farid rasheed kavi نے کہا:
شکریہ مہوش صاحبہ
اگر آپ ان رسائل کو یکے بعد دیگرے پیش کرنے کے اس ویب سائٹ کا ذکر کر دیتی جہاں سے یہ سب لیا جا رہا ہے تو بہت اچھا ہوتا ، خیر میں وہ سب دیکھ لیا ، شاید اس صورت میں غیر جانب داری اور میانہ روی کا آپ کا چہرہ کھل جاتا ۔
محترم فرید صاحب،
آپ نے وہ مقولہ تو سنا ہو گا کہ "ہر کسی کو خوش کرنا ممکن نہیں بلکہ بیوقوفی ہے"۔
اور خاص طور پر جب ایک فریق نے آنکھیں بند کر کے ذاتیات پر حملہ کرنے کی ٹھانی ہوئی ہو تو انسان لاچار ہو جاتا ہے۔
میں نے تو پہلے ہی ذکر کر دیا تھا کہ یہ کس کا نقطہ نظر ہے، تو پھر شکایت کیسی؟
اور آپ کو اس سائیٹ کے حوالے سے تو فوراً شکایت پیدا ہو گئی، مگر کیا وجہ ہے ک
ہ آپ کو یہ چیز نظر نہیں آئی کہ میں نے تو انتہائی شدت پسند تنظیم سپاہ صحابہ کی ویب سائیٹ، اُن کے علماء اور کتب کو بھی یہاں پیش کیا تھا، جس کے حوالے آپ خوشی خوشی اپنی پوسٹوں میں بھی دے رہے ہیں؟؟؟
تو محترم فرید صاحب،
اگر اسی طرح بند آنکھوں کے ساتھ شکایات کا سلسلہ جاری رہا، تو یہ سلسلہ تو کبھی ختم ہونے کا نام نہ لے گا۔
ہمارا فرض تو صرف یہ ہے کہ دلائل کو دیکھیں اور اللہ کے نام پر اُن کے ساتھ انصاف کریں۔
میں ابھی تک کسی ایک فریق کی طرف داری نہیں کی، بلکہ تاریخ کی معتبر کتابوں کو مستند جانا ہے ، یہ اور بات ہے کہ حضرات اہل تشیع کے نزدیک سوائے طہ حسین جیسے پچھلوں کی باتوں کے اگلا سب کچھ من گھڑت ہے ، اور ناصبیوں کی تحریرات ہیں ۔ اب جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔۔
خیر انگریزی دیکھ لیا ، میں انگریزی نہیں جانتا ، یار من ترکی و من ترکی ندانم ۔
میرا صرار اصل عربی پر ہے ،
یہاں پر بہت سے احباب ہیں جو کہ انگریزی جانتے ہیں۔
اس آرٹیکل پر آپ نے فوراً دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے غلط ترجمہ کر کے بے ایمانی کی ہے۔ جواباً جب اس ترجمے کی تصدیق کرنا پڑی تو آپ نے میری دیانت کو بھی جھٹلایا۔
اب یہاں پر بہت سے احباب ہیں جو کہ انگریزی جانتے ہیں۔ کیا آپ ان سب کی دیانت کو جھٹلائیں گے؟
اور آپ نے جب اس کو جھٹلا ہی دیا ہے، تو جواباً آپ کو دلائل اور ثبوت کے ساتھ سامنے آنا چاہیے تھا کہ اصل عبارت یہ ہے اور اسکا صحیح ترجمہ یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر ابھی تک آپ کی طرف سے چھوٹی سی بھی دلیل ندارد ہے۔
فرمائیے کہ یہ طرز عمل کیا ہے؟ کیا تمام تر دعوے کرنے اور مطالبات کرنے اور الزامات لگانے کا حق صرف آپ ہی کو ہے؟ کیا آپ اپنے اوپر یہ لازم نہیں کریں گے کہ اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت بھی لائیں؟
نیز اب میں نے حصہ اول بھی پڑھا، اول جو بات مجھے کھٹکی وہ اس رسالہ کی زبان ہے ، جس نے مولی علی کے سوا تقریبا تمام صحابہ کو اس صیغہ سے مخاطب کیا ہے کہ آج کی مہذب دنیا میں اس کی گنجائش نہیں ۔
محترم فرید صاحب،
اولاً میں ہر کسی کے ہر قسم کے گناہوں کی ذمہ دار نہیں۔
دوم، اصل مقصد ہمارا دلائل کو دیکھنا ہے۔ اگر ہم ان خارجی بحثوں پر ہی اٹکے رہ گئے تو مقصد کیا حاصل کریں گے؟
