چلے گئے‘ ہم اِدھر رہ گئے مگر کتنی دیر؟ ہم بھی بالآخر ایک نہ ایک دن اِدھر سے اُدھر چلے جائیں گے اور یوں لائف کا سائیکل پورا ہوتا رہے گا اور یہ سائیکل اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے‘ وہ سچائی جو بھٹو کی بیٹی کو بھی نگل جاتی ہے اور بھٹو کی بیٹی کے لیے نظمیں لکھنے والے عباس اطہر کو بھی اور یہ نظمیں پڑھنے اور سننے والوں کو بھی‘ پیچھے صرف اللہ کا نام رہ جائے گا‘ وہ نام جسے کبھی زوال نہیں ہو گا‘ جو کسی سورج اور کسی ابھرتے ڈوبتے دن کا پابند نہیں‘ یہ دنیا شاہ جی کے بغیر بھی چل رہی ہے اور یہ ہمارے بعد‘ ہمارے بغیر بھی چلتی رہے گی‘ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم دنیا کو اپنے سینگوں پر اٹھاتے ہوئے ہمیشہ بھول جاتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں اُدھر والے اُدھر چلے جائیں گے اور ہم اِدھر کے لوگ اِدھر رہ جائیں گے اور ہم ہر قبر کو ٹھوکر مار کر اُدھر تم‘ اِدھر ہم کا نعرہ لگائیں گے مگر ایسا نہیں ہوتا‘ اِدھر اور اُدھر والے دونوں کا انجام ایک ہوتا ہے‘ دونوں خاک ہیں اور دونوں خاک میں مل جاتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
 

یوسف-2

محفلین
عبدالقادر حسن کا کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس
ہمارے ساتھی سید عباس اطہر عرف شاہ جی کافی دنوں سے بستر مرگ پر تھے۔ انھیں جب اطلاع ملی کہ وہ کینسر کی زد میں آ چکے ہیں تو انھوں نے طے کر لیا کہ اب زندگی کے آخری دن آ گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہم بیماری کو ختم نہیں کر سکتے، صرف اس کی تکلیف کو ممکن حد تک دور کر سکتے ہیں۔ وہ اس نامراد بیماری میں آخری سانس تک گھلتے گئے۔
ایک باغ و بہار آدمی، لطیفہ گو اور لطیفہ نویس تحریر و گفتگو میں پڑھنے سنے والوں کو خوش کر دینے والا بہر حال اپنے مقرر وقت پر غائب ہو گیا۔ مجھے تو یاد نہیں کہ ان سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی لیکن وہ بتاتے تھے کہ میں ہفت روزہ لیل و نہار میں اپنے مضمون لے کر جاتا تھا تو وہاں ملاقات ہوا کرتی تھی۔ بہر کیف بعد کی پوری زندگی میں کہیں نہ کہیں ٹاکرا ہوتا رہا۔ میں نے ایک ہفت روزہ نکالنے کا پروگرام بنایا اور اس کے اشتہار کی عبارت طے ہو رہی تھی تو اتفاق سے شاہ صاحب آ گئے، یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش ہوا تو انھوں نے کہا ’’اس میں لیکن کا لفظ نہیں ہوگا‘‘۔
یعنی چونکہ چنانچہ نہیں کھل کر واضح بات ہو گی چنانچہ اس ہفت روزے کا اشتہار اسی عبارت کے ساتھ چلتا رہا جو شاہ صاحب نے عطا کی تھی۔ میں نے کہا ہم لوگ سیدوں سے کچھ لیتے نہیں نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے کمال بے تکلفی سے کہا، پھر آج شام ملیں گے۔ مجھے اس شام سے پہلے انتہائی بادل نخواستہ گائوں جانا پڑ گیا۔ واپسی ہوئی اور شاہ صاحب سے فوراً رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ یہ شام منعقد ہوئی تھی اور تمہارے نام پر۔ گائوں کا ذکر آیا تو بتا دوں کہ شاہ صاحب میرے اس وقت کے ضلعی صدر مقام شاہ پور کے رہنے والے تھے۔
