محسن حجازی
محفلین
محترم عباس اطہر روزنامہ ایکسپریس کے مدیر اعلی ہیں۔ مسلسل کافی عرصے سے غلط پروپیگنڈا اور متعصب رویوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ میں کافی عرصہ خاموش رہا مصروفیات کے سبب وقت بھی نہ ملا تاہم اب سمجھتا ہوں کہ انہیں جواب دینا میرا قومی فریضہ ہے۔
ذیل کا خط میں نے موصوف کو ارسال کیا ہے آپ احباب کے ملاحظے کے واسطے یہاں نقل کیے دیتا ہوں:
لکھنے کہنے سننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو ذی شعور جس بات پر اڑا ہے وہیں رہے گا۔ عمر کے اس حصے میں جانے آپ کو کیا ہو گيا ہے کہ بالوں میں سفیدی ہاتھوں میں سیاہی۔ ایک بڑے کاروباری گروپ کے اخبار کو محض پی پی پی کا پرچہ بنائے ہوئے ہیں۔ سنتے ہیں کہ سرخی جمانے ید طولی رکھتے ہیں۔ سرخی کی بابت تو اظہار برات سمجھئے کہ نہ ہم صحافی ہیں نہ تجزیہ نگار تاہم ہتھیلی پہ سرسوں جمانے میں آپ کا جواب نہیں۔ آج ہی کا اخبار دیکھ لیجئے۔ دو کوڑی کے بے بصیرت و حمیت کٹھ پتلی وزیراعظم کا بیان شہ سرخی ہے۔ ادھر بی بی سی کا ڈاکٹر عافیہ سے متعلق امریکی عدالت کا تبصرہ ان کے ہاں تو صفحہ اول پہ جاگزیں ہے تو آپ کے ہاں محض ایک کالم کی ایسی خبر ٹھہرتا ہے جسےہم سے سبک رو قارئین محض نظر سے گزار دیا کرتے ہیں۔ پھر دوسری طرف نیویارک میں سابق چیف جسٹس (سابق ہم آپ کی تالیف قلب و دلجوئی کے واسطے لکھے دیتے ہیں وگرنہ بہت گراں ہے واسطے قلب یہ گرانی ستم) کی بابت خبر میں سے یہ تفصیل ہی غائب ہے کہ آمد پر لوگ کئی منٹ کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے۔ پھر یہ ذکر بھی حذف ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر اعتزاز حسن کی جانب سے تفصیلات پھر بھی کھڑے ہو کر کئی منٹ تک تالیاں بجائی گئيں۔
خیر اب زرداری صاحب پر آجائيے۔ مسلسل آپ موصوف کے حق میں لایعنی دلائل کے انبار لگائے چلے جاتے ہیں۔ ہر بات میں سازش کی بو سونگھتے ہیں۔ ہم کو بھی کوئی کارنامہ گنوائیے زرداری صاحب کا۔ طرز استدلال میں سقم اور جھول خود اپنی ہی تحریر میں ملاحظہ فرمائيے:
- یہ فرمائيے کہ جس ڈھانچے کو آپ ذاتی تعیشات و ديگر آلائشات سے آلودہ گنوا رہے ہیں اسے آٹھ اکتوبر 2005 میں لگ بھگ چھے سال ہو چکے تھے۔ اس زلزلے پر بے تحاشا غیر ملکی امداد آئی۔
- 2008 کے اکتوبر میں بھی زلزلہ آتا ہے لیکن خود آپ کے اپنے الفاظ میں کوئی نقد دینے پر اعتبار نہیں کرتا۔ یہ فرمائیے کہ ڈھانچہ تو بدل چکا پھر یہ عدم اعتماد کیوں؟
حضور نوشتہ دیوار پڑھئے کہ عالم انسانیت کا اجماع ہے کہ پاکستان پر لٹیروں بے ضمیر قسم کے ڈھیٹ ڈاکوؤں کا گروہ مسلط ہے جن کے ہاتھ میں نقد کچھ تھمانا کھوہ کھاتے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اور کچھ نہیں تو فرینڈز آف پاکستان کی آج کی خبر ہی دیکھ لیجئے کہ سرخی تو آپ ہی کے دست مبارک سے ہو کر ہی گئی ہوگی۔
ہم آپ سے بدگماں نہیں یقینی طور پر آپ کے موقف کے بنیاد کچھ عقلی دلائل پر ہوگی جو بہرطور کبھی زیور طبع سے آراستہ نہ ہوئے محض موقف کی تکرار ہے جو سیاہی بن کر پھیل رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نیک نیتی سے ہم یہی گماں کر سکتے ہیں کہ آپ کے خیال میں:
اکثریت گمراہ ہوتی ہے سو چونکہ آپ اقلیت میں ہیں لازم ہے کہ آپ راست موقف و حقائق سے آراستہ ہیں۔
اسی بات کا دوسرا پہلو کچھ یوں بھی کہ جمہور گمراہ ہیں اور آپ افراد کو گننے کی بجائے تولنے کے قائل ہیں اس پر مستزاد یہ کہ خود آپ نے اپنا وزن بے حد زیادہ متصور کر رکھا ہے جو شاید اس ملک کے سولہ کروڑ عوام سے بھی زیادہ ہے۔ سو کروڑوں عوام کی عدلیہ اور طرز حکومت سے متعلق خواہشات آپ کی بالیدہ نظر میں بچگانہ ہیں یوں آپ جمہور کی نفی کرتے ہیں تو خود ہی فرمائیے کہ کس منہ سے آپ جمہوریت پسندی کا راگ الاپتے ہیں۔
بہرطور ہم کو اس مراسلے کی اشاعت کا قطعی شوق نہیں کہ اظہار حق کے واسطے قدرت نے کئی ذرائع کھلے چھوڑ رکھے ہیں پانی اور دھوپ کی طرح وگرنہ مقدور ہو تو آپ سے متعصب اور جانبدار دنیا کو محض ایک ہی رنگ میں پیش کرتے رہیں۔ آپ یہ مراسلے اس ربط پر ملاحظہ کر سکتے ہیں:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=366573
پیشہ ورانہ و تعلیمی مصروفیات کے سبب مزید قیل قال سے معذور سمجھئے تاہم ہم بھی دیکھیں گے کہ آپ اٹھائے گئے سوالوں کے کیا جواب تراشتے ہیں۔
والسلام،
محسن حجازی
اسلام آباد۔
ذیل کا خط میں نے موصوف کو ارسال کیا ہے آپ احباب کے ملاحظے کے واسطے یہاں نقل کیے دیتا ہوں:
لکھنے کہنے سننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو ذی شعور جس بات پر اڑا ہے وہیں رہے گا۔ عمر کے اس حصے میں جانے آپ کو کیا ہو گيا ہے کہ بالوں میں سفیدی ہاتھوں میں سیاہی۔ ایک بڑے کاروباری گروپ کے اخبار کو محض پی پی پی کا پرچہ بنائے ہوئے ہیں۔ سنتے ہیں کہ سرخی جمانے ید طولی رکھتے ہیں۔ سرخی کی بابت تو اظہار برات سمجھئے کہ نہ ہم صحافی ہیں نہ تجزیہ نگار تاہم ہتھیلی پہ سرسوں جمانے میں آپ کا جواب نہیں۔ آج ہی کا اخبار دیکھ لیجئے۔ دو کوڑی کے بے بصیرت و حمیت کٹھ پتلی وزیراعظم کا بیان شہ سرخی ہے۔ ادھر بی بی سی کا ڈاکٹر عافیہ سے متعلق امریکی عدالت کا تبصرہ ان کے ہاں تو صفحہ اول پہ جاگزیں ہے تو آپ کے ہاں محض ایک کالم کی ایسی خبر ٹھہرتا ہے جسےہم سے سبک رو قارئین محض نظر سے گزار دیا کرتے ہیں۔ پھر دوسری طرف نیویارک میں سابق چیف جسٹس (سابق ہم آپ کی تالیف قلب و دلجوئی کے واسطے لکھے دیتے ہیں وگرنہ بہت گراں ہے واسطے قلب یہ گرانی ستم) کی بابت خبر میں سے یہ تفصیل ہی غائب ہے کہ آمد پر لوگ کئی منٹ کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے۔ پھر یہ ذکر بھی حذف ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر اعتزاز حسن کی جانب سے تفصیلات پھر بھی کھڑے ہو کر کئی منٹ تک تالیاں بجائی گئيں۔
خیر اب زرداری صاحب پر آجائيے۔ مسلسل آپ موصوف کے حق میں لایعنی دلائل کے انبار لگائے چلے جاتے ہیں۔ ہر بات میں سازش کی بو سونگھتے ہیں۔ ہم کو بھی کوئی کارنامہ گنوائیے زرداری صاحب کا۔ طرز استدلال میں سقم اور جھول خود اپنی ہی تحریر میں ملاحظہ فرمائيے:
اس کے بعد آپ مزید رقمطراز ہیں کہ کچھ معاشی مسائل تو پیدا ہوں گے لیکن اچھے نتائج آئيں گے وغیرہ وغیرہ جس پر ہم کافی جرح کر سکتے ہیں تاہم وقت کی کمی آڑے آتی ہے۔مشرف کے آٹھ سالہ دور میں قومی خزانے کا اس بے دردی سے ناجائز استعمال کیا گیا اور کرپشن اوپر سے نیچے تک اس بری طرح ہوئی کہ دنیا کا کوئی ملک ہمیں مدد دینے کو تیار رنہیں ہے۔ دنیا کا یہ شبہ بالکل جائز ہے کہ ہمارا کرپٹ مالیاتی ڈھانچہ امداد کو خرد برد کر لے گا۔ حالت یہ ہے کہ بلوچستان کے زلزلے پر اپیل کے باوجود ہمیں توقع کے مطابق غیر ملکی امداد نہیں ملی۔ اس عدم اعتماد کی وجہ یہ حکومت نہیں ہے جسے آئے ہوئے بمشکل آٹھ ماہ ہوئے ہیں بلکہ وہ حکومت ہے جس نے پورے آٹھ سال ملکی وسائل اور غیر ملکی قرضوں کو ذاتی تعیشات اور دوستوں کی جیبیں بھرنے پر صرف کیا۔ موجودہ حالات میں ہم آئی ایم ایف کی گولی نہ کھاتے تو اور کیا کرتے۔ دیوالیہ ہو جاتے تو لوگ پچھلے آٹھ سال کا ڈرامہ بھول جاتے اور تان اس فقرے پر ٹوٹتی کہ پیپلز پارٹی نے آتے ہی ملک کا دیوالیہ کر دیا۔
- یہ فرمائيے کہ جس ڈھانچے کو آپ ذاتی تعیشات و ديگر آلائشات سے آلودہ گنوا رہے ہیں اسے آٹھ اکتوبر 2005 میں لگ بھگ چھے سال ہو چکے تھے۔ اس زلزلے پر بے تحاشا غیر ملکی امداد آئی۔
- 2008 کے اکتوبر میں بھی زلزلہ آتا ہے لیکن خود آپ کے اپنے الفاظ میں کوئی نقد دینے پر اعتبار نہیں کرتا۔ یہ فرمائیے کہ ڈھانچہ تو بدل چکا پھر یہ عدم اعتماد کیوں؟
حضور نوشتہ دیوار پڑھئے کہ عالم انسانیت کا اجماع ہے کہ پاکستان پر لٹیروں بے ضمیر قسم کے ڈھیٹ ڈاکوؤں کا گروہ مسلط ہے جن کے ہاتھ میں نقد کچھ تھمانا کھوہ کھاتے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اور کچھ نہیں تو فرینڈز آف پاکستان کی آج کی خبر ہی دیکھ لیجئے کہ سرخی تو آپ ہی کے دست مبارک سے ہو کر ہی گئی ہوگی۔
ہم آپ سے بدگماں نہیں یقینی طور پر آپ کے موقف کے بنیاد کچھ عقلی دلائل پر ہوگی جو بہرطور کبھی زیور طبع سے آراستہ نہ ہوئے محض موقف کی تکرار ہے جو سیاہی بن کر پھیل رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نیک نیتی سے ہم یہی گماں کر سکتے ہیں کہ آپ کے خیال میں:
اکثریت گمراہ ہوتی ہے سو چونکہ آپ اقلیت میں ہیں لازم ہے کہ آپ راست موقف و حقائق سے آراستہ ہیں۔
اسی بات کا دوسرا پہلو کچھ یوں بھی کہ جمہور گمراہ ہیں اور آپ افراد کو گننے کی بجائے تولنے کے قائل ہیں اس پر مستزاد یہ کہ خود آپ نے اپنا وزن بے حد زیادہ متصور کر رکھا ہے جو شاید اس ملک کے سولہ کروڑ عوام سے بھی زیادہ ہے۔ سو کروڑوں عوام کی عدلیہ اور طرز حکومت سے متعلق خواہشات آپ کی بالیدہ نظر میں بچگانہ ہیں یوں آپ جمہور کی نفی کرتے ہیں تو خود ہی فرمائیے کہ کس منہ سے آپ جمہوریت پسندی کا راگ الاپتے ہیں۔
بہرطور ہم کو اس مراسلے کی اشاعت کا قطعی شوق نہیں کہ اظہار حق کے واسطے قدرت نے کئی ذرائع کھلے چھوڑ رکھے ہیں پانی اور دھوپ کی طرح وگرنہ مقدور ہو تو آپ سے متعصب اور جانبدار دنیا کو محض ایک ہی رنگ میں پیش کرتے رہیں۔ آپ یہ مراسلے اس ربط پر ملاحظہ کر سکتے ہیں:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=366573
پیشہ ورانہ و تعلیمی مصروفیات کے سبب مزید قیل قال سے معذور سمجھئے تاہم ہم بھی دیکھیں گے کہ آپ اٹھائے گئے سوالوں کے کیا جواب تراشتے ہیں۔
والسلام،
محسن حجازی
اسلام آباد۔