سوم عرض ہے کہ صحابہ کے نام کے ساتھ "حضرت" یا "رضی اللہ عنہ" لگانا واجبات میں سے نہیں ہے، بلکہ اس کا اجراء بعد میں آنے والی مسلمان نسلوں نے کیا ہے۔ صحابہ کا آپس میں بھی یہ طریقہ کار تھا اور تابعین کا بھی صحابہ کے ساتھ یہی طریقہ کار تھا کہ نام لے کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ یہی چیز طبری، بخاری اور سلف کے کتب میں ہے جہاں امام طبری، بخاری، مسلم وغیرہ نے صحابہ کے نام کے ساتھ "حضرت" یا "رضی اللہ" کے سابقے یا لاحقے استعمال نہیں کیے ہیں۔ اور یہ آرٹیکل طبری کا اردو ترجمہ ہے اور جب اصل متن میں یہ سابقے اور لاحقے نہیں، تو ان کا ترجمے میں بھی نہ ہونا کوئی ایسی بات نہیں اور نہ ہی ناقابل معافی جرم ہے۔
چونکہ پورے رسالہ کے مشمولات پر گفت گو ممکن نہیں ، اس لیے کچھ خلاصہ پیش کرتا ہوں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیف کی روایات کو چھوڑ کر طبری میں اور بھی متعدد روایات ہیں ، جس عثمان رضی اللہ کے بے گناہ قتل کیے جانے ، حضرت علی رضی اللہ کے اس پر افسوس کرنے اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے حضرت عثمان کی مدد کرنے کے بارے میں موجود ہے ، میرے پاس عربی نسخہ بھی ہے ، اردو بھی ہے ، اور میں مطالعہ کر رہا ہوں ۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ نے کس طریقے سے اس آرٹیکل کا مطالعہ کیا ہے۔
اس آرٹیکل میں صاف طور پر موجود تھا کہ یہ صرف اور صرف سیف ابن عمر ہی ہے جو کہ مستقل دعویٰ کیے جا رہا ہے کہ علی ابن ابی طالب اور طلحہ بن عبید اللہ وغیرہ عثمان ابن عفان کے کٹر حامیان میں سے تھے وغیرہ وغیرہ۔
جب کہ دیگر تمام روایات، جو کہ سیف ابن عمر کے مقابلے میں حد درجہ معتبر اور تواتر کے ساتھ اور بہت سے مختلف سلسلہ اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہیں، اُن سب میں صرف اسی چیز کی صراحت ہے کہ علی ابن ابی طالب نے بار بار جنابِ عثمان کو صحیح راہ دکھانے کی کوشش کی، مگر آخر میں بار بار وعدہ خلافی کرنے پر توبہ کی کہ وہ پھر کبھی جنابِ عثمان کی مدد نہیں کریں گے۔
اور جہاں تک جناب طلحہ کا تعلق ہے، تو شہادتِ عثمان میں اُن کے کردار پر بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اس سب کو یکسر نظر انداز کر دیں اور صرف اور صرف سیف ابن عمر کی روایات پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں؟
آپ کے پاس طبری کا اردو ترجمہ موجود ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، اردو کے یہ تراجم کسی حد تک معتصابہ رویہ رکھتے ہیں۔ اور اسی لیے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہون نے تمام روایات کے تمام تر سلسلہ اسناد کو غائب کر دیا ہے تاکہ لوگ غلط چیز کو صحیح سے الگ نہ کر سکیں اور سیف کذاب کی روایات کو نہ پہچان سکیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر روایات میں تحریف کی گئی ہے، جس کا ثبوت اس آرٹیکل کی پہلی روایت میں ہی موجود ہے۔
میں خود تاریخ طبری کی پندھرویں اور سولہویں جلد کا مطالعہ کر چکی ہوں اور یہ بات تحقیق سے مجھ پر واضح ہے کہ کم از کم تاریخ طبری میں سیف کذاب سے پاک شاید ہی کوئی ایسی روایت ہو جس میں علی ابن ابی طالب یا جناب طلحہ وغیرہ حضرت عثمان کی کھل کر حمایت اور مدد کر رہے ہوں۔ اس لیے اگر آپ سیف کذاب سے پاک یہ روایات یہاں پیش کیجئے اور یقین کریں کہ میں ایسی تمام روایات کو خوش آمدید کہوں گی۔
ان دونوں رسالوں میں جیسا کہ واضح ہے ، جہاں مناسب سمجھا گیا ، وہاں انگریزی کا حوالہ دیا گیا اور جہاں مناسب سمجھا وہاں اردو کا حوالہ دیا ، اور ایک دو جگی عربی کا ! ! !