وہ لاہور کی مضافاتی آبادی تاجپورہ میں اپنی والدہ ماجدہ کے گھر میں مقیم رہے اور ان کے وارث بن گئے۔ اور یہی ان کا گھر ٹھہرا، وہ شاہ پوری نہیں لاہوری ہو گئے۔ عباس اطہر کو لاہور شہر نے سید عباس اطہر شاہ بنایا جو قلم کے دھنی ثابت ہوئے اور شاعر بھی لیکن اپنے ترقی پسندانہ نظریات کی وجہ سے ایک شعبدہ باز ترقی پسند جماعت سے ایسے وابستہ ہوئے کہ اس میں شاعر و صحافی عباس اطہر گم ہو گیا۔ کوئی صحافی جب سیاسی طور پر جانبدار ہو جاتا ہے،کسی لیڈر یا جماعت کو اپنی شناخت بنا لیتا ہے تو وہ محدود ہو جاتا ہے۔ اخباری زبان میں کہتے ہیں فلاں پر فلاں کی چھاپ لگ گئی ہے۔
بدقسمت ہیں وہ صحافی جو کسی چھاپ کی زد میں آ جاتے ہیں اور اپنی انفرادیت کھو دیتے ہیں۔ پھر چھاپ کسی سیاست دان کی جن کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سید عباس اطہرکی جن سیاستدانوں کے ساتھ وابستگی رہی، وہ ارب پتی نہیں ارب ہا پتی ہیں لیکن ان کی جماعت نے اپنے ایک ساتھی پر توجہ نہ دی، اب تعزیتی بیانات کی بھرمار کر رہے ہیں مگر ان کا دوست اپنی جیسی تیسی زندگی گزار کر اور ان کے لیڈروں کے بین لکھ کر جا چکا ہے۔ یہ تو ذاتی باتیں ہیں۔
عباس اطہر ایک بہت اچھے صحافی تھے ، قدرت نے ان کے اندر صحافت کی صلاحیتیں رکھ دی تھیں۔ خوبصورت تحریر طنز سے آراستہ و پیراستہ۔ میں نے ان کے ایسے کالم بھی پڑھے ہیں جن پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ایک بڑے ایڈیٹر نے جب یہ کہا تھا کہ میں تو بس عباس اطہر کے کالم چھاپتا ہوں تو بالکل درست کہا تھا۔ ایک بہت بڑے ایڈیٹر کی طرف سے یہ اعتراف تکلفاً نہیں تھا بالکل درست تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ میرے سینئر حمید اختر کا کالم بھی آپ چھاپتے ہیں، اس لیے مہربانی کر کے ان کا کالم میرے کالم کے اوپر چھاپا کریں۔
لیکن جب انھوں نے عملاً میری بات نہ مانی اور میں نے یاد دہانی کرائی تو کہنے لگے کہ میں یہاں بزرگی پالنے اور حفظ مراتب کے لیے نہیں ایڈیٹری کے لیے بیٹھا ہوں۔ شاہ صاحب کی کوئی نیکی ان کے ضرور کام آگئی ہے کہ وہ ایک ایسی پارٹی کی متوقع سیاسی نتیجہ دیکھنے کے لیے زندہ نہیں ہیں جس کے لیے انھوں نے اپنی عمر لگا دی لیکن ان کے ساتھ ان کی زندگی کے انتہائی مشکل وقت میں پارٹی نے جو کیا وہ اسے دیکھنے سے بھی بچ گئے۔ یہ تو سیاستدانوں کے بارے میں بزرگوں کا جو کہا طے ہے لیکن ان کی آنکھوں میں حیا بھی نہیں ہوتی اس کا بھرپور اظہار اب ہوا ہے۔
ان کے جنازے میں پیپلز پارٹی کا ایک لیڈر موجود تھا اور دو چار اس کے ساتھ جانے والے اور بس جب کہ انھی دنوں میں ان کے انتخابی اشتہاروں میں عباس اطہر کا گیت چل رہا ہے ’بھٹو کی بیٹی آئی تھی‘ صحافیوں اور سیاستدانوں کا ساتھ بہت پرانا ہے صحافی تو سیاستدانوں کے بغیر گزر بسر کر لیتے ہیں لیکن سیاستدان تو میڈیا کے بغیر کچھ بھی نہیں نہ ہونے کے برابر۔ عباس اطہر جاتے جاتے ہمیں بتا گیا کہ سیاستدان کیا ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ صحافت اور رپورٹنگ کے آغاز پر ایک سینئر نے سیاستدانوں کا ذکر کرتے ہوئے سامنے رکھے ایک پنکھے کی طرف اشارہ کیا جو ایک گھومنے والا پنکھا تھا اور کہا کہ یہ کسی جلے ہوئے مکینک نے سیاستدان کے عملی تعارف کے لیے بنایا تھا۔ اب تم بھی جب کسی سیاستدان کا ذکر کرنے لگو تو اس پنکھے کو مت بھولو۔ یہ تمہارا رہنمائے صحافت ہے۔