تو پھر اس سے فرق کیا پڑا؟ جب تک کسی جگہ حوالہ بیان کرنے میں غلط بیانی نہیں کی گئی، اُس وقت تک اعتراض کی کیا گنجائش ہے؟
اس میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ باتیں ہیں ، حالاں کہ مالک بن نویرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر مرتد ہو چکا تھا ، اور اس کی وہ بیوی مدت سے مطلقہ تھی ، شاہ عبدالعزیز دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔
محترم فرید صاحب،
میں معافی چاہتی ہوں کہ مجھے بار بار یہ سوال کرنا پڑ رہا ہے کہ کیا آپ نے آرٹیکل کو کس حالت میں پڑھا ہے؟ اگر نیم بند آنکھوں کے ساتھ پڑھا ہے تو بہت زیادتی ہے۔
مالک بن نویرہ کا ذکر اس آرٹیکل میں خارجی بحث ہے، اور بات صرف یہ ثابت کرنی تھی کہ یہ سیف ابن عمر (جو کہ آپ کا چہیتا ہے) جس نے جناب خالد بن ولید پر جھوٹ باندھا کہ انہوں نے اسی رات مالک بن نویرہ کی زوجہ سے زناکاری کی۔
تو یہ ڈبل سٹینڈرڈز ہوں گے اگر آپ ایک معاملے میں سیف کو جھوٹا کہیں، اور دوسرے معاملے میں اس کی روایات کو آنکھیں بند کر کے قبول کریں۔
اس رسالہ میں یہ بھی ہے کہ پانچویں صدی تک کے مؤرخین ابن سبا کا تذکرہ نہیں کرتے ، حالاں کہ یہ غلط ہے ۔ سعد بن عبد اللہ المتوفی سن 301 نے اپنی کتاب “المقالات والفرق “ میں ابن سبا کا تذکرہ کیا ہے ،
متعدد شیعہ حضرات نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔مثلا محمد حسن النوبختی وغیرہ نے اس کا تذکرہ کیا ہے ، سر ویلیم میور مشہور مشتشرق ہے ، ان بھی اس کا تذکرہ کیا ہے ،
محترم فرید صاحب ،
میں کیا کروں کہ آپ بار بار وہ چیزیں دہرا رہے ہیں کہ جن پر بہت تفصیل سے اس آرٹیکل میں پہلے سے ہی گفتگو کی جا چکی ہے۔ سعد بن عبداللہ، نوبختی وغیرہ وغیرہ کی یہ تمام روایات اس آرٹیکل میں موجود ہیں اور ان پر کھل کر بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس عظیم الشان واقعے کے، کہ جس کے ہزاروں چشم دید گواہ ہونے چاہیے تھے، اس کےمتعلق یہ افراد ایک بھی چشم دید گواہ نہیں لا سکے۔ اس آرٹیکل میں اس موضوع پر کئی صفحات پر مشتمل بحث موجود ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں وہاں سے کاپی کر کے دوبارہ یہاں پیسٹ کروں؟
چاہیے تو یہ تھا کہ انہوں نے جو دلائل دیے ہیں، آپ اس پر گرفت کرتے، مگر آپ نے اُن کے دلائل تو یکسر نظر انداز کر دیے اور اُسی پہلے سوال کی تکرار جاری رکھی کہ جس کا مفصل جواب پہلے ہی دیا جا چکا تھا۔
اس رسالہ میں ابن سبا پر مشتمل روایات گنوا کر ان کو غلط ثابت کیا گیا ہے ، یہ روایات کچھ سنیوں کی ہیں ، کچھ شیعوں کی ،
اور یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ابن سبا کوئی شخص نہیں ۔
پھر کہا جاتا ہے کہ اگ ان روایات سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو وہ اتنا کہ یہ حضرت علی کے زمانہ میں ظاہر ہوا ، اور حضرت علی کی الوہیت کا دعوی کیا، کیا یہ تضاد نہیں ؟ میں نے غور کیا تو معلوم ہوا اور جیسا کہ آں محترمہ ان ٹھریڈ کا عنوان باندھا ہے کہ ابن سبا دیومالائی شخصیت ہے ، یہی بات رسالہ میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، حالاں کہ اسی رسالہ میں کسی ممکنہ اعتراض سے بچنے کے لیے پہلے سے یہ کھڑکی کھلی رکھی گئی کہ بہت بہت تو یہ حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں ظاہر ہوا ، حالاں کہ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ کے زمانہ میں اسلام ظاہر کیا تھا ۔آپ خود بھی اس کا انکار کرتی ہیں یا اس کو دیومالائی شخص سمجھتی ہیں وہ واضح نہ ہو سکا۔
محترم فرید صاحب،
آپ پھر ظاہر پرستی میں مبتلا ہو کر میرے الفاظ کے ظاہری معنوں پر گرفت کر رہے ہیں اور اس کے روحانی معنی سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ مان بھی لیں کہ میں نے صحیح الفاظ کا انتخاب نہیں کیا، مگر کیا وجہ ہے کہ آپ نے میرے وہ الفاظ یکسر نظر انداز کر دیے جو کہ یہ تھریڈ شروع کرنے سے بہت پہلے میں نے تاریخ اسلام 1 میں کہے تھے۔ میں ان کو پھر ذیل میں نقل کرتی ہوں:
[نوٹ: میں عبداللہ ابن سبا کے اپنے وجود کو دیو مالائی نہیں کہہ رہی، بلکہ حقیقت میں اس نام کا ایک شخص علی ابن ابی طالب کے دورِ خلافت میں گذرا ہے (یعنی شہادتِ حضرت عثمان کے کئی سالوں بعد)۔ مگر اس شخص یا اس کے پیروکار (جو سبائین کے نام سے مشہور ہیں)ّ ان کے متعلق تمام وہ بیانات کہ انہوں نے جناب عثمان ابن عفان کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا یا انہیں سازش کر کے قتل وغیرہ کیا۔۔۔ یہ سب دیو مالائی کہانیاں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔
یہ صرف اور صرف اسلام دشمن عناصر ہیں جو کہ عبداللہ ابن سبا کے نام پر فرقہ واریت کو فروغ دے کر وحدتِ امت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔
میں نے یہ پوسٹ بروز ہفتہ 4 فروری کو کی تھی۔ چنانچہ آپ سے استدعا ہے کہ الفاظ کے ظاہری پن پر جانے کی بجائے بہتر ہے کہ اُس کے روحانی معنوں کو سمجھا جائے۔
آپ آگے فرماتے ہیں:
اگر ان روایات سے جیسا کہ رسالہ میں مذکور ہے اس کے حضرت علی کے زمانہ میں ہونے کو مانا جائے یہ سوال تو باقی کہ اس نے اس مدت قلیل میں اتنی بڑی گروہی طاقت کیسے حاصل کر لی ؟
محترم فرید صاحب،
کیسی گروہی طاقت؟؟؟ یہی تو ہمارا اصل موضوع ہے کہ عبداللہ ابن سبا نے جنابِ عثمان کے خلاف تحریک چلائی اور نہ ہی کوئی گروہی طاقت کا استعمال کیا۔ اور جب یہ علی ابن ابی طالب کے دور میں نمودار ہوا، تو اس کے پاس صرف چند ساتھی تھے جن کی ہرگز کوئی گروہی طاقت نہیں تھی۔ اور ابن عساکر کی روایات کے مطابق انہیں جلا دیا گیا۔ [فی الحال میں ان لوگوں کو آگ میں جلانے کا مسئلہ نہیں چھیڑنا چاہتی۔ اس کی وجہ ہے کہ مجھے لگ رہا ہے کہ آپ کو اب تک ہونے والی گفتگو ہی نہیں ہضم ہوئی ہے ، اس لیے فی الحال بہتر ہو گا کہ گفتگو کو مزید نہ پھیلایا جائے۔
مگر جیسے ہی اس مرحلہ سے فارغ ہوں گے، میں آپ پر اس حوالے سے بھی جرح کروں گی۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ کے بہت سارے اعتراضات پیش کیے گئے ہیں ، پھر کہاجاتا ہے کہ یہ اعتراضات مولی علی نے کیے لہذا ہم بھی کرتے ہیں ، حالاں کہ ان میں بہت سے اعتراضات اور لوگوں نے کیے اور حضرت علی رضی اللہ نے حضرت عثمان رضی اللہ سے صفائی مانگی ، اور طبری میں ہے کہ حضرت علی نے وہ جوابات اور مان لیے ۔ مثلا جمعہ کی بدعت والی بات کا جواب دیا کہ میرے اہل یہاں مقیم ہے ،
ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ نے حضرت طلحہ کو قسم دے کر کہا کہ تم جا کر لوگوں کو حضرت عثمان سے دور کرو
مجھے علم نہیں کہ آپ کون سی جمعہ والی بدعت کا ذکر کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے یہ غلطی سے لکھ دیا ہو، اور آپ کا اشارہ حج میں قصر نماز نہ ادا کرنے کی طرف ہو۔ تو اس سلسلے میں علی والی روایت میں تو کہیں اہل کے مکہ میں مقیم ہونے کا ذکر نہیں اور نہ ہی علی ابن ابی طالب کا ان کے اس قدم کو صحیح قرار دینے کا ذکر ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ جناب عثمان کا یہ قدم درست ہو۔ میرا مقصد جناب عثمان پر اس حوالے سے کوئی تنقید نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت سامنے لانا ہے کہ بہت سے صحابہ اس چیز کو بطور بدعت اور ضلالت دیکھتے تھے اور اس وجہ سے جنابِ عثمان کے مخالف ہو گئے تھے۔
اس موضوع پر بھی پورا ایک باب اس آرٹیکل میں موجود ہے جہاں ان صحابہ کی ناراضگی ذکر ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس باب میں موجود تمام دلائل کا جواب دیں اور یہ فرمائیں کہ آپ باقی روایات کو کیوں نظر انداز کر گئے ہیں؟
ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی حضرت عثمان کے قتل پر افسوس کیا ، لوگوں نے کہا کہ قاتلین نادم ہو رہے ہیں تو فرمایا کہ ان کا حال اس آیت کی طرح ہے : کمثل الشیطان اذ قال للانسان اکفر ۔۔۔
جناب یہ بھی فرما دیجیئے کہ یہ روایت بیان کرنے والا کہیں سیف ابن عمر کذاب تو نہیں؟
مختصرا یہ کہ رسالہ اپنی زبان ، ترتیب مواد اور انتخاب روایات میں ہر گز معیاری نہیں ۔
ایک کتاب عربی میں ہے ، ابن سبا حقیقۃ ، لاخیال
http://www.iu.edu.sa/Magazine/46/13.htm
یہاں تقریبا تمام منکرین ابن سبا کے جوابات ہیں ۔
محترم فرید صاحب،
اس عربی آرٹیکل میں جن جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سب کا ماخذ صرف اور صرف سیف ابن عمر کذاب ہی ہے (یا پھر انہوں نے روایات بغیر کسی سلسلہ اسناد کے نقل کی ہیں)۔
اس آرٹیکل میں اس مسئلہ پر بہت تفصیل سے پہلے ہی گفتگو موجود ہے۔ اگر آپ اسی چیز کی تکرار بار بار کرتے رہیں گے، تو میں ضرورت محسوس نہیں کرتی کہ جواب دینے میں کسی قسم کی تکرار کروں۔
میرا آپ سے مطالبہ یہی ہے کہ ان ڈیڑھ درجن افراد کا حوالہ دینے کی بجائے صرف ایک ایسی صحیح روایت پیش کر دیں کہ جس کے سلسلہ اسناد میں سیف ابن عمر کا نام نہ ہو، اور جو یہ بتاتی ہو کہ عبداللہ ابن سبا جناب عثمان کے دور میں ظاہر ہوا اور اس اُنکے خلاف کسی قسم کی سازشوں میں ملوث تھا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس دورے ٹھریڈ پر آپ نے کھ دھمکی آمیر الفاظ بھی استعمال کیے ہیں ۔اور مجھے معلوم ہے کہ ورنہ آپ کیا کریں گی، وہ تمام مغلظات جو حضرات اہل تشیع نے صحابہ کے خلاف لکھ رکھا ہے وہ فورم پر آجائے گا۔ مجھے اس سلسلے میں اپنی تنگ دامنی کا علم ہے ، آپ کو بھی ہوگا کہ آپ کے طریقہ کے مطابق فریق مخالف کا ایسا کلام اردو میں وافر مقدار میں ابھی تک نیٹ پر نہیں آیا ۔اور میں خود تدریسی آدمی ہوں ۔ کہاں سے وقت لاؤں ۔ ہاں میرا مطالعہ جاری ہے ، اور یقینا یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ابن سبا ایک شخص نے حضرت عثمان کے دور میں اسلام کا اظہار کیا تھا۔