ہمارا ساتھی ایک طویل زندگی بسر کر گیا۔ ’ٹُہر‘ کا پنجابی لفظ اس کا پسندیدہ تھا، وہ کچھ بن کر رہتا تھا پھنے خان۔ اور اس میں کامیاب بھی تھا لیکن اپنی شہہ پوری پس منظر کو یاد رکھتا تھا۔ ادب لحاظ اور شائستگی اس کی زندگی کا حصہ تھی۔ مجھے اس کے معصوم بچے اور اس کی بیوہ ماں کی فکر ہے جو میرے خیال میں اکیلے رہ گئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کا مسبب الاسباب ہے۔ شاہ صاحب ایک اچھے کامیاب صحافی کے طور پر زندہ رہیں گے۔ ہم سب کی طرف سے دعا اور تعزیت۔ اس کے پسماندگان میں کوئی ایسا نہیں جس کے لیے کوئی کچھ زحمت کرے گا۔ سوائے اس کے ایکسپریس کے ساتھیوں کے۔
 

یوسف-2

محفلین
نصرت جاوید کا کالم (مطبوعہ ایکسپریس)
انھیں مرحوم لکھوں تو اپنی یتیمی کا احساس شدید تر ہوجائے گا۔ اسی لیے کالم کا آغاز اس اعتراف سے کرتا ہوں کہ میں شاید ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جنھیں آج سے تقریباََ ڈیڑھ سال پہلے ہمارے شاہ جی نے خود ٹیلی فون کرکے اپنی مہلک بیماری کا بتایا تھا۔
ان کا فون نمبر اپنے موبائل کی اسکرین پر دیکھتا تو پوری کوشش کرتا تھا تیسری گھنٹی بجنے سے پہلے اُٹھا لوں۔ حسبِ معمول اٹھاتے ہی انھیں السلام و علیکم شاہ جی کہا۔ وہ مگر بالکل مختلف رویہ رکھے ہوئے تھے۔ ’’کیہ حال اے سوہنیو‘‘ کے بجائے انھوں نے بڑے غیر جذباتی انداز میں حکم دیا کہ میں اپنے دل کو سفاک بنا لوں۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ انھیں پھیپھڑوں کا سرطان ہو گیا ہے۔ انگلینڈ جا رہے ہیں۔ مجھے ان کی بیماری کا کسی اور سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کبھی یہ کوشش کہ ان کے علاج کی بابت پوچھتا رہوں۔
یہ حکم دینے کے بعد انھوں نے فون ایاز خان کو تھما دیا اس ہدایت کے ساتھ کہ ’’برملا‘‘ باقاعدگی سے ان تک پہنچایا جاتا رہے۔ شاہ جی کا ہر لفظ میرے لیے حکم ہوا کرتا تھا۔ میں نے ان سے رابطہ خوف کے مارے کبھی نہ کیا۔ مگر رپورٹروں والی لگن کے ساتھ برمنگھم میں مقیم معالجین میں سے ایک کا پتہ لگا کر اس سے رابطہ کرتا رہا۔ وہ معالج مجھے یقین دلاتا رہا کہ دوائیاں اپنا اثردکھا رہی ہیں۔ اللہ خیر کرے گا۔ پھر وہ لاہور آ گئے۔ میں نے فون کیا تو وہی شفقت اور محبت۔ لیکن جب میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ لاہور آ کر انھیں بھلاچنگا دیکھنا چاہتا ہوں تو فوراََ جلال میں آ گئے۔
پنجابی میں بڑے ظالمانہ انداز میں استفسار کیا کہ انھیں بستر مرگ پر پڑا دیکھ کر میں کیا ’’لذت‘‘ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں سہم کر خاموش ہو گیا تو اطلاع دی کہ میرے عمران خان کے بارے میں لکھے کالموںنے بڑی ’’رونق‘‘ لگا رکھی ہے۔ ایک بار پھر یہ حکم دے کر کہ کالموں کا ناغہ نہیں ہونا چاہیے فون بند کر دیا۔
عباس اطہر صاحب سے براہِ راست ملنے سے کئی برس پہلے میں ان کی ’’نیک دل لڑکیوں‘‘ والی نظم کا دیوانہ ہو چکا تھا۔ میرے گورنمنٹ کالج کے دوست سمجھتے کہ یہ نظم صرف میرے پڑھنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ بالآخر جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بے اعتنائی سے مجھ سے وہ نظم سنی اور گلہ کیا کہ میں اُردو کے بجائے انگریزی صحافت میں کیوں چلا گیا۔ صحافت ان کا جنون تھا۔ وہ اس میں ہر وقت کوئی نئی بات کرنا اور اپنے جونیئرز سے کرانا چاہتے تھے۔ 1986 میں، میں جس انگریزی اخبار کا اسلام آباد میں بیورو چیف بنا، اس کے مالکان اُردو کا ایک معروف اخبار بھی نکالتے تھے۔
میری تمام خبریں ترجمہ ہو کر اس میں بھی چھپتیں اور پتہ نہیں کیوں مجھے محسوس ہوتا کہ میری خبر ان کی زیر نگرانی ترجمہ ہو کر اس اخبار میں جس کے وہ نیوز ایڈیٹر تھے زیادہ دھانسو قسم کی بن جاتی تھی۔ ایک دن فون کر کے شکوہ کر دیا کہ خبریں کم دیا کروں۔ انھیں ترجمہ کرانا پڑتا ہے اور جب آپ کی خبر میرے اخبار میں چھپتی ہے تو لوگوں کو ’’زیادہ تکلیف‘‘ ہوتی ہے۔ میں نے احتیاط کا وعدہ کیا تو اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے کہ وہ تو مذاق کر رہے تھے۔ مجھے ’’بکری‘‘ بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔
پھر میں ٹیلی وژن کی نذر ہو گیا تو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کے ضیاء الدین صاحب نے مجھے سختی سے یاد دلانا شروع کر دیا کہ میرا اصل کام تو قومی اسمبلی کی کارروائی پر کالم لکھنا ہے۔ وہ کالم ان کے لیے لکھنا شروع کر دیا تو کچھ ماہ بعد شاہ جی کا فون آیا اور بڑی درشتی سے پوچھا کہ کیا ضیاء صاحب مجھے ان سے زیادہ عزیز ہیں۔ میں ہکلانے لگا تو کہا کہ اگر ایسا نہیں تو ان کے لیے بھی اُردو کا کالم لکھوں۔ میں نے اُردو اخبار کے لیے کبھی کالم نہیں لکھا تھا۔ گھبرا گیا۔ انھوں نے حوصلہ دیا۔ میں باور کر بیٹھا کہ جلد بھول جائیں گے۔ مگر اس کے بعد تواتر سے فون کر کے پوچھتے رہے کہ پہلا کالم کب آئے گا۔ میں نے ٹالنا چاہا تو فوراََ اعلان کر دیا کہ صرف ایک روز اور انتظار کریں گے۔ میرا کالم نہ آیا تو ادارتی صفحے پر ایک خالی چوکھٹے میں لکھ دیں گے کہ یہ جگہ نصرت جاوید کا کالم نہ آنے کی وجہ سے خالی رہ گئی ہے اور اس خالی جگہ پر میری کوئی ایسی تصویر لگائی جائے گی جس میں میں اشتہاری مجرموں جیسا نظر آؤ ں گا۔
عباس اطہر کی موت ایک شخص کی نہیں ایک روایت کی موت ہے۔ اس روایت کی خوبی یہ تھی کہ آپ کے صحافتی دُنیا میں بہت بڑے ناموں والے کچھ شفیق بزرگ کسی نوجوان کی تحریر میں چھپے امکانات کو دریافت کر کے اس نوجوان کو اپنی چھتری تلے لے کر اس پیشے میں آگے بڑھنے کے لیے پیار بھرے چھانٹے لگاکر رواں کر دیا کرتے تھے۔ میں اپنے آج کے نوجوان صحافی دوستوں کو اس ضمن میں بڑا بدنصیب سمجھتا ہوں۔ میرے جیسے لوگ خوش نصیب تھے کہ عباس اطہر جیسے بزرگوں کی چھائے تلے جوان ہوئے۔
اسی لیے تو ان کی موت کی خبر سننے کے بعد سے خود کو دوبارہ یتیم محسوس کر رہا ہوں اور بار بار ان جیسے تین چار مزید افراد کے چہرے آنکھوں کے سامنے آ رہے ہیں۔ ان کی صحت اور درازی عمر کی دُعائیں مانگ رہا ہوں۔ موت مگر برحق ہے۔ یہ عباس اطہر جیسے خود دار اور ضدی شخص کو بھی بستر پر ڈال دیتی ہے۔ وہ شخص جو اپنے کسی دوست کے غم میں اس سے بھی کہیں زیادہ پریشان ہو جایا کرتا تھا کئی ماہ تک بستر پر پڑا رہا۔ پیپلز پارٹی سے اس شخص کو عجیب سا عشق تھا۔
وہ بستر مرگ پر تھا تو کئی ایسے لوگ بھی اس کا پوچھنے آئے جن کے خلاف وہ اپنے حیرت ناک انداز تک منفرد جملوں کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ اسے پوچھنے اگر کوئی نہیں گیا تو وہ ’’یاروں کا یار‘‘ ہونے کی شہرت رکھنے والا آصف علی زرداری تھا۔ ’’بھٹو دی بیٹی آئی سی‘‘ آج بھی آصف علی زرداری کی جماعت 2013 کے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے بے دردی سے استعمال کر رہی ہے۔ مگر اس دل فگار نغمے کو لکھنے والا اپنے بسترمرگ پر اکیلا ہی پڑا رہا۔ مجھے تو انھوں نے حکم دیا تھا۔ آصف علی زرداری کو تو ایسا ہرگز نہیں کہا ہو گا۔
 
Top