مجھے نہیں یاد کہ میں نے کہیں آپ کو کھلے عام دھمکی آمیز الفاظ کہے ہوں۔ اگر ایسا ہوا ہے، تو میری طرف سے معذرت قبول فرمائیے اور اس کا لنک مجھے فراہم کیجیئے۔
اور جہاں تک آپ کی بات ہے کہ وقت کی کمی کے باعث تنگ دامنی ہے۔۔۔ تو میں بالکل آپ کے ساتھ ہوں اور آپ سے گذارش ہے کہ آپ کھل کر وقت لیجئے اور اپنا مکمل موقف بیان فرمائیے کیونکہ آپ کا مکمل موقف سنے بغیر ہر گز انصاف نہ ہو سکے گا۔
مگر ایک بات مختصرا عرض کر دوں کہ اردو زبان کی بات جانے دیں، انگریزی اور عربی میں تو کم از کم بہت وقت ملا ہے کہ ان سوالات کا جواب دیا جائے، مگر آج تک وہاں بھی ایک دفعہ اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ [آگے پیچھے تو بہت آئیں بائیں شائیں کیا گیا ہے، مگر اصل دلائل کا جواب دینے سے ہر کوئی بھاگ گیا ہے]
آپ خود بتائیے، کہ کیا یہ مشکل کام ہے کہ صرف اور صرف ایک ایسی صحیح روایت پیش کر دی جائے، کہ جس کے سلسلہ اسناد میں سیف ابن عمر کذاب نہ ہو اور جو یہ بیان کرے کہ:
1۔ عبداللہ ابن سبا جنابِ عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔
2۔ عبداللہ ابن سبا نے جنابِ عثمان کے خلاف سازشوں کا آغاز کیا۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
آخر سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں لوگ اس کے عینی گواہ ہونے چاہیے تھے، مگر کیا وجہ ہے کہ اُس وقت موجود ہزاروں علماء کسی ایک بھی ایسے عینی گواہ کی شہادت نہیں روایت کر سکے؟
خود فرمائیے کہ کیا ایسی ایک روایت پیش کرنا بہت وقت لیوا کام ہے؟
تاریخ طبری کا مطالعہ اس لیے نہ کیجیے گا کہ ان رسالوں میں یا اہل تشیع کی بیان کردہ روایات کی تحقیق کی جائے ، بلکہ براہ راست اس سے نتیجہ اخذ کرنے کی نیت کیجیے گا ۔
ایک خاص بات اگر ان اہل تشیع کی بات مان لی جائے جیسا کہ رسالہ سے مجموعی طور سے واضح ہو تا ہے تو سوائے چند تمام صحابہ گنہ گار اور ناقابل اعتبار معلوم ہوتے ہیں ، تو پھر احکام دینیہ کی بنیاد وہ کونسی روایات باقی رہیں گی ؟
اور ہاں صحابہ پر تو ان کے معصوم نہ ہونے کا راگ الاپ کر خوب جرائم منسوب کیے جاتے ہیں ، تو پھر ائمہ کی معصومیت کا کیا ؟ کیا نبی ہیں ؟
دلائل پڑھ کر مجھے جو محسوس ہوا ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ کی اکثریت جنابِ عثمان کی غلطیوں کی وجہ سے اُن سے نالاں تھی۔ یہ اُن کا آپس کا اختلاف تھا جس میں عبداللہ ابن سبا کا کوئی کردار نہیں، بلکہ سیف ابن عمر کذاب نے یہ جھوٹی داستان گھڑی اور اموی اور عباسی خلفاء نے اس چیز کو پھیلایا۔
میرے خیال میں میری طرف سے یہ آخری پوسٹ ہو گی، تاوقتیکہ آپ چیزوں کی تکرار کرنے کی بجائے دلائل پر گرفت کریں۔
والسلام